ائمّہ حدیث و اصول حدیث

ائمّہ حدیث کی زندگی کے حالات کے مطالعہ سے اس امر کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ حدیثوں کے مؤلف کس پایہ کے انسان تھے اور دین کے علوم کی فراہمی کے لئے جس تقویٰ، دیانت اور روحانیت کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ودیعت کی ہوئی تھی۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ قرآن و حدیث کے علم کو ہی کافی سمجھتے تھے چنانچہ جب حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کو قرآن کریم اور صحیح بخاری پڑھادی تو فرمایا: لو میاں! دنیا بھر کے علوم آگئے۔ باقی جو کچھ ہے وہ اس کی تشریح ہے یا زائد۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29 و 30؍ستمبر 1999ء میں مختلف ائمّہ حدیث کے حالات زندگی کا بیان مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف کی قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت امام مالکؒ
حضرت امام مالکؒ پہلے امام ہیں جن کی کتاب نے قبولیت عامہ کی سند حاصل کی۔ آپؒ کی کتاب ’’مؤطا‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کتاب جس پر اتفاق کیا گیا۔ امام مالکؒ نے یہ کتاب مختلف دیار کے ستر علماء کے سامنے پیش کی اور سب نے اس پر اتفاق کیا۔ بعض نے صحیح بخاری پر اس کو ترجیح دی ہے۔ امام مالکؒ نے دس ہزار میں سے اس کتاب کے لئے 1720؍ احادیث منتخب فرمائیں۔ اس کتاب کی قریباً اٹھائیس شروح لکھی گئیں۔ اس کے علاوہ آپؒ نے متعدد کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ آپؒ کا ذکر خیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 16؍جنوری 98ء کے شمارہ کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
حضرت امام مالکؓ 93ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور 179ھ میں آپؒ نے وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ آپؒ کے شاگردان خاص کی تعداد تیرہ سو بیان کی جاتی ہے جن میں خطیب بغدادی، قاضی عیاض اور حافظ سیوطیؒ بھی شامل ہیں۔ آپؒ سے استفادہ کرنے والوں میں امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، سفیان ثوریؒ، اوزاعیؒ، قاضی ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام عبداللہ بن مبارک، امام احمدؒ بن حنبل، امام مسلمؒ، امام ترمذیؒ، ابو داؤدؒ، نسائیؒ جیسے مؤلفین شامل ہیں۔ آپؒ کے والد حضرت انسؒ بھی ایک بلند پایہ محدث تھے۔
حضرت امام مالکؒ نے سترہ سال کی عمر میں درس دینا شروع کیا۔ آپؒ کی مجلس تدریس کو دیکھ کر کسی نے یہ شعر کہے تھے کہ ’’آپؒ سے جب سوال کیا جائے تو آپؒ جواب دیتے ہیں لیکن آپؒ کی ہیبت کی وجہ سے بار بار سوال و جواب نہیں کیا جاسکتا اور سوال کرنے والے گردنیں ڈالے خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ مستحق اطاعت ہیں۔ وہ بادشاہ نہیں لیکن بادشاہوں جیسی عزت کے مالک ہیں‘‘۔
آپؒ زبردست حافظہ کے مالک تھے۔ فرماتے تھے کہ میرے دماغ میں آج تک کوئی چیز آکر نہیں نکلی۔ ایک بار امام زہریؒ نے چالیس احادیث املا کروائیں۔ دوسرے دن مجلس میں جب انہوں نے آپؒ سے پوچھا کہ احادیث نوٹ کیوں نہیں کرتے تو آپؒ نے تمام احادیث زبانی سنادیں۔
آپؒ نے علم کو نہایت مشقت اور محنت سے حاصل کیا۔ جس چیز کے بارہ میں نہ جانتے تو فرمادیتے کہ نہیں جانتے۔ اگر کسی مسئلے میں کوئی حدیث علم میں آتی تو اپنے علم اور اجتہاد کو اس کے ماتحت کرتے۔ صبح کی نماز کے بعد طلوع شمس تک مصلے پر بیٹھے وظائف میں مشغول رہتے۔ تدریس سے جو وقت فارغ ملتا وہ تلاوت قرآن میں صرف ہوتا۔ مدینہ سے بہت محبت تھی، یہاں سے باہر نہ جاتے اور مدینہ میں سواری پر سوار نہ ہوتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میری سواری کے پاؤں اس مٹی پر پڑیں جس میں آنحضرتﷺ مدفون ہیں۔
حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ
آپؒ کا رتبہ ائمہ حدیث میں تمام ائمہ سے زیادہ بلند ہے۔ آپؒ کی کتاب صحیح بخاری کے بارہ میں کہا جاتا ہے اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ۔آپؒ خود فرماتے ہیں کہ اُس وقت تک آپؒ کسی حدیث کو نہیں لیتے جب تک اُس کے راوی کے حالات معلوم نہ کرلیں اور قرآن و سنت سے اس روایت کی تائید نہ کرلیں۔
آپؒ 194ھ میں ایک ایرانی خاندان میں پیدا ہوئے جن کے مورث اعلیٰ بروزبہ کا مذہب زرتشتی تھا۔ 256ھ میں آپؒ کی وفات ہوئی۔ آپؒ بچپن میں نابینا ہوگئے تھے اور آپ کی والدہ نہایت گریہ و زاری سے آپؒ کی صحت کے لئے دعا کیا کرتی تھیں۔ ایک رات انہوں نے خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو دیکھا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیری گریہ و زاری کے سبب تیرے فرزند کو بصارت عطا فرمائی۔ صبح بیدار ہوئیں تو بیٹے کی آنکھیں روشن تھیں۔
آپؒ کی صلاحیتیں ایسی تھیں کہ دس سال کی عمر میں بھی جس حدیث کو سنتے، اُسے یاد کرلیتے۔ گیارہ سال کی عمر میں بخارا کے عالم داخلی کی حدیث کی غلطی نکالی۔ سولہ سال کے تھے کہ عبداللہ بن مبارک اور وکیع کی تمام کتب یاد کرلیں۔ اسی عمر میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور دو سال تک مکّہ معظمہ میں ہی تحصیل علم کے لئے قیام فرمایا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں تصنیف کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب نظر اتنی تیز تھی کہ اگر رات کو بھی کوئی حدیث یاد آتی تو اُٹھ کر چاندنی میں لکھ لیتے۔ حافظہ بھی غضب کا تھا۔ ایک دفعہ متعدد احادیث کی سند تبدیل کرکے آپؒ کے حافظہ کا امتحان لیا گیا تو آپؒ نے تمام احادیث کی سند درست کروائی اور صحیح مفہوم بھی بیان فرمایا۔ آپؒ نے چھ لاکھ جمع شدہ احادیث میں سے صرف چند ہزار کا انتخاب فرمایا۔ جب کسی حدیث کو کتاب میں لکھنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے وضو کرکے دو رکعت نفل ادا کرتے اور پھر لکھتے۔ آپؒ حافظ قرآن بھی تھے۔
عباسی خلیفہ کی طرف سے بخارا کے امیر خالد بن احمد ذہلی نے حضرت امام بخاریؒ سے کہا کہ میرے بچوں کو گھر پر آکر پڑھادیا کریں۔ آپؒ نے فرمایا کہ یہ حدیث کا علم ہے اور مَیں اسے بادشاہوں کے دروازوں تک لے جاکر ذلیل نہیں کرنا چاہتا، اپنے بیٹوں کو یہاں بھیج دو۔ اُس نے کہا کہ پھر میرے بیٹوں کو دوسروں کے ساتھ نہ بٹھائیں، مَیں نہیں چاہتا کہ ان کے ہم نشین جولاہے اور دھنئے ہوں۔ آپؒ نے فرمایا کہ علم پیغمبرﷺ کی میراث ہے، اس میں کسی کے لئے تخصیص نہیں ہوسکتی۔ اس پر امیر بہت رنجیدہ ہوا اور اُس نے بعض علماء کے ساتھ مل کر آپؒ کے علمی مسلک پر طعن کرکے آپؒ کو بخارا سے نکلوادیا۔ آپؒ نے دعا کی کہ اے باری تعالیٰ! تُو اس کو بھی اسی میں مبتلا کر، جس میں اس نے مجھے مبتلا کرنا چاہا ہے۔ چنانچہ ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ امیر کو کسی غلطی پر معزول کردیا گیا اور گدھے پر بٹھاکر شہر میں پھرایا گیا۔
امام بخاریؒ بخارا سے نیشاپور گئے اور وہاں سے سمرقند کے قریب ایک گاؤں خرتنگ پہنچے۔ اس طرح آپؒ کو بہت تکلیف پہنچی۔ آپؒ نے آسمان کی طرف منہ کیا اور عرض کیا: اَللّٰھُمَّ ضَاقَتْ عَلَیَّ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ۔ چنانچہ اسی صحرا نوردی میں باسٹھ سال کی عمر میں آپؒ کا انتقال ہوگیا۔
تحصیل علم میں امام بخاریؒ پر ایسے وقت بھی آئے کہ تین تین دن تک جنگل کی جڑی بوٹیوں پر گزارہ کرنا پڑا۔ آپؒ فرماتے تھے کہ آپؒ نے ساری عمر کسی کی غیبت نہیں کی۔
’’صحیح بخاری‘‘ کی اہمیت و مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ ہر دور کے علماء نے اس پر شروح و حواشی لکھے جن کی تعداد ایک سو سے بھی تجاوز کرگئی ہے جن میں سے سب سے زیادہ شہرت ’’فتح الباری‘‘ کو ملی جو حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانیؒ نے تصنیف کی۔ ’’صحیح بخاری‘‘ کے بارہ میں ایک مختصر مضمون قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 2؍اکتوبر 98ء کے شمارہ میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ
آپؒ امام بخاریؒ کے شیوخ میں سے ہیں۔ آپؒ 164ھ میں قبیلہ بنوشیبان میں محمد بن بلال کے ہاں پیدا ہوئے۔ بچپن میں قرآن کریم حفظ کیا۔ چودہ سال کی عمر میں احادیث کی تدوین کا آغاز کیا۔ آپؒ کی کتاب مسند کہلاتی ہے یعنی اس میں روایات کو مضمون کی ترتیب کی بجائے صحابہؓ کے اسماء کی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ آپؒ بہت بڑے فقیہ تھے لیکن فقہ پر حدیث غالب تھی چنانچہ کسی بھی مسئلہ میں صحابہؓ کے بیان کو ترجیح دیتے تھے اور لوگوں کو فقہ کے لکھنے سے منع فرماتے کہ مبادا وہ حدیثوں سے بے نیازی برتیں۔ آپؒ کی فقہ کی بنیاد یُسر یعنی آسانی پر ہے۔ آپؒ نے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا۔ اگر کسی مسئلہ میں دو صحابہ سے آراء بیان ہوں تو آپؒ کا مسلک ہے کہ کسی پر بھی عمل کرلیا جائے کیونکہ ہمیں یہ حق نہیں کہ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیں۔ آپؒ کا مختصر ذکر خیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 23؍فروری 96ء کے شمارہ کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
مامون الرشید نے عقیدہ خلق قرآن نہ رکھنے کی وجہ سے آپؒ کو قید و بند میں ڈالا، معتصم نے سزائے قید دی، بیڑیاں پہنائیں اور کوڑوں سے پٹوایا۔ واثق نے بھی بندشیں لگائیں اور زندگی تلخ کردی لیکن آپؒ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔
تواضع اور خاکساری آپؒ کا شیوہ تھا۔ فرمایا کرتے اگر مجھے راستہ ملے تو مَیں کسی نامعلوم مقام کی طرف بھاگ جاؤں یہاں تک کہ میرے ذکر کا سلسلہ ہی بند ہوجائے۔ یا مکہ کی کسی گھاٹی میں چھپ جاؤں یہاں تک کہ کوئی مجھے یاد نہ کرے۔ مَیں شہرت کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا، اس سے بچنے کے لئے صبح و شام موت کی آرزو کرتا رہتا ہوں۔ آپ نے 12؍ ربیع الاول 241ھ کو وفات پائی۔ آپؒ کے جنازہ میں آٹھ لاکھ افراد شامل ہوئے۔
آپؒ نے ساڑھے سات لاکھ روایات میں سے تیس ہزار منتخب کیں۔ 186ھ میں طلب حدیث کے لئے بصرہ، حجاز، یمن، کوفہ کا سفر کیا۔ پانچ مرتبہ بصرہ گئے۔ پانچ حج بھی کئے جن میں سے تین پاپیادہ کئے۔ مشقت کا عادی بننے کے لئے بعض دفعہ تکیہ کی جگہ اینٹیں استعمال کرتے۔ راستہ میں پونجی ختم ہوجاتی تو مزدوری کرلیتے۔ کوئی مدد کرنا بھی چاہے تو قبول نہ فرماتے۔
سنت اور ادب نبویؐ کا اتنا خیال تھا کہ چالیس سال کی عمر سے پہلے حدیث کا درس نہ دیا۔ پھر عصر کے بعد مسجد میں درس شروع کیا جس میں روزانہ پانچ ہزار آدمی اوسطاً شامل ہوتے۔ مزاح نہ کرتے، مجلس میں سنجیدگی اور وقار ہوتا۔ مناظرہ اور علم کلام کی موشگافیوں سے منع فرماتے کہ یہ سلف کا طریق نہیں ہے۔ آپؒ کی زندگی فقر و فاقہ سے عبارت تھی لیکن اس کے باوجود دل کھول کر ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔ آپؒ کے والد نے کپڑا بننے کا ایک کارخانہ اور چنددکانیں چھوڑی تھیں جن کے کرایہ پر گزارہ تھا۔ یمن کا قاضی بننے کی پیشکش ہوئی لیکن آپؒ نے ٹھکرادی۔ آپؒ کے نمایاں اوصاف قوت حفظ، کمال علم، صبر و ضبط، گداز قلب اور خدا پر توکل تھے۔ ایک بار سوال کیا گیا: گداز قلب کیسے پیدا ہوتا ہے؟۔ فرمایا: اکل حلال سے۔
آپؒ حضرت امام شافعیؒ کے شاگرد تھے۔ وہ فرمایا کرتے: حدیث کے تم مجھ سے زیادہ عالم ہو، جب تمہیں کوئی حدیث پہنچے تو ضرور بتایا کرو۔
حضرت امام مسلمؒ بن حجاج
آپؒ 202ھ میں پیدا ہوئے۔ کنیت ابوالحسن تھی اور خراسان کے شہر نیشاپور کے رہنے والے تھے جو اُس زمانہ میں محدثین کا پایہ تخت کہلاتا تھا۔ 261ھ میں انسٹھ سال کی عمر میں آپؒ نے وفات پائی۔ بعض نے آپؒ کی کتاب ‘‘صحیح مسلم‘‘ کو ’’صحیح بخاری‘‘ پر حسن ترتیب کے لحاظ سے فضیلت دی ہے۔ آپؒ نے تین لاکھ احادیث میں سے احادیث منتخب فرمائیں اور تدوین میں ذاتی تحقیق کے علاوہ مزید احتیاط یہ رکھی کہ صرف وہی احادیث درج فرمائیں جن کی صحت پر آپؒ کے زمانہ کے دیگر مشائخ کا بھی اتفاق تھا۔ پھر کتاب مکمل کرنے کے بعد اپنے زمانہ کے علل حدیث اور فن جرح و تعدیل کے امام حافظ ابو زرعہؒ کے سامنے پیش کیا اور جس روایت کے متعلق انہوں نے علّت کا اشارہ کیا، آپؒ نے اسے کتاب سے خارج کردیا اور اس طرح پندرہ سال کی محنت شاقہ سے کتاب کی تکمیل ہوئی جس کے بارہ میں آپؒ کی اپنی رائے ہے کہ اگر محدثین دو سو سال تک بھی حدیثیں لکھتے رہیں تب بھی ان کا دارومدار اسی المسند الصحیح پر رہے گا۔
آپؒ کی ملاقات نیشاپور کے سفر میں امام بخاریؒ سے بھی ہوئی اور آپؒ نے دست بوسی کے بعد عرض کیا کہ یا امیرالمومنین! مجھے اجازت دیجئے کہ مَیں آپ کی قدم بوسی کروں۔ لیکن اس تعظیم کے باوجود بعض مسائل اور اصول حدیث میں امام بخاریؒ سے اختلاف بھی کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے ساری عمر کسی غیبت نہیں کی، کسی کو گالی نہیں دی اور کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ علم حدیث کی تحصیل کیلئے عراق، رے، حجاز، بصرہ اور بلخ کا سفر اختیار فرمایا۔ بارہ سال کی عمر میں حدیث کی سماعت شروع کردی۔
آپؒ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں۔ ’’مسلم‘‘ کا مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں آپ کی نظر کتنی گہری ہے۔ آپؒ کی اس بلند پایہ کتاب کی کئی شروح لکھی گئیں جن میں علامہ شرف الدین ابو یحیٰ النووی کی شرح بہت شہرت کی حامل ہے۔
حضرت امام ترمذیؓ
ائمّہ حدیث میں امام بخاریؒ کے شاگرد امام محمد بن عیسیٰ ترمذیؒ کا رتبہ بہت بلند ہے۔ بعض نے آپؒ کو خلیفۃالبخاری کا خطاب بھی دیا۔ آپؒ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کے علاوہ اپنی دوسری کتب میں آپؒ سے روایت بھی کی ہے۔ آپؒکی کتاب صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے۔ اس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ مقلد کو کفایت کرنے والی اور مجتہد کو مستغنی کرنے والی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس گھر میں یہ کتاب ہو گویا اس گھر میں خدا کے نبیﷺ تکلم فرمارہے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً تصنیف کا نادر حصہ شمائل ترمذی اور ابواب الدعوات یعنی آنحضورﷺ کی دعائیں ہیں۔
امام ترمذی 209ھ میں ترمذ میں پیدا ہوئے۔ علم حدیث کی طلب میں بصرہ، کوفہ، واسط، رے، خراسان اور حجاز میں کئی سال گزارے۔ زہد و خوف خدا میں یکتائے زمانہ تھے۔ روتے روتے بینائی کھودی۔ حافظہ کا یہ حال تھا کہ نابینا ہونے کے بعد ایک جگہ سے گزرے تو سر نیچا کرلیا۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ یہاں درخت ہے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ تیس چالیس سال قبل یہاں درخت تھا۔
امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب جب عراق، حجاز اور خراسان کے علماء کے سامنے پیش کی تو بہت پسند کی گئی لیکن ظاہر بینوں نے آپؒ کے عقائد کی بناء پر آپؒ کو ترمذ سے نکال دیا۔ آپؒ کی کتاب کو دیگر کتب احادیث میں عظیم امتیاز حاصل ہے۔ آپؒ نے احادیث کی اقسام (یعنی صحیح اور حسن وغیرہ) بیان کردی ہیں۔ راویوں کے احوال بھی بیان فرمائے ہیں اور مختلف مذاہب بھی بیان فرمائے ہیں۔ راوی کی کنیت، لقب یا نام جو مشہور ہو وہ بھی بیان کیا ہے، متن حدیث میں اختلاف کا ذکر بھی کیا ہے اور حدیث سے استنباط بھی کرتے ہیں اور پھر اپنا عندیہ بھی پیش کرتے ہیں۔ حسن ترتیب میں بھی یہ دیگر کتب سے ممتاز ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں