1908ء میں وفات پانے والے چند صحابہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13دسمبر 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے چند ایسے صحابہؓ کا ذکر خیر کیا گیا ہے جن کی وفات 1908ء میں ہوئی۔ یعنی اُسی سال میں جس سال حضرت اقدس مسیح موعودؑ بھی اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوئے۔
حضرت مولوی غلام حسین صاحب لاہوری ؓ
دُبلا پتلا جسم، گورا رنگ، درمیانہ قد، سر پر عمامہ۔ یہ تھے لاہور کے حضرت مولوی غلام حسین صاحب جو پہلے گمٹی مسجد کے امام اور متولی تھے۔ آپؓ نے 1891ء میں بیعت کی توفیق پائی ۔ آپؓ کو 1891ء کے پہلے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ مطالعہ کتب آپکی ذات کا خاصہ تھا، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ آپ کے متعلق فرماتے ہیں:’’مولوی صاحب مرحوم ایک بڑے عالم اور نیک انسان تھے، حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ میں سے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ اور مولوی صاحبؓ گویا کتابوں کے کیڑے تھے۔حافظہ زبردست تھا، ایک دفعہ حضرت مولانا نور الدین کے سامنے آپ ایک صفحے پر نظر ڈالتے اور اسے اُلٹ دیتے پھر دوسرے پر نظر ڈالتے اور اسے چھوڑ دیتے، حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہا کہ مولوی صاحب آپ کتاب پڑھیں تو سہی!وہ کہنے لگے مجھ سے کوئی بات پوچھ لیں! حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پوچھنے پر آپؓ نے کتاب کا مضمون بتا دیا۔‘‘
کتابوں کے شوق میں ہی کلکتہ گئے اور وہاں سے بیمار ہوکر واپس تشریف لائے۔ یکم فروری 1908ء کو بعمر قریباً 66سال لاہور میں وفات پائی۔ جنازہ قادیان لایا گیا تو معتمدین نے اعتراض کیا کہ آپؓ چونکہ موصی نہیں ہیں لہٰذا بہشتی مقبرہ میں تدفین نہیں ہوسکتی! حضرت مسیح موعودؑ کو جب علم ہوا تو حضورؑ نے فرمایا ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے، وہ تو مجسم وصیت ہیں!۔ آپؓ کا جنازہ حضرت اقدسؑ نے پڑھایا اور ارشاد کے مطابق بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔
حضرت حاجی محمد امیر خان صاحب بنوڑی ؓ
حضرت محمد امیر خان صاحبؓ ولد چوہر خان صاحب بنوڑ ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے۔ آپ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ لدھیانوی کے مریدوں میں سے تھے اور حضرت صوفی صاحب سے ایک خاص عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت صوفی صاحب 1885ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ سے اجازت لے کر حج پر تشریف لے گئے تو آپؓ بھی اُن کے ہمسفر تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے سفر کپورتھلہ کے دوران 21؍فروری 1892ء کو حضرت امیر خان صاحبؓ کو بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت شیخ عبدالوہاب صاحب ( وفات 10 اکتوبر 1954 ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) فرماتے ہیں : حاجی امیر محمد صاحب ایک نیک سیرت بزرگ تھے، ان کی خدا ترسی اور نیک اخلاق نے میرے دل کو موہ لیا اور ان کے نیک نمونے نے مجھے اسلام کی کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا۔ ان کی وساطت سے ’’غنیۃ الطالبین‘‘، ’’فتوح الغیب‘‘، ’’اکسیر ہدایت‘‘ اور ’’احیاء العلوم‘‘ وغیرہ کتابیں دیکھیں۔اسلام سے محبت تو پہلے سے ہی تھی اب میں علی الاعلان ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ہوگیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ’’ انجام آتھم ‘‘ میں حضرت حاجی محمد امیر خانصاحبؓ کا نام 313 کبار صحابہ کی فہرست میں 106 نمبرپر درج ہے۔ اسی طرح 24 فروری 1894ء کے اشتہار میں حضورؑ نے بطور نمونہ اپنی جماعت کے 316 احباب کے نام درج فرمائے ہیں جس میں آپؓ کا نام 243 نمبر پر موجود ہے۔ آپؓ کے نام کے ساتھ مہتمم گاڑی شکرم سہارنپور لکھا ہے۔
حضرت حاجی صاحب نے 5 جنوری 1908ء کو بعمر 55سال قادیان میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ آپؓ نے ایک لڑکی اور ایک لڑکا اپنی یادگار چھوڑا۔ جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن حضور نے ایک کشف دیکھا ، حضورؑ فرماتے ہیں : 5 جنوری 1908ء مرحوم امیر خان کی بیوہ جس دن اس کا خاوند فوت ہوا میں نے دیکھا کہ اس بیوہ کی پیشانی پر 5 یا 6 یا 7 کا عدد لکھا ہوا ہے میں نے وہ مٹا دیا اور اس کی جگہ اس کی پیشانی پر 6 کا عدد لکھ دیا ہے۔
آپ کی بیوہ حضرت اصغری بیگم صاحبہؓ بنت حضرت محمد اکبر خان صاحبؓ ساکن سنور ہیں جو بعد میں حضرت راجہ مدد خان صاحب کے عقد میں آئیں۔ خدا کے مامور کا کشف میں آپؓ کے گھر والوں کو دیکھنا آپؓ کے لیے ایک سعادت ہے اور ہمیشہ کے لیے حضرت حاجی میر خان صاحبؓ کا تذکرہ ’’ تذکرہ ‘‘ میں محفوظ ہوگیا ہے۔ حضرت اصغری بیگم صاحبہؓ 1890ء میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے حضرت اقدس کے گھر میں پلی بڑھیں، 8جنوری 1978ء کو بعمر 88سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔
حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ سٹیشن ماسٹر
آپؓ ساہووال تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور سٹیشن ماسٹر تھے۔ بسلسلہ ملازمت ضلع جہلم اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں متعین رہے۔ مردان میں ریلوے کا آغاز ہوا تو آپ اس کے سب سے پہلے سٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے، اس علاقہ میں آپ کے نیک نمونہ اور دعوت الی اللہ کی بدولت متعدد لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ بیعت سے پہلے آپ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مریدوں میں سے تھے۔ بیعت کے بعد حضور کے جاں نثار صحابہ میں شامل ہوئے۔ مہینوں رخصت لے کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے۔ حضور نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں درج کردہ اپنے کبار صحابہ میں آپ کا نام 208نمبر پر رقم فرمایا ہے۔
حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ آخری عمر میں بیمار ہوکر قادیان حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ اُن دنوں لاہور (اپریل، مئی 1908ئ) تشریف لے گئے لیکن آپؓ کی خبر گیری کا پورا خیال رکھا اور قادیان میں موجود حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کو آپؓ کے علاج معالجہ کی تاکید فرمائی، چنانچہ حضور حضرت ڈاکٹر صاحب کے نام ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’اور میری دلی خواہش ہے کہ آپ تکلیف اٹھا کر ایک دفعہ اخویم بابو شاہ دین صاحب کو دیکھ لیا کریں اور مناسب تجویز کریں۔میں بھی ان کے لئے پانچ وقت دعا میں مشغول ہوں، وہ بڑے مخلص ہیں ان کی طرف ضرور پوری توجہ کریں‘‘۔ ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں:’’بابو شاہ دین صاحب کی تعہد اور خبر گیری سے آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ ان کے ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا اور جس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے میں حریص تھا، وہ آپ کو ملا۔ امید کہ آپ ہر روز خبر لیں گے اور دعا بھی کرتے رہیں گے اور میں بھی دعا کرتا ہوں‘‘۔
حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ نے حضورؑ کی وفات سے ایک یوم قبل 25مئی 1908ء کو بعمر قریباً 38سال قادیان میں ہی وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔
حضرت پیر محمد رمضان صاحبؓ
حضرت پیر محمد رمضان صاحبؓ آف گولیکی ضلع گجرات مخلص بزرگان میں سے تھے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنی ایک پیشگوئی ’’پچیس دن۔ یا یہ کہ پچیس دن تک ‘‘کے شہاب ثاقب کے گرنے کی شکل میں پورا ہونے کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی پچاس سے زائد افراد کی گواہیاں بھی درج فرمائی ہیں جہاں دسویں نمبر پر آپ کی گواہی ’’آتشی انگار سے31؍مارچ والی پیشگوئی پوری ہوئی۔‘‘ بھی درج ہے۔
حضرت پیر صاحبؓ نے 22؍اپریل 1908ء کو وفات پائی۔ آپ کے ایک بیٹے حضرت قاضی رشید احمد ارشد صاحبؓ بھی صحابی تھے۔ حضرت استانی سکینۃالنساء بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب بھی آپ ہی کی بیٹی تھیں۔
حضرت حاجی فضل حسین صاحبؓ
آپؓ شاہجہانپور کے رہنے والے تھے بیعت کے بعد قادیان آگئے۔ حضورؑنے کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنی ایک پیشگوئی ’’سخت زلزلہ آیا۔ اور آج بارش بھی ہوگی۔ خوش آمدی نیک آمدی۔‘‘کے قبل از وقت سننے کے گواہان میں آپؓ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔ آپؓ نے 29فروری 1908ء کو بعمر قریباً 78سال قادیان میں وفات پائی اور مقبرہ بہشتی میں جگہ پائی۔
حضرت میاں احمد جی صاحبؓ
حضرت میاں احمد جی صاحبؓ آف ضلع ہزارہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کے لیے قادیان حاضر ہوئے، بیعت کے بعد آپ ابھی قادیان میں ہی قیام پذیر تھے کہ 12؍جنوری 1908ء کو بعمر قریباً 60 سال وفات پائی۔ موصی نہ تھے لیکن حضرت اقدسؑ نے از راہ شفقت بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کا ارشاد فرمایا۔
حضرت میاں صلاح محمد صاحبؓ
آپؓ کا تعلق ریاست جموں سے تھا۔ بیعت کے بعد ہجرت کرکے قادیان آگئے اور مسجد مبارک میں بطور خادم خدمت سر انجام دیتے ہوئے 16؍اکتوبر 1908ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔
حضرت شیخ علی محمد صاحبؓ
آپؓ ککے زئی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ دھرم کوٹ رندھاواضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور بدوملہی میں پٹواری تھے۔ آپؓ نے پہلے تحریری بیعت کی پھر 1906ء میں دستی بیعت کا شرف پایا۔ 4جنوری 1908ء کو مختصر علالت کے بعد تقریبًا 42سال کی عمر میں وفات پائی اور بدوملہی میں ہی دفن ہوئے۔
حضرت محمدی بیگم صاحبہؓ
آپؓ مؤلف قاعدہ یسّرنا القرآن حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کی اہلیہ تھیں اور اپنے خاوند کی طرح ہی نیک سیرت اور پارسا وجود تھیں اور اُن کے ساتھ ہی ہجرت کرکے قادیان آگئی تھیں۔ آخری عمر میں آپ مرض سل سے بیمار ہوگئیں، آپ کی بیماری کے متعلق حضرت مسیح موعود کو بعض الہام بھی ہوئے جس کا ذکر ’’تذکرہ‘‘ میں محفوظ ہے۔ 9؍ اکتوبر 1908ء کو آپؓ کی وفات ہوئی اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
آپ کی اولاد میں دو بیٹیاں تھیں: اُمّ داؤد حضرت صالحہ بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اور حضرت حامدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت سردار کرم داد خان صاحب ؓ۔
حضرت امۃالرحیم صاحبہؓ
حضرت امۃالرحیم صاحبہؓ 12؍نومبر 1908ء کو 42سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپؓ حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ کی اہلیہ تھیں۔ آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیت دعا کا نشان اَور باتوں کے علاوہ اپنی ذات میں بھی دیکھا تھا جس کا ذکر حضورؑ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنے نشاناتِ صداقت بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے: ’’169۔ نشان۔ جب ہم بہار کی موسم میں 1905ء میں باغ میں تھے تو مجھے اپنی جماعت کے لوگوں میں سے جو باغ میں تھے کسی ایک کی نسبت یہ الہام ہوا تھا کہ خدا کا ارادہ ہی نہ تھا کہ اس کو اچھا کرے مگر فضل سے اپنے ارادہ کو بدل دیا۔ اس الہام کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ سیدمہدی حسین صاحب جو ہمارے باغ میں تھے اور ہماری جماعت میں داخل ہیں اُن کی بیوی سخت بیمار ہوگئی وہ پہلے بھی تپ اور ورم سے جو منہ اور دونوں پیروں اور تمام بدن پر تھی اور بہت کمزور تھی اور حاملہ تھی پھر بعد وضع حمل جو باغ میں ہوا اس کی حالت بہت نازک ہوگئی اور آثار نو میدی ظاہر ہوگئے اور میں اس کے لیے دعا کرتا رہا آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اُس کو دوبارہ زندگی حاصل ہوئی۔ … دعا کے بعد دوسرے روز سید مہدی حسین کی اہلیہ کی زبان پر یہ الہام منجانب اللہ جاری ہوا تُو اچھی تو نہ ہوتی مگر حضرت صاحب کی دعا کا سبب ہے کہ اب تو اچھی ہوجائے گی۔‘‘
حضرت میر مہدی حسین صاحب اس بارہ میں فرماتے ہیں: ’’میری بیوی ایک دفعہ بیمار ہوگئی میں نے حضورؑ سے ذکر کیا تو حضور نے فرمایا کہ شربت بزوری بنالو۔ میں بوجہ غربت نہ بنا سکا۔ اگلے روز میں نے پھر رقعہ لکھا تو حضورؑ باہر تشریف لائے فرمایا شربت بنالیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ حضور دعا فرمائیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ نسخہ کو چھوڑ دو میں دعا کروں گا، آپؑ نے دعا فرمائی میری بیوی اچھی ہوگئی‘‘۔
حضرت امتیازالنساء بیگم صاحبہؓ
آپؓ حضرت حافظ سید تصور حسین صاحبؓ آف بریلی کی والدہ تھیں اور علی حسین صاحب کی اہلیہ تھیں۔ بریلی میں جماعت کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہ سارا خاندان ہجرت کرکے قادیان آگیا۔ حضرت امتیازالنساء صاحبہؓ ابتدائی موصیان میں سے تھیں۔ آپؓ نے 12اکتوبر 1908ء کو بعمر 62سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں جگہ پائی۔
حضرت فاطمہ بیگم صاحبہؓ
حضرت فاطمہ بیگم صاحبہؓ گورداسپور کی رہنے والی تھیں اور مکرم مولوی محمد علی صاحب ایم اے لاہور کی اہلیہ تھیں۔ یہ رشتہ حضرت مسیح موعودؑ نے کروایا تھا ۔ آپؓ ابتدائی موصیان میں سے تھیں (وصیت نمبر 70)۔ آپؓ نے 20نومبر 1908ء کو بعمر 24 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں