احمدی مستورات قربانیوں کے میدان میں
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان ملینئم نمبر میں احمدی مستورات کی بے مثال قربانیوں کا بیان کرتے ہوئے محترمہ بشریٰ طیبہ صاحبہ اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ حضرت امّ المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ نے ہر ضرورت کے وقت اپنے زیور اور نقد سے خدمت کرکے ایک پاک نمونہ قائم فرمایا۔ منارۃالمسیح کی تعمیر کے لئے ایک ہزار روپیہ پیش کیا اور اس کے لئے دہلی میں واقع اپنے ایک مکان کو فروخت کردیا۔ الفضل کے اجراء پر اپنی ایک زمین پیش کردی جو قریباً ایک ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔
جب حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان کی عورتوں سے مسجد برلن کی تعمیر کے لئے چندہ کی اپیل کی تو اگرچہ مخاطب خواتین بہت غریب تھیں لیکن ایک ہی دن میں ساڑھے آٹھ ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں چندہ ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک مضمون میں ان قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسکین پٹھان عورت جو اپنے ملک کے بھیڑیا صفت مولویوں کے مظالم سے تنگ آکر قادیان ہجرت کر آئی ہے اور بوجہ ضعف کے سوٹا لے کر بمشکل چل سکتی ہے، اُس نے دو روپے چندہ دیا ہے۔ اسی طرح ایک اور بہت ضعیف پٹھان عورت جو بمشکل اردو کے چند الفاظ بول سکتی تھی، میرے پاس آئی۔ اُس کی ہر چیزاُسے بیت المال سے ملی ہے لیکن اُس نے دو روپے میرے ہاتھ پر رکھ دئیے۔ میرا دل اُس محسن کے احسان کو یاد کرکے جس نے ایک مُردہ قوم میں سے ایسی زندہ اور سرسبز روحیں پیدا کردیں، شکروامتنان کے جذبات سے لبریز ہورہا تھا۔
تاریخ میں ایک اَور مہاجر عورت کا ذکر ملتا ہے جس کے پاس صرف دو بکریاں تھیں اور اُس نے وہی چندہ میں پیش کردیں۔ بیرون از قادیان کی خواتین نے بھی اس تحریک پر والہانہ رنگ میں لبیک کہا۔ مضمون نگار نے تاریخ میں درج ایسی بہت سی خواتین کے نام دیئے ہیں جنہوں نے اپنا سارا زیور اور قیمتی کپڑے بھی پیش کردیئے۔
احمدی خواتین نے اپنے نفس اور جذبات کی قربانی بھی کئی پہلوؤں سے بارہا دی۔ کبھی تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرتے ہوئے انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ کبھی اپنے واقفین زندگی خاوندوں کو برسوں دعوت الی اللہ کے لئے دیار غیر میں بھجوادیا اور زبان پر کبھی شکوہ تک نہیں آیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی اکثر بیگمات نے اپنے عظیم خاوند کی ذمہ داریوں میں اُن کا جس طرح ساتھ دیا ہے وہ تاریخ کا ایک شاندار حصہ ہے۔ حضرت سیدہ امّ طاہر کی وفات پر حضورؓ نے ایک مضمون میں لکھا: ’’مریم ایک بہادر عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا، مَیں یقین کے ساتھ اُن پر اعتبار کرسکتا تھا۔ اُن کی نسوانی کمزوری اُس وقت دَب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیںہے، یہ مرجائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی‘‘۔
احمدی خواتین نے مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہادری اور اخلاق کی کئی مثالیں قائم کیں۔ 1953ء میں جب حضرت سیدہ امّ داؤد صاحبہ شدید بیمار تھیں اور میوہسپتال لاہور میں داخل تھیں تو ملاّؤں کا ایک جلوس نعرے لگاتا ہوا ہسپتال کے دروازہ پر پہنچا اور پوچھا کہ یہاں کون مرزائی عورت داخل ہے۔ اُس وقت آپ کو شدید نقاہت کی حالت میں ہسپتال کی دیواروں کے اوپر سے پھلانگتے ہوئے ایک فوجی جیپ کے ذریعہ (جس کا انتظام محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے کروایا تھا) رتن باغ لایا گیا۔
تقسیم ہندوستان کے وقت حفاظت مرکز کے لئے کئی عورتوں نے اپنے بیٹوں اور خاوندوں کو بخوشی اس کام کے لئے پیش کردیا اور پھر اپنے عزم کا اس انداز سے اظہار کیا کہ جس سے مردوں کے حوصلے بلند ہوئے اور بعض اس راہ میں شہادت کا رتبہ پاگئے لیکن انہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی۔ پاکستان میں احمدیوں پر جو ظلم و ستم توڑے گئے ہیں اُن کی داستان بہت طویل اور دکھوں سے لبریز ہے۔ احمدی عورتوں نے نہایت استقلال سے ان دکھوں کو جھیلا۔ اپنے پیاروں کی شہادت کا صدمہ اٹھایا اور اسیری کا دکھ برداشت کیا۔ مکرمہ عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم میاں مہردین صاحب آف گوجرانوالہ کے دو بیٹے 1974ء میں شہید کردیئے گئے۔ مکرمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ کے خاوند محترم چودھری منظور احمد صاحب، ایک بیٹے اور داماد گوجرانوالہ میں ایک ہی دن میں شہید کردیئے گئے۔ ایسی ہی کئی خواتین کے حوصلہ، ہمت اور جرأت کا ذکر کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا تھا:
’’ان پاک خواتین نے … آپ کے لئے ایک راہ عمل معین کردی ہے۔ وہ زمین پر چلنے والی ایسی تھیں کہ آسمان پر کہکشاں کی طرح ان کے قدموں کے نشانات ہمیشہ تاریخ میں روشن رہیں گے۔ اگر ایسے واقعات پھر رونما ہوں تو میری نصیحت یہ ہے کہ دنیا چند روزہ ہے، جو کچھ بھی ہوجائے، اپنے ایمان کو سلامت رکھتے ہوئے خدا کے حضور حاضر ہوں۔ جو شہید کا مرتبہ پانے والے ہیں وہ کبھی مر نہیں سکتے۔ آسمان کا خدا گواہ ہے کہ آپ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں اور آپ ہی کی زندگی سے آپ کے بعد پیچھے رہنے والی قومیں زندہ رہیں گی اور اس کا فیض پاتی رہیں گی‘‘۔