ہر اک طرف سے کارواں ، تھے سوئے قادیاں رواں – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍فروری 2006ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے حوالہ سے کہی گئی مکرم پروفیسر کرامت راج صاحب کی ایک طویل نظم شائع ہوئی ہے جس میں سے انتخاب پیش ہے:

ہر اک طرف سے کارواں ، تھے سوئے قادیاں رواں
ہر ایک طفل و مرد و زن کشاں کشاں ، جواں جواں
قدم قدم تھے ضوفشاں ، مسیح وقت کے نشاں
’’بڑھے چلو، بڑھے چلو‘‘ یہ کہہ رہی تھیں دھڑکنیں
وہ قادیاں کی رونقیں! وہ کُو بکُو محبتیں!
خدا کرے ہمیں ملیں ، جہاں کہیں بھی ہم رہیں

طبیعتوں میں اک الگ ، عجیب سا نکھار تھا
آرزو تھی مضطرب ، ہر ایک دل میں پیار تھا
نفس نفس تھا مطمئن ہر اک طرف قرار تھا
جبیں جبیں تھی سجدہ ریز ، برس رہی تھیں رحمتیں
وہ قادیاں کی رونقیں! وہ کُو بکُو محبتیں!
خدا کرے ہمیں ملیں ، جہاں کہیں بھی ہم رہیں

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “ہر اک طرف سے کارواں ، تھے سوئے قادیاں رواں – نظم

  1. 1۔ ہر ایک طرف سے کاررواں ———- میں ’’ایک‘‘ کی بجائے ’’اک‘‘ ہونا چاہیے۔
    2۔ آرزو تھی مضطرب ۔۔۔۔۔۔ کے شروع میں ’’ہر‘‘ آنا چاہیے۔ ہر آرزو تھی مضطرب

  2. السلام علیکم ورحمۃاللہ
    محترم جناب میرانجم پرویز صاحب۔ جزاکم اللہ اور ماشاءاللہ۔ خاکسار نے اصل اخبار سے چیک کیا ہے۔ آنمحترم کا پہلا اعتراض درست ہے اور اس کی تصحیح کردی گئی ہے۔ دوسرا بھی قابل توجہ ہے لیکن چونکہ اخبار میں اسی طرح شائع شدہ ہے اس لئےاس کی تبدیلی تب تک کے لیے ملتوی کردی ہے جب تک شاعرموصوف اس حوالہ سے توجہ نہ فرمالیں۔ بہت شکریہ
    والسلام- محمود ملک

اپنا تبصرہ بھیجیں