اسلام میں مرکز کی اہمیت
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جولائی اگست 2023ء)
اللہ تعالیٰ نے دنیا کا جو نظام قائم کیا ہے اس میں مختلف قانون ہیں۔ ان میں سے ایک قانون مرکزیت کا ہے۔ ایک وجود کا قیام اور بقا اسی پر موقوف ہے۔ ایک درخت کا مرکز اس کی جڑ ہے۔ انسان کا دل اس کا مرکز ہے۔ اگر اس میں حرکت نہ ہو تو انسانی زندگی محال ہوجائے ۔ نظامِ فلکیات میں سورج مرکز ہے۔ اگر اس کا وجود نہ ہوتو اس سے وابستہ سیارگان کا قیام ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر زمین کا محور نہ ہوتو اس کی گردش کیسے ممکن ہوگی۔ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہر چیز میں موجود ہے، حتیٰ کہ انسانی اعضاء میں بھی موجود ہے۔اس لیے یہ کس طرح ممکن ہو سکتا
ہے کہ ایک خدائی جماعت تو قائم ہو مگر اس کے مرکز کا وجود نہ ہو۔
خدائے برتر نے نظامِ عالم میں دین کی برکات کے انتشار کے لیے جو سب سے بڑا مرکز بنایا ہے وہ بنیادی مرکز انسان کے لیے خانہ کعبہ ہےجسے دارالامان قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ(العمران:97)۔ اس کے بعد ظلّی مرا کز ہیں ۔ ان ظلّی مراکز میں سے ایک اہم مرکز صرف امامِ وقت کا وجود ہے جس سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔ خلیفۂ وقت کا وجود ہی جماعت کے لیے اساس اور محور ہے۔ اگر اساس نہ ہو تو عمارت کس طرح قائم رہ سکتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے 20؍ستمبر1948ء کو جماعت احمدیہ کے مرکز ’’ربوہ‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمان لا مرکزیت کا شکار ہوگئے تو اس کے ساتھ سب برباد ہوگئے۔‘‘
جب ربوہ کو مرکز قراردیا جانے لگا تو اس وقت بھی معترضین نے اعتراض کیے جس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے فرمایا:’’قیامت تک تم لوگوں کو مرکز کے ساتھ رہنا ہے۔ اس کے ساتھ وابستگی سے ہی تمہاری زندگی اور روح قائم ہے۔‘‘ دراصل ربوہ کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے 1946ءمیں خواب دیکھا تھا۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں کہ ربوہ میں قیام کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس زمین کو خریدنے کے لیے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے اپنا زور لگا دیا۔ ایک ہندو نے تقسیم سے قبل اس زمین کو نہر نکال کر آباد کرنا چاہا تھامگر سب کوششیں بےکار ہوگئیں۔ اس میں خدا تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ تھی ۔
مرکز کا مطلب ہے ایسی جگہ جہاں سارے راستے آکر ملیں ۔ ہمارا مرکز ایک ایسا روحانی منبع ہے جہاں حکمتِ دینیہ اور علم و فرمان کے چشمے پھوٹتے ہیں خصوصاً جبکہ وہ امامِ وقت کی رہائش گاہ بھی ہے۔ مرکز کی اہمیت برکات کے لحاظ سے یہ ہے کہ مرکز میں خلافت قائم ہے۔ وہاں پر برکات کا نزول موسلادھار بارش کی طرح ہوتا ہے اور اس کے چھینٹے ہر جگہ پڑتے ہیں ۔ حتیٰ کہ راہ چلتوں اور مسافروں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔اردگرد کی بستیاں بھی اس سے فیضیاب ہوتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی نعمتیں جس قدر حاصل ہوتی ہیں اسی قدر وہاں کے مقامی باشندوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں ۔
خلیفۂ وقت کے وجود سے برکت حاصل کرنے کے کئی ذرائع ہیں۔ مثلاً خلیفۂ وقت سے ملاقات کرنا، خطوط میں دعائوں کی درخواست کرنا اور خلیفۂ وقت کے لیے دعا کرنا، آپ کے ارشادات کی دل و جان سے تعمیل و اشاعت کرنا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلسہ سالانہ اور دیگر مواقع پر باہر سے مرکز میں آتے ہیں، وہ جلسہ میں شامل ہو کر اپنی روحانی بھوک مٹاتے ہیں اور خلیفۂ وقت کے وجود کو دیکھ کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ روحانی بیٹے اپنے روحانی باپ کو دیکھ کر محبت کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔ خلیفۂ وقت کا وجود روحانی پرندوں کو اپنے اردگرد جمع کرتا ہے اور وہی مبارک وجود ان روحانی پرندوں کو زندہ رکھتا ہے۔
مرکز میں جمع ہونے کی یہ اغراض ہیں:
1۔نشانِ الٰہیہ کا مشاہدہ: خلیفۂ وقت کا وجود نشانِ الٰہیہ میں سے ایک زبردست نشان ہے۔
2۔تزکیہ نفس: دل کو پاک رکھا جائے۔ ہم مرکز میں نیک اور پاکیزہ باتیں سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ اجتماعی دعائوں سے برکت حاصل ہوتی ہے ۔ بزرگان کے واقعات سن کر دل میں ایک ولولہ اور عزم پیدا ہوتا ہے۔ ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے ‘‘۔ آئینہ حسن و قبح کو ظاہر کرتا ہے۔ آئینہ دیکھنے والے کو مشورہ دیتا ہے اور بڑی خاموشی سے حقیقت کا اظہار کر دیتا ہے ۔ دیکھنے والا اس مشورہ سے فیضیاب ہوتا ہے اور اس مشورہ پر عمل کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارا آپس میں سلوک ہونا چاہیے کہ سخت مزاجی سے نہیں بلکہ تحمل سے کام لے کر اور بغیر حقارت کے دوسروں کے حالات کی اصلاح کریں۔
3۔جماعت کے باہمی تعلقاتِ اخوّت: افراد جماعت کی اجنبیت کو دور کر کے انہیں روحانی طور پر ایک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمارا نصب العین اشاعتِ اسلام ہے اور یہ مقصد خلافت کے بغیر نا ممکن ہے۔ چونکہ یہ نصب العین خلیفۂ وقت کے ساتھ وابستہ ہے اس لیے ان کی ہر تحریک پر لبیک کہنا چاہیے ۔خلیفۂ وقت کی آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے اور تمام برکات خلیفۂ وقت کے دم سے ہی وابستہ ہیں۔
مرکز کا قیام اور اس کی بنیادی غرض چونکہ خانہ کعبہ کے مقاصد کی تکمیل ہے اور ان مقاصد کا حصول قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے بغیر نا ممکن ہے اس لیے لازم ہے کہ قرآن مجید اور دیگر دینی تعلیم لازماً سیکھیں اور سکھائیں ۔
مرکز کی آرائش کرنا اور اسے ہر لحاظ سے (یعنی ظاہری اور روحانی دونوں طرح) پاک صاف رکھنا ہم پر فرض ہے اور اس روحانی احیاء سے مستفید ہونا سراسر برکت کا موجب ہے۔مرکز چونکہ خدا تعالیٰ کے منشا سے قائم کیا جاتا ہے اس لیے ایک طرف تو محبتِ الٰہیہ پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کو دنیاوی خیالات کے ہجوم سے نکالنے کے لیے جذبۂ ہمدردی ابھرتا ہے ۔ پس مرکز میں رہنے والو ں کو بھی وہی نمونہ پیش کر نا چاہیے جو نمونہ صحابہؓ نے ہمیں دیا اور اس کے لیے پابندی نظام شرط ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے ’’انسانی جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر وہ صحیح و سالم رہے تو تمام جسم ٹھیک رہتا ہے ۔ اگر وہ خراب ہوجائے تو تمام جسم خراب ہو جاتا ہے۔ اور وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘
آج خلافتِ احمدیہ کے برطانیہ میں قیام کی وجہ سے ہم بھی دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم درست نہ ہوئے تو قوم کی زندگی بھی متاثر ہوگی۔ پس ہم سب کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہم مرکز میں رہنے والوں کو بھی اور باہر سے آنے والوں کو بھی ان برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق ملے جو مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ (آمین)