حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کی قبولیتِ دعا

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی و اگست اور ستمبرواکتوبر 2023ء- دو اقساط)

حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ

(ملخّص از ’’حیات قدسی‘‘۔ مرتّبہ: ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب

 

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ نے اپنی پاکیزہ حیات کے سینکڑوں ایمان افروز واقعات اپنی کتاب ’’حیات قدسی‘‘ میں بیان فرمائے ہیں۔ ذیل میں اس کتاب میں سے ایک انتخاب حضرت مولوی صاحبؓ کے الفاظ میں ہی ہدیۂ قارئین ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد نبوت کے توسط سے اپنی یقینی تجلّیات کے ساتھ مجھ ذرّہ ٔ حقیر پر ظاہر ہوا۔ چنانچہ ابتدائی زمانہ میں جب علماء سوء گاؤں گاؤں میری کم علمی اور کفر کا چرچا کررہے تھے مجھے میرے خدا نے الہام کے ذریعہ بشارت دی: ’’مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی‘‘۔
چنانچہ اس الہام الٰہی کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بڑے مولویوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں نمایاں فتح دی ہے میرے ذریعہ سیدنا حضرت امام الزمان علیہ السلام کی برکت سے انذاری اور تبشیری کرامتوں کااظہار بھی فرمایا ہے جن کا ایک زمانہ گواہ ہے۔

بعض انذاری و تبشیری کرامتوں کا ذکر

مَیں ایک مرتبہ موضع گڈہو، جو ہمارے گاؤں سے قریباً ڈیڑھ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے، گیا چونکہ اس گاؤں کے اکثر لوگ ہمارے خاندان کے حلقہ ارادت میں داخل تھے اس لیے میں نے یہاں کے بعض آدمیوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور واپسی پر اُس موضع کی ایک مسجد کے برآمدہ میں اپنی ایک پنجابی نظم کے کچھ اشعار جو سیدنا حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی آمد کے متعلق تھے لکھ دیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس موضع کا نمبردار چوہدری اللہ بخش اس وقت کہیں مسجد میں طہارت کر رہا تھا اس نے مجھے مسجد سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔ ادھر راستہ میں یہاں کے امام مسجد مولوی کلیم اللہ نے بھی مجھے دیکھا۔ جب یہ دونوں آپس میں ملے تو انہوں نے میرے جنون احمدیت کا تذکر ہ کرتے ہوئے مسجد کے برآمدہ میں ان اشعار کو پڑھا اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب ہماری مسجد اس مرزائی نے پلید کردی ہے یہ تجویز کیا کہ سات مضبوط نوجوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا جائے جو میری مشکیں باندھ کر مجھے ان کے پاس لے آئیں اور پھر میرے ہاتھوں سے ہی میرے لکھے ہوئے اشعار کومٹوا کرمجھے قتل کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سات جوانوں کو میرے پیچھے دوڑا دیا۔ مگر اس زمانہ میں مَیں بہت تیز چلنے والاتھا اس لیے مَیں نوجوانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گاؤں آگیا اور وہ خائب و خاسر واپس لوٹ گئے۔ دوسرے دن اسی گاؤں کا ایک باشندہ جو والد صاحب کا مرید تھا اور ان لوگوں کے بدارادوں سے واقف تھا صبح ہوتے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ والد صاحب نے اس کی باتیں سنتے ہی مجھے فرمایا کہ جب ان لوگوں کے تیرے متعلق ایسے ارادے ہیں تو احتیاط کرنی چاہئے میں نے جب یہ واقعہ اور محترم والد صاحب کا فرمان سنا تووضو کرکے نماز شروع کردی اور اپنے مولا کریم کے حضور عرض کیا کہ اے میرے مولاکریم کیا یہ لوگ مجھے تیرے مسیح کی تبلیغ سے روک دیں گے اور کیا میں اس طرح تبلیغ کرنے سے محروم رہوں گا۔ یہ دعا میں بڑے اضطراب اور قلق سے مانگ رہا تھا کہ مجھے جائے نماز پر ہی غنودگی سی محسوس ہوئی اور مَیں سوگیا۔ سونے کے ساتھ ہی میرا غریب نواز خدا مجھ سے ہم کلام ہوا اور نہایت رافت ورحمت سے فرمانے لگا:’’وہ کون ہے جوتجھے تبلیغ سے روکنے والا ہے اللہ بخش نمبردار کو میں آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈال دوں گا۔‘‘
صبح میں ناشہ کرتے ہی موضع گڈہو پہنچا اورجاتے ہی اللہ بخش نمبردار کا پتہ پوچھا۔ لوگوں نے کہا کیا بات ہے؟ میں نے کہا اس کے لیے ایک الٰہی پیغام لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ بخش آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا۔ کہنے لگے وہ تو موضع لالہ چک جو گجرات سے مشرق کی طرف چند کوس کے فاصلہ پرایک گاؤں ہے وہاں چلا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر تم لوگ گواہ رہنا کہ وہ گیارہویں دن قبر میں ڈال دیا جائے گا اورکوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو ٹال سکے۔ میرا یہ پیغام سنتے ہی اہل محفل پر ایک سناٹا چھاگیا۔ اب وہ تقدیر مبرم اس طرح ظہور میں آئی کہ چوہدری اللہ بخش ذات الجنب اور خونی اسہالوں سے لالہ چک میں بیمار ہوگیا۔ مرض چند دنوں میں ہی اتنا بڑھا کہ اس کے رشتہ دار اسے لالہ چک سے اُٹھاکر گجرات کے ہسپتال میں لے گئے اوروہاں وہ ٹھیک گیارہویں دن اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا اور اسے اپنے وطن موضع گڈہو کا قبرستان بھی نصیب نہ ہوا۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ (الحشر:3) ترجمہ:’’پس اے سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگو! عبرت حاصل کرو ‘‘۔ اس پیشگوئی کی اطلاع چونکہ موضع گڈہو، موضع سعد اللہ پوراور بعض دوسرے دیہات کے آدمیوں کو پہلے سے پہنچا دی گئی تھی اس کے عین وقت پر پورا ہونے سے اکثرلوگوں پردہشت سی طاری ہوگئی۔

موضع دھدرہا کا واقعہ

ایسا ہی موضع دھدرہا میں جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب مغرب ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے جب میں تبلیغ کے لیے جاتا تو وہاں کا مُلّاں محمد عالم لوگوں کو میری باتیں سننے سے روکتا اور اُس فتویٰ کفر کی جو مجھ پرلگایا گیا تھا جابجا تشہیر کرتا۔ آخر اس نے موضع مذکور کے ایک مضبوط نوجوان جیون خان نامی کو جس کا گھرانہ جتھے کے لحاظ سے بھی گاؤں کے تمام زمینداروں پر غالب تھا میرے خلاف ایسا بھڑکایا کہ وہ میرے قتل کے درپے ہوگیا اورمجھے پیغام بھجوایا کہ اگر اپنی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے گاؤں کارخ نہ کرنا ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ مَیں نے جب یہ پیغام سنا تو دعا کے لیے نماز میں کھڑا ہوگیا اورخدا کے حضور گڑگڑا کردعا کی تب اللہ تعالیٰ نے جیون خان اور مُلّاں محمد عالم کے متعلق مجھے الہاماً سورۃاللّھب کی دوسری و تیسری آیت بتائی۔ (ترجمہ:’’شعلہ کے باپ کے دونوں ہاتھ ہی شل ہوگئے ہیں اور وہ (خود) ہی شل ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے مال نے اسے کوئی فائدہ نہیں دیا اور نہ اس کی کوششوں نے (کوئی فائدہ) دیا ہے۔‘‘)
اس القاء ربانی کے بعد مجھے دوسرے دن ہی اطلاع ملی کہ جیون خاں شدید قولنج میں مبتلا ہوگیا ہے اور مُلّاں محمد عالم ایک بداخلاقی کی بِنا پر مسجد کی امامت سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ پھر قولنج کے دورہ کی وجہ سے جیون خاں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ چند دنوں کے اندر وہ قوی ہیکل جوان، مشت استخوان ہو کر رہ گیا اور اس کے گھروالے جب ہر طرح کی چارہ جوئی کرکے اس کی زندگی سے مایوس ہوگئے تو اس نے کہا کہ میرے اندر یہ وہی کلہاڑیاں اور چھریاں چل رہی ہیں جن کے متعلق مَیں نے میاں غلام رسول راجیکی والے کو پیغام دیا تھا۔ اگر تم میری زندگی چاہتے ہو تو خدا کے لیے اسے راضی کرو اور میراگناہ معاف کراؤ ورنہ کوئی صورت میرے بچنے کی نہیں۔ آخراس کے نودس رشتہ دار باوجود مُلّاں محمد عالم کے روکنے کے ہمارے گاؤں کے نمبردار کے پاس آئے اور اسے میرے راضی کرنے کے لیے کہا اس نے جواب دیا کہ میاں صاحب اگرچہ ہماری برادری کے آدمی ہیں مگر ان کے گھرانے کی بزرگی کی وجہ سے آج تک ہمارا کوئی فرد ان کی چارپائی پربیٹھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں اس قسم کی باتوں میں ان کی کوئی بےادبی نہ ہوجائے۔ بالآخر وہ ہمارے نمبردار کو لے کر میرے والد صاحب محترم اور میرے چچا میاں علم الدین صاحب اور حافظ نظام الدین صاحب کے ہمراہ میرے پاس آئے اور اپنے سروں سے پگڑیاں اتار کر میرے پاؤں پر رکھ دیں اورچیخیں مار مار کر رونے لگے اور کہنے لگے اب یہ پگڑیاں آپ ہمارے سروں پر رکھیں گے تو ہم جائیں گے ورنہ یہ آپ کے قدموں پر ہی دھری رہیں گی۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کرمیرے والد صاحب اور میرے چچوں نے ان کومعاف کرنے کی سفارش کی جسے بالآخرمیں مان کر اپنے بزرگوں کی معیت میں ان لوگوں کے ساتھ دھدرہا پہنچا۔ جیون خان نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو میری توبہ میری توبہ کہتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑدیے اور اتنا رویا اورچِلّایا کہ اس کی اس گریہ و زاری سے اس کے تمام گھروالوں نے بھی رونا اور پیٹنا شروع کردیا۔ اس وقت عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ جیون خان جسے علاقہ کے طبیب لاعلاج سمجھ کر چھوڑگئے تھے ہمارے پہنچتے ہی افاقہ محسوس کرنے لگا اور جب تک ہم وہاں بیٹھے رہے وہ آرام سے پڑا رہا مگر جب ہم اپنے گاؤں کی طرف لَوٹے تو پھر کچھ دیر کے بعد اس کے دردوکرب کی وہی حالت ہوگئی جس کی وجہ سے پھر اس کے رشتہ داروں نے مجھے بلانے کے لیے آدمی بھیجا اورمیں والد صاحب اور اپنے چچوں کے فرمانے پر اس آدمی کے ہمراہ جیون خان کے گھر چلا آیا۔ یہاں پہنچتے ہی اس گھر کی تمام عورتوں اورمَردوں نے نہایت منت وزاری سے مجھے کہا کہ جب تک جیون خاں کو صحت نہ ہوجائے آپ ہمارے گھر ہی تشریف رکھیں اور اپنے گاؤں نہ جائیں۔ ادھر مُلّاں محمد عالم اوراس کے ہمنواؤں نے جب میری دوبارہ آمد کی خبر سنی تو جابجا اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ وہ مریض جسے علاقہ بھرکے اچھے طبیب لاعلاج بتاچکے ہیں اوراب لبِ گورپڑا ہوا ہے، یہ مرزائی اسے کیا صحت بخشے گا۔ یہ باتیں جب میرے کانوں میں پہنچیں تو میں نے جوشِ غیرت کے ساتھ خدا کے حضور جیون خان کی صحت کے لیے نہایت الحاح اور توجہ سے دعا شروع کردی۔ چنانچہ ابھی ہفتہ عشرہ بھی نہیں گزرا تھا کہ جیون خان کو خداتعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعجازی برکتوں کی وجہ سے دوبارہ زندگی عطا فرمادی اور وہ بالکل صحت یاب ہوگیا۔ اس کرشمہ قدرت کا ظاہر ہونا تھا کہ اس گاؤں کے علاوہ گردونواح کے اکثر لوگ بھی حیرت زدہ ہوگئے اور جابجا اس بات کا چرچا کرنے لگ گئے کہ آخر مرزا صاحب کوئی بہت بڑی ہستی ہیں جن کے مریدوں کی دعا میں اتنا اثر پایا جاتا ہے۔

موضع جاموں بولا کا واقعہ

موضع جاموں جو ہمارے گاؤں سے جانب شمال دو کوس کے فاصلہ پر واقعہ ہے۔ وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے۔ جب انہوں نے جیون خان ساکن دھدرہا کی معجزانہ بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہو ااور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے تپ دق کے عارضہ میں مبتلا ہے آ پ ازراہ نوازش میاں غلام رسول صاحب سے فرمائیں کہ وہ کچھ روز ہمارے گھر پر ٹھہریں اور جان محمد کے لیے دعا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی صحت عطا فرمادے۔ چنانچہ اس کی اس درخواست پر والد صاحب کے ارشاد کے ماتحت میں ان کے یہاں چلا آیا اور آتے ہی وضو کرکے نمازمیں اس کے بھائی کے لیے دعا شروع کردی۔ سلام پھیرتے ہی میں نے ان سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے؟ گھر والوں نے جواب دیا کہ بخار بالکل اتر گیا ہے اور کچھ بھوک بھی محسوس ہوتی ہے چنانچہ اس کے بعد چند دنوں کے اندر ہی اس کے نحیف و ناتواں جسم کے اندر اتنی طاقت آگئی کہ وہ چلنے پھرنے لگ گیا۔ اس نشا ن کو دیکھ کر اگرچہ ان لوگوں کے اندر احمدیت کے متعلق کچھ حسن ظنی پیدا ہوئی مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اور اگر انہوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کی درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ میں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور یہ الہام الہٰی کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیراحمدیوں کو دے دیا اور انہیں تلقین کی کہ اس پیشگوئی کی تعیین کو موت کے عرصہ سے پہلے ظاہر نہ کریں۔ اس کے بعد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں قادیان چلا آیا اور یہیں رمضان المبارک کا مہینہ گزارا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہوگیا اور جابجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی اٹھائیسویں رات اس دنیائے فا نی سے کوچ کرگیا۔ اس کے مرنے کے بعد جب ان غیراحمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مگر افسوس کہ پھر بھی انہوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا۔

تہی دستان قسمت راچہ سوداز رہبر کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ مَے آرد سکندررا

مو ضع سعداللہ پور کا واقعہ

موضع سعداللہ پور جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب کوئی تین کوس کے فاصلہ پر واقعہ ہے۔ یہاں کے اکثر حنفی لوگ بھی ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے اس لیے میں کبھی کبھار اس موضع میں تبلیغ کی غرض سے جایا کرتا تھا اور ان لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ اس موضع میں مولوی غوث محمد ایک اہل حدیث عالم تھے اور امرتسر کے غزنوی خاندا ن سے نسبت تلمذ رکھنے کی وجہ سے احمدیت کے سخت معاند اور مخالف تھے۔ میں نے ایک روز ان کی موجودگی میں ظہر کے وقت مسجد میں لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور انہیں بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتابیں اور رسالے مطا لعہ کے لیے دیے۔ جب انہیں اس تبلیغ کے ذریعہ اور حضور اقدسؑ کی کتابوں سے یہ علم ہو ا کہ میں حضرت مسیح موعود کو امام مہدی تسلیم کرتا ہوں تو انہوں نے میرے حق میں بےتحاشا فحش گوئی شروع کردی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات والا صفات کے بارہ میں بھی۔ میں نے انہیں کہا کہ گالیاں مجھے دے لیں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی توہین نہ کریں مگر وہ اس سے باز نہ آئے۔ آخر چاروناچار میں تخلیہ میں جاکر سجدہ میں گر پڑا اور رو رو کر بارگاہ ایزدی میں دعا مانگی اور رات کو بغیر کھانا کھائے ہی مسجد میں آکے سو گیا۔ جب سحری کے قریب وقت ہوا تو مولوی غوث محمد صاحب مسجد میں میرے پاس پہنچے اور معافی مانگتے ہوئے مجھے کہنے لگے: خدا کے لیے ابھی حضرت میرزا صاحب کو میری بیعت کا خط لکھو ورنہ میں ابھی مرجاؤں گا اور دوزخ میں ڈالا جاؤں گا۔ مَیں نے جب ان کا احمدیت کی طرف رجوع دیکھا تو حیران ہوکر اس کی وجہ دریافت کی۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ رات مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ قیامت کا دن ہے اور مجھے دوزخ میں ڈالے جانے کا حکم صادر ہوا ہے اور اس کی تعمیل کرانے کے لیے بڑی بھیانک شکل کے فرشتے میرے پاس آئے ہیں اور ان کے پاس آ گ کی بنی ہوئی اتنی بڑی بڑی گرزیں ہیں جو بلندی میں آسمان تک پہنچتی ہیں۔ انہوں نے مجھے پکڑا ہے اور کہتے ہیں کہ تم نے مسیح موعود اور امام زمانہ کی شان میں گستاخی کی ہے اس لیے اب دوزخ کی طرف چلو اور اس کی سزا بھگتو۔ میں نے ڈرتے ہوئے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ میں توبہ کرتا ہوں آ پ مجھے چھوڑ دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ اب توبہ کرتا ہے۔ اور ما رنے کے لیے اپنا گرز اٹھا یا جس کی دہشت سے میں بیدار ہوگیا اور اب آ پ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ خدا کے لیے آ پ میرا قصور معاف فرمائیں اور حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میری بیعت کا خط لکھ دیں۔ چنانچہ اس خوا ب کی بِنا پر آپ احمدی ہو گئے اوراس کے بعد ہم دونوں کی تبلیغ سے اس گاؤں کے بیسیوں مرد اور عورتیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہ عَلیٰ ذالِک

الٰہی بشارت اور موضع خوجیانوالی کا واقعہ

انہی ایام کا ذکر ہے کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ موضع راجیکی میں ہمارے مکان کی چھت پر اللہ تعالیٰ نے میری والدہ ماجدہ کے تمثل میں جلوہ فرمایا ہے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: اِنّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِیْنَا (الفتح2:)
ترجمہ: ’’ہم نے تم کو ایک کھلی کھلی فتح بخشی ہے‘‘۔
اس بشارت الٰہی کے بعد موضع پاد شہانی ضلع جہلم کا مولوی احمد دین جو احمدیوں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے میں حد درجہ زبان شر رکھتا تھا موضع خوجیانوالی جو ہمارے گاؤں سے تقریبًا چار کوس کے فاصلہ پر واقع ہے، آیا۔ اور آتے ہی اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ جن دیہا ت میں مرزائی پائے جاتے ہیں وہ اس کنویں کی طرح ہیں جس میں خنزیر پڑا ہوا ہو۔ پس گاؤں والے گاؤں کو اور اپنے آپ کو پاک رکھنا چاہتے ہیں تو ان مرزائیوں کو باہر نکال دیں۔ اس قسم کی تقریروں کا سلسلہ جب کچھ روز جاری رہا تو لوگوں میں ہر طرف ہماری عداوت کے شعلے بھڑک اٹھے اور ایک جمعہ کے دن جبکہ لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے با ہرسے بھی آئے ہوئے تھے اور اس طرح موضع خوجیانوالی میں گردو نواح کے ہزارہا لوگوں کا اجتماع ہوگیا تھا۔ اس مولوی نے لوگوں کو احمدیت کے خلاف بہت اشتعال دلایا۔ مَیں ان دنوں چونکہ تبلیغ کی غرض سے موضع رجوعہ اور موضع ہیلاں تحصیل پھالیہ گیا ہوا تھا اس لیے میرے بعد احمدی احباب اس مولوی کی فتنہ پردازیوں سے سخت خائف ہوگئے۔ آخر بعض مولویوں کے یقین دلانے پر کہ مرزائیوں میں کوئی بھی مجمع میں تقریر کرنے کی جرأت نہیں رکھتا جب مولوی احمددین نے ہما رے احمدیوں کومقابلہ کا چیلنج دیا تو اس علاقہ کے احمدیوں میں سے مولوی امام الدین صاحب ؓ اور مولوی غوث محمد ؓ صاحب وغیرہ نے ہما رے چودھری مولاداد وڑائچ احمدی سا کن لنگھ کو میرے بلانے کے لیے مو ضع ہیلاں بھیجا۔ چنانچہ میں اطلاع پا تے ہی گھوڑی پر سوار ہوکر موضع خوجیانوالی پہنچ گیا اور آ تے ہی ایک عربی خط لکھ کر مولوی احمددین کے پا س بھیجا جسے وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے پڑھنے سے قا صر رہا اور جیب میں ڈالتے ہوئے میری طرف پیغام بھیجا کہ آپ یہاں آکر منبر پر چڑھ کر تقریر کریں۔ چنا نچہ مَیں مع احباب وہاں پہنچتے ہی منبر کے قریب گیا اور اسے کہا کہ آپ منبر سے نیچے اتریں مَیں تقریر کرتا ہوں تو اس نے انکا ر کیا اور کہا کہ رسول کے منبر پر مَیں کافر کو تقریر نہیں کرنے دوں گا اور اس طرح اس نے مجھے تقریر کرنے سے روک دیا۔ اور حضور اقدس علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام نکال کر اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ کے الہا م پر اعتراضا ت شروع کر دیے۔ اور اُس کی جہالت کا نمونہ یہ تھا کہ لفظ دائیں کو دائین موقوف پڑھا۔ جب مَیں نے جوابات دے کر لوگوں پر اس کی بےعلمی کو واضح کیا تو اُس نے اپنی خفت مٹانے کے لیے مجھے ایک تھپڑ مارا جو میرے منہ کی بجائے میرے عمامہ پر لگا اور وہ میرے سر سے کچھ سرک گیا۔ اس بدتمیزی کو دیکھ کر حاضرین میں سے چوہدری جان محمد نمبردار وڑا ئچ اور چوہدری ہست خا ن مانگٹ اٹھے اوراس مولوی کو بہت ہی ڈانٹا اور ملامت کی اور جتنا مجمع تھا منتشر ہوگیا۔
اس موقع پر خداتعالیٰ کے فضل سے چند منٹوں میں ہی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور دعویٰ کا اعلان ہزارہا لوگوں تک پہنچ گیا اوراس مولوی کی بےعلمی اور بدتمیزی واضح ہوگئی۔ دوسرے دن جب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی احمددین ابھی اسی گاؤں کی ایک مسجد میں ہے تو میں نے یہاں کے چوہدری نمبردار جان محمد کو کہا کہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کو قرآن مجید اور احادیث اوراسلام کی رُو سے تسلیم کرکے اپنی ساری قوم اور آپ لوگوں سے مذہب کی بِنا پر علیحدہ ہوا ہوں اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگ مولوی احمد دین کو بلاکر میرے ساتھ گفتگو کرائیں تاکہ جس شخص کے پاس سچائی ہے لوگوں کو معلوم ہوجائے۔ چوہدری جان محمد نے کہا کہ بات تو معقول ہے، ہم ابھی مولوی احمد دین کو کہتے ہیں۔ چنا نچہ جب انہوں نے مو لوی احمد دین کو میرا یہ پیغام سنایا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس موضع کے تمام زمیندار مولوی غلام رسول راجیکی کی قوم کے لوگ ہیں اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ یہاں کوئی فساد نہ ہوجائے۔ مَیں نے کہلا بھیجا کہ مولوی احمد دین صاحب! جیسا بھی آپ چا ہیں اپنے امن و تحفظ کے متعلق تسلی کرلیں مگر میرے ساتھ گفتگو ضرور کریں۔ اس کے بعد مولوی احمد دین نے گھوڑی منگوائی اور موضع گڈہو بھاگ گیا۔ جہاں چند روز قیام کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ اسے آتشک ہوگئی ہے۔ پھر وہاں سے وہ اپنے وطن ضلع جہلم چلا گیا اور دوبارہ ہمارے علاقہ میں آ نے کی اس کو جرأت نہ ہوسکی اور سنا کہ وہ وہا ں وطن میں جلد ہی مرگیا۔ اور دنیا میں اسے رہنے کے لیے زیادہ مہلت نہ مل سکی۔ مولوی احمد دین کی اس شکست فاش کو دیکھ کر بھی جب موضع خوجیانوالی کے لوگوں کی آنکھیں نہ کھلیں تو میں نے چند ماہ موضع مذکور میں قیام کیا اوران لوگوں کو سمجھا یا مگر پھر بھی ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا تومیں نے رات خواب میں دیکھا کہ اس گاؤں پر طاعون نے ایسا حملہ کیا ہے کہ گھروں کے گھر ویران ہوگئے ہیں چنانچہ ابھی کچھ دن ہی گزرے ہوں گے اس خواب کی تعبیر وقوع میں آئی اور یہاں کے تقریباً گیارہ سو آدمی طاعون کا شکار ہوگئے۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ ارد گرد کے دیہات میں بالکل امن ہے اور یہاں ایک قیا مت برپا ہے تو ان میں سراسیمگی پیدا ہوئی اور آپس میں کہنے لگے آخر اس عذاب کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ اس وقت ایک آدمی نے بتایا کہ رات خواب میں مَیں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس تباہی کے متعلق چہ میگوئیاں کر رہے ہیں تو ایک بزرگ انسان یا فرشتہ ظاہر ہوا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ اس تباہی کا موجب وہ تھپڑ ہے جو خدا کے ایک بندے کو خدا کا حکم سناتے ہوئے اس گاؤں میں مارا گیا تھا۔

میرے گاؤں مو ضع راجیکی وڑائچاں کے بعض واقعا ت

ایک رؤیا جس میں گیارہ انبیاء علیہم السلام نے مجھے کنویں سے نکالا تھا، ان کومیں نے جاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نے فرمایا کہ یہ لو گ یوسف کے گیارہ بھائی ہیں۔ اس رؤیا کی تعبیرجو بعد میں ظاہر ہوئی یہ تھی کہ میرے احمدی ہونے کے بعد میرے جدامجد حضرت میاں نور صاحب چنابی علیہ الرحمتہ کی اولاد کے گیارہ گھرانے جو اس وقت موجود تھے انہی کے بعض افراد یوسف کے بھائیوں کی طرح میری مخالفت و عداوت پر کمربستہ ہوگئے اور دوردور سے علماء کو بلا کر میری تکفیر کا موجب ہوئے۔ پھر بغض و عِناد یہاں تک پہنچا کہ میرے ان قرابت داروں میں سے بعض نے مجھ پر نقص امن اور اقدام قتل کا جھوٹا الزام لگاکر عدالت میں دعویٰ دائر کردیا مگر وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اور وہ خدا جس کی رضا کے لیے میں نے ان لوگوں کے مسلک کو چھوڑا تھا وہ میری فریاد رسی کے لیے پہنچا اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا مگر افسوس صد افسوس کہ پھر بھی ہمارے بعض قریبی رشتہ داروں اور ہمارے گاؤں کی وڑائچ برادری کو میرے سید و مسیح قا دیانی کی صداقت قبول کرنے کی توفیق نہ ملی اور اکثر اس مائدہ آسمانی سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ گئے۔

اعجازنما واقعہ صداقت (قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ)

اسی زمانہ میں جب کہ میں اپنے گاؤں اور علاقہ کے لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتا تھا بعض بڑی عمر کے بوڑھے مجھے کہا کرتے تھے کہ تم تو بچے ہو اگر مرزا صاحب کے دعوے میں کوئی صداقت ہوتی توآپ کے تایا حضرت میاں علم الدین صاحب جو اس زمانہ کے غوث اور قطب ہیں اور چالیس سپارے قرآن مجید کے ہرروز پڑھتے ہیں اور صاحب مکاشفات ہونے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضوری بھی ہیں وہ نہ مرزا صاحب کے دعویٰ کو تسلیم کرلیتے۔ میں انہیں اس قسم کی عذرات لنگ پر بہتیرا سمجھاتا مگر وہ ایک وقت تک یہی رٹ لگاتے رہے۔ آخر میں نے انہیں کہا کہ بتاؤ کہ اگر حضرت میاں صاحب سیدومولا حضرت مسیح موعود قادیا نی علیہ السلام کو نبی اور امام مہدی تسلیم کرلیں تو کیا تم لو گ ان پر بدگمانی کرتے ہوئے حضور اقدس علیہ السلام کی بیعت سے انحراف تو نہیں کروگے اس وقت ان لوگوں میں سے بعض نے جواب دیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ حضرت میاں صاحب مرزا صاحب پر ایمان لے آئیں اورہمارا سارا علاقہ ان کے پیچھے ایمان نہ لائے۔ احمدیت کے متعلق ان کی یہ آمادگی دیکھ کر میں نے حضرت تایا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ آ پ حضور اقدس علیہ السلام کی صداقت کے متعلق دعا کریں اوراستخارہ بھی فرمائیں۔ چنانچہ آ پ نے میری درخواست پر استخارہ شروع کر دیا اور میں نے آ پ کے لیے دعا شروع کردی۔ مجھے دعا کرتے ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے شمال کی جانب بہت سے لوگوں کا ہجوم ہے۔ جب میں وہا ں پہنچتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چارپائی پر حضرت میاں علم الدین صاحب کی لاش پڑی ہوئی ہے اورلوگ اس کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے کھڑے ہیں۔ ان لوگوں نے جب مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ آپ ہمیشہ مرزا صاحب کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ وہ امام مہدی اور مسیح موعود ہیں اگر واقعی وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو آپ کوئی نشان دکھائیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیسا نشان دیکھنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ میت جو ہمارے سامنے پڑی ہے اسے آپ زندہ کردیں۔ چنانچہ میں نے اسی وقت لاش کے سامنے کھڑے ہوکر نہایت جلال سے کہا: قُمْ بِاذْنِ اللّٰہ۔ میرا یہ کہنا تھا کہ حضرت میاں صاحب زندہ ہوکر بیٹھ گئے اور مجھے دیکھتے ہی السلام علیکم کہا۔ جب مَیں بیدارہوا تو مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت میاں صاحب کو خداتعالیٰ ضرور حضرت سیدنا مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی سعادت نصیب کرے گا اور ایک نئی زندگی مرحمت فرمائے گا۔
اتفاق کی بات ہے کہ میں ایک دن مسجد میں بیٹھا ہوا لوگوں کو تبلیغ کر رہا تھا اور وہ اپنے سابقہ دستور کے مطابق حضرت میاں صاحب ممدوح کی آڑلے رہے تھے کہ اچانک آپ میری تلاش میں ادھر آنکلے اور دریافت فرمایا کہ میاں غلام رسول یہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت میں حاضرہوں ارشاد فرمائیے۔ فرمانے لگے:’’مجھے خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس بات کا نہایت صفائی کے ساتھ علم دیا گیا ہے کہ حضرت مرزاصاحب خداتعالیٰ کے سچے مامور اور امام مہدی اور مسیح موعود ہیں اور آپ سب لوگ گواہ رہیں کہ میں ان پرایمان لے آیا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میری بیعت کا خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھ دیں۔ حضرت میاں صاحب کے ارشاد گرامی کے بعد جب مَیں نے لوگوں سے پوچھا کہ بتاؤ اب تمہاری کیا مرضی ہے؟ تو اس وقت بعض بدبختوں نے کہا کہ شیطان نے بلعم باعورایسے ولی کا ایمان چھین لیا تھا حضرت میاں علم الدین صاحب کس شمار میں ہیں؟ اس کے بعد میں نے حضرت میاں صاحب موصوف کی بیعت کا خط لکھ دیا اور وہ بزرگ جو لوگوں کے زعم میں اپنے زمانہ کاغوث تھا حضور اقدس علیہ السلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگیا۔ پھر اس کے بعد خداتعالیٰ کے فضل سے میرے والد بزرگوارکے چھوٹے بھائی حضرت حافظ نظام الدین صاحب بھی احمدی ہوگئے۔ چنانچہ یہ دونوں بھائی یکے بعد دیگرے قادیان بھی تشریف لے گئے اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دستی بیعت سے مشرف ہوئے۔ الحمدللہ۔
(باقی آئندہ شمارہ میں ان شاءاللہ تعالیٰ)

=============================

(دوسری قسط مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبرواکتوبر 2023ء)

دستِ غیب

ایک موقع پر چودھری اللہ داد صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ جو دست غیب سے متعلق مشہور ہے کہ بعض وظائف یا بزرگوں کی دعا سے انسان کی مالی امداد ہوجاتی ہے کیا یہ صحیح بات ہے؟ مَیں نے کہا کہ ہاں بعض خاص گھڑیوں میں جب انسان پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس وقت اس کی تحریری یا تقریری دعا باذن اللہ یقیناً حاجت روائی کا موجب ہوجاتی ہے۔ میری یہ با ت سن کر چوہدری اللہ داد کہنے لگے تو پھر آپ مجھے کوئی ایسی دعا یا عمل لکھ دیں جس سے میری مالی مشکلا ت دُور ہوجائیں۔ میں نے کہا کہ اچھا اگر کسی دن خاص وقت اور گھڑی میسر آگئی تو ان شاءاللہ میں آپ کو کوئی دعا لکھ دوں گا۔
چنانچہ ایک دن جب افضال ایزدی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے مجھے روحانی قوت کا احساس اور قوت مؤثرہ کی کیفیت کا جذبہ محسوس ہوا تو میں نے حسب وعدہ چودھری اللہ داد صاحب کو ایک دعا لکھ دی جس کے الفاظ غالباً   اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاغْنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَنَّ سَوَاکَ تھے اور تلقین کی کہ وہ اس دعا کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ چنانچہ اس وقت انہوں نے اس دعا کو اپنی پگڑی کے ایک گوشہ میں باندھ کر محفو ظ کرلیا۔
خدا کی حکمت ہے کہ میرے مولا کریم نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اس ناچیز کی دعا کو ایسا قبول فرمایا کہ ایک سال تک چودھری اللہ داد غیبی امداد اور مالی فتوحات کے کرشمے اور عجائبات  ملاحظہ کرتے رہے۔ اس کے بعد سے سوء اتفاق سے یہ دعا چوہدری اللہ داد صاحب سے ضائع ہوگئی اور وہ دست غیب کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

دستِ شفا

میں ایک دفعہ تبلیغ کی غرض سے موضع رجوعہ اور ہیلاں تحصیل پھالیہ کی طرف گیا ہوا تھا کہ میرے ایک دوست چودھری کرم داد ولد چوہدری راجہ خاں وڑائچ ساکن خوجیانوالی بعارضہ بخار بیمار ہوگئے اور بخار کی حالت میں انہیں سر درد کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ آپ موصوف نے اس شدت کی وجہ سے اپنا سر دیواروں میں ٹکرانا شروع کردیا۔ ان کے گھر والوں نے ان کی جب یہ ناگفتہ بہ حالت دیکھی تو انہوں نے اس علاقہ کے مشہور طبیب حکیم غلا م حسین کو بطور معالج کے منگایا اور ساتھ ہی قرآن مجید کے بعض حفاظ کو دَم کرنے کے لیے بلا بھیجا۔
چودھری کر م دین کی حالت جب پھر بھی نہ سنبھلی تو ان کے اصرار پر ان کا بھائی چودھری حسن محمد مجھے بلانے کے لیے موضع راجیکی سے ہوکر موضع رجوعہ اور پھر ہیلاں پہنچا اور میرے پاس چودھری کرم داد کی ساری کیفیت بیان کی۔ میں یہ سنتے ہی جب موضع خوجیانوالی پہنچا تو حکیم غلام حسین جو احمدیت کے متعلق کسی قدر مخالف اور معترضانہ صورت میں باتیں کر رہا تھا مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ مولانا صاحب! آ پ کٹّر مرزائی ہیں اور یہ مرض بھی ہم اطباء کے نزدیک مایوس العلاج ہوچکا ہے۔ اگر آپ اب کوئی مرزا صاحب کی برکت کا معجزہ دکھائیں تو معلوم ہو کہ آپ کا مرزائی ہونا اور مرزا صاحب کا مہدی و مسیح ہونا کیا وزن رکھتا ہے۔
حکیم غلام حسین کا یہ کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر بجلی کی سی رَو چلا دی اور میں لوگوں میں سے گزر کر چودھری کرم داد کے پاس پہنچا اور السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جب میری آواز سنی تو کہنے لگے خدا کا شکر ہے کہ آ پ تشریف لے آئے ہیں۔ اب میں خدا کے فضل سے اچھا ہوجاؤں گا۔ چنانچہ اسی وقت میں نے ان کے بندھے ہو ئے سر سے پٹکا اتارا اور اپنا ہاتھ ان کے ماتھے پر رکھا ۔ ابھی کوئی دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ان کا بخار اور سردرد غائب ہوگیا۔ میں نے ان سے حالت دریافت کی تو کہنے لگے اب تو بالکل اچھا ہوں۔ مَیں نے اسی وقت حکیم غلام حسین کو بلایا اور کہا کہ اب آ پ بھی مریض کو دیکھ لیں۔ چنانچہ جب حکیم غلام حسین نے چودھری کرم داد کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس کی نبض پر ہاتھ رکھا تو حیرت زدہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ بھائی مان لیا ہے کہ مرزائی پکے جادوگر ہیں اور اس فن میں کمال رکھتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے حکیم غلام حسین کو کہا کہ جس بات کو آپ نے مرزا صاحب کی صداقت کا نشان ٹھہراکر معجزہ طلب کیا تھا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس وقت آ پ پر اتمام حجت کر دی ہے اور علمی رنگ میں تو پہلے ہی آ پ بارہا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات اور علاما ت ملاحظہ کرچکے ہیں اس لیے اگر اب بھی آپ نے احمدیت قبول کرنے سے اعراض کیا تو یاد رکھیے تو پھر خدا تعالیٰ کے مؤاخذہ اور گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ چند روز کے بعد اس دنیا سے کوچ کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو اپنی موت سے ثابت کرگیا۔

تا ثیرِ دعا

مو ضع راجیکی میں ہما را ایک حجام محمدالدین نائی رہتا تھا۔ اس کی شادی پر تقریباً بیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا مگر اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ کیونکہ اس کے گھرانے کو ہمارے چچازاد بھائی حافظ غلام حسین صاحب اور ہمارے چچا صاحب حضرت میاں علیم الدین صاحب کے سا تھ بےحد عقیدت تھی اس لیے یہ حجام اور اس کی بیوی مسمات سیداں اکثر ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اولاد کے لیے دعائیں اور تعویذات کراتے رہتے تھے۔
ایک لمباعرصہ کے بعد جب ان کی دعاؤں اور تعویزوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا تو یہ لوگ اولاد سے مایوس ہوگئے۔ اس زمانہ میں اگرچہ احمدیت کی برکت سے اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان سے میری دعاؤں اور ان کے اثرات کا عام چرچا تھا۔ مگر علماء کے فتاویٰ تکفیر اور مقاطعہ کی وجہ سے ان لوگوں کو میرے پاس آنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ پھر محمدالدین حجام اور اس کی بیوی سیداں میرے پاس آنے سے اس وجہ سے بھی گریز کرتے تھے کہ اگر حافظ صاحب کوپتہ چل گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ آخر ان کی بیوی کی حالت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن سیداں نے ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں کہا کہ اگر لڑکا نہیں ہوسکتا تو نہ سہی میرے گھر میں لڑکی ہی پیدا ہوجائے یہی غنیمت ہے۔ تو ایک دن میرے چچا حضرت میاں علیم الدین نے اس کو کہا کہ تم میاں غلام رسول کے پاس جاؤ اور اس سے دعا کراؤ کیونکہ خداتعالیٰ اس کی دعائیں قبول بھی کرتا ہے اور پھر بذریعہ بشارات اسے اطلاع بھی دیتا ہے۔ سیداں نے جب یہ بات سنی تو اس نے کہا کہ میاں غلام رسول صاحب سے ایک تو مجھے شرم آتی ہے اور دوسرے اگرحافظ صاحب کو معلوم ہوگیا تو وہ ضرور مجھے ڈانٹیں گے کہ تم نے اس مرزائی سے کیوں دعا کرائی ہے اس لیے میرے لیے آپ ہی انہیں دعا کے لیے کہہ دیں اور میری سفارش بھی کردیں۔ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ میں بھی ان سے کہوں گا مگر تمہارا ان کے پاس جانا نہایت ضروری ہے۔
اس کے بعد حضرت میاں صاحب سیداں کو لے کر میرے پاس تشریف لائے اور یہ فرماتے ہوئے کہ اس نے بارہا مجھے آپ سے دعا کرانے کے لیے کہا ہے مجھے دعا کرنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسے ولیوں اور حافظ صاحب ایسے بزرگوں کی موجودگی میں اسے میرے ایسے کافروں سے دعا کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ سیداں نے کہا اگر مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ اگر ہم آپ کو کافر سمجھتے تو آپ کی خدمت میں دعا کے لیے کیوں حاضر ہوتے؟ میں نے کہا اگر یہ بات ہے تو میری دعا تو احمدیت کی سچائی کے اظہار کے لیے ہوسکتی ہے تاکہ اس دعا کے ذریعہ آپ لوگوں پر اتمامِ حجت ہو جائے اور اس موقع پر جب کہ تمہارے پیر اور بزرگ سالہاسال سے دعاؤں اور تعویذوں میں لگے ہوئے ہیں میری دعا کے نتائج کیسے واضح ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مولاکریم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اس ناچیز کی دعا کو سن کر تمہیں کوئی بچہ عطا فرمائے اور تم اسے بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان سمجھنے کے پھر انہی پیروں فقیروں کی دعا کا نتیجہ خیال کرنے لگ جاؤ۔ اس بات کو سن کر حضرت چچا علیم الدین صاحب نے فرمایا کہ ہماری دعاؤں اور عملوں کے اثرات تو لوگ سالہاسال سے دیکھ چکے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اس لیے اگر تمہیں کسی اشتباہ کا خیال ہے تو ہم تمہیں اس قسم کی تحریر دینے کے لیے تیار ہیں جس میں اپنی دعاؤں اور عملیات کی ناکامی کا اقرار ہوگا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں تو پھر آج کی تاریخ سے ایک سال کے اندر اندر اگرسیداں اور محمدالدین کے ہاں کوئی بچہ یا بچی پیدا ہو تو وہ احمدیت کا نشان ہوگا۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا اور میں نے خدا کے حضور دعا شروع کردی۔
خدا کی قدرت ہے کہ سال کے اندر ہی میرے خیرالراحمین کی رحمت اور میرے مسیح موعود قادیانی کی برکت سے اس حجام کے گھر لڑکی پیدا ہوگئی۔ گاؤں والوں نے اور گردونواح کے لوگوں نے جب اس نشان کو دیکھا کہ بعد شادی سالہاسال کے عرصہ بعد احمدیت کی برکت سے اس حجام کو خداتعالیٰ نے اولاد دی ہے تو انگشت بدنداں ہوگئے۔ مگر پھر بھی یہ بدبخت لوگ احمدیت کے قریب نہ ہوئے۔ آخر جب اس لڑکی کی عمر چند سال ہوئی تو ان لوگوں نے اس کرامت کو اپنے خبث باطن اور انتہائی شرارت سے پھر اپنے پیروں کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا اور جابجا حافظ صاحب کا چرچا شروع ہوگیا۔ میں نے جب یہ حق پوشی کا مظاہر ہ دیکھا تو مجھے بےحد تکلیف ہوئی اور میں نے اپنے چچا صاحب کی خدمت میں حاضرہوکر کہا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو مانتا ہوں کہ یہ آپ کی متحدیانہ دعاؤں کا نشان ہے مگر یہ جہلاء کا طبقہ احمدیت کے انتہائی بغض و عناد کی وجہ سے اسے حافظ غلام حسین کا کرشمہ اور معجزہ قرار دے رہا ہے۔ ایسا ہی میں نے سیداں سے کہا کہ تم نے احمدیت کا نشان دیکھا ہے اور پھر اس کے خلاف ان لوگوں کی باتیں بھی سنی ہیں مگر تُو نے سچی گواہی کو چھپایا ہے اس لیے میں احمدیت کی غیرت کی وجہ سے اب یہ کہتا ہوں کہ اگر اس لڑکی کے بعد بھی تیرے ہاں کوئی اولاد پیدا ہوئی تو یہ سمجھنا کہ لڑکی میری دعا سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ کسی غیراحمدی کی دعا سے پیدا ہوئی ہے اور پھر اگر یہ لڑکی آج کے دن سے ایک سال تک زندہ رہی تو پھر بھی یہی سمجھنا کہ یہ میری دعا کا نتیجہ نہیں بلکہ کسی غیراحمدی کی دعا کا نتیجہ ہے۔ پس اب احمدی اور غیراحمدی کی دعا میں یہی ایک مابہ الامتیاز ہے۔
خدا کی قدرت ہے کہ سیداں میری یہ بات سن کر گھر پہنچی ہی تھی کہ اس کی یہ لڑکی بیمارہوگئی اور پھر سال کے اندر اندر فوت ہوگئی اور اس کے بعد دونوں میاں بیوی بغیر اولاد کے ہی اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ فَاعتبروا یا اولی الابصار

کرشمۂ قدرت

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد ہمایوں میں جب غیراحمدیوں کے ہمراہ نماز پڑھنے سے جماعت احمدیہ کو ممانعت ہوگئی اور ہم نے مسجد میں علیحدہ نماز پڑھنی شروع کردی تو غیراحمدیوں نے میری ذات کو تفرقہ کا موجب سمجھتے ہوئے میری بےحد مخالفت کی۔ چنانچہ انہی مخالفت کے ایام میں یہ واقعہ رونما ہوا کہ موضع سعداللہ پورمیں ارائیں قوم کے دو بھائی مہر شرف دین اور مہر غلام محمد جو بڑے بارسوخ آدمی تھے ان میں سے مہرغلام محمد جو خوبصورت اور پہلوان اور جوان تھا اس نے دوسری شادی کرنے کے لیے ارائیں قوم کی ایک بیوہ لڑکی کے رشتہ کے متعلق اس کی والدہ اور بھائیوں کو بار بار تحریک کی۔ مگر انہوں نے سوتاپے کی وجہ سے یا کسی اوربِنا پر اس لڑکی کا رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ مہر غلام محمد نے جب اپنی کوشش کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھا تو دور و نزدیک کے بعض رشتہ داروں سے تحریک کروائی لیکن پھر بھی یہ بیل منڈھے نہ چڑھی اور لڑکی والوں نے صاف انکار کردیا۔
مہر غلام محمد نے جب یہ محرومی دیکھی تواس نے ملتان سے لے کر راولپنڈی تک کے تمام سجادہ نشینوں، پیروں اور فقیروں سے تعویذات اور عملیات اور دعائیں کرانا شروع کردیں یہاں تک کہ جب اسی دوڑ دھوپ میں سات سال کا عرصہ گزر گیا اور پیروں فقیروں کے عملیات اوردعاؤں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو وہ بے حد مایوس ہوگیا۔ اسی دوران میں جب میں ایک دن سعداللہ پورکی مسجد میں عام غیراحمدیوں کو احمدیت کی تبلیغ کر رہا تھا تو مہر غلام محمد کا ایک حمایتی کہنے لگا کہ اس زمانہ میں مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ تو لوگ کرتے ہیں مگر نور اور یمن کسی میں نہیں پایا جاتا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ نور اور یمن اور معجزات تو ہمیشہ خداتعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء دکھاتے چلے آئے ہیں مگر دشمنوں کی اندھی آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہی ہیں۔  چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں لاکھوں نور اوریمن سے بھرے ہوئے معجزات دنیا کو دکھائے مگر کفارمکہ نے پھر بھی کہا کہ لَولَا نُزِّلَ عَلَیْہِ آیَۃٌ  کہ کاش اس پر کوئی نشان ہی خدا کی طرف سے اتارا جاتا۔ مگر خداتعالیٰ اس کے جواب میں فرماتاہے:مَا تَأتِیْھِمْ مِنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّھِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ کہ جب بھی خدا کے نشانوں میں سے کوئی نشان کافروں کو دکھایا گیا انہوں نے اس سے اعراض ہی کیا ہے۔ ایسا ہی فی زمانہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہزاروں اور لاکھوں نشانات منکروں کو دکھائے ہیں اور ماننے والی سعید روحوں نے ان کو دیکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت بھی کرلی ہے۔ مگر دشمن اب بھی اس طرح  لَولَا نُزِّلَ عَلَیْہِ آیَۃٌ کے الفاظ کو دوہرارہے ہیں۔
میری یہ بات سن کر اسی غیراحمدی نے کہا کہ مہر غلام محمد سات سال سے ایک بیوہ عورت کے لیے ملتان سے لے کر روالپنڈی تک پیروں فقیروں اور عاملوں کے پاس ٹھوکریں کھار ہا ہے مگر آج تک اس کی حاجت روائی نہیں ہوئی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ جب مہر غلام محمد کی اتنی سی گتھی نہیں سلجھ سکی تو مہدی و مسیح ہونے کا دعویٰ کس کام کا ہے؟ میں نے کہا ہم تو جب ہی اس اعتراض کو صحیح مان سکتے ہیں کہ مہر غلام محمد نے ہمارے سیدو مولا مسیح قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کسی امر کے متعلق دعا کروائی ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو۔ ورنہ اس صورت میں تو ہم پر اعتراض نہیں آتا بلکہ آپ کے غیراحمدی پیروں اور فقیروں اور مرشدوں پر آتا ہے۔ وہ غیراحمدی کہنے لگا اچھا اگر مہر غلام محمد مرزاصاحب کے پاس نہیں گیاتو کیا ہوا آپ جو مرزا صاحب کے مرید یہاں موجود ہیں آپ ہی کوئی کرشمہ دکھائیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو کسی اعجاز نمائی کا دعویٰ نہیں۔ مَیں تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک ناچیز آدمی ہوں۔ البتہ مہر غلام محمد اگر مجھ سے اس امر کی عقدہ کشائی کی درخواست کرے گا تو احمدیت کی تبلیغ کی غرض سے اور اتمام حجت کے لیے میں ضرور اس معاملہ میں دعا کروں گا۔
ان لوگوں نے جب میری یہ بات سنی تو مہر غلام محمد کومیر ی طرف بھیجا۔ اس نے آتے ہی اپنی تمام داستانِ ناکامی کی روئیداد سنائی اور ان پیروں فقیروں کے عملیات کی ناکامی کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب بھی میں ان لوگوں کی ہدایت کے مطابق تعویذ لے کر لڑکی والے کوچہ سے گزراہوں تو ہمیشہ ہی مجھے اس لڑکی نے اور اس کے خاندان والوں نے انتہائی طور پرذلیل کیا ہے اور گالیاں دی ہیں۔ اس لیے اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ان پیروں فقیروں میں کوئی تاثیر اور یمن باقی نہیں رہا۔
میں نے کہا اچھا اب میں ایک عمل بتاتا ہوں۔  اگر اس کی تاثیر سے یہ لڑکی اور اس کی ماں خود تمہارے پاس پہنچیں اور نکاح کی درخواست کریں تو سمجھنا یہ احمدیت کی برکت ہے اور ہماری صداقت کا ایک نشا ن ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے اسے ایک روحانی عمل بتایا۔ خدا کی حکمت ہے کہ مہر غلام محمد نے وہ عمل شروع کیا اور جلد ہی وہ لڑکی اور اس کی ماں گھر سے نکلیں اور مہر غلام محمد کو گاؤں میں تلاش کرتی ہوئیں اس کے پیچھے جنگل میں پہنچیں اور نہایت زاری کے ساتھ کہنے لگیں کہ آپ ہم دونوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں شادی کرلیں ہم راضی ہیں۔ چنانچہ اسی وقت وہ مہر غلام محمد کو اپنے ساتھ گھر لے آئیں اور دن کے گیارہ بجے کے قریب اس لڑکی کے ساتھ مہر غلام محمد کا عقد (نکاح) ہوگیا۔
اس کرشمۂ قدرت کا ظاہر ہونا تھا کہ اس گاؤں کے مردوزن اور گردونواح کے لوگ حیرت زدہ ہوگئے اور مہر شرف دین اور ان کے گھرانے کے افراد نے احمدیت کو قبول کرلیا اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پرآپ کی اس اعجازی برکت کا مشاہدہ کرکے ایمان لے آئے۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک

دعائے مستجاب

مثنوی مولانا روم علیہ الرحمۃ کی تعلیم کے دوران جب میں موضع گولیکی میں اقامت گزیں تھا تو ان دنوں میں اکثر صوم الوصال کے روزے رکھا کرتا تھا۔ ایک دن روزے کی وجہ سے مجھے دودھ پینے کی خواہش محسوس ہوئی تو اس وقت موضع مذکور کا ایک زمیندار مسمّٰی اللہ دتا میرے لیے دودھ کا ایک برتن لے آیا اور اسی طرح تقریباً ہفتہ بھر وہ کسی تحریک کے بغیر ہی میری خدمت کرتا رہا۔ چونکہ اس سے قبل میری اس شخص سے کوئی شناسائی نہ تھی اس لیے میں نے ایک روز اس سے اس مدارات کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ چونکہ راجیکی والے بزرگوں کی اولاد سے ہیں اور پھر ہر روز آٹھ پہرہ روزہ رکھتے ہیں اس لیے مجھے خیال آیا ہے کہ میں آپ ایسے بزرگوں کی کوئی خدمت کروں۔ میں نے کہا کہ اگر آج تم اس خدمت گزاری کی اصل وجہ بیان نہیں کروگے تو میں یہ دودھ ہرگز نہیں پیوں گا۔ وہ کہنے لگا یہ خدمت تو میں فقط ثواب کے حصول کی غرض سے بجا لارہا ہوں مگر ویسے آپ کی دعاؤں کا حاجت مند ہوں کیونکہ میرے سات بچے بڑے خوبصورت پیدا ہوئے تھے مگر ان میں سے ہرایک سال دوسال کی عمر پا کرفوت ہوگیا ہے۔ ان بچوں کے متواتر فوت ہوجانے کی وجہ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اٹھرا کامرض ہے مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مصیبت کسی جادو کے نتیجہ میں آئی ہے یاکسی بزرگ کی سوء ادبی کی سزا ہے اس لیے اب اس کو ٹلانے کے لیے کسی ایسے کامل فقیر کی ضرورت ہے جو نوشتۂ ٔ قسمت کوبدل دے۔
جب اس نے لوگوں کی اس قسم کی باتیں سنائیںاور چند دن کے بعد اس کا آخری لڑکا بھی فوت ہوگیا تو وہ پھر میرے پاس آیا اورکہنے لگا کہ آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ خداتعالیٰ مجھ گنہگار کو بخشے اور آئندہ ان صدمات سے محفوظ رکھے ۔ میں نے جب اس کی یہ دست بستہ التجائیں سنیں تو میرا دل اس کی حالت پر پگھل گیا اور میں نے اسے کہا کہ میں ان شاءاللہ تمہاے لیے دعا کروں گا اور جب تک میرا مولا کریم تمہارے بارہ میں میری تسلی نہ فرماوے میں ان شاءاللہ دعا کاسلسلہ جاری رکھوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد متواتر ایک عرصہ تک جب میں نے اس کے لیے دعا کی تو آخر میرے خیرالراحمین خدانے مجھے یہ بشارت دی اور مجھے مطمئن فرمایا کہ اب اللہ دتا کا کوئی بچہ بچپن میں فوت نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے یہ بشارت قبل از وقت اللہ دتہ اور بعض دوستوں کو اس وقت سنادی اور اس کے بعد جیسا کہ مولا کریم نے فرمایا تھا اس کے یہاں دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی جو خدا کے فضل سے بڑے ہوئے اور اب صاحب اولاد بھی ہیں۔  الحمدللہ علیٰ ذٰلک

دعا سے معجزانہ شفا

ایسا ہی موضع مذکور میں ایک دفعہ چودھری اللہ داد خاں ولد چودھری عالم خاں صاحب کا چار سال کا بچہ شدید بیمارہوگیا اور اس کی حالت مایوس العلاج ہوگئی۔ اس وقت چودھری اللہ دادخاں نے مجھے بلاکروہ بچہ دکھایا (وہ بچہ بالکل مشت استخوان نظرآتا تھا) اوردعا کی درخواست کی۔ میں نے اس وقت دعا بھی کی اور ایک نسخہ بھی بتایا جو اسے استعمال کرایا گیا۔ اس کے بعد میں نے چودھری اللہ داد خاں سے کہا کہ جب میں سال کے بعد آؤں گا تو یہ لڑکا اتنا تندرست ہوگا کہ میں اسے پہچان بھی نہ سکوں گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی وقوع میں آیا۔
ایسا ہی موضع مذکور میں چودھری محمدالدین جونہایت ہی مخلص احمدی تھے انہوں نے مجھے اپنے لڑکے چودھری محمد نواب کے متعلق کہا کہ اس کے پہلے بچے فوت ہو چکے ہیں اور اب کافی عرصہ سے اس کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی اس لیے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اولاد دے۔ میں نے اس کے متعلق دعا کی اور خداتعالیٰ سے خبر پا کرکہا کہ میں جب دوبارہ آؤں گا تو خدا کے فضل سے محمد نواب کے یہاں لڑکا کھیلتا ہو گا۔ اس کے فضلوں کی بات ہے کہ جب میں دوسرے یا تیسرے سال موضع گولیکی آیا تو چودھری اللہ داد خان نے مجھے ایک بالکل تندرست لڑکا دکھایا اور کہا کہ آپ نے پہچانا ہے کہ یہ لڑکا کون ہے؟ میں نے کہا معلوم نہیں۔ کہنے لگے یہ وہی لڑکا تو ہے جس کے متعلق آپ نے دعا فرمائی تھی اور کہا تھا کہ میں جب دوبارہ گولیکی آؤں گا تو اسے پہچان بھی نہ سکوں گا۔
اس کے بعد چودھری محمدالدین آئے اور مجھے اپنے یہاں لے گئے۔ جب میں وہاں پہنچا تو انہوں نے مجھے اپنا پوتا دکھایا جس کے متعلق میں انہیں ایک دوسال پہلے خوشخبری سنا چکا تھا۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک

جھنگ شہر میں خدائی نشان

جب آریوں کی طرف سے ملکانہ کے علاقہ میں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی اور وہ مسلمانوں کے ارتداد کے لیے علاوہ اَور ذرائع اختیار کرنے کے ان کی مفلسی اور اقتصادی بدحالی سے بھی ناجائز فائدہ اٹھارہے تھے اور ان کو رقمی اورمالی امداد کاطمع دے کر شدھ کر رہے تھے تو سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے یہ تحریک فرمائی کہ ارتداد کی ایسی تحریکات کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی اقتصادی حالت کو درست کریں اور اپنی تجارت کاروبار کو وسیع کرکے اور اپنی دکانیں کھول کر اور ان کو ترقی دے کر اپنی مفلسی کو دور کریں۔اس غرض کے لیے حضور رضی اللہ عنہ نے ایک تنظیم کے ماتحت مبلغین کو مختلف علاقہ جات میں بھجوایا۔ اس سلسلہ میں خاکسار کو ضلع جھنگ میں متعین کیا گیا۔
جب میں شہر جھنگ میں پہنچاتو میں نے حالات کے پیش نظر مقامی احمدی احباب کے پاس جانا پسند نہ کیا اور شہر میں دریافت کیا کہ جھنگ میں زیادہ بااثر اور معزز رئیس جو شریف طبع اور بااخلاق بھی ہو کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ میاں
 شمس دین صاحب میونسپل کمشنر ان اوصاف کے مالک ہیں ۔ چنانچہ میں ان کی رہائش گاہ کا پتہ لے کر وہاں پہنچا۔ میاں شمس دین صاحب اپنے گھر کے بڑے صحن میں اپنے حلقہ احباب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجلس میں تقریباًہرطبقہ کے لوگ شامل تھے۔ بعض کے آگے بڑے قیمتی حقے رکھے ہوئے تھے اور خود میاں شمس دین صاحب بھی حقہ پی رہے تھے جس پر چاندی کی گلکاری کی ہوئی تھی۔
مجلس کے قریب پہنچتے ہی میں نے اونچی آواز سے السلام علیکم کہا۔ علیک سلیک کے بعد میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟  میں نے کہا کہ قادیان مقدس سے آیا ہوںاور احمدی ہوں۔ انہوں نے مقصد دریافت کیا تو میں نے مختصر طورپر آریوں کی تحریک شدھی مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی اور اس کے تدارک کے متعلق ضروری اسکیم کا ذکرکیا اور وہ امور بیان کیے جو سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے رسالہ اسلام میں ذکر فرمائے تھے۔ میاں شمس دین صاحب نے کہاکہ مقاصد تو اچھے ہیں لیکن کسی قادیانی کے لیے یہاں بیٹھنا تو درکنار کھڑاہونے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ میں نے ان کی خدمت میں احمدیہ جماعت کااور اس کے مقدّس امام کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی بروقت امداد کاذکر کیا اور ان کوبھی اس مفید اسکیم کی طرف توجہ دلائی لیکن انہوں نے بے التفاتی برتی۔ دریں اثناء ایک طبیب نے جو اسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کسی تعلق سے کہا کہ علم الطب یقینی علم ہے۔ میں نے اس کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ اس وقت تو مَیں جارہاہوں کسی علمی بات کا موقع نہیں صرف اتنا کہہ دیتا ہوں کہ افلاطون کا مشہور مقولہ اطباء اسلام نے نقل کیا ہے کہ
 اَلْمُعَالَجَۃُ کَرَمْیِ السَّھْمِ فِی الظُّلُمَاتِ قَدْ یُخْطِیُٔ وَقَدْ یُصِیْبُ
یعنی مریضوں کا علاج معالجہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کی طرح ہے جو کبھی نشانہ پر بیٹھتا ہے اور کبھی خطا جاتا ہے۔ پس علم طبّ کو یقینی علم کہنا درست نہیں۔
میں ابھی اس سلسلے میں بات کر ہی رہا تھا کہ میاں شمس دین صاحب کو گھر سے اطلاع ملی کہ ان کی لڑکی (جس کو آٹھواں مہینہ حمل کا ہے بوجہ قَے) قریب المرگ ہے۔ ان کو زنان خانہ میں فوراًبلایا گیا۔ ادھر پیغامبر نے یہ اطلاع دی اور دوسری طرف میں نے باہر نکلتے ہوئے السلام علیکم کہا اور پنجابی میں یہ بھی کہا کہ ’’اچھا تسی وسدے بھلے اور اسی چلدے بھلے‘‘۔ ابھی میں نے ایک دوقدم ہی باہر کی طرف اُٹھائے تھے کہ میاں صاحب نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہرجائیں اور اگر آپ کو طبابت سے واقفیت ہوتو اس مرض کے لیے کوئی نسخہ بتا جائیں۔ مَیں نے کہا کہ حاملہ کی قَے کے لیے آپ سات پتے پیپل کے جو خودریختہ ہوں لے لیں اور ان کو جلا کر راکھ چینی کے پیالہ میں ڈال لیں اور آدھ پاؤ یا تین چھٹانک پانی ڈال کر اس میں گھول لیں۔ جب راکھ نیچے بیٹھ جائے تو پھر گھول لیں۔ اسی طرح سات مرتبہ کرکے راکھ کو تہ نشین کرلیں اور یہ مقطر پانی مریضہ کو پلا دیں۔
میرے کہنے کے مطابق میاں صاحب نے عمل کیا۔ خداتعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ مریضہ کی قَے پانی پیتے ہی رُک گئی اور اس کی طبیعت فوراً سنبھل گئی۔ جب انہوں نے یہ کرشمۂ قدرت دیکھا تو میری طرف فوراً آدمی دوڑایا  (میں اس عرصہ میں گھر سے نکل کر دُور آچکا تھا) اور مجھے اپنے آنے تک رُکنے کے لیے کہا۔ چنانچہ میں رُک گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی آپہنچے اور علاج کی بےحد تعریف کرنے کے بعد درخواست کرنے لگے کہ مَیں ان کے ہاں مہمان ٹھہروں اوروہ ہر طرح سے میرے آرام وسہولت کا خیال رکھیں گے اور مہمانداری کا حق ادا کریں گے۔ میں نے کہا میری دعوت کو تو آپ نے ردّ فرمایا ہے جو قومی فائدہ کے لیے تھی اور اپنی طرف سے مجھے دعوت دے رہے ہیں۔ میاں صاحب نے بہت معذرت کی اور کہا کہ جو کچھ ہواسب ناواقفیت کی وجہ سے ہوا۔ اب میں روزانہ شہر میں ڈھنڈوری پٹا کر مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا انتظام کروں گا اور جلسہ کا انعقا د کرکے آپ کو مفید اورکارآمد خیالات کے اظہار کا موقع بہم پہنچاؤں گا۔ چنانچہ حسب وعدہ روزانہ جلسے کا انتظام اور انعقاد کرتے اور خود اپنی صدارت میں میری تقریر کراتے۔ ان کے اثرورسوخ اور وقار کی وجہ سے لوگ جوق درجوق جلسہ میں آتے اور میری تقریر کو سنتے یہاں تک کہ شہر کے مسلمانوں میں اپنی اقتصادی حالت کو سنوارنے کے لیے خوب بیداری پیدا ہوگئی۔ اسّی کے قریب مسلمانوں کی نئی دکانیں کھل گئیں اور جو دوکانیں اور کاروبار پہلے موجود تھا زیادہ پُررونق ہوگیا۔
مجھے بوجہ اس شہر میں ناواقفیت اور اجنبیت کے بظاہر کامیابی کی کوئی امید نہ تھی لیکن یہ سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کی توجہ اور قوت قدسیہ تھی کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اچانک میاں شمس دین صاحب کی لڑکی کے اچانک بیمار ہونے اور میرے معمولی علاج سے شفایاب ہونے کا واقعہ ظاہر ہوا اور وہ جو میرا اپنے گھر میں کھڑا ہونا بھی برداشت نہ کرسکتے تھے ایک زبردست معاون اور ہمدرد بن گئے اور بڑے فخر اور محبت سے تقریباً دوہفتہ تک میری رہائش اور مہمان نوازی کا انتظام کیا اور مزید قیام کے لیے بھی اصرار کرتے رہے۔ اس موقع پر جھنگ شہر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس رنگ میں کامیابی ہوگئی کہ  ہندو تلملا اٹھے اور سرکاری افسران کو تاریں دیں کہ قادیانی مولوی کو اس طرح کارروائی کرنے سے روکا جائے۔

بَھدرک (اُڑیسہ )میں سلسلہ ٔ حقہ کی تائید

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے ماتحت ہندوستان کے دورہ کے لیے چار افراد پر مشتمل ایک وفد بھیجا گیا جس میں خاکسار راقم مولوی محمد سلیم صاحب فاضل مہاشہ محمد عمر صاحب اور گیانی عباداللہ صاحب شامل تھے۔ ہم پہلے کلکتہ گئے۔ وہاں سے ٹاٹانگر جمشیدپور ہوتے ہوئے کیرنگ پہنچے۔ کیرنگ میں بڑی جماعت ہے جو مولوی عبدالرحیم صاحب پنجابی کے ذریعہ قائم ہوئی تھی۔ کیرنگ کے ارد گرد کے دیہات میں بھی ہم تبلیغ کی غرض سے جاتے رہے۔ ایک دفعہ ایک گاؤں کی طرف جارہے تھے کہ راستہ میں ایک سانپ کا عجیب نمونہ دیکھا۔ ہم بلندی کے اوپر ایک راستہ پر جا رہے تھے اور وہ بہت بڑاسانپ نشیب میں جارہا تھا۔ اس سانپ کے اوپر کی طرف پشت پر بالکل گلہری کی طرح دھاریاں تھیں۔ اسی طرح اس علاقہ کے سرس کے درخت دیکھے۔ ان کے پھول بجائے زرد اور کالے رنگ کے سرخ رنگ کے تھے۔ اس رنگ کے پھول پنجاب وغیرہ کے علاقوں میں نہیں ہوتے۔
کیرنگ سے ہم بھدرک پہنچے۔ یہ خاں صاحب مولوی نور محمد صاحبؓ کا آبائی وطن تھا جو پولیس کے اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ بھدرک میں علاوہ دیگر شرفاء اور معززین کے ایک ہندو مہنت سے بھی ملاقات ہوئی جو وہاں کے رئیس تھے۔ انہوں نے ہماری ضیافت کا انتظام بھی کیا اور اپنی وسیع سرائے میں جلسہ کرنے اورلیکچر دینے کی اجازت دی۔ اس سرائے کے ایک حصہ میں ہندؤں کے بت خانوں کی یادگاریں اور بتوں کے مجسمے جابجا نصب تھے۔ جب ہماری تقریریں شروع ہوئیں تو اوپر سے ابرسیاہ برسنا شروع ہوگیا۔ تمام چٹائیاں اور فرش بارش سے بھیگنے لگا۔ اس وقت احمدیوں کے دلوں میں لیکچروں میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی ۔ میرے دل میں بھی سخت اضطراب پیدا ہوا اور میرے قلب میں دعا کے لیے جوش بھرگیا۔ میں نے دعا کی کہ اے ہمار ے مولیٰ! ہم اس معبدِ اصنام میں تیری توحید اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور تیرے پاک خلیفہ اور مصلح موعود کے بھیجے ہوئے آئے ہیں لیکن آسمانی نظام اور ابرسحاب کے منتظم ملائکہ بارش برسا کرہمارے اس مقصد میں روک بننے لگے ہیں۔ میں یہ دعا کر ہی رہاتھا کہ قطرات بارش جوابھی گرنے شروع ہی ہوئے تھے، طرفۃالعین میں بند ہوگئے اور جولوگ بارش کے خیال سے جلسہ گاہ سے اُٹھ کر جانے لگے تھے، مَیں نے ان کو آواز د ے کر روک لیا اور کہا اب بارش نہیں برسے گی، لوگ اطمینان سے بیٹھ کر تقریریں سنیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب مبلغین کے لیکچر ہوئے اور بارش بند رہی اورتھوڑے وقت میں مطلع بالکل صاف ہوگیا۔ فالحمد للہ علٰی ذٰلک

بھاگلپور میں تائیدِ الٰہی کا کرشمہ

ہمارا یہ وفد جب بھاگلپور میں پہنچا تو مقامی جماعت کی طرف سے ایک جلسہ منعقد کرکے ہما رے لیکچروں کا انتظام کیا گیا۔ جلسہ کا پنڈال ایک سرسبز شاداب اور وسیع میدان میں بنا یا گیا۔ حضرت مو لوی عبدالماجد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں کے امیر جماعت تھے۔ آپ کے انتظام کے ماتحت کرسیاں میز اور دریاں قرینے سے لگائی گئیں۔ حاضرین کی تعداد بھی کافی ہوگئی۔
ابھی جلسہ کا افتتاح ہی ہوا تھا کہ ایک کالی گھٹا جو برسنے والی تھی مقابل کی سمت سے نمودار ہوئی اور کچھ موٹے موٹے قطرات بارش کے گرنے بھی شروع ہوگئے۔ میں اس وقت سٹیج کے پا س حضرت مولوی ابوالفتح پروفیسر عبدالقادر صاحب کے پہلو میں بیٹھا ہو ا تھا۔ میرے قلب میں اس وقت بارش کے خطر ہ اور تبلیغی نقصان کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی طرف سے ایک جو ش بھر گیا اور میں نے اس جو ش میں اس الحا ح اور تضرّع کے ساتھ دعا کی کہ اے خدا! یہ ابرسیا ہ تیرے سلسلہ حقہ کے پیغام پہنچا نے میں روک بننے لگاہے اور تبلیغ کے اس زریں موقع کو ضا ئع کرنے لگا ہے۔ تُو اپنے کرم اور فضل سے اس امنڈتے ہوئے بادل کو بر سنے سے روک دے اور اس کو دُور ہٹا دے۔ چنانچہ جب لوگ موٹے موٹے قطرات کے گرنے سے دُور ہٹنے لگے اور بعض لوگوں نے فرش کو جو نیچے بچھا یا ہو ا تھا لپیٹنے کی تیا ری کرلی تو میں نے اس سے منع کر دیااور لو گوں کو تسلی دلائی کہ وہ اطمینان سے بیٹھے رہیں، بادل ابھی چھٹ جا ئے گا۔
یہ خداتعالیٰ کی قدرت کا عجیب کر شمہ ہے کہ وہ بادل جو تیزی سے امنڈا چلا آتا تھا قدرت مطلقہ سے پیچھے ہٹ گیا اور بارش کے قطرات بھی بند ہو گئے اور ہمارا جلسہ خداتعالیٰ کے فضل سے کامیابی کے ساتھ سرانجام ہوا۔ فَالحمدللہ علیٰ ذٰلک

غازی کوٹ ضلع گورداسپور میں ایک نشان

اسی قسم کا ایک واقعہ اور کرشمۂ قدرت غازی کوٹ ضلع گورداسپور میں ظہورپذیر ہوا۔ گاؤں مذکور کے رئیس نے، جومخلص احمدی تھے، وہاں ایک تبلیغی جلسے کا انتظام کیا اور علاوہ مبلغین اور مقررین کے اردگرد کے احمدی احباب کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی۔ جلسہ دو دن کے لیے مقرر کیا گیا۔ جب غیراحمدیوں کو اس جلسہ کا علم ہوا توا نہوں نے بھی اپنے علماء کو جو فحش گوئی اوردشنام دہی میں خاص شہرت رکھتے تھے مدعو کرلیا اورہماری جلسہ گاہ کے قریب ہی اپنا سائبان لگاکر اور اسٹیج بناکر حسبِ عادت سلسلہ حقہ اور اس کے پیشواؤں اور بزرگوں کے خلاف سب وشتم شروع کردیا۔ ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک طرف سے سخت آندھی اٹھی اور اس طوفانَ باد نے انہی کے جلسہ کا رُخ کیا اور ایسا اودھم مچایا کہ ان کا سائبان اُڑکر کہیں جاگرا، قناتیں کسی اَور طرف جاپڑیں اور حاضرین جلسہ کے چہرے اور سر گرد سے اَٹ گئے یہاں تک ان کی شکلیں دکھائی نہ دیتی تھیں۔ بارہ بجے دوپہرتک جو غیراحمدیوں کا پروگرام تھا وہ سب کاسب طوفان باد کی نذر ہوگیا۔
ہمارا جلسہ 12 بجے کے بعد شروع ہونا تھا اور سب سے پہلی تقریر میری تھی۔ آندھی کاسلسلہ ابھی چل رہاتھا کہ مجھے اسٹیج پر بلایا گیا۔ میں نے سب حاضرین کی خدمت میں عرض کیا کہ سب احبا ب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جلسہ کو ہر طرح سے کامیاب کرے۔ چنانچہ میں نے سب حاضرین سمیت دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور خداتعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے مولیٰ کریم! تُو نے خود ہی قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مخلص مومن اور فاسق و کافر برابر نہیں ہوسکتے اور تجھے معلوم ہے کہ احمدیوں کے جلسہ کی غرض تیرے پاک مسیح کی تصدیق اور توصیف کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر دونوں مقاصد میں تیرے نزدیک کوئی فرق ہے تو اس آندھی کے ذریعہ اس فرق کو ظاہر فرما اور اس آندھی کے مسلط کرنے والے ملائکہ کو حکم دے کہ وہ اس کو تھام لیں تاکہ ہم جلسہ کی کارروائی کو عمل میں لاکر اعلائے کلمۃ کرسکیں۔ مَیں ابھی دعا کر ہی رہاتھا اور سب احباب بھی میری معیت میں ہاتھ اُٹھائے ہوئے تھے کہ یکدم آندھی رک گئی اور ایسی رکی کہ ریاح عاصفہ سے باد نسیم میں تبدیل ہو گئی اور چند منٹ تک ہوا میں بالکل سکون ہوگیا اور ہمارا جلسہ بخیر وخوبی سرانجام پایا ۔ خداتعالیٰ کی نصرت کے یہ سب کرشمے اس کے پاک مسیح موعود اورنائب الرسول اور اس کے عظیم الشان خلفاء کی خاطر اور ان کی برکت سے ظاہر ہوئے۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک

موضع مکھنا والی کاایک واقعہ اور کرشمۂ قدرت

ایک دفعہ سید عادل شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور بڑے مخلص احمدی تھے یہ خواہش ظاہر کی کہ ان کے گاؤں موضع مکھنانوالی میں ایک تبلیغی جلسہ کیا جائے جس میں تمام گردونواح کے احمدی احباب اکٹھے ہوں تاکہ اس جلسہ کے ذریعہ ایک تو احمدیت کی تبلیغ ہو اور دوسرے احمدی احباب کی ملاقات بھی ہوجائے۔ چنانچہ انہوں نے جلسہ کی تاریخ مقرر کی اور ہم سب احمدی موضع مکھنانوالی پہنچ گئے۔ دوران جلسہ میں میری بھی تقریر ہوئی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور دلائل کے متعلق قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں سے ثبوت پیش کیے گئے۔ ان تقریروں کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اثر ہوا کہ بعض غیراحمدیوں نے حضرت مسیحؑ کی وفات کا مسئلہ تو تسلیم کر لیا اور حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت بھی انہیں حسن ظنی پیدا ہوگئی اور و ہ نفرت اور کراہیت، جو علماء مکفّرین کے فتاویٰ کی وجہ سے ان لوگوں میں پائی جاتی تھی، بہت حد تک دُور ہوگئی۔
ہم نے چونکہ ان تقریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور بعض نشانوں کا بھی ذکر کیاتھا اس لیے جلسہ کے برخاست ہونے کے بعد جب ہم سب دوست نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آئے تو ہمارے پیچھے اس گاؤں کے دو ماچھی سقہ قوم کے فرد بھی آگئے اور پکار پکار کر کہنے لگے کہ مہدی و مسیح کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر نور اور یمن اتنا بھی نہیں کہ کوئی کرامت دکھا سکیں ۔ میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تمہاری اس سے کیا مراد ہے۔ تب ان میں سے ایک نے کہا کہ میرا بھائی قریباً ڈیڑھ سال سے ہچکی کے مرض میں مبتلا ہے۔ طبیبوں اورڈاکٹروں کے علاج سے بھی اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے کہا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ اگر آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دعا کراتے اور اس کو کوئی فائدہ نہ ہوتا تو اعتراض بھی تھا۔ اب ہم پر کیا اعتراض ہے! اس نے کہا تو آپ احمدیت کااثر دکھائیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں کہ احمدی اور غیراحمدی لوگوں میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو لاؤ کہاں ہے تمہارا مریض۔ چنانچہ اسی وقت اس شخص نے اپنے بھائی کو جو پاس ہی بیٹھا کراہ رہاتھا میرے سامنے کھڑا کردیا۔
خدا کی حکمت ہے کہ اس مریض کا میرے سامنے آنا ہی تھا کہ میں نے ایک غیبی طاقت اور روحانی اقتدار اپنے اندر محسوس کیا اور مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ میں اس مرض کے ازالہ کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے ایک اعجاز نما قدرت رکھتا ہوں۔ چنانچہ اسی وقت میں نے اس مریض کو کہا کہ تم میرے سامنے ایک پہلو میں لیٹ جاؤاور چار چار منٹ تک جلد جلد سانس لینا شروع کردو۔ (یہ بات میں نے ایک الہامی تحریک سے کہی تھی۔) چنانچہ ا س نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد میں نے اسے اٹھنے کے لیے کہا۔ جب وہ اُٹھا تو اس کی ہچکی بالکل نہ تھی۔ اس کرامت کو جب تمام حاضرین نے دیکھا تو حیرت زدہ ہوگئے اوروہ دونوں بھائی بلند آواز سے کہنے لگے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحب واقعی سچے ہیں اوران کی برکت کے نشان واقعی نرالے ہیں۔ اس کے بعد حکیم علی احمد صاحب احمدی رضی اللہ عنہ جو ایک عرصہ تک اس مرض کا علاج کرکے مایوس ہوچکے تھے، مجھے کہنے لگے آج آپ نے تو کمال دکھایا ہے۔ میں نے کہا یہ تو احمدیت کا کمال ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر کیا ہے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک

دل کی نماز

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ ملامتی فقیروں کی ایک ٹولی موضع سعد اللہ پور ضلع گجرات میںوارد ہوئی۔ لوگوں نے جب ان فقیروں کے بے دینی کے حالات ملاحظہ کیے اور بعض مسائل کے متعلق ان سے گفتگو بھی کی تو اس کے سرکردہ فقیرنے جو بڑا چالاک اور ہوشیارآدمی تھا سب کو لاجواب کردیا۔ اتفاق سے انہی دنوں مَیں بھی اس گاؤں میں گیا تو مجھے بھی بعض دوستوں نے ان کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے گفتگو کرنے کو کہا۔ چنانچہ میں بھی صبح کے وقت چند دوستوں کے ہمراہ ان کے پاس پہنچا اور ان لوگوں سے مسائل مخصوصہ کے متعلق گفتگو کی۔ دورانِ گفتگو میں جب نماز کے متعلق بات چلی تو ان لوگوں کے سر کردہ نے کہا کہ نماز تو دراصل دل کی ہوتی ہے ورنہ ظاہری نماز تو کافر اور منافق انسان بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس کے جواب میںمَیں نے انہیں بتایا کہ اگر دل کی نماز سے تمہاری یہی مراد ہے کہ اس کی ادائیگی میں ظاہر ی ارکان کی چنداں ضرورت نہیںتو ایسی نماز ہمارے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شریعت سے تو ثابت نہیں ہوتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز کے ساتھ حضور قلب کی شرط لگائی ہے وہاں آنحضرت ﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ سے اس کے ظاہری ارکان کی پابندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے بلکہ حدیث شریف میں تو نماز کے تارک کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتویٰ دیا ہے کہ مَنْ تَرَکَ الصَّلوٰۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ یعنی جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی وہ یقیناً کافرہوگیا۔ اور ایک جگہ فرمایا:اَلْفَرْقُ بَیْنَ الْعَبْدِ الْمُؤْمَنِ وَالْکَافِرِ تَرْکُ الصَّلوٰۃِ کہ مومن اور کافر انسان کاامتیاز نماز چھوڑنے سے ہوجاتاہے۔ ایسا ہی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز جب اہل جنت دوزخیوں سے دوزخ میں جانے کی وجہ دریافت کریں گے تو اس کے جواب میں دوزخی اپناسب سے پہلاجرم یہی بتائیں گے کہ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ  یعنی ہم وہ نماز جو حضورقلب او رارکان مخصوصہ پر مشتمل تھی ادا نہیں کیا کرتے تھے ۔ پس مسلمان ہوتے ہوئے نماز کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اس کا تعلق محض دل سے ہے اور قیام ورکوع اورسجود و تعوذ سے وابستہ نہیں یہ بات صحیح نہیں ہے۔
اس کے بعد میں نے مثال کے طور پر انہیں یہ بھی سمجھایا کہ انسان دراصل محض روح یا محض جسم کا نام نہیں بلکہ روح اور جسم کے مرکب کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کی روح جہاںاس کے جسمانی مؤثرات سے متأثر ہوتی ہے وہاں اس کا جسم بھی اس کے روحانی مؤثرات سے متأثر ہونے پر مجبور ہے۔ پس یہ خیال کرنا کہ دل میں تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت کاجذبہ موجود ہو مگر جسم اور اس کے اعضاء یا روح پر اس کا کوئی اثر نہ ہو درست نہیں ہے۔
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں