محترم مولانا حکیم خورشید احمد صاحب شاد
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍اپریل 2012ء اور 15 جون 2012ء میں محترم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب مرحوم سابق سیکرٹری امورعامہ لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم، عالم دین اور سابق صدر عمومی محترم مولانا حکیم خورشید احمد صاحب شادؔ کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
محترم حکیم خورشید احمد صاحب 25نومبر 1921ء کو مکرم شیخ کریم اللہ صاحب کے ہاں سکنہ پیل ضلع پسنی ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پٹواری ہونے کے باوجود اپنی دیانتداری، نیکی اور شرافت کے باعث اپنے علاقہ میں معروف تھے۔ انہوں نے آپ کو تعلیم و تربیت کی خاطر جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل کرایا۔ آپ انتہائی ذہین، قابل اور محنتی تھے۔ دوران طالب علمی مقابلہ جات میں پوزیشنز حاصل کیا کرتے۔ 1943ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کے امتحان میں اوّل آکر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر علمِ حدیث میں تخصّص کے لئے دہلی جاکر دیوبند وغیرہ میں چوٹی کے علماء سے تحصیل علم کیا۔ آپ کی ذہانت اور علم کی وجہ سے آپ کے اساتذہ نے انہیں اپنے پاس ہی رہنے کو کہا لیکن آپ اپنا مقصد پورا ہونے پر واپس تشریف لے آئے اور پھر اس شعبہ میں بہت ترقی کی۔ آپ کا درس حدیث بہت سے علمی نکات پرمشتمل ہوتا ، احباب محو ہو کے سنتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو تبویب مسند احمدؒ بن حنبل کی اہم اور وقیع ذمہ داری تفویض کی اور آپ اس بےمثال فرض کو ادا کرنے میں سرخرو ہوئے۔
مکرم حکیم خورشید احمد صاحب کی پہلی شادی حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی دختر مکرمہ امۃاللہ خورشید صاحبہ سابق مدیرہ ماہنامہ مصباح کے ساتھ ہوئی تھی جو 26ستمبر 1960ء کو وفات پاگئیں تو 1961ء میں محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ دختر حضرت شیخ اللہ بخش صاحبؓ ریٹائرڈ انسپکٹر ایکسائز بنّوں آپ کی زوجہ بنیں۔
ذاتی لگن، محنت اور غیرمعمولی ذہانت کے باعث آپ نے جس کام کو بھی شروع کیا اس میں خدا کے فضل سے کامیابی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دست شفا عطا فرمایا تھا۔ اسی بِنا پر آپ نے خورشید یونانی دواخانہ کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔ طبّ کی تعلیم ذاتی شوق اور مطالعہ سے حاصل کی اور امراض کی تشخیص میں اپنا منفرد مقام بنالیا۔ دوردراز سے مریض آپ کے پاس آتے جن میں بڑے بڑے افسران اور زمینداربھی شامل تھے۔
آپ اپنے مطب سے جماعت کے بزرگوں، پولیس افسران اور سول افسران کو گرمیوں میں خصوصاً شربت بادام اور دیگر شربتوں کے علاوہ قیمتی دیسی ادویات بھی بلا معاوضہ دے کر غیرمعمولی فیض عام کا سلسلہ جاری رکھتے۔ آپ انتہائی ملنسار، فیاض اور مہمان نوازتھے جماعتی و دینی کاموں میںذاتی گرہ سے بے دریغ خرچ کرنے والے وجود تھے ۔ جماعتی کاموں میں دفتری گاڑی کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی گاڑی بھی ہمیشہ وقف رکھتے تھے۔ اپنے مخلص، مفلس اور مظلوم بھائیوں کی ظالم افرادکے مقابلہ میں ڈٹ کر مدد اور حمایت فرماتے۔ مقابلہ میں خواہ کوئی کتنا ہی دنیاوی لحاظ سے مضبوط اور بااثر ہی کیوں نہ ہوتا آپ قول سدید سے کام لینے سے قطعی دریغ نہ کرتے اور اُس وقت تک مظلوم کی امداد سے دستبردار نہ ہوتے جب تک ظالم ظلم سے دستکش ہو کر مظلوم کی حق رسی پر مجبور نہ ہوجاتا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع نے آپ کی وفات پر آپ کی انہی خوبیوں کے پیش نظر فرمایا تھا کہ ’’… ایسے مشکل مواقع پر ربوہ کے عوام کی سرپرستی کرنے میں حضرت مولوی صاحب کا بہت بڑا ہا تھ تھا… ‘‘۔
آپ انتہائی نڈر اور بے خوف و خطر شخصیت کے مالک تھے۔ ایک بار ناصر آباد کے صدر عالمِ پریشانی میں آئے اور بتایا کہ فلاں جاگیردار نے محلہ کی ایک شارع عام پر ناجائز قبضہ کرکے گلی کے کونہ میں کمرہ کھڑا کر کے دومسلح پہریدار کھڑے کر دئیے ہیں جس سے گلی کے مکینوں کا راستہ بندہو گیا ہے۔ محترم حکیم صاحب نے خاکسار کو ساتھ لیا اور جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی مزدوروں کو للکارا کہ خبردار اگرایک اینٹ بھی مزید رکھی۔ مزدوروں نے ہاتھ روک لیا تو آپ نے حکم دیا کہ یہ ناجائز تعمیر از خود فی الفور گرا دیں۔ انہوں نے دست بستہ عرض کیا کہ ہم سے دیوار نہ گروائیں ہم مزید ایک اینٹ بھی نہیں لگائیں گے،آپ مہربانی فرماکر تعمیر کرنے والوں سے معاملہ طے کرلیں۔ آپ نے صدر محلّہ سے فرمایا کہ یہاں حسب سابق اور نقشہ کے عین مطابق راستہ بحال رہنا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ سارا ملبہ اٹھا لیں اور اگر اس سلسلہ میں کوئی بازپرس یا بات کرے تو مَیں انہیں جواب دوں گا۔ یہ حالات دیکھ کر فریق ثانی نے محترم حکیم صاحب کا براہ راست سامنا کرنے کی بجائے مسلسل کئی ماہ تک آپ کے خلاف پولیس کارروائی کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ لیکن آپ کے اصولی اور مبنی برحقیقت مؤقف کے باعث ان کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی۔ حضرت حکیم صاحب کے دورِ صدارت میں شاید ہی کوئی ناجائز قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔
آپ بے کسوں، غریبوں، ضرورتمندوں اور یتیموں سے بہت ہمدردی رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ احمد نگر کی ایک بیوہ خاتون جو ہر لحاظ سے بیکس اور مفلس تھی آپ کے پاس آئی۔ جب آپ کو اس خاتون کی حالت زار کا علم ہوا تو اس کی رہائش سمیت جملہ ضروریات فوری طور پر پوری کردیں اور بعد میں بیوت الحمد میں کوارٹر کا انتظام بھی کرا دیا۔
آپ اپنے رفقاء کار اور ماتحتوں سے بھی غیرمعمولی شفقت اور ہمدردی کا سلوک کرتے۔ مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب صدر محلّہ ناصرآباد شرقی کے بھتیجے کو ایک بار بائولے کتّے نے کاٹ لیا۔ وہ بچے کو لے کر پریشانی کے عالم میں محترم حکیم صاحب کے پاس آگئے تو آپ نے فوراً اپنے ڈرائیور کو بچے کو ذاتی کار میں چنیوٹ لے جانے کا کہا نیز کچھ پیسے بھی دئیے اور فرمایا کہ خواہ لاہور تک جانا پڑے جائیں اور ماسٹر صاحب کا کسی قسم کا خرچ نہیں کروانا۔
جب خاکسار نے اپنی آنکھوں میں لینز (Lens) ڈلوایا لیکن بینائی پر منفی اثر پڑا۔ کئی ڈاکٹروں سے بھی چیک کرایا لیکن امید کی کرن دکھائی نہ دی۔ محترم حکیم صاحب اس دوران مسلسل دریافت فرماتے رہے۔ ایک روز آپ خاکسار کے گھر تشریف لائے اور آنکھ کی صورتحال معلوم کرکے فرمایا کہ مَیں آپ کی آنکھ کا معائنہ لاہور کی ایک معروف لیڈی ڈاکٹر سے کروانا چاہتا ہوں۔ خاکسار نے آپ کی غیرمعمولی مصروفیت کے پیش نظر پس و پیش کا اظہار کیا۔ لیکن آپ اگلی صبح مجھے اپنی کار میں اپنے ہمراہ لاہور لائے اور چیک کروایا۔ اور باوجود خواہش اور کوشش کے خاکسار کو کسی قسم کا خرچ بھی نہ کرنے دیا۔
اسی طرح موسمِ سرما میں ایک شام جب خاکسار جماعتی کام کے سلسلہ میں چنیوٹ سے واپس ربوہ پہنچا تو مجھے دیکھ کر آپ نے کہا کہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ آپ کو لقوہ ہو گیا ہے۔ بعد میں ڈاکٹروں نے بھی اس کی تصدیق کی تو آپ نے فرمایا کہ یہ ٹیکے اسی مقصد کے لئے مَیں نے انڈیا سے منگوائے تھے۔ یہ فوراً لگوائیں۔ چنانچہ وہ ٹیکے مَیں نے لگوائے اور اس سے مرض جاتا رہا۔
موسم سرما کی ایک شام آپ دفتر صدر عمومی میں تشریف لائے اور اپنی اچکن مکرم ماسٹر مجید صاحب کو دے کر فرمایا کہ یہ پہن کر دکھائیں۔ انہوں نے اچکن پہنی تو آپ نے فرمایا: یہ تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ناپ پر ہی سلی ہوئی ہے۔ مَیں سیدھا اسے درزی سے لے کر آرہا ہوں اور اب یہ میری طرف سے آپ کے لئے تحفہ ہے۔
محترم حکیم خورشید احمد صاحب کا تقرر بطور صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ ربوہ جون 1974ء میں ہوا اور آپ اس اہم عہدہ پر 20سال تک فائز رہے اور یہ عرصہ جماعتی ابتلاؤں کے لحاظ سے غیر معمولی تھا۔ آپ نے نت نئے مسائل کا مردانہ واراور حکمت کے ساتھ جرأت و بہادری سے مقابلہ کیا اور ہر میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہے۔ خلفاء سلسلہ کا اعتماد اور محبت واطاعت کا رشتہ قائم رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ آ پ مجلس افتاء، مجلس کارپرداز، دارالقضاء کے رکن اور قاضی بھی رہے۔
آپ کو خلافت سے بہت لگاؤ اور محبت تھی۔ ہرتحریک اور ارشاد پر پہلی فرصت میں لبیک کہتے۔ 1984ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو ہجرت کرنا پڑی۔ اور کچھ عرصہ بعد حضورؒ کے خطبات کی کیسٹس لندن سے آنا شروع ہوئیں تو محترم حکیم صاحب نے خطبات جمعہ کو ہر احمدی کو سنانے کا بیڑا اٹھایا اور اس میں حتی المقدور کامیاب بھی ہوئے۔
جب آپ کا تقرر بطور صدر عمومی ربوہ ہوا تو شہر کے حالات بہت خراب تھے۔ گویا اندھیرنگری اور چوپٹ راج تھا ۔ پولیس جب اور جس کو چاہے پکڑ کر حوالات میں بند کردیتی تھی۔ ان نامساعد حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جب محترم حکیم صاحب کو صدر عمومی نامزد فرمایا تو کئی احباب حیران رہ گئے۔ آپ کی اعصابی کمزوری کا یہ حال تھا کہ گولبازار میں اپنی دکان سے مسجد مہدی آتے تو سر پر تولیہ رکھ کر تشریف لاتے کہ کہیں سخت موسم اعصاب پر اثرانداز نہ ہوجائے۔ دوسری طرف آپ غیرمعمولی عالم دین تھے جس کی ساری زندگی حصول علم میں ہی گزری۔ چنانچہ بطور صدر عمومی، ربوہ کے حالات سے نمٹنا اور انتظامیہ کے ساتھ حکمت سے معاملات طے کرنے جیسے کام آپ کی شخصیت سے بظاہر متضاد لگتے تھے۔ آپ نے کبھی تھانہ دیکھا تھا، نہ ایسے معاملات سے آپ کو کبھی واسطہ پڑا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا خدا کے خاص فضل اور امام وقت کی دعائوں کے طفیل محترم حکیم صاحب کا ہر لمحہ اور ہر دن کامیابیوں اور کامرانیوں کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا۔ پولیس کے نچلے طبقے سے لے کر اعلیٰ افسران تک آپ کی غیرمعمولی فراست، منصف مزاجی اور اعلیٰ شخصیت کے معترف ہوتے گئے۔ کبھی کبھار اگر آپ تھانہ چلے جاتے تو اکثر پولیس آفیسر اور جوان آپ کو اپنے بزرگ کا رتبہ دیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ پولیس کو کوئی غلط کام نہیں کہتے تھے۔ اگر کسی احمدی نے کوئی غلط کام کیا ہوتا تو آپ قول سدید سے کام لیتے ہوئے اُس کی غلطی کا اعتراف کرتے اور کبھی غلط سفارش نہ کرتے۔
ایک دفعہ ربوہ کے مجسٹریٹ نے آپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ کو فون پر بتایا کہ حکیم صاحب! مَیں نے کوشش کر کے آپ کا نام پولیس میں پرچہ درج ہونے سے قبل ہی کٹوا دیا ہے۔ آپ نے استفسار فرمایا: کیسا پرچہ اور کن کن کے خلاف درج ہوا ہے؟ جواباً مجسٹر یٹ نے بتایا کہ مرزا منصور احمد اور فلاں فلاں کے خلاف یہ مقدمہ درج ہوا ہے۔ آپ نے یہ سنتے ہی اُس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے انتہائی پریشان کُن لہجہ میں شکوہ کیا کہ ’’آپ کی یہ بات سن کر مجھے تکلیف ہوئی ہے۔ اگر آپ نے کوئی نام اس مقدمہ سے نکلوانا ہی تھا تو پھر میری جگہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا نام نکلواتے‘‘۔ اس صورتحال پر آپ بہت پریشان تھے اور بار بار یہ ذکر فرما رہے تھے کہ میرا نام مقدمہ سے خارج ہونے کی وجہ سے مَیں ایک بہت بڑے اعزاز سے محروم ہو گیا ہوں۔ اور پھر جب تک حضرت میاں صاحب کا مقدمہ ختم نہیں ہوا آپ مسلسل بے کل و بے قرار رہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقدمہ 6مئی 1987ء بجرم 298cتھانہ ربوہ میں درج ہوا جس میں حضرت میاں صاحب کے علاوہ دیگر 12؍احباب جماعت شامل تھے اور ان خوش نصیبوں میں خاکسار کا نام بھی تھا۔
جب آپ صدرعمومی بنے تو لوکل انجمن احمدیہ کا کوئی باقاعدہ دفتر بلکہ کوئی کلرک تک نہ تھا۔ ان حالات میں آپ نے خلیفۂ وقت کی راہنمائی میں اہل ربوہ کی خدمت اور ان کے مسائل حل کرنے میں مؤثر اور مخلصانہ تاریخی کردار ادا کیا اور لوکل انجمن احمدیہ کو قواعد کے سانچے میں ڈھالا اور 24؍اکتوبر 1992ء کو پہلی بار صدرعمومی کی مجلس عاملہ بناکر ناظر اعلیٰ سے منظوری حاصل کی۔ آپ نے مسجد مہدی کے پہلو میں پہلے مرحلہ کے طور پر ایک خوبصورت اور جدید طرز تعمیر کا حامل دفتر صدرعمومی تعمیر کروانے کی توفیق بھی پائی جس کا باضابطہ افتتاح 1983ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے دست مبارک سے فرمایا۔
صدر عمومی بننے سے پہلے محترم حکیم صاحب حلقہ گولبازار کے صدر بھی تھے۔ آپ نے مسجد مہدی کی ازسرنوتعمیر کا منصوبہ شاندار انداز میں مکمل کروایا۔ جب ڈش انٹینا کا دور شروع ہوا تو ربوہ میں زیادہ سے زیادہ ڈش انٹینا کی تنصیب کو یقینی بنانے کے لئے آپ پر ایک دُھن سوار تھی۔ اگرچہ معاندین نے آپ کی مردانہ وار حکمت اور جرأت کو دبانے کے لئے آپ کے خلاف بے بنیاد اور بے سرو پا مقدمات کا سلسلہ بھی شروع کیا لیکن ان تمام مقدمات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو باعزت بری فرمایا۔ آپ کو اسیرراہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایم ٹی اے کے پروگرام میں تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ … مقدمات میں پڑ کر اور سنگین صورت حالات میں حضرت مولوی صاحب کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آجاتی تھیں‘‘۔
مضمون نگار نے محترم حکیم صاحب کے خلاف دائرکئے جانے والے مقدمات کا ذکر بھی کیا ہے۔ ایک مقدمہ میں (جس میں آپ کو دو ماہ کے لئے اسیرراہ مولا بننے کا شرف حاصل ہوا) محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ، مکرم خواجہ مجید احمد صاحب، مکرم مبارک احمد سلیم صاحب، مکرم وسیم احمد انور صاحب اور مکرم عبدالعزیز بھامبڑی صاحب بھی گرفتار ہوئے تھے۔ اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے مکرم مبارک احمد سلیم صاحب اور مکرم وسیم احمد انور صاحب کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا:
’’آپ دونوں کا خط ملا اور اسیرانِ احمدیت کی یاد میرے زخموں کو تازہ کر گئی۔ دن میںکئی کئی بار اور رات کو تو اَور بھی زیادہ ذہن مکرم باجوہ صاحب، حکیم خورشید احمد صاحب، خواجہ مجید احمد صاحب اور آپ دونوں کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ا ب تو سنا ہے کہ مولوی عبدالعزیز بھامبڑی صاحب بھی آپ سے آملے ہیں …۔
آج لکھوکھہا مظلوم دوسرے انسانوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ بعض اذیتیں سہہ کر گمنامی کی حالت میںدم توڑ رہے ہیں۔ بعض کے مقدّر میں عمر بھر کی ہولناک قید تنہائی لکھ دی جاتی ہے لیکن کون ہے دنیا میں جو اِن کے دردسے پُر اس طرح تڑپے اور بیقرار ہو جس طرح آج آپ کے لئے لکھوکھہا بندگان خد ا بیقرار ہیں اور تڑپ رہے ہیں۔ پھر یہ ایک دونسل کی باتیں نہیں۔ قیامت تک آپ کا نام آسمان احمدیت پر ستارے بن کر چمکتا رہے گا … ۔
پیارے برادران باجوہ صاحب، حکیم خورشید صاحب، خواجہ صاحب اور آپ دونوں کو میرا نہایت محبت بھرا سلام اورپیار۔ اس وقت میرے تصور کی آنکھ بڑی محبت سے مگر سخت بے بسی کے حال میں آ پ سب کو دیکھ رہی ہے۔ خداحافظ۔‘‘
پہلے ان اسیران کو تھانہ بھوانہ کی حوالات میں محبوس رکھا گیا۔ پھر ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میںقید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اس عرصہ میںنہ صرف سینکڑوں قیدی بلکہ جیل افسران بھی آپ کے مفت علاج سے شفایاب ہوئے بلکہ اس کار خیر کا نیک اثر رہائی کے بعد بھی محترم حکیم صاحب کی زندگی تک قائم رہا۔ آپ کے پولیس میںنیک اثر اور آپ کی بیگناہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز ایک سینئر پولیس افسر خود تھانہ بھوانہ تشریف لائے اور آپ سے ہمدردانہ لہجہ میں یوں مخاطب ہوئے کہ حکیم صاحب مجھے آپ کی بے گناہی کا مکمل یقین ہے لیکن یہ پرچہ حکومتی پالیسی کا نتیجہ ہے جس میں مَیں بے بس ہوں۔ پھر انہوں نے قریب کھڑے SHO کو حکم دیا کہ یہ میرے ذاتی مہمان ہیں انہیں ہر قسم کی سہولت مہیا کی جائے۔
محترم حکیم صاحب کے خلاف دوران صدارت 4 مقدمات بنائے گئے جن میں آپ کے ساتھ جماعت کے انتہائی قابل احترام بزرگ بھی شامل تھے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے چاروں میں باعزت بریّت ہوئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک بار 1989ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی عدم موجودگی میں محترم حکیم صاحب کو امیر مقامی نامزد فرمایا۔
محترم حکیم صاحب 16؍اگست1994ء کی شب بعمر 73 سال راولپنڈی میں وفات پاگئے۔ آپ کی تدفین حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اجازت سے بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ بزرگان میں ہوئی۔ حضورؒ نے آپ کی وفات کے بعد حضرت کے لقب سے آپ کو ملقّب فرمایا۔
محترم حکیم صاحب کی تدفین کے وقت کونسل کے چیئرمین، کونسلرز، سرکاری وغیر سرکاری افسران اور دیگر غیرازجماعت معززین بھی حاضر رہے اور بعد از تدفین تعزیت کے لئے آپ کے گھر بھی تشریف لاتے رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایم ٹی اے کے پروگرام ’’ملاقات‘‘ بتاریخ 16؍اگست 1994ء میں محترم حکیم صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:
’’مولوی صاحب نے جماعت کی بہت خدمت کی ہے۔ وہ بہت گہرے عالم تھے ۔ حدیث کا ٹھوس علم حاصل تھا۔جامعہ میں میرے استاد بھی رہے۔ بہت ہی گہرا علم اور وسیع نظر تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے آپ کو دیوبند بھیج کر حدیث کا علم دلوایا۔ دوسری خوبی ان کی یہ تھی کہ بڑی انتظامی صلاحیت کے مالک تھے۔ جب بڑے مشکل اوقات میں جماعت کے خلاف شدید دشمنی کا اظہار کیا گیا۔ ایسے مشکل مواقع پر ربوہ کے عوام کی سرپرستی کرنے میں حضرت مولوی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی تھی۔ بہت سے ایسے مریض جو حکومت کے ملازم ہوتے تھے یا علاقہ کے بڑے زمیندار جن سے عموماً شر پہنچتا تھا وہ مولوی صاحب کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی حکمت اور طبابت کے نسخے بہت مفید ہوتے تھے۔ چنیوٹ سے بھی سلسلے کے مخالف یا تو بھیس بدل کر دوا لینے آتے یا کسی کو بھجوا دیتے اور درخواست کرتے کہ ہمارا نام نہ لیا جائے۔‘‘