کینیا کے احباب کا جذبۂ مالی قربانی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8جون 2011ء میں شائع ہونے والے مکرم مظفر احمد درّانی صاحب کے ایک مضمون میں جماعت احمدیہ کینیا کے بعض احباب کے مالی قربانی کے جذبہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
٭ ممباسہ سے سو کلو میٹر دُور بحرِہند کے جنوبی ساحل کے علاقہ Mkongani کے دیہات میں Mirihini نامی جماعت بھی ہے جہاں کبھی صرف ایک ہی احمدی مکرم عمری صاحب ہؤا کرتے تھے۔ پھر اللہ نے فضل فرمایا تو سارا گاؤں (چھ سو نفوس) احمدی ہوگئے۔ مکرم عمری صاحب کو اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ نے آبادی سے ملحق 25ایکڑ کا قطعۂ زمین جماعت کو پیش کردیا۔ جب زمین کی رجسٹری کے لئے Land Office گئے تو متعلقہ افسر نے مکرم عمری صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ کے حواس سلامت ہیں کہ اتنی بڑی زمین ایک تنظیم کو مفت میں دے رہے ہیں ، اپنے فیصلہ پر غورکرلیں ۔آپ نے جوابا ًبڑے اعتماد سے فرمایا کہ چھ سو نیک فطرت لوگوں کے قبولِ اسلام کی خوشی میں یہ زمین پیش کررہا ہوں۔
اس کے بعد نیروبی کے ایک نو احمدی مکرم شمس الدین صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ مذکورہ چھ سو نو احمدیوں کے لئے مسجد اور معلّم ہاؤس تعمیر کروائیں گے ۔ چنانچہ فوری ضرورت کے پیش نظر لکڑی کے ڈھانچے پر لوہے کی چادروں کی مدد سے دونوں عمارتیں بنائی گئیں اور نومبائعین کی تربیت کے لئے معلّم کو تعینا ت کر دیا گیا۔
٭ ممباسہ جماعت کے تمام احباب ہی چندہ جات کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے اگرچہ خان فیملی Simba Tatu کا چندہ سب سے نمایا ں ہوتا تھا۔ مکرم حسین صالح حافظ الحداد صاحب عرب تھے جو مکرم عبد الکریم شرما صاحب کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے۔ کسٹم کے اعلیٰ افسر تھے، نمازِ مغرب و عشاء پر باقاعدگی سے تشریف لاتے اور چندوں کی ادائیگی میں بھی باقاعدہ تھے۔ ہر ماہ مسجد میں اپنی طرف سے کلو ا جمیعاً کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مکرم مزے حمیسی (Mzee Hamisi) صاحب مرحوم بحری جہازوں کی ایک کمپنی میں انجینئر تھے اور معقول تنخواہ پاتے تھے۔ جس دن تنخواہ ملتی اسی دن دفتر سے سیدھے مسجد تشریف لاکر شرح کے مطابق چندہ ادا کرتے اور پھر بقیہ رقم گھر لے جاتے۔
٭ جماعتی وسعت کے پیش نظر صوبہ کوسٹ میں دوسرا مشن کرائے کے مکان میں اکونڈا (Ukunda) نامی قصبہ میں کھولا گیا کیونکہ اس کے قریبی ماحول میں سینکڑوں خوش نصیبوں کو قبولِ حق کی توفیق مل چکی تھی جن کی تعلیم و تربیت اور مزید کامیابیاں پیش نظر تھیں ۔ یہاں پر Simba Hills کے مکرم رشیدی موازوزو صاحب جو زمانہ طالب علمی میں اپنے سکول میں ہونے والے مکرم مولانا بشیراحمد اختر صاحب کے لیکچرز کے باعث احمدی ہوئے تھے،نے ڈیری فارم کے لئے ایک ایکڑ کاقطعہ زمین خریدا تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اکونڈا میں جماعت اپنے مرکز کی تعمیر کے لئے جگہ تلاش کر رہی ہے تو انہوں نے اپنی ضرورت اور کاروبار کے لئے خریدا ہوا یہ رقبہ جماعت کو پیش کر دیا۔ جب جائزہ کے بعد جماعت نے انہیں بتایا کہ ان کا قطعہ زمین جماعتی ضروریات کے لئے موزوں نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ میں تو اسے پیش کرچکا ہوں اس لئے جماعت کسی اَور مصرف میں لے آئے کیونکہ مَیں اب اسے واپس نہیں لوں گا۔
اکونڈا (Ukunda) مشن ہاؤس کے قیام پر خاکسار نے احباب جماعت کو چندہ کی تحریک کرتے ہوئے پاکستان کی ایک مثال دی کہ ایک صاحب اپنی روزانہ کی آمد پر نمازِ مغرب پر تشریف لا کر روزانہ چندہ ادا کیا کرتے تھے۔ اس مثا ل سے متأثر ہو کر ایک نواحمدی نوجوان مکرم نصرو صاحب جو سبزی کی معمولی دکان کرتے تھے، نے روزانہ آمد کی بنا پر باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں دین و دنیا کی حسنات سے نوازے۔
٭ مکرم رمضان ڈارا صاحب بھی زمانۂ طالب علمی میں مکرم مولانا بشیر احمد اختر صاحب مرحوم کے سکول میں لیکچرز سے متأثر ہو کر احمدی ہوئے تھے ۔آپ محکمہ زراعت میں افسر تھے اور اپنے علاقہ میں اپنی فیملی کے ہمراہ اکیلے احمدی تھے۔ آپ باقاعدگی کے ساتھ بذریعہ منی آرڈر ہر ماہ شرح کے مطابق اپنا چندہ ممباسہ بھجوایا کرتے تھے۔ متعصّب لوگوں کے علاقہ میں رہنے کے باوجود آپ نے اپنے ایمان کی حفاظت کی اوراپنے بچوں کی بھی اعلیٰ تربیت کی ۔آپ کا ایک بیٹا زندگی وقف کر کے بطور معلّم سلسلہ خدمت کی توفیق پا رہا ہے۔
٭ کینیا میں متعدد مقامات پر نومبائعین نے مساجد کی تعمیر کے لئے قطعات زمین تحفۃ ًپیش کئے ہیں ، مساجد تعمیر کروائی ہیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب 1988ء میں کینیا کے دورہ پر تشریف لائے تو ممباسہ سے واپسی پر نیروبی جاتے ہوئے Kwa Kikololo نامی جماعت کی سادہ ، کچی اور چھوٹی سی مسجد دیکھی جو برلب شاہراہ واقع تھی۔ حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ برلبِ شاہراہ اس لوکیشن پر تو جماعت کی ایک دیدہ زیب مسجد ہونی چاہئے جو گزرنے والوں کے لئے تعارف کا موجب ہوگی ۔ اسی وقت ایک مخلص احمدی مکرم فضل قریشی صاحب نے اس مسجد کی تعمیر کے اخراجات دینے کا تہیہ کر لیا۔ تعمیر کا اندازہ خرچ ایک لاکھ شلنگ تھا۔ مکرم قریشی صاحب نے حسبِ وعدہ ایک لاکھ شلنگ ادا کرنا چاہے تو انہیں بتایا گیا کہ آپ رقم کی ادائیگی کی بجائے مسجد کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائیں۔ چنانچہ تعمیر شروع ہوئی اور اندازہ سے خرچ بہت بڑھ گیا۔ تاہم آپ نے ہمت اور ارادہ باندھے رکھا۔ مسجد تعمیر ہوگئی جو دونوں اطراف سے ایک ایک کلومیٹر کے فاصلہ سے نظر آتی ہے ۔ اس پر تقریباً ساڑھے سات لاکھ شلنگ خرچ آیا۔ محترم فضل قریشی صاحب نے بیان کیا کہ اگرچہ وعدہ کے مقابلہ میں تقریباً آٹھ گنازائد خرچ ہوا ہے لیکن میرا چھوٹا سا کاروبار ہے، اور جیسے جیسے مساجد کی تعمیر پر خرچ ہوتا رہااللہ تعالیٰ غیرمعمولی طور پر میرے کاروبار میں برکت ڈالتا رہا اس لئے ذرا بھی محسوس نہ ہوا کہ میں اپنے وعدہ اور توفیق سے آٹھ گنا بڑھ کر خرچ کر رہا ہوں ۔
جب مسجد مکمل ہو گئی لیکن ابھی اس میں صفیں نہیں ڈالی گئی تھیں تو ممباسہ کے ایک مخلص احمدی مکرم حسین صالح حافظ الحداد صاحب دوران سفر وہاں رکے۔ اور پھر ممباسہ پہنچ کر فوری طور پر امپورٹڈ نفیس قسم کی صفیں وہاں بھجوادیں ۔ جب مکرم قریشی صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس شراکت کو قبول نہ کیا اور فرمایا کہ میں اکیلا ہی اس مسجد کو ہر طرح سے مکمل کر کے جماعت کے سپرد کروں گا۔ چنانچہ مکرم حسین صاحب کی عطیہ کردہ صفیں کئی دیگر مساجد میں تقسیم کردی گئیں ۔ اور نئی مسجد میں مکرم فضل قریشی صاحب نے قالین بچھوایا، ایک خادم مسجد کاانتظام کیااور افتتاح کے ساتھ جماعت کو چارج دے دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں