محترم مرزا غلام قادر شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری2025ء)

یہ تاج غلام قادر کے سر پر رکھ دو

(ملفوظات جلد 5صفحہ159،158۔ایڈیشن1988ء)

صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے 2013ء نمبر1 میں مکرمہ نادرہ یاسمین رامہ صاحبہ کے قلم سے محترم مرزا غلام قادر شہید کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
14؍اپریل 1999ء کو چار بدباطن دہشتگردوں نے شہید مرحوم کو ان کی زمینوں سے اغوا کرلیا۔ ان کا مقصد شیعہ جلسے میں فتنہ فساد پیدا کرکے جماعت احمدیہ کو ملوث کرنا تھا۔ صاحبزادہ صاحب نے اغوا کنندگان کی باتوں سے اندازہ لگا کر اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ اپنی ذہنی اور علمی طاقتیں تو وہ پہلے ہی خدمتِ دین میں لگا چکے تھے، ایک جان کا قرض باقی تھا سو وہ بھی ادا کردیا۔
شہید مرحوم کی والدہ محترمہ صاحبزادی قد سیہ بیگم صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ پندرہ سال کی عمر سے بھی چھوٹی عمر میں اپنی نیک نسل کے لیے دعائیں مانگتی تھی کہ میری نسل سے حضرت مسیح موعودؑ کے وارث پیدا ہوں اور مَیں خواتینِ مبارکہ میں شامل ہوجاؤں۔ ہر وقت ذکرِ الٰہی اور درود شریف وردِ زبان رہتا۔ مکّہ مدینہ میں بھی تڑپ تڑپ کر خداتعالیٰ سے بھیک مانگنا یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے قبولیتِ دعا کی بشارتیں بھی عطا فرماتا تھا۔ ایک دفعہ شادی سے پہلے تہجد کی نماز پڑھ رہی تھی۔ میری عمر اس وقت بیس سال تھی اور ابھی میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ نفل پڑھنے کے دوران دیکھا آسمان سے ایک روشن چیز تیزی سے نیچے آئی ہے اور میری گود میں آکر غائب ہوگئی۔

حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ

مگر سب سے زیادہ روحانی سرور مجھے اس وقت حاصل ہوا جب میری شادی کے لیے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے استخارہ کرنے کے بعد خط میں لکھا کہ صبح کی اذان کے بعد سنتیں ادا کر رہا تھا کہ اس حالت ہی میں حضرت مسیح موعودؑ بحالتِ کشف سامنے آگئے۔ اور عجیب منظر دکھایا گیا کہ آپؑ کے وجودِ اقدس کی شکلیں قطار کی صورت میں میرے سامنے سے گزرنے لگیں گویا بجائے ایک وجود کے بہت سے وجود نظر آئے۔ اس کے بعد یہ نظارہ عجیب پیش کیا گیا کہ آپ عزیز مجید احمد سلمہ اللہ کو اپنی بغل میں لے کر کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے حضرت مسیحِ پاک عزیزہ قدسیہ کو اپنی بغل میں لے کر آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور پھر بتایا جاتا ہے کہ عزیزہ قدسیہ کو خواتینِ مبارکہ میں داخل کردیا گیا ہے۔ مبارک مبارک۔
یہ وہ مبارک ماں ہے کہ جس کی پیدائش سے پہلے اُن کی والدہ یعنی حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو بھی خداتعالیٰ نے بشارتیں عطا فرمائی تھیں۔ چنانچہ آپؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن دعا مانگ رہی تھی کہ آواز آئی ؎

حسنِ یوسف دمِ عیسٰیؑ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

مزید فرماتی ہیں کہ جب صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کی پیدائش ہوئی تو کچھ اداسی ہوئی کیونکہ پہلے سے تین بیٹیاں تھیں اور خدا تعالیٰ سے بیٹے کے لیے دعا کیا کرتی تھیں۔ لیکن اسی کیفیت میں یہ آواز آئی جیسے اللہ تعالیٰ تسلی دے رہا ہو کہ ’’بیٹا نہیں ہوا لیکن اس بیٹی کے ذریعہ خداتعالیٰ ایک ہمہ تن موصوف بیٹا دے گا دعائیں ضائع نہیں ہوئیں۔‘‘
پھر ایک دن آپؓ کو دعا کرتے ہوئے یہ آواز آئی جیسے کوئی سورۃ مریم کی آیات 32تا34 پڑھ رہا ہے: ’’اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید ہے اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے۔‘‘
21؍جنوری 1962ء جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات یہ بچہ پیدا ہوا تو اس کے دادا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کان میں اذان دی اور غلام قادر احمد نام رکھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے الہامات کی کاپی میں آپؑ کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا ایک الہام یوں ہے: ’’غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھرگیا ردّاللّٰہ اِلیَّ۔‘‘
والدہ محترمہ رقمطراز ہیں کہ یہ ایک خوبصورت شاندار ماتھے والا بچہ تھا۔ بالوں اور چہرے کے رنگ کا خوبصورت امتزاج، گلابی رنگت، خوبصورت نقش۔ مجھے آج تک بچپن کا کوئی واقعہ بھی یاد نہیں کہ کوئی ضد یا بری حرکت کی ہو شرمیلی سی مسکراہٹ سے فرمائش کردیتا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے شہادت کے بعد خطبہ جمعہ میں فرمایا: شہید کے تعلیمی کوائف اس کی ذہنی اور علمی عظمت کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ لیکن اصل خراج تحسین تو ان کی وقف کی روح ہے جو انہیں پیش کرتی رہے گی اور ہمیشہ ان کو زندہ رکھے گی۔ان کی تعلیم پہلے ربوہ اور پھر ایبٹ آباد پبلک سکول میں ہوئی جہاں سے یہ F.Sc میں پشاور یونیورسٹی میں اوّل قرار پائے۔ پھر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں B.Sc کی پھر امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں M.Sc کیا اور پھر پاکستان پہنچ کر اپنے عہد پر پورا اترتے ہوئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ ربوہ میں کمپیوٹر شعبہ کا آغاز کرنے اور پھراسے جدید ترین ترقی یافتہ خطوط پر ڈھالنے کی ان کو توفیق ملی۔
شہید مرحوم کے بھائی صا حبزادہ مرزا محمود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اس نے امریکہ آتے ہی جاب کی تلاش شروع کردی اور تیسرے ہی روز مَیں نے اسے مخروطی ٹوپی پہنے ایک برگر شاپ پر Patties بنا تے دیکھا۔ میں نے کئی اَور لوگ دیکھے ہیں جو یہاں امریکہ آئے تو انہیں اپنی انا کو جھکانے میں بڑی مشقّت کرنی پڑی اور وقت بھی کافی صرف ہوا۔
اسی بھائی نے اُن کی زندگی میں اپنی والدہ کے نام ایک خط میں شہید مرحوم کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ مَیں اس کا شمار خاندان کے بزرگوں میں کرتا ہوں بلکہ اگر یہ کوئی دعویٰ بھی کرے تو ایمان لے آؤں گا۔

انجینئرنگ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں 24؍ستمبر 1983ء کو شہید مرحوم نے اپنی زندگی وقف کردی۔ ان کی امی محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ قادر کے وقف سے وہ خوشی میسر آئی کہ سات بادشاہتیں بھی مل جاتیں تب بھی نہ ملتی۔ قادر نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا تو آپؑ نے پوچھا: تم کس کے بیٹے ہو؟ جواب دیا: قدسیہ کا۔ مَیں نے خواب سن کر کہا: قادر! تم نے میرا نام اس لیے لیا ہے کیونکہ میں نے تمہارے وقف اور خادمِ دین ہونے کے لیے بےحد دعائیں کی ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے زندگی وقف کرنے کی درخواست پر فرمایا: ’’تمہارے وقف کی پیشکش کی اتنی خوشی ہوئی کہ تم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ خوشی کے آنسوؤں سے آنکھیں چھلک گئیں۔ حضرت عموں صاحبؓ کی نسل میں سے جنہوں نے مجھے بہت پیار دیا اور جن سے مجھے بہت پیار تھا، تم دوسری سیڑھی کے بچوں میں غالباً پہلے ہو جسے وقف کی توفیق مل رہی ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔ جس طرح تم نے آج میرا دل راضی کیا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ اس سے بڑھ کر راضی رکھے…۔‘‘
شہید مرحوم نے اپنا عہد قابلِ رشک انداز میں نبھایا۔ جماعت کے کام کو جس طرح کمپیوٹرائزڈ کیا اس کے بیان کے لیے ایک کتاب چاہیے۔ اپنے دستورِ حیات میں اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہر فعل سے رضائے باری تعالیٰ مقصود رکھی۔ چندہ باقاعدگی سے ادا کرتے بلکہ بڑھاکر دیتے۔ مالی قربانی کی اہمیت کااندازہ تو اسی سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ آپ کی تعلیم اتنی تھی کہ اس وقت پاکستان میں ایسے تعلیم یافتہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے مگر آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

شہید مرحوم کی والدہ بیان فرماتی ہیں: ہم انجمن کے مکان میں رہتے تھے کافی عرصہ منجھلے ماموں جان (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) اس مکان میں رہے تھے۔ بہت بابرکت مکان تھا۔ بہت دعائیں ہوتی تھیں مَیں چلتے پھرتے یہ پڑھتی تھی ؎

میرا بیٹا جواں ہوگا خدا کا اک نشاں ہوگا
بڑھے پھولے گا گلشن میں وہ اس کا پاسباں ہوگا

سوچتی ہوں وہ جوان ہوا اور خدا کا نشان بھی ہوا (حضرت مسیح موعودؑ کے الہام کا مصداق ٹھہرا) گلشن میں بڑھا پھولا اور گلشن کی پاسبانی کرتے ہوئے جان دی کہ یہی حق پاسبانی کا تھا۔ وہ میرے گھر کا چودھویں کا چاند تھا جو چودہ شہادت کو شہید ہوگیا۔ چودہویں کے چاند کی طرح وہ بھی ہر لحاظ سے اپنے عروج پر تھا ؎

را ضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو

صاحبزادہ صاحب اپنے والدین کی احساسِ ذمہ داری سے دیکھ بھال کرتے۔ چھوٹے چھوٹے کام بھی فکر سے کروا دیتے۔ زمینوں کا کاروبارآپ کے تجربے میں شامل نہیں تھا۔ مگر والد کے کہنے پر ان کی فکر کو کم کرنے لیے اس عمدگی سے اس کام کو سنبھالا، اتنی انتھک محنت کی کہ چند سالوں کے اندر جو زمین پہلے خسارے میں جا رہی تھی اس نے خا صا منافع دینا شروع کر دیا۔ شہا دت سے صرف دو دن پہلے والدین کے گھر کے ہال کمرے میں ایک پرانا پنکھا اترواکر اس کی جگہ دو نئے پنکھے لگوادیے۔ جو تعزیت کے لیے آنے والوں کو گرمی میں ہوا دے رہے تھے مگر پنکھے لگوانے والا ابدی نیند سورہا تھا ؎

اک نفسِ مطمئن لیے، اپنے لہو میں تر
قادر کا وہ غلام تھا قادر کے گھر گیا
اس کے لیے بھی دوستو کوئی دعائے صبر
جس دل شکستہ شخص کا نورِ نظر گیا

صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب

شہید مرحوم کے والد صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب لکھتے ہیں: گھاؤ بہت گہرا ہے، دکھ اور اس کی کسک اَور بھی زیادہ گہری۔ بعض دفعہ تو مَیں ان خنجروں کے وار جو اُن ظا لموں نے اس معصوم پر چلائے اپنی پشت پر محسوس کرتا ہوں تو رات کی تنہائیوں میں میرا تکیہ آنسوؤں سے تر ہوجاتا ہے۔ اس میدان میں جب نظر اٹھاکر دیکھتا ہوں تو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی قربانی کے بعد بڑے بڑے عظیم الشان روشن میناروں سے شاہراہِ قربانی منور نظر آتی ہے۔ نوحہ کرنا ہو تو کس کس پرکریں۔ میں کیوں صرف قادر کی قربانی کا ہی تذکرہ کروں۔ دوسرے بھی تو کسی کے باپ، کسی کے بیٹے اور کسی کے بیوی بچے تھے۔ انہیں بھی ان سے اسی طرح محبت ہوگی جس طرح ہمیں قادر عزیز تھا۔ قادر کے خون کا رنگ دوسرے جاں نثاروں کے رنگ سے مختلف نہ تھا۔ اگر فرق تھا تو یہ کہ اس کی رگوں میں مسیح موعود علیہ السلام کا لہو دوڑ رہا تھا۔ اس لہو کی اپنی قیمت ہے۔ جب تک تُو زندہ رہا تُو نے اس خون کی حرمت کو پہچانا اور اس کی حفاظت کی اور آخر میں اسی کی راہ میں بہا کر اس کا حق ادا کر دیا اور اپنے کمزور اور عاصی والدین کے لیے باعثِ افتخار بنا ۔
شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ نصرت صاحبہ لکھتی ہیں کہ یہ جملہ اپنے نیک نصیب کے لیے دعا کرتے ہوئے میری دعا میں شامل رہتا تھا کہ ’’مولا کریم میرے ہم عمروں میں جو تجھے سب سے پیارا ہو اس سے میرا نصیب باندھنا ۔‘‘ صاحبزادہ غلام قادرصاحب کا رشتہ آنے پر استخاروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے شرح صدر عطا فرما دی۔ چنانچہ 1986ء میں اس نکاح کا اعلان حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے مسجد فضل لندن میں فرمایا۔
مزید لکھتی ہیں: قادر کی طبیعت ایسی تھی کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں اکثر اسے کہتی تھی قادر! تم آدھا فرشتہ ہو اور وہ خاموشی سے مسکراتا رہتا تھا۔ سادہ مزاج، بےتکلّف، سادگی پسند، سچا اور کھرا انسان تھا۔ اس نے ایک دن مجھے بیٹھ کر سمجھایا تھا کہ اپنے گھر کو سادہ رکھنا مجھے زیادہ سجے سجائے گھر پسند نہیں۔ اس نے کوئی خواہشات نہیں پالی ہوئی تھیں۔ جماعت سے بہت محبت رکھتا تھا۔ اس کی باتوں سے مَیں نے اندا زہ لگایا کہ اس نے انجینئرنگ کی لائن کو چھوڑ کر کمپیوٹر میں M.S کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ جماعت کو آئندہ اس کی ضرورت ہوگی۔ طبیعت میں مزاح بھی بہت تھا، بےساختہ بات کرتا تھا۔ اس کے بعض لطیفے تو میں یاد کرکے شاید ساری عمر ہنستی رہوں گی۔ وہ میرا بہترین دوست تھا۔ میری خوشیوں کو ترجیح دینے والا۔ اپنے بچوں سے بےحد پیار کرنے والا باپ تھا۔ بچوں میں اس کی جان تھی۔ بچے اس کو اس قدر یاد کرتے ہیں کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ میں نے خود چھوٹی عمر سے یتیمی کا دکھ دیکھا ہوا ہے مَیں جانتی ہوں کہ یہ دکھ بعض دفعہ کس قدر بےقرار کردیتا ہے۔ ایک بیٹا سارا دن قادر کی تصویرساتھ لے کر پھرتا ہے۔ کرشن (بڑا بیٹا) چند دن ہوئے مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ماما! قیامت کب آئے گی؟ ماما دعا کرو قیامت جلدی آجائے میرا بابا سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے۔ تین چار مہینوں سے قادر کی طبیعت میں نمایاں تبدیلی آئی تھی۔ گھر میں بھی زیادہ وقت دینے لگا تھا اور گھر کے جو کام رکے ہو ئے تھے وہ بھی کر دیے۔ آخری دو دن تو دفتر سے آنے کے بعد اس نے تقریباً سارا وقت ہمارے ساتھ گزارا۔ شہادت کے بعد جو دشمن کو مات دینے والی فاتحا نہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر تھی وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ خلیفۂ وقت نے اتنے پیار سے اس کا ذکر کیا اور مسیح موعودؑ پر کیا ہوا الہام ’’غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھرگیا‘‘ اس پر چسپاں کیا۔ وہ یہ سب سن لیتا تو خوشی سے جھوم اٹھتا۔ اے خدا! قادر کے آنگن کے یہ چار پھول جن کی ذمہ داری اب مجھ پر آن پڑی ہے اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں میری راہنمائی فرمانا۔ ان سب کو خادمِ دین بنانا اور اس کی طرح بہادر بھی۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں