اداریہ: دینی معاملات میں خلفائے راشدین کی اطاعت

(اداریہ-مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری فروری 2024ء)

ایک دوست کے اس سوال پر کہ کیا خلفائے کرام کی اطاعت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح انبیائے کرام کی اطاعت فرض ہے؟ حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجو پُرحکمت اور مدلّل جواب ارشاد فرمایا اس کا ایک اقتباس ہدیۂ قارئین ہے۔ فرمایا:


احادیث میں بھی بیسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ رسولﷺنے نہ صرف دینی معاملات میں بلکہ دنیوی معاملات میں بھی حضورﷺکی کامل پیروی کی یہاں تک کہ بعض دنیاوی معاملات میں حضورﷺ کو یہ فرمانا پڑا کہ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ) یعنی تم اپنے دنیوی معاملات کو میری نسبت زیادہ بہتر جانتے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبیاء کی اطاعت کو خدا تعالیٰ کی حقیقی فرمانبرداری اور مدار نجات قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ مسلّم اور بدیہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے تخلّف کرنا معصیت اور موجبِ دخولِ جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا اپنی اطاعت کےلیے حکم فرماتا ہے ایسا ہی رسول کی اطاعت کےلیے حکم فرماتا ہے۔ سو جو شخص اس کے حکم سے منہ پھیرتا ہے وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا جہنم ہے… جو شخص محض اپنی خشک توحید پر بھروسا کر کے(جو دراصل وہ توحید بھی نہیں) رسول سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتا ہے اور رسول سے قطع تعلق کرتا ہے اور اس سے بالکل اپنے تئیں علیحدہ کر دیتا ہے اور گستاخی سے قدم آگے رکھتا ہے وہ خدا کا نافرمان ہے اور نجات سے بے نصیب…خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے۔ اس میں راز یہ ہے کہ انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد اس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے۔ اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے جو اس پتھر پر ضربِ توجہ لگا کر اس آگ کو باہر نکالتا ہے۔ پس ہر گز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہوسکے۔ توحید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اُسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے۔ خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۲۸ اور ۱۳۱)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

فرمایا: ایک مامور کی اطاعت اس طرح ہو نی چا ہیے کہ اگر ایک حکم کسی کو دیاجاوے تو خواہ اس کے مقابلہ پر دشمن کیسا ہی لا لچ اور طمع کیو ں نہ دیوے یا کیسی ہی عجز اورانکساری اور خوشا مد درآمد کیو ں نہ کرے مگر اس حکم پر ان با توں میں سے کسی کو بھی تر جیح نہ دینی چاہیے اور کبھی اس کی طرف التفات نہ کرنی چاہیے… صحابہ کرام کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہ ملے گا کہ اگر کسی کو ایک دفعہ اشارہ بھی کیا گیا ہے تو پھر خواہ بادشا ہ وقت نے ہی کتنا ہی زور کیوں نہ لگایا مگر اس نے سوائے اس اشارہ کے اور کسی کی کچھ ما نی ہو۔ اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہو تی ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چا ہیے اور خدا سے توفیق طلب کر نی چا ہیے کہ ہم سے کو ئی ایسی حر کت نہ ہو۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۰۰ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
پس نبی کی اطاعت ایمان کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر انسان نہ تو خدا تعالیٰ کی توحید کو سمجھ سکتا ہے اور نہ حقیقی نجات پا سکتا ہے۔
باقی جہاں تک انبیاء کے جانشین خلفاء کی اطاعت کی بات ہے تو دینی معاملات میں ان کی اطاعت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح انبیاء کی اطاعت ضروری ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے اپنی امت کو بڑے واضح الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمۃ بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ) کہ تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا اور اسے مضبوطی اور صبر کے ساتھ تھامے رکھنا۔اسی طرح حضورﷺنے فرمایا إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا۔(صحیح بخاری کتاب الصلاۃ بَاب الصَّلَاةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ) کہ امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو۔
قابل غور بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد اس امام کے بارہ میں ہے جسےنماز کےلیے خود انسان اپنا امام بناتے ہیں۔ اور جس شخص کو انبیاء کی جانشینی میں خدا تعالیٰ لوگوں کا امام بناتا ہے اس کی کس درجہ کی اطاعت ہونی چاہیے؟ چنانچہ خلیفہ راشد کی اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ

تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ (خطبات نورصفحہ ۱۳۱)
اس مضمون کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ کیا نبی کے جانشین خلیفہ سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے اور لازمی نہیں کہ دینی و دنیوی ہر معاملہ میں اس کی ہر رائے سو فیصد درست ہو اور جیسے اوپر وضاحت کی جا چکی ہے کہ آنحضورﷺنے بھی صحابہ کو فرمایا کہ تم اپنے دنیوی معاملات بہتر طور پر جانتے ہو۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُوْنِي۔(صحیح بخاری کتاب الصلاۃ بَاب التَّوَجُّهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ) کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں اور جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول سکتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو۔ پس بالکل اسی طرح اگر کسی معاملہ میں خلیفہ سے کسی کو اختلاف رائے ہو تو ایمان اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جس بات میں اختلاف ہے پہلے اس بات کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اس کی تشریح کر کے اختلاف کو دور کر سکے۔ لیکن کسی کو اس اختلاف کو لوگوں میں مشتہر کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے جماعتی وحدت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی قسم کے ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ایک اور خیال مجھے بتایا گیا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ سے چونکہ اختلاف جائز ہے اس لیے ہمیں ان سے فلاں فلاں بات میں اختلاف ہے۔ میں نے ہی پہلے اس بات کو پیش کیا تھا اور میں اب بھی پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ سے اختلاف جائز ہے۔ مگر ہر بات کا ایک مفہوم ہوتا ہے۔ اس سے بڑھنا دانائی اور عقلمندی کی علامت نہیں ہے۔ دیکھو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر کی ہررائے درست ہوتی ہے، ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر بیسیوں دفعہ غلطی کرتے ہیں مگر باوجود اس کے کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ ڈاکٹر کی رائے بھی غلط ہوتی ہے اس لیے ہم اپنا نسخہ آپ تجویزکریں گے، کیوں؟ اس لیے کہ ڈاکٹر نے ڈاکٹری کا کام باقاعدہ طور پر سیکھا ہے اور اس کی رائے ہم سے اعلیٰ ہے۔ اسی طرح وکیل بیسیوں دفعہ غلطی کر جاتے ہیں مگر مقدمات میں انہی کی رائے کو وقعت دی جاتی ہے۔ اور جو شخص کوئی کام زیادہ جانتا ہے اس میں اس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ پس اختلاف کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہیے۔ ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اُسے سمجھنا چاہیے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہنمائی اور دینی مسائل میں غور وفکر ہوتا ہے۔ اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے۔ پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دُور کرائے۔ جس طرح ڈاکٹر کو بھی مریض کہہ دیا کرتا ہے کہ مجھے یہ تکلیف ہے آپ بیماری کے متعلق مزید غور کریں۔ پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اُسے اختلاف ہو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کردے۔ ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کر دے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ کیونکہ ہر شخص میں صحیح فیصلہ کی طاقت نہیں ہوتی۔ ورنہ قرآن شریف میں یہ نہ آتا کہ جب امن یا خوف کی کوئی بات سنو تو اُولِی الْاَمْرِ کے پاس لے جاؤ۔(النساء۸۴:) کیا اُولِی الْاَمْرغلطی نہیں کرتے؟ کرتے ہیں مگر ان کی رائے کو احترام بخشا گیا ہے اور جب ان کی رائے کا احترام کیا گیا ہے تو خلفاء کی رائے کا احترام کیوں نہ ہو۔ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ ہر بات کے متعلق صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص تقویٰ کےلیے سَو بیویاں بھی کرے تو اس کےلیے جائز ہیں۔ ایک شخص نے یہ بات سن کر دوسرے لوگوں میں آ کر بیان کیا کہ اب چار بیویاں کرنے کی حد نہ رہی سَو تک انسان کر سکتا ہے اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دی ہے۔ آپؑ سے جب پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا میری تو اِس سے یہ مراد تھی کہ اگر کسی کی بیویاں مرتی جائیں تو خواہ اُس کی عمر کوئی ہو تقویٰ کےلیے شادیاں کرسکتا ہے۔
پس ہر شخص ہر بات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا اور جماعت کے اتحاد کےلیے ضروری ہے کہ اگر کسی کو کسی بات میں اختلاف ہو تو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے۔ اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دےکر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے۔ اسے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ (منہاج الطالبین، انوارالعلوم جلد ۹صفحہ ۱۶۳،۱۶۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں مقامِ خلافت کا ادراک عطا فرمائے اور ہم کامل اطاعت کرتے ہوئے رضائے الٰہی حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین

(محمود احمد ملک)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں