محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 2 نومبر 2018ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ21و 22ستمبر 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم شریف احمد بانی صاحب نے محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کی دینی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ قبل ازیں مرحوم بانی صاحب کا ذکرخیر متعدّد شماروں (بشمول 7؍فروری 2014ء، 3؍ستمبر 2010ء اور 4؍اپریل 2003ء) کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ہمارا آبائی وطن چنیوٹ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے عہدِ مبارک میں ہی آپؑ کا پیغام چنیوٹ پہنچ گیا تھا۔ ایک بزرگ حضرت شیخ عطا محمد صاحب (اسٹامپ فروش) آپؑ کے صحابہ میں شامل تھے۔ میرے دادا کے چھوٹے بھائی حضرت حاجی میاں تاج محمود صاحب نے بذریعہ خط غالباً 1902ء میں بیعت کی تھی۔ ایک اور بزرگ حضرت شیخ محمد حسین صاحب نے بھی اُسی زمانہ میں بذریعہ خط بیعت کی تھی۔
حضرت حاجی تاج محمود صاحبؓ بہت متقی اور پرہیزگار بزرگ تھے۔ قرآن مجید سے آپؓ کو عشق تھا۔ جب آپؓ احمدی ہوگئے تو بہت مخالفت بھی ہوئی۔ آپؓ کاروبار کے سلسلہ میں کلکتہ میں قیام پذیر تھے۔ ایک دن اپنی دکان کے قریب ایک مسجد میں نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے تو مسجد کے امام نے بلالیا اور پوچھا کہ آپ کیوں احمدی ہوگئے ہیں؟ حاجی صاحب نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب امام مہدی ظاہر ہوں تو اُن کی پیروی کرنا۔ مَیں تو صرف اس ارشاد کی پیروی میں احمدی ہوا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے میرے مامور کو کیوں قبول نہیں کیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اس پر اُس مولوی نے کہا کہ قیامت کے روز آپ کہنا کہ مجھے مولوی عبدالجبار نے منع کیا تھا۔ حاجی صاحب بڑے سادہ انسان تھے اور بحث مباحثہ میں نہیں پڑتے تھے۔ وہ خاموش ہوگئے۔ جب یہ گفتگو ہورہی تھی تو اُسی مسجد میں حضرت شیخ محمد حسین صاحب بھی نماز پڑھ رہے تھے اور انہوں نے یہ ساری باتیں سن لیں۔ بعد میں وہ حاجی صاحب کو کہنے لگے کہ آپ نے آدھے چنیوٹ کو قرآن پڑھایا ہے، آپ نے مولوی صاحب کو یہ جواب کیوں نہ دیا کہ قرآن میں لکھا ہے کہ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ حاجی صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ یہ بات سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور پھر آپ نہایت مضبوطی سے احمدیت پر قائم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو لمبی عمر عطا فرمائی اور وہ قریباً 100 سال کی عمر میں فوت ہوکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم شیخ محمد یعقوب صاحب لمبا عرصہ قادیان میں درویش رہے، ڈھاکہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودۂ خاک ہیں۔
حضرت حاجی تاج محمود صاحبؓ کے چھوٹے بھائی اور میرے دادا حاجی سلطان محمود صاحب بڑے نیک انسان تھے اور خدمت خلق کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ جب کلکتہ سے ایک دوماہ کے لئے چنیوٹ آتے تو مختلف مساجد میں تربیتی رنگ میں وعظ و نصیحت کرتے۔ آپ نے چنیوٹ میں ’’اسلامیہ ہائی سکول‘‘ کی بنیاد رکھی اور محدود وسائل کے باوجود یہ مدرسہ ان کی زندگی میں جاری رہا۔ بعدازاں چنیوٹ کی شیخ برادری نے اجتماعی ذمہ داری اٹھالی اور یہ مدرسہ ترقی کرکے کالج بن گیا۔ برادری نے اُنہیں ’بانی‘ کے خطاب سے نوازا جس کی وجہ سے اب ہمارا خاندان ’بانی‘ کہلاتا ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی کے احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کی توجہ بھی احمدیت کی طرف ہوئی اور آپ نے تحقیق بھی شروع کی لیکن عمر نے وفا نہیں کی اور آپ 1910ء میں وفات پاگئے۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت عطا کی۔
داداجان کی وفات کے وقت میرے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کی عمر صرف دس سال تھی۔ ایک بھائی اور دو بہنیں آپ سے چھوٹے تھے۔ تین چار سال تو کسی نہ کسی طرح گزر بسر ہوئی۔ پھر والدہ کے کہنے پر تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ کلکتہ چلے گئے اور لمبا عرصہ مختلف جگہوں پر ملازمت کرنے کے بعد اپنی خداداد ذہانت اور سخت محنت کی عادت سے ذاتی کاروبار شروع کردیا۔ آپ کو اپنے چچا حاجی میاں تاج محمود صاحب کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ وہ احمدیت کے بارہ میں بھی گفتگو فرمایا کرتے چنانچہ آپ نے 18 سال کی عمر میں 1918ء میں بذریعہ خط اور پھر اگلے سال قادیان حاضر ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دستی بیعت کرلی۔ ابتداء میں آپ کی والدہ صاحبہ نے سخت مخالفت کی لیکن جب یہ مشاہدہ کیا کہ احمدی ہونے کے بعد آپ نمازوں کی پابندی کرنے لگے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدگی آگئی ہے اور گھر والوں سے سلوک بہت بہتر ہوگیا ہے تو اُن کی توجہ بھی احمدیت کی طرف ہوئی اور وہ اپنے چھوٹے بیٹے میاں محمد یوسف بانی صاحب کو ساتھ لے کر خود قادیان آگئیں اور قریباً ایک ماہ وہاں رہ کر بغور مشاہدہ کیا اور بیعت کرلی۔
والد صاحب کا دستور تھا کہ جب بھی وہ چنیوٹ آتے تو چند روز کے لئے قادیان ضرور حاضر ہوتے۔
خلافت جوبلی کے جلسہ 1939ء میں والد صاحب اپنے پانچ سالہ بیٹے میاں منیر احمد بانی کے ہمراہ شامل ہوئے۔ منیر بانی صاحب ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ خاکسار جب حضورؓ پر عاشق ہوا تو میری عمر صرف پانچ سال کی تھی۔ اس زمانہ میں مجھے جلسہ کی برکات اور فوائد کا تو علم نہ تھا۔ قادیان جانے کا مقصد حضور کا دیدار کرنا تھا۔ احمدیہ چوک میں بنگال کی جماعتوں کی حضورؓ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ جناب والد صاحب نے باری آنے پر میرا ہاتھ حضورؓ کے ہاتھ میں دے دیا۔ حضورؓ کا جو تصور ذہن میں قائم تھا اُس سے کہیں زیادہ حسین و جمیل پایا۔ مصافحہ سے ایک بجلی کی رَو میرے بدن سے گزر گئی۔ خاکسار شعور کے پختہ ہونے تک بجلی کی اس رَو پر بہت حیران رہا۔
والد صاحب قادیان کے مقدّس روحانی ماحول سے اتنے متأثر تھے کہ1939/40ء میں آپ بال بچوں سمیت مستقل رہائش کے لئے قادیان آگئے۔ پہلے کرایہ پر اور غالباً 1941ء میں اپنا مکان خرید لیا۔ اس مکان کی خرید کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ یہ نوتعمیرشدہ مکان مکرم شیخ فضل حق صاحب گارڈ نے بڑے شوق سے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کروایا تھا لیکن کسی ضرورت کی وجہ سے ان کو یہ مکان فروخت کرنا پڑ رہا تھا۔ قیمت فروخت انہوں نے بارہ ہزار روپے بتائی لیکن یہ شرط رکھی کہ آپ کسی سے اس فروختگی کا ذکر نہیں کریں گے اور دو دن میں مجھے ہاں یا نہ میں جواب دے دیں۔ والد صاحب نے کہا میں یہاں قادیان میں نووارد ہوں اور مجھے قادیان میں مکان کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں حضرت صاحب سے مشورہ کرلوں۔ انہوں نے اجازت دے دی اور والد صاحب حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات بیان کی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ گارڈ صاحب کی بیٹی احمدی بیگم کی شادی ہوئی تھی تو مَیں اس مکان میں گیا تھا۔ بڑے ہال کمرہ میں مہمانوں کو بٹھایا گیا تھا۔ والد صاحب نے عرض کیا کہ اس ہال کمرہ کے چاروں کونوں پر چار کمرے ہیں۔ حضور نے ایک دو منٹ انگلیوں پر حساب لگایا اور فرمایا کہ گارڈ صاحب نے ایک سال قبل یہ مکان بنایا تھا۔ میرے اندازہ کے مطابق ان کی لاگت اس مکان پر پونے گیارہ ہزار روپے آئی ہوگی۔ اس لحاظ سے بارہ ہزار روپے مناسب قیمت ہے۔ چنانچہ وہ مکان والد صاحب نے خرید لیا۔ سودا طے ہو جانے کے بعد گارڈ صاحب سے پوچھا کہ تعمیر پر آپ کا کیا خرچ آیا تھا۔ انہوں نے کہا تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے۔ اس پر والد صاحب نے انہیں حضورؓ کے ساتھ اپنی ملاقات کی تفصیل بتائی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ ’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہوگا۔‘‘
والد صاحب ہر سال ایک دو ماہ کے لئے قادیان آیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کا یہ شعر لال قلعہ دہلی کے دیوان خاص میں کندہ ہے:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
لیکن روحانی اعتبار سے اس شعر کی مصداق قادیان کی مقدّس سرزمین ہے۔
1944ء میں والد صاحب قادیان آئے تو اُس وقت حضورؓ مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرماچکے تھے اور آپؓ کا حسن کئی گنا بڑھ چکا تھا۔ روزانہ ہم مجلس علم و عرفان میں حاضر ہوتے۔ والد صاحب اتنے مسحور ہوئے کہ انہوں نے کاروبار چھوڑ کر قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ جانے کا مصمّم ارادہ کرلیا۔ میری والدہ محترہ زبیدہ بانی صاحبہ اگرچہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہ تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فراست اور دُوراندیشی اُنہیں بڑی فیاضی سے عطا فرمائی تھی۔ اور بچوں کی تربیت کا ان کا خاص انداز تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ اگر آپ نے کاروبار چھوڑ دیا تو بڑے ہو کر یہ کیا کریں گے؟ مزید برآں جب آپ کے بیوی بچے قادیان میں رہتے ہیں اور آپ نے مکان بھی یہاں خرید لیا ہے تو اس لحاظ سے آپ کی سکونت تو قادیان میں ہی ہے۔ والد صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی مثال دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کے ارشاد پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر قادیان آگئے تھے اور بچوں کے مستقبل کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا نوازا ہے کہ میری چار پشتوں کے لئے کافی ہے۔ جب یہ بحث طویل ہوگئی اور دونوں کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو آخر یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔ پھر حضورؓ جس طرح ارشاد فرمائیں اُس پر عمل کیا جائے۔ چنانچہ حضورؓ کی خدمت میں دونوں حاضر ہوگئے۔ حضورؓ نے محترمہ والدہ صاحبہ کی رائے کو پسند کیا اور والد صاحب سے فرمایا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ چار پشتوں والی دولت ہمیشہ آپ کے پاس رہے گی۔ اگر آپ کے پاس زیادہ دولت ہے تو اسے احمدیت کی خدمت کے لئے پہلے سے زیادہ خرچ کریں۔ پھر حضرت رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ بنے ہوئے کام کو ترک نہیں کرنا چاہئے، اگر آپ اس وقت کام چھوڑ دیں گے تو بڑے ہو کر آپ کے بچے نکمّے ہو جائیں گے۔ حضورؓ کے مشورہ کی روشنی میں والد صاحب فوراً کلکتہ روانہ ہوگئے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے منہ سے نکلی ہوئی عمومی باتیں بھی پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہیں۔ اس واقعہ کے صرف دو سال بعد 1946ء میں کلکتہ میں وسیع پیمانہ پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ ہماری تجارت بکلّی تباہ ہوگئی۔ مکان، دکان، موٹرکار سب نذر آتش کر دی گئیں۔ ہم بڑی مشکل سے اپنے تن کے کپڑوں کے ساتھ جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ 1947ء میں قادیان سے انخلاء کے بعد قادیان میں خریدی ہوئی وسیع جائیداد بھی ہاتھ سے نکل گئی اور چار پشتوں والی دولت قصۂ پارینہ بن گئی۔ تاہم والد صاحب نے ہمت نہیں ہاری۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود نئے سرے سے کام شروع کیا۔ 1958ء تک حالات بہت زیادہ خراب رہے اور گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے دوبارہ کھول دیئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اپنے فضلوں سے نوازا تو جناب والد صاحب نے اس رزق کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھا۔ اپنی ذات پر کچھ خرچ نہیں کیا۔ آخری وقت تک نہایت سادہ اور غریبانہ زندگی گزاری لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہمیشہ بے دریغ خرچ کرتے رہے۔ آپ کو قادیان اور درویشانِ قادیان کے ساتھ عشق کی حد تک محبت تھی اور ہر وقت اسی سوچ میں رہتے تھے کہ کس طرح درویشان کی خدمت کی جائے۔
محترم مولانا عبدالقادر صاحب دہلوی دانش درویش لکھتے ہیں: مشکلات کے اُس دَور میں 1951ء میں کلکتہ سے محترم سیٹھ میاں محمد صدیق بانی قادیان تشریف لائے۔ انہوں نے قادیان کے درویشوں سے رشتہ مواخات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ پھر درویشوں اور ان کے اہل و عیال پر مشتمل ایک بڑی جمعیت کے لئے ہرسال چار ماہ کی گندم کے اخراجات برداشت فرماتے رہے۔ نیز درویشوں کے گھروں میں ملبوسات تقسیم کرواتے۔ سکول کے بچوں، بچیوں میں بصورت نقدی تحفے دیتے۔ درویشوں کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف فنڈ قائم کرایا۔ بیوگان اور یتامیٰ کی ضرورتوں کا خیال رکھتے۔ غرض ابتدا درویشی میں کشادہ پیشانی اور فراخ دلی سے دولت خرچ کرکے مواخات کو بطریق احسن نبھاتے رہے۔ اپنے بیٹے شریف احمد کی شادی کے لئے دلہا دلہن کو لے کر قادیان آئے اور یہاں رخصتانہ و ولیمہ کرکے درویشوں کو شادی کی مسرتوں میں شامل کیا۔
ایک سال جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے آپ نے اوائل دسمبر میں ہی ٹرین کی ریزرویشن کروالی تھی لیکن روانگی سے چند روز پہلے آپ کی آنکھوں میں تکلیف شروع ہوگئی۔ سردی سے مرض کے مزید بڑھ جانے کے خطرہ کے پیش نظر فیملی ڈاکٹر نے اس سفر کی اجازت نہ دی۔ ڈاکٹر کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ آپ بے اختیار رونے لگے۔ ڈاکٹر نے حیرانی سے اس بے قراری کی وجہ پوچھی تو آپ کے بیٹے نے اُسے آپ کی احمدیت اور قادیان سے والہانہ محبت کے بارہ میں بتایا جس کی زیارت سے محرومی آپ کے لئے ناقابل برداشت ہورہی تھی۔
صحت کی شرط کے ساتھ محترم بانی صاحب تقریباً ہر سال ہی جلسہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوتے تھے اور آپ کے تینوں بیٹوں میں سے ایک باری باری اُن کے ساتھ ہوتا تھا۔ جلسہ سالانہ قادیان کے اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہوتا رہا۔ لمبا عرصہ قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو صدرانجمن احمدیہ قادیان کا ممبر نامزد فرمایا تھا جو آپ اپنی وفات تک رہے۔
آپ کو قرآن پاک سے عشق تھا۔ دو تین پارے حفظ بھی کئے تھے۔ قرآن مجید کی اشاعت سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ تقسیم ملک سے پہلے تفسیرکبیر کی اشاعت کے لئے چھ ہزار کا عطیہ دیا تھا۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے دنیا کی سات بڑی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کرنے کی تحریک فرمائی تو اُن میں سے ایک زبان میں ترجمہ کا خرچ آپ نے اپنے ذمہ لیا۔ بعدازاں ڈینش (Danish)، ہندی اور گورمکھی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمہ کے تمام اخراجات بھی آپ نے ادا کئے۔
آپ درویشان قادیان سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری زندگی کا مطمحِ نظر دوسری خدماتِ سلسلہ کے علاوہ یہ ہے کہ میں تادمِ آخر درویشوں کی ہر ممکن خدمت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشاں رہوں۔ محترم بدرالدین عادل صاحب درویش قادیان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مدراس کے احمدی تاجر میاں عبدالحفیظ سیالکوٹی مرحوم نے درویشی کے ابتدائی زمانہ میں پانچ ہزار روپے محترم بانی صاحب کو بھجوائے کہ آپ جس طرح مناسب سمجھیں یہ رقم سلسلہ کی خدمت کے لئے خرچ کریں۔ آپ نے یہ رقم قادیان بھجوادی اوریہ تجویز پیش کی کہ یہ رقم درویشان کی شادیوں پرخرچ کی جائے۔
محترم مولوی عبدالقادر صاحب دانش دہلوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ایک سادہ لباس، سادہ وضع، فروتنی اور انکساری کا پیکر لیکن خوبرو، ہنس مکھ فرشتہ صورت مردِ خدا دوردراز علاقہ سے قادیان میں وارد ہوا اور اپنی دلی خواہش کا یوں اظہار کیا کہ وہ قادیان کے درویشوں سے مؤاخات کا رشتہ قائم کرنے کا متمنّی ہے۔ سننے والوں نے سمجھا کہ ایک دو درویشوں کی ضروریاتِ زندگی کا کفیل بننے کا خواہشمند ہوگا۔ لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ وہ تو سب درویشوں سے رشتۂ مواخات استوار کرنے کی نیت سے یہاں آیا ہے توحیرت کی انتہا نہ رہی کہ اتنی بڑی تعداد اور اُن کے اہل و عیال کی کفالت وہ کس طرح برداشت کرسکے گا۔ چنانچہ اس بزرگ نے اپنی دولت و ثروت میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ درویشوں اور اُن کے اہل و عیال کو بھی اپنا حصہ دار کرلیا۔ کوئی دل گردے کا مالک اور وسیع حوصلہ رکھنے والا ہی یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ وہ لائق تحسین و لائق آفرین ہے اور وہ الفاظ نہیں ملتے جن سے اپنے اس محسن اور ان کی اولاد کا کماحقہٗ شکریہ ادا کرسکیں۔ قادیان کے ہندو اور سکھ بھی سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کی جودوسخا کی باتیں سنتے تو تمنّا کرتے کہ یہ بزرگ جب قادیان آئیں تو ان کی جھلک دکھا دو۔
مساجد بنانے اور انہیں آباد رکھنے کی محترم بانی صاحب ہمیشہ کوشش کرتے۔ چنیوٹ میں ایک مسجد جس میں غیراحمدی جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، جمعہ کے روز احمدی بھی وہاں اکٹھے ہو کر جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ ایک دن نائب ناظم انجمن اسلامیہ چنیوٹ، حاجی چراغ دین مگوں نے لوگوں کو بھڑکایا اور مجمع لے کر اُس مسجد میں آگیا۔ اُس وقت چودھری مولا بخش صاحب خطبہ پڑھ رہے تھے۔ حاجی صاحب مذکور نے خطبہ کے دوران ہی بآواز بلند کہا کہ مسجد ہماری ہے۔ آئندہ یہاں نماز پڑھی تو تم لوگوں سے بہت برا سلوک ہوگا۔ اس پر چوہدری صاحب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ اے خدا! ہم تو اس مسجد کو تیرا گھر سمجھ کر تیری عبادت کرنے یہاں آتے تھے۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ گھر تیرا نہیں، اِن کا ہے۔ سو ہم عبادت کے لئے ان کے گھر نہیں آئیں گے۔ اس طرح حکمت سے خطبہ میں ہی انہیں جواب دے دیا۔ ان حالات میں محترم بانی صاحب نے کہا کہ آئندہ جمعہ کی نماز میری حویلی میں پڑھا کریں۔ تاہم معجزہ یہ ہوا کہ دوسرے جمعہ سے ایک دن پہلے حاجی چراغ دین کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ نے احمدیہ مسجد کے لئے قطعہ زمین کا انتظام کروادیا۔ وہ اس طرح کہ انجمن اسلامیہ چنیوٹ نے مدرسہ کی تعمیر کے لئے چار کنال زمین خرید رکھی تھی لیکن محکمہ تعلیم نے اس جگہ مدرسہ کی تعمیر کی اجازت نہ دی۔ اس لئے انجمن نے پلاٹ بنا کر اس زمین کی فروخت کے لئے منادی کروادی۔ نیلام کنندہ وہی حاجی چراغ دین تھا۔ جب اس پلاٹ کی باری آئی جس جگہ اب ہماری مسجد ہے تو حاجی سرگوشی کے لہجے میں بانی صاحب سے کہنے لگا کہ یہ چھ مرلہ کا مربع قطعہ ہے اور اس کو دو راستے لگتے ہیں۔ مسجد کے لئے نہایت موزوں ہے، یہ پلاٹ کیوں نہیں خرید لیتے؟ اُس کی یہ بات آپ کے دل میں اتر گئی۔ چنانچہ آپ قیمت کی پرواہ کئے بغیر اپنی بولی بڑھاتے چلے گئے اور آخر پلاٹ خرید لیا۔ اُسی وقت حاجی نے اعلان کردیا کہ بھائیو! یہ ٹکڑا مرزائیوں نے اپنی مسجد کے لئے خریدا ہے۔
چنیوٹ کے احمدیوں نے مسجد فنڈ میں قریباً دوہزار روپے جمع کرکے لائلپور کے شیخ محمد اسماعیل و مولابخش صاحبان کے پاس امانتاً رکھوائے ہوئے تھے۔ زمین کی قیمت دینے کے لئے جب اُن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو لاہوری جماعت میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس پر چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے جو احباب کلکتہ، مدراس، کانپور اور آگرہ میں مقیم تھے، اُن سب نے مل کر تقریباً سترہ صد روپے کی رقم جمع کی۔ بقیہ رقم محترم بانی صاحب نے ادا کردی۔ بعدازاں 1941ء میں جب مسجد تعمیر ہونے لگی تو سب احباب نے دل کھول کر چندہ دیا اور محترم حاجی میاں تاج محمود صاحب کی سرپرستی اور محترم صدیق بانی صاحب کے چھوٹے بھائی محترم میاں محمد یوسف صاحب بانی کی نگرانی میں مسجد تعمیر ہوگئی۔
جب 1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا اور مختلف شہروں میں جلسوں کے لئے تشریف لئے گئے تو جناب والد صاحب نے کلکتہ کی جماعت کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ کلکتہ کی جماعت بھی حضور کی خدمت میں درخواست کرے کہ حضور کلکتہ تشریف لائیں۔ نیز یہ تجویز بھی دی کہ حضور کی کلکتہ آمد کے لئے کوئی شایان شان تقریب بھی پیدا کرنی چاہئے مثلاً مسجد کے لئے زمین خریدی جائے اور حضور کو مسجد کے سنگ بنیاد کے لئے درخواست دی جائے۔ اُس وقت کلکتہ میں امیر جماعت مکرم چوہدری انوار احمد کاہلوں صاحب تھے۔ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’’میں جب کلکتہ میں امیر تھا تو سیٹھ محمدصدیق بانی صاحب اور اُن کے بھائی میاں محمد یوسف صاحب بانی نے تجویز پیش کی کہ ہمیں کرائے کی جگہوں پر نمازیں پڑھنے کی بجائے اپنی مسجد بنالینی چاہئے۔ دونوں بھائیوں نے پچیس ہزار روپے کی خطیر رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ اتنی بڑی رقم تھی جو میری تین سال کی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی‘‘۔ اگرچہ زمین تو اُنہی دنوں خرید لی گئی لیکن ملکی تقسیم کی وجہ سے حضورؓکو دعوت دینے کے منصوبہ پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ جب حالات سازگار ہوگئے تو محترم بانی صاحب نے مسجد کی تعمیر کے لئے پھر تحریک شروع کی اور 1963ء میں ایک خوبصورت مسجد اور مربی ہاؤس تعمیر ہوگئے۔
اسی طرح مدراس کی احمدیہ مسجد کے لئے بھی آپ نے گرانقدر رقم ادا کی۔ نیز قادیان میں اپنے گھر کے قریب واقع دارالبرکات اور دارالفضل کی مساجد کے لئے پنکھوں اور دیگر ضروریات کا اہتمام بھی آپ کرتے رہے۔
درویشی کے ابتدائی دَور میں درویشان کے علاج معالجہ کی بہت مشکلات تھیں۔ خوش قسمتی سے درویشان میں ایک ڈاکٹر (کیپٹن بشیر احمد صاحب) تو موجود تھے لیکن دوائیاں اور دوسرا سامان میسر نہ تھا۔ محترم بانی صاحب کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے ضروری طبّی سامان اور ادویات کی فہرست منگوائی اور کلکتہ سے خرید کر یہ اشیاء بھجوادیں اور تین چار سال تک تمام ادویات وغیرہ کلکتہ سے باقاعدگی کے ساتھ بھجواتے رہے۔ جب حالات قدرے بہتر ہوگئے تو پھر ہر سال ادویات کے لئے رقوم بھجوادیتے اور قادیان والے امرتسر سے دوائیاں منگوالیتے۔ آپ نے مریضوں کو امرتسر یا بٹالہ وغیرہ لے جانے کے لئے ایک وین بھی کلکتہ سے خرید کر قادیان بھجوادی۔ چند سال بعد جب اس وین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تو ایک نئی ایمبیسیڈر کار خرید کر بھجوادی۔
اسی اثناء میں فضل عمر ہسپتال ربوہ میں تین کمروں کی تعمیر کا خرچ آپ نے ادا کیا اور ہسپتال کے لئے ایک ایمبولینس بھی خرید کر بھجوائی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاندان کو توفیق دی کہ فضل عمر ہسپتال کے چلڈرن وارڈ اور ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی تعمیر کا پورا خرچ ادا کیا۔ بعدازاں بیگم زبیدہ بانی ونگ کا مکمل خرچ ادا کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے بچوں کو دی۔ طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھی گرانقدر خدمت کی توفیق ملی۔ پھر کراچی میں آنکھوں کے ہسپتال میں صدیق بانی ونگ اور بیگم زبیدہ بانی ڈینٹل سرجری بھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ مِٹھی کے المہدی ہسپتال میں صدیق بانی آئی یونٹ وہاں کے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ نیز آپ کی طرف سے صدیق بانی گولڈ میڈل اور سکالرشپ کی سکیم 2003ء میں جاری کی گئی۔ آپ کے خاندان کی طرف سے منیربانی تعلیمی قرضہ کی سکیم بھی جاری ہے۔
مکرم سید نور عالم صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ کلکتہ لکھتے ہیں کہ 1964ء میں جنوری میں کلکتہ میں ہندو مسلم شدید فسادات ہوئے اور کرفیو لگ گیا۔ احمدیہ مسجد میں چھ سات احمدی محصور ہوکر رہ گئے۔ کئی دن ہر روز صبح آٹھ بجے جبکہ کرفیو دو گھنٹے کے لئے اٹھا لیا جاتا، بانی صاحب اپنے تینوں بیٹوں میں سے دو بیٹوں کو باری باری ہماری خیریت دریافت کرنے بھیجتے رہے۔ فسادات کی وجہ سے قریباً سو مسلمانوں کا ایک قافلہ آیا جسے بانی صاحب نے اپنے مکان کے ایک حصہ میں ٹھہرا لیا اور حالات معمول پر آنے تک اُن کے خورونوش کا انتظام خود فرماتے رہے۔
مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری درویش ایڈیٹر اخبار بدر نے لکھا کہ: آپ اپنی کسی بھی مالی خدمت کو اخبار میں نمایاں طور پر شائع کرانے کے حق میں نہ تھے بلکہ ’’سِرًّا‘‘ پر زیادہ عمل تھا اور ادارہ بدر کو آپ نے تاکید کررکھی تھی کہ کسی بھی ایسے اعلان میں آپ کا نام قطعاً شائع نہ کیا جائے۔ بلاشبہ دنیا میں تو آپ نے اپنی صدہا نیکیوں کی اشاعت نہیں کروائی لیکن آپ کے اعمال نامہ میں ان کا اندراج ضرور ہوچکا اور آپ عنداللہ ان کابہترین اجر بھی پارہے ہوں گے۔
1963/64ء میں الفضل میں یہ اعلان شائع ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں مرکزی مسجداقصیٰ کی تعمیر کے لئے منظوری عطا فرمائی ہے اور خرچ کا اندازہ ایک لاکھ ہے۔ اُن دنوں آپ کے مالی حالات اچھے نہ تھے۔ تقسیم ملک کے اثرات ابھی جاری تھے۔ اس کے باوجود اعلان پڑھ کر آپ کے گھر کے تمام افراد کی یہ خواہش تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اس مسجد کی تعمیر کا سارا خرچ ادا کرنے کی توفیق دے دے تو یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی ہوگی۔ لیکن اپنے حالات کا بھی سب کو اندازہ تھا۔ تین چار دن تک گھر میں یہی موضوع زیربحث رہا اور پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے سب گھر والوں کے مشورہ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو خط لکھا کہ آپ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ہمارا وعدہ عرض کریں اور سفارش کریں کہ اس مسجد کا سارا خرچ صرف ہمیں ادا کرنے کی اجازت مل جائے نیز اس بات کو ظاہر نہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت میاں صاحبؒ کی طرف سے یہ اطلاع آگئی کہ حضورپُرنور نے آپ کی درخواست قبول فرمالی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اخراجات کا تخمینہ بڑھ کر دو لاکھ اور بعدازاں تین لاکھ ہوگیا۔ اس موقع پر کہا گیا کہ چونکہ اخراجات اصل تخمینہ سے بڑھ گئے ہیں اس لئے اگر آپ اپنی پیشکش واپس لینا چاہیں تو آپ کو اس کی اجازت ہے۔ آپ کے جواب سے پہلے ہی الفضل میں یہ اعلان بھی شائع ہوگیا کہ چونکہ مرکزی مسجد اقصیٰ کے لئے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں اس لئے جو احباب اس میں حصہ لینا چاہیں اپنے وعدے بھجوا سکتے ہیں۔ یہ اعلان پڑھ کر آپ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ نے فوری طور پر حضرت میاں طاہر احمد صاحبؒ سے رابطہ کیا کہ میں تو پہلے ہی عریضہ بھجواچکا ہوں کہ جتنا بھی خرچ آئے گا انشاء اللہ مَیں ادا کروں گا پھر یہ اعلان الفضل میں کیوں شائع ہوا ہے۔ حضرت میاں صاحب کا جواب آیا کہ آپ کا خط موصول ہوگیا تھا لیکن دفتر کے کسی کارکن کی غلطی کی وجہ سے حضورؓ کی خدمت میں پیش نہ کیا جاسکا جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی ہوئی۔ چنانچہ الفضل میں ایک بار پھر یہ اعلان شائع ہوا کہ جس دوست نے پہلے وعدہ کیا تھا وہی سارے اخراجات کی ادائیگی کریں گے احباب اس مسجد کی مد میں وعدے نہ بھجوائیں۔ اس مسجد کے لئے وعدہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی آپ پر بے حساب بارش ہوئی۔
اللہ تعالیٰ محترم صدیق بانی صاحب کی نیکیوں اور خدمات کے طفیل ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین