23؍مارچ… روایات کی روشنی میں
ماہنامہ ’’خالد‘‘ مارچ 2001ء میں 23؍ مارچ 1889ء کے حوالہ سے روایات کی روشنی میں تحریر کیا جانے والا مکرم محمد محمود طاہر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
1882ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا لیکن چونکہ بیعت لینے کا حکم نہ تھا اس لئے بعض مخلصین کے اصرار کے باوجود آپؑ بیعت نہ لیتے تھے۔ 12؍جنوری 1889ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش بھی ہوئی اور حضورؑ نے ایک اشتہار بھی شائع فرمایا جس کا عنوان تھا: ’’تکمیل تبلیغ و گزارش ضروری‘‘۔ اس اشتہار میں حضورؑ نے دس شرائط بیعت تحریر فرمائیں۔
4؍مارچ 1889ء کو حضورؑ نے لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان سے ایک اشتہار جاری فرمایا جس میں بیعت کی اغراض و مقاصد بیان فرمائیں اور بیعت کے خواہشمند احباب کو 20؍مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ بہت سے عقیدت مند مقررہ دن لدھیانہ پہنچ گئے۔ بیعت اولیٰ کا آغاز 23؍مارچ کو حضرت صوفی صاحبؓ کے مکان پر ہوا اور وہیں رجسٹر بیعت بھی تیار ہوا۔ حضورؑ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے اور دروازہ پر حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ کو مقرر فرمایا کہ جسے بلانے کا حضورؑ ارشاد فرمائیں، اُسے اندر بھیج دیں۔
حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ پہلے حضورؑ نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو بلوایا پھر میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی خوشنویس کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو۔ چند آدمیوں کو نام لے کر بلوانے کے بعد حضورؑ نے حضرت شیخ صاحبؓ کو حکم دیا کہ اب خود ایک ایک آدمی کو اندر بھیجتے جاؤ۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں کہ حضورؑ تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقّت طاری ہوجاتی تھی اور بیعت کے بعد بہت لمبی دعا فرماتے تھے۔
حضرت میر عنایت علی صاحبؓ لدھیانوی کو پہلے روز نویں نمبر پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ بیعت کنندگان کا جو رجسٹر تیار کیا گیا، اُس کی پیشانی پر لکھا گیا ’’بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ و طہارت‘‘۔
حضرت میاں رحیم بخش سنوریؓ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ہم سنور سے لدھیانہ پہنچے ۔ وہاں بہت تلاش کے بعد پتہ چلا کہ منشی احمد جان صاحبؓ کے گھر ایک پنجابی آیا ہوا ہے۔ وہاں پہنچے تو حکم ہوا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر بیعت ہونے لگی۔ آخر ہوتے ہوتے میرا نمبر بھی آگیا۔ مَیں بھی اندر گیا اور مَیں نے سلام کیا۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’کیا نام؟‘‘ ۔ مَیں نے عرض کیا: حضور! رحیم بخش۔ فرمایا: سنوری۔ مَیں نے کہا: جی حضور۔ حضورؑ کے پاس ایک کاپی تھی جس پر حضورؑ اپنی قلم سے بیعت کرنے والوں کے نام نمبروار درج فرماتے تھے۔ مَیں نے اپنا نمبر دیکھا تو میرا نمبر ستائیسواں تھا۔ … بیعت کے بعد کھانا ہوا۔ اتفاق سے مَیں حضورؑ کے ساتھ ایک پہلو پر جا بیٹھا۔ حضورؑ اپنے برتن میں سے کھانا نکال کر میرے برتن میں ڈالتے جاتے تھے اور مَیں کھانا کھاتا جاتا تھا۔ گاہے حضورؑ بھی کوئی لقمہ نوش فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد نماز کی تیاری ہوئی۔
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ اُس روز لدھیانہ میں موجود تھے لیکن آپؓ نے بیعت نہیں کی کیونکہ آپؓ کا منشاء قادیان کی مسجد مبارک میں بیعت کرنے کا تھا جسے حضورؑ نے منظور فرمایا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بھی موجود تھے مگر انہوں نے بھی اُس وقت بیعت نہیں کی بلکہ کئی ماہ بعد بیعت کی سعادت پائی۔
مردوں کی بیعت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بھی بیعت کی۔ سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی اہلیہ حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ (بنت حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ) نے بیعت کی۔ حضور علیہ السلام کی حرم محترم امّ المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ ابتداء ہی سے حضورؑ کے سب دعاوی پر ایمان رکھتی تھیں اور شروع ہی سے اپنے آپ کو بیعت میں سمجھتی تھیں اس لئے انہوں نے الگ بیعت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔