حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اپریل 2012ء میں مکرمہ شکیلہ طاہرہ صاحبہ (مدیرہ رسالہ النساء کینیڈا ) کا مرتّبہ ایک مضمون ماہنامہ ’’النساء‘‘ کینیڈا مئی تا اگست 2011ء سے منقول ہے جس میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’…… حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری وقت کا یہ الہام ہے جس کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ آپ کے خاندان کے متعلق ہی ہے کہ:
سپردم بتومایۂ خویش را
تودانی حساب کام و بیش را
یعنی اے خدا! اب میں دنیا سے جاتی دفعہ اپنا اہل و عیال تیرے سپرد کرتا ہوں۔ تو جس حالت میں چاہے انہیں رکھیو۔ چاہے تو اونچے مقام پر رکھ، چاہے تو نیچے مقام پر‘‘۔ (خطبات محمود جلد سوم صفحہ 350)
امرواقعہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود کو اپنے فضل سے بارہا اس الہام کے ’’اونچے مقام‘‘ والے حصہ کا مصداق ٹھہرایا۔ کبھی آپؑ کے بیٹے کو مصلح موعود کا یکتائے زمانہ اعزاز دے کر تو کبھی خلیفۃ المسیح الثانی بناکر۔ کبھی پوتوں کو ’’خلیفۃ المسیح الثالث‘‘ اور ’’خلیفۃ المسیح الرابع‘‘ بنا کر اور کبھی پڑپوتے کو ’’خلیفۃ المسیح الخامس‘‘ کی ردا پہنا کر۔ مندرجہ بالا فارسی الہام کا حوالہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے بچوں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ اور حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کا نکاح پڑھاتے ہوئے دیا تھا۔
حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے اپنی عباداتِ الٰہی، خدمات دینیہ و خدمات خلق کے ذریعے دنیاوی اور خاندانی جاہ و وجاہت میسر ہونے کے باوجود انتہائی بردباری، وقار، عجز وانکساری سے کئی انمول و نایاب روحانی انعامات و اعزازات اپنے پروردگار کی درگاہ سے پائے۔ اللہ تعالیٰ کے افضال میں سے درازیٔ عمر کی نعمت بھی وافر پائی اور ایک صدی تک وقت کی آنکھ نے اس منفرد اور بے مثل ولی اللہ ہستی کی دھڑکنیں سننے کی سعادت پائی۔
حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ستمبر 1911ء میں حضرت صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئیں۔ نہایت دینی و روحانی ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ دینیات کلاس میں شرکت کی اور 1929ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ’’مولوی‘‘ کا امتحان پاس کیا۔ 1931ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور پھر ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں خواتین کا تعلیم حاصل کرنا اتنا عام نہ تھا اس لئے اس وقت حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے خود کو آراستہ کرنا عام رجحانات سے الگ عمل تھا۔ جولائی 1934ء میں آپ کا نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ساتھ عمل میں آیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر ایک تاریخ ساز اور پُرمعارف طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں اشاعت اسلام کے متعلق ابنائے فارس کی ذمہ داریوں کا بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی اس طرح بسر کرے کہ گویا وادیٔ غیرذی زرع میں رہتی ہیں اور اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کرے‘‘۔
چنانچہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کی ساری زندگی دین کے لئے وقف، خدمت خلق و انسانیت میں منہمک گزری۔ بچپن سے ہی، دس سال کی کم سنی میں جلسہ سالانہ کے موقع پر دارالمسیح میں حضرت سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ کے ایک کمرہ کی مہمان نوازی کی ذمہ داری بخوبی انجام دے کر باقاعدہ خدمات دینیہ کا آغاز کیا۔ بعدازاں ان کے حسن انتظام کے سبب اسی چھوٹی عمر میں کمروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ پھر جلسہ سالانہ پر منتظمہ روشنی، منتظمہ تقسیم کھانا، منتظمہ صفائی کے فرائض بخوشی سرانجام دیئے۔
آپ ایک طویل عرصہ صدرلجنہ اماء اللہ ربوہ رہیں اور لجنات کی تربیت میں بہت فعال کردار اداکیا۔ آپ نہایت خوش خلق، عبادت گزار، مہمان نواز، سلیقہ مند اور خدمت خلق کرنے والی منکسرالمزاج بزرگ خاتون تھیں۔ آپ نے پانچوں خلفائے مسیح موعود کا زمانہ پایا۔ ہر دَور میں خلافت سے بے پناہ عشق آپ کا نمایاں ترین وصف رہا۔
حضرت سیّدہ سے میرا (مضمون نگار کا) تعارف میرے داداجان مرحوم حضرت مرزا صالح علی صاحبؓ کے حوالہ سے کروایا گیا تھا۔ جس پر آپ نے فرمایا: ’’تمہاری دادی تو جماعت کا بہت کام کرتی تھیں اور بہت محنتی خاتون تھیں۔ تم بھی ان کے نقش قدم پر چلنا‘‘۔
میری دادی جان محترمہ امۃاللہ صالحہ کا تعلق پاکستان کے ضلع گجرات سے تھا۔ اُن کا نکاح بچپن میں کسی لڑکے سے ہوا تھا لیکن وہ لڑکا کسی وبائی بیماری کے سبب انتقال کرگیا۔ علاقہ کے رواج کے مطابق بیوہ کی دوبارہ شادی نہیں کی جاتی تھی۔ اگرچہ اُن کے والد حضرت جمال دین صاحبؓ احمدیت قبول کرچکے تھے لیکن پھر بھی اس ظالمانہ رسم سے مکمل چھٹکارا حاصل نہ کرسکے تھے۔ لہٰذا وہ اس چھوٹی سی بچی کو قادیان لائے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا کہ اب اس کی شادی تو ہونہیں سکتی اس لئے اسے آپ کی خدمت کے لئے وقف کرتا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس بچی کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری حضرت اُمّ ناصر کے سپرد کردی اور اُنہیں گھر کے فرد کی حیثیت سے اس بابرکت گھرانہ میں رہنے کی سعادت مل گئی۔ گھر میں ایک اپنا کمرہ ان کو مل گیا اور وہیں اُن کی دوستی اپنی ہم عمر حضرت سیدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سے ہوگئی۔
محترمہ امۃاللہ صاحبہ کے بالغ ہونے پر حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے والد صاحب کی اجازت سے ان کی شادی حضرت مرزا صالح علی صاحبؓ سے کروادی جن کے والد حضرت مرزا صفدر علی صاحبؓ کو حضرت صاحبزادی بوزینب صاحبہؓ کے Baby Sitter کے طور پر بچپن سے ہی خدمت کی سعادت حاصل رہی اور ساری عمر انہوں نے حضرت صاحبزادی بوزینب صاحبہؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے در پر بسر کردی اور وہیں سے اُن کا جنازہ اُٹھا۔