آپ کا کیا خیال ہے؟

مزاحیہ مضمون:
(مطبوعہ رسالہ ’’طارق‘‘ لندن جلد برائے سال1997، شمارہ نمبر3)


(تحریر: محمود احمد ملک)

آج کل جو ہماری شیو بے تحاشا بڑھی ہوئی ہے اس کا تعلق نہ تو کسی المیہ داستانِ عشق سے ہے اور نہ یہ بیروزگاری سے تنگ آکر احتجاجاً بڑھائی گئی ہے بلکہ بلا روک ٹوک پرورش پانے والی یہ ریش مبارک دراصل اپنی ہی گلی کے ایک معزز باسی سے متاثر ہوکر، یا یوں کہئے کہ ان کے دکھائے جانے والے سنہری خوابوں کی چکاچوند سے متاثر ہوکر، ہم نے غیرارادی طور پر رکھ لی ہے۔ ہماری گلی کے یہ ساکن اپنی زبان کی طرح کی گز بھر لمبی داڑھی کے بل بوتے پر نہ صرف خاطر خواہ معاشی و معاشرتی استحقاقات پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں بلکہ اپنے مخصوص حلقہ ارادتمنداں میں نام نہاد مذہبی اجارہ داری کی سند بھی انہی کے پاس ہے۔
قصّہ کچھ یوں ہے کہ بہت عرصہ پہلے ہمیں خیال آیا کہ کرایہ پر ہی رہنا ہے تو تیسری دنیا کی مانند ترقی پذیر محلہ کی تنگ گلیوں سے نکل کر کسی جدید اور ترقی یافتہ علاقہ میں نقل مکانی کیوں نہ کرلی جائے جہاں کرائے کے معمولی اضافہ کے عوض فوائد کہیں زیادہ ہوتے ہیں اور مکینوں کی آپس کی بے تکلفی بھی اس حد تک بڑھی ہوئی نہیں ہوتی جو دوسروں کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت متصور ہو۔ چنانچہ جب ہم اپنے پرانے اور بوسیدہ مکان کے معمولی کمرہ سے شہر کی نوآبادیات کے اس شاندار مکان کے ’’فرنشڈ روم‘‘ میں رہائش پذیر ہوئے تو چند روز اسی غلط فہمی کا شکار رہے کہ ہمیں ایک سردار جی کی ہمسائیگی کا شرف بھی حاصل ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر تھی کہ موصوف سارا سارا دن گلی میں چارپائی ڈالے استراحت فرماتے نظر آتے اور ان کا ادھیڑ عمر نوکر ان کا حقہ تازہ کرنے یا کسی اور ضرورت کے تحت گاہے بگاہے اٹھ کر جاتا اور پھر واپس آکر سردار جی کی پائنتی بیٹھ کر ان کی مٹھی جاپی شروع کر دیتا۔ اس دوران سردارجی اپنی بے ہنگم داڑھی کو بری طرح کھجلا کر اسے مزید پریشان کرنے میں مشغول رہتے۔ گلی محلہ کا کوئی فارغ شخص بھی کبھی ان کے پاس بیٹھا ہوا نظر نہیں آیا اور عموماً وہ اکیلے ہی اپنے ڈیرہ پر براجمان ہوتے اور اپنے نوکر سے مسلسل راز و نیاز میں مصروف رہتے ہوئے وقفہ وقفہ سے راہ گیروں پر خمار آلود نگاہیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ حقہ سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔
میرے لئے مقام حیرت دراصل سردار جی کا بے تکا حلیہ نہیں تھا اور نہ یہ امر کہ سرِ راہ جس والہانہ انداز میں وہ کھجلی فرمایا کرتے تھے اس پر یقینا حد کا نفاذ ہو سکتا تھا بلکہ وجہ حیرانی صرف یہ تھی کہ سارا دن فارغ نظر آنے والے سردار جی جو بظاہر دنیا داری کے امور سے بے نیاز معلوم ہوتے تھے اتنے بڑے کنبہ کا بار کس طرح برداشت کئے ہوئے ہیں؟ ان کے ڈھیر سارے بچے سارا دن گلی میں گھومتے پھرتے اور سردار جی کبھی کبھار اپنی مخمور آنکھوں سے انہیں گھور کر اور ڈانٹ ڈپٹ کر گھر میں بھیج دیا کرتے تھے۔ دو چار دفعہ ان کے بچوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کی ہم نے کوشش بھی کی لیکن سردار جی کے مونہہ کی طرح ہر وقت کھلے ہوئے ان کے مکان کے دروازے سے ہر قد و قامت کے بچوں کی مسلسل آمد و رفت نے تعداد بچگان کو ہمیشہ گڈمڈ کردیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سردار جی کو کبھی اپنے بچوں کا نام لینے کی توفیق نہ ہوئی بلکہ وہ صرف ’’اوئے … کی اولاد‘‘ کہنے پر اکتفا کرتے تھے اور مخاطب بچہ فوراً سمجھ جاتا کہ اس بار اس کے والد محترم کی نگاہیں اس کا طواف کر رہی ہیں۔ غالباً سردارنی کو بھی بچوں کے نام یاد رکھنے کارِ دارد تھے چنانچہ گلی سے گزرتے ہوئے ان کی وہ صلواتیں صاف سنائی دیا کرتی تھیں جو وہ اپنے کسی نہ کسی لختِ جگر کو ’’… زادہ‘‘ کہہ کر سناتی تھیں۔ خیر ان کے طرزِ تکلم سے تو اہلِ محلہ کی طرح ہم بھی جلد ہی مانوس ہوگئے لیکن ہنوز یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ آخر ان کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ جہاں تک سردار جی کی مشغولیت کا تعلق تھا تو تعداد بچگان سے یہ ثابت ہوگیا کہ موصوف نہ کبھی خود ’’فارغ‘‘ رہے ہیں اور نہ اپنی گھر والی کو فراغت نصیب ہونے دی ہے لیکن افزائش و بہبودی نسل کے اس مسلسل کارِ خیر کے علاوہ بھی آخر انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہئے!۔
ایک شام سردار جی نے نوکر کے ذریعہ پیغام دے کر ہمیں بلا بھیجا اور شکوہ کیا کہ ایک ہی گلی کے باسی ہوتے ہوئے بھی ہم نے ان سے کبھی خیریت پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور ان کو درپیش مسائل میں ہم مسلسل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں (حالانکہ پوچھا تو ایسے سفید پوش سے جاتا ہے جس کے مسائل پوشیدہ ہوں جبکہ سردار جی کے سارے مسائل تو ہمہ وقت ان کے چاروں طرف گلی بھر میں شور و غل مچایا کرتے تھے)۔ خیر اسی اثناء میں انہوں نے گھریلو لباس یعنی نیکر بنیان میں ملبوس اپنے ایک دس سالہ مسئلہ کو مخصوص لہجہ میں آواز دے کر ہمارے لئے چائے لانے کا ارشاد فرمایا لیکن سردار جی کا یہ ارشاد نہ صرف ان کا وہ برخوردار بلکہ سردارجی خود بھی کچھ ہی دیر میں بھول گئے۔
اِدھر اُدھر کی دو چار خرافات کے بعد سردار جی نے ہم سے ہمارے کاروبارِ زیست اور آمدن کے بارے میں دریافت کیا اور یہ معلوم کرکے بہت خوش ہوئے کہ ہم عرصہ چھ سال سے ایک سرکاری محکمہ میں لوئر ڈویژن کلرک ہیں اور تنخواہ سے زیادہ اس آمدنی پر یقین رکھتے ہیں جو ہماری محنت کی بجائے ضرورت مندوں کی شفقت اور احسان شناسی کی مرہونِ منت ہے۔ چنانچہ بارہا ہماری ترقی ہوتے ہوتے اسی لئے رہ گئی کہ جہاں ہم بھجوائے جا رہے تھے وہاں تنخواہ اگرچہ زیادہ تھی لیکن دوستوں کی محبت کا جو لطف یہاں میسر تھا وہ نئی جگہ ممکن نہ تھا، اسی لئے ہم نے صحبت یاراں اور صحتِ جیب کی خاطر اپنی ترقی کی راہیں خود مسدود کرلیں اور بہت تگ و دو اور نذرانے گزار کر اپنی تبدیلی رکوانے میں کامیابی حاصل کرلی۔
ہماری کہانی سننے کے بعد سردار جی موصوف نے اپنی آپ بیتی سنائی اور اپنے کاروبار میں شرکت کی دعوت دے ڈالی جو بقول ان کے ’’دن دگنی رات چوگنی‘‘ ترقی کررہا تھا۔
سردار جی بھی دس سال پہلے سرکاری ملازم ہی تھے اور بقول اُن کے، محض رزق حلال پر گزر بسر کرنے کی وجہ سے، وہ ہمیشہ عسرت کا شکار اور تقدیر سے شاکی رہے۔ اسی دوران ایک دوست نے اُن کو اپنے گاؤں میں مدعو کیا جہاں ایک مزار پر عرس جاری تھا۔ بقول سردار جی یہ اس عرس کی کرامات ہی تھیں کہ ان کی زندگی میں انقلاب آگیا۔ عرس کے دوران ہی انہوں نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر نئے ذریعہ روزگار کا انتخاب کیااورعرس کے بقیہ ایام مزار کے مجاوروں اور پیر صاحب کی ’’بے حال‘‘ حالتِ زار کے مشاہدہ میں صرف کئے، نیاز مندوں کی نیازوں اور عقیدت مندوں کے نذرانوں کی بارش نے سردارجی کی آنکھوں کو ایسا روشن کیا کہ کچھ ہی عرصہ بعد محنتِ شاقہ سے فرائض منصبی میں مشغول رہنے والے سردارجی حلیہ اور لباس تبدیل کرکے حاجتمندوں میں کسی بغدادی بابا کے تعویز بانٹنے لگے اور پھر جلد ہی خواب میں وصول ہونے والی ایک بشارت کی بنیاد پر کسی نزدیکی قصبہ میں اپنے ایک ایسے بزرگ کی قبر دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے جن کے بارے میں انہوں نے مشہور کیا کہ وہ مسلسل پچیس سال تک بنا کچھ کھائے پئے ایک درخت کے نیچے مصروفِ عبادت رہے تھے۔ چنانچہ سردار جی نے وہاں پہنچ کر مزار کا احاطہ اور اپنا حجرہ تعمیر کروایا۔ کچھ رنگ برنگے جھنڈے نصب کئے گئے، چند چراغ جلائے گئے اور ان چراغوں کے ’’جِن‘‘ نئے مجاور کی کرامات کی کہانیاں لے کر مضافات میں پھیل گئے۔
نتیجہ وہی نکلا جو تھوڑی محنت سے زیادہ پھل پانے کی خواہش رکھنے والے ہمارے معاشرہ میں ایسے کاموں کا نکلا کرتا ہے۔ جلد ہی مقامی دیہاتی خصوصاً عورتیں خوابِ غفلت سے بیدار ہوئیں اور پیروں، فقیروں کی قدم بوسی کرنے والے اور کئی کئی کوس پا پیادہ جاکر مزاروں پر حاضری دینے والے سینکڑوں افراد سردار جی کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ تب جسم پر راکھ ملے، محض لنگوٹی میں ملبوس سردار جی نے ’’سرکار مروڑے شاہ‘‘ کا لقب اختیار کرکے مسند پیری کا آغاز کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی امتحان میں کامیابی، ملازمت اور اولاد کے حصول، سنگ دل محبوب کا دل نرم کرنے کے تعویذ خوب تقسیم ہونے لگے اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی رقابت اور حسد کی نئی نئی داستانیں بھی روزانہ شاہ جی کے سامنے سمٹنے لگیں۔ مزار پر نذر و نیاز اور چڑھاووں کو باقاعدگی دینے کے لئے ہر چھٹے ساتویں مہینے ایک سالانہ عرس بھی منعقد ہونے لگا اور اس طرح اس مزار میں آسودہ خاک بزرگ کی مافوق الفطرت کرامات کا ڈنکا زور شور سے بجنے لگا- نیز کسی گزرے زمانے میں رزق حلال کے لئے صبح سے شام کر دینے والے شاہ جی اب ایسے آسودہ حال ہوئے کہ شہر میں کوٹھی خرید لی اور اپنی خانقاہ ایک مجاور کو ٹھیکہ پر دے کر خود شہر میں اُٹھ آئے۔
آج کل اسی ٹھیکہ سے کئی ھزار ماہانہ کی آمدن تھی اور تقسیم شدہ تعویذوں کی کرامت تھی کہ شاہ جی سارا سارا دن پاؤں پسارے اپنے نوکر سے مٹھی جاپی کروایا کرتے تھے۔ ان کا یہ نوکر بھی کسی زمانے میں ان کے پاس نوکری کا تعویذ حاصل کرنے آیا تھا لیکن شاہ جی کا نوکر ہوکر رہ گیا۔ پندرہ سال پہلے ایک لڑکی بھی آئی تھی جس کا باپ اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر رہا تھا۔ شاہ جی نے لڑکی کو ’’تعویذ‘‘ دیا اور لڑکی کے باپ کو ’’جھانسا‘‘ … اور وہی لڑکی اب شاہ جی کی گھر والی ہے اور شاہ جی کے مریدانِ باصفا اس اجاڑ صورت خاتون کو اماں بی کہہ کر پکارتے ہیں اور سردار جی کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اس کے تحائف اور ہدیے لاتے ہیں۔
شاہ جی اب بھی مہینہ میں ایک بار اپنی خانقاہ پر جایا کرتے ہیں اور اس علاقہ میں ’’بڑے پیر جی‘‘ کے طور پر مشہور ہیں۔ دو چار روز وہاں قیام فرما کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور پھر دُور دراز کی کسی درگاہ پر چلہ کشی کے لئے وہاں سے اعزاز کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں اور سیدھے ہماری گلی میں بچھی ہوئی چارپائی پر تشریف لے آتے ہیں۔ شہر کے بنکوں میں جاری غیرسودی کاروبار کے کھاتہ میں ان کے لاکھوں روپے جمع ہیں جن کا منافع یہ اپنے بیوی بچوں کی فلاح و بہبود پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔
شاہ جی کو جو نیا مسئلہ درپیش ہے وہ یوں ہے کہ انہوں نے ایک نئی بشارت کے تحت ایک اور مزار کا پتہ چلا لیا ہے اور اس کے لئے انہیں میرے جیسے ایک ’’بے روزگار سرکاری ملازم‘‘ کی تلاش ہے جو ان کے اس کاروبار کا بار اٹھالے اور معین معاوضہ کا ’’مُک مُکا‘‘ کرلے یا جو بھی آمد ہو اس میں حصہ رسدی کے لئے لکھت پڑھت کرلے۔… میرے مسلسل عجز اور اقرار نااہلی پر انہوں نے ازراہ شفقت مجھے سوچنے کی مہلت دی ہوئی ہے اور میرا عندیہ معلوم کرنے کے لئے بے قرار ہیں۔
گو شیو بنانا ہم نے اسی روز سے ترک کر رکھا ہے لیکن مخلص دوستوں کے مشورہ کے بغیر ہم نے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا …
سو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں