اسلام اور رحم کی بناء پر قتل کا جدید رجحان (Islam & Mercy Killing)

جماعت احمدیہ کینیڈا کے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کا جون تا اگست 2006ء کا شمارہ ’’جلسہ سالانہ نمبر‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ A4سائز کے ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم رسالہ (اردو و انگریزی میں) جلسہ سالانہ 2005ء کی تفصیلی رپورٹس، جلسہ پر کی جانے والی تقاریر اور یادگار تصاویر پر مشتمل ہے اور ایک تاریخی دستاویز کے طور پر محفوظ رکھے جانے کے لائق ہے۔ اس شمارہ میں مکرم ڈاکٹر سلیم الرحمٰن صاحب کی علمی و تحقیقی تقریر بھی شامل ہے جس کا عنوان تھا: ’’اسلام اور رحم کی بناء پر قتل کا جدید رجحان‘‘۔
قتل ترحم (Mercy Killing) کی اصطلاح کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر کے تعاون سے کی جانے والی خودکُشی۔ اس خودکُشی کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کے لئے مغربی ممالک میں خصوصیت سے کئی برس سے منظم تحریکیں چلائی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ کینیڈا کے ایک اخبار نے اپنی کئی اشاعتوں میں اس کے حق میں اداریے لکھے اور حکومت کو ابھی تک اس کو قانونی شکل نہ دے سکنے پر پسماندہ طرز فکر رکھنے کے طعنے بھی دیئے۔
چونکہ مغربی معاشرہ میں خدا کا لفظ اکثر بے جان چیز کے طور پر بولا جاتا ہے اور اخروی زندگی پر ایمان نہ ہونے کے باعث مادی دنیا کی چمک دمک پر ہی سارا مدار ہے اس لئے اس روشنی کے مدھم ہونے پر اس دنیا سے جدائی ہی میں بہتری نظر آنے لگتی ہے اور اس کے لئے قتل ترحم (Mercy Killing) کا قانون بن جانے سے کسی پر الزام آنے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا اور اسی لئے اس کے حق میں تحریکیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ پس پہلی چیز تو اس معاشرہ کو خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا حقیقی شعور دلانا ضروری ہے۔
قتل ترحم کا جواز پیدا کرنے کے لئے بعض لوگ اُن مریضوں کی مثال دیتے ہیں جو عموماً کسی شدید دماغی چوٹ کے باعث اپنی دماغ کی حسیّات سے محروم ہوجاتے ہیں اور اکثر خود اپنے وجود کا احساس بھی بظاہر کھو بیٹھتے ہیں تاہم کئی خودکار کام مثلاً سانس لینے کا عمل، نیند اور بیداری کے دورانئے اور آنکھ کی پتلیوں کی حرکت وغیرہ جاری رہتے ہیں۔ یہ کیفیت سالہا سال تک جاری رہ سکتی ہے اور بڑی سخت آزمائش ثابت ہوتی ہے۔ مادیت پرستوں کے نزدیک ایسے لوگوں کو قتل ترحم کی بھینٹ چڑھائے بغیر چارہ نہیں کیونکہ اُن کے خیال میں وہ عملاً زندہ نہیں کہلائے جاسکتے۔ لیکن قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب تک کسی کی سانس چل رہی ہے، وہ زندہ ہے۔اور ایسے انسان کی حُرمت حرَّمَ اللہ کے تحت قائم ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اگرچہ اُس کا دل کئی ماہ سے ماں کے پیٹ میں ہی دھڑک رہا ہوتا ہے لیکن پیدائش کے بعد جب وہ سانس لینا شروع کرتا ہے تو اُس کی زندگی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی کی زندگی کے خاتمہ کی نشانی اُس کا سانس نہ لینا ہے، نہ کہ کچھ اَور۔ احمدیوں کو چاہئے کہ مادیت پرست افراد کی قتل ترحم سے متعلق تحریکوں کا دفاع ہر ہدایت کے سرچشمہ قرآن کریم سے پیش کریں جس کے مطابق ہر ذی نفس (یعنی سانس لینے والے ہر انسان) کا قتل حرام ہے (سوائے اِس کے کہ وہ خدا کے حکم کے مطابق ہی قتل کیا جائے)۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں