’’مستدرک‘‘ امام حاکم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جولائی 2011ء میں مکرم طلعت حفیظ صاحب نے اپنے ایک معلوماتی مضمون میں حضرت امام حاکم ؒ کی مرتّبہ حدیث کی کتاب ’مستدرک‘ کا تعارف پیش کیا ہے۔
حضرت امام محمد بن عبداللہ بن محمد کی کنیت ابوعبداللہ اور ابن بیع ہے۔ جبکہ حاکم آپ کا لقب ہے۔ آپؒ کے اجداد میں سے ایک بزرگ تاجر ہونے کے باعث بیع کہلاتے تھے اسی نسبت سے آپ کی کنیت ابن بیع ہے اور منصب قضا پر فائز رہنے کی وجہ سے آپ کو حاکم کا لقب ملا۔ آپ کی ولادت 3ربیع الاول 321ھ/ 936ء کو نیشا پور میں ہوئی۔ آپ شافعی المذہب تھے۔
امام صاحب ایک متدیّن اور علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد کی سرپرستی میں کیا جنہیں امام مسلمؒ (صحیح مسلم کے مصنف) کو دیکھنے کا شرف حاصل تھا۔ نیشا پور اس وقت علماء فن اور محدثین کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرکے امام حاکم ؒ نے بیس برس کی عمر میں دوسرے علمی مراکز ( بخارا، بغداد، کوفہ، بصرہ، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ ) کا رخ کیا۔ بغداد کا سفر آپ نے دو مرتبہ کیا۔
امام حاکم ؒ کے مشہور اساتذہ میں ابن حبّان، دار قطنی اور ابو بکر الصبغی شامل ہیں۔ جبکہ آپؒ کے بعض مشہور شاگردوں میں ابویعلی خلیلی (الارشاد فی معرفۃ المحدثین کے مصنف)، ابو القاسم قشیری (صاحب رسالہ قشیریہ و چہل حدیث) اور ابوبکر بیہقی ( صاحب سنن الکبریٰ)شامل ہیں۔
امام حاکم ؒ حدیث میں غیر معمولی کمال و امتیاز رکھنے کی بنا پر ’’امام المحدثین ، الحافظ الکبیر ، شیخ المحدثین اور سید المحدثین‘‘ کے القابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔ علامہ ابن العماد فرماتے ہیں ’’نہ صرف خراسان بلکہ ساری دنیا میں اقلیم حدیث کی تاجداری آپ پر ختم ہو گئی‘‘۔ علامہ ابن صلاح اور حافظ نووی نے صحاح ستہ کے مصنفین کے بعد جن سات محدثین کو نہایت صاحب کمال قرار دیا ہے ان میں امام دارقطنی کے بعد دوسرا نام حاکم کا ہی بتایا ہے۔
آپؒ کو حفظ میں بھی اعلیٰ مقام پر رکھا جاتا ہے اور الحافظ فی الحدیث کہلاتے ہیں۔ امام موصوف زہد و اتقاء میں بھی ممتاز تھے شاید اسی وجہ سے دار قطنی ؒ امام حاکم ؒ کی خاص عزت کیا کرتے تھے۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیںکہ ایک روز امام حاکم اپنے استاد دارقطنی ؒ کے ہاں حدیث پڑھ رہے تھے اور مجلس میں بڑے بڑے ماہرینِ فن بھی جلوہ افروز تھے کہ کسی شاگرد نے حاکم پر اعتراض کیا تو امام دارقطنی ؒنے اُسے روک دیا اور فرمایا: ’’ہم نے کبھی کسی انسان کو اتنی کم عمری میں اتنے بلند مرتبہ پر فائز نہیں دیکھا۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ حاکم کا ہم عصر ہونا ہزار محدّثین کے ہم عصر ہونے جیسا ہے‘‘۔
امام صاحب موصوف جرح و تعدیل کے فن میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ 974ء میں عہدہ قضاء پر متمکّن ہوئے۔ امراء و حکام آپ پر بڑا اعتماد کرتے تھے۔ امیر ابوالحسن آپ سے مشورے لیا کرتا تھااور بنی بویہ کے پاس سفارت کے لئے بھیجتا تھا۔ آپؒ محکمہ قضاء کے فرائض سے اس قدر خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہوئے کہ دوبارہ آپ کو جرجان کا عہدۂ قضا پیش کیا گیا لیکن آپؒ نے معذرت کرلی۔
اما م حاکم ؒ نے 1014ء میں بعمر 85برس وفات پائی۔ علامہ ابن سبکی رقمطرازہیں کہ امام موصوف ’’ان ائمہ اعلام میں سے تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دین مبین کی حفاظت کاکام لیا ‘‘۔
امام حاکم کی تصنیفات کمیت و کیفیت دونوں اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ علوم حدیث میں لوگوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں لیکن اس فن کے یگانہ ٔ روزگار ائمہ اور علماء فحول میں ابوعبد اللہ حاکم ہیں۔ انہوں نے اس فن کو باقاعدہ مرتب و مہذب کیا اور اس کے محاسن اچھی طرح نمایاں کئے۔
امام حاکم کا اپنا بیان ہے کہ ’’میں چشمۂ زمزم سے پانی پی کر اللہ تعالیٰ سے حسن تصنیف کا خواستگار ہوا تھا‘‘۔
سعد بن علی سے چار ہمعصر محدثین یعنی دارقطنی، عبدالغنی، ابن مندہ اور حاکم کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے چاروں کی جدا جدا خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سب میں حاکم بہترین مصنف تھے۔
آپؒ کی تصنیفات کی تعداد 1500 جزء تک بتائی جاتی ہے۔ جن میں سے اکثر معدوم اور ناپید ہو چکی ہیں۔ موجود کتب میں ’’کتاب العلل‘‘، ’’مزکی الاخبار‘‘، ’’تاریخ نیشاپور‘‘: ’’معرفۃعلوم الحدیث‘‘ اور ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ شامل ہیں۔ موخرالذکرآپؒ کی سب سے مشہور اور شہرہ آفاق کتاب ہے۔
حدیث کی اصطلاح میں ’’مستدرک‘‘ ایسی کتاب ہے جس میں اُن حدیثوں کو درج کیا جاتا ہے جو حدیث کی کسی اَور کتاب کی شرائط کے مطابق ہونے کے باوجود اس میں درج ہونے سے رہ گئی ہوں۔ امام حاکم کی یہ کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر مستدرک ہے۔ ’’مستدرک‘‘ کا مقام علماء کے نزدیک نہایت بلند ہے۔
امام حاکم نے ’’مستدرک‘‘ کی ترتیب و تبویب میں بعض مقامات میں جدّت واختراع سے بھی کام لیا ہے۔ اس سے بھی ان کی محنت اور جانفشانی کا اندازہ ہوتاہے۔ مثلاً ’’کتاب المناقب‘‘ میں خلفاء راشدین کے مناقب بیان کرنے کے بعد دیگر صحابہؓ کے فضائل ان کی تاریخ وفات کے اعتبار سے درج کئے ہیں۔ اور مناقب کے ساتھ ساتھ صحابہ کے مختصر حالات بھی تحریر کئے ہیں۔
مستدرک کے ذریعے صحیحین کے متعلق بعض مفید معلومات ملتی ہیں جیسے کہ ایک حدیث کو نقل کرکے امام حاکم لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ’’یوسف بن ابی بردہ‘‘ کو شیخین نے محض اس لئے ترک کر دیا ہے کہ وہ قلیل الروایت ہیں ورنہ راوی پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی۔
’مستدرک‘ میں درج اکثر احادیث کے مراجع اور مصادر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ نیز بعض ابواب و مضامین کی احادیث کو جمع کرنے میں امام حاکم ؒ نے بڑا اہتمام کیا ہے اس لئے ’مستدرک‘ میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں جن سے دوسری کتبِ حدیث خالی ہیں۔
مستدرک کی اہمیت کے پیش نظر علامہ شمس الدین محمد بن احمد الذہبی اور علامہ جلا ل الدین السیوطیؒ نے مستدرک کی تلخیص پر مشتمل کتب لکھی ہیں۔ مستدرک کا درجہ علماء کے نزدیک نہایت بلند ہے۔ تاہم اس میں شامل بعض ضعیف روایات کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام حاکم نے اپنی کتاب کا ایک حصہ اپنے بڑھاپے میں (نسیان کی بیماری میں) تحریر کروایا ہے جو عملاً آپؒ نے نہیں لکھا بلکہ آپؒ کی طرف سے روایت کیا گیا ہے۔
امام حاکم پر شیعہ ہونے کا اعتراض بھی لگایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ’مَنْ کُنْتُ مَولَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ‘ اور حدیث طیر درج کی ہے ۔ علامہ ابن سبکی نے اس موضوع پر بڑی عمدہ بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ امام حاکم کے سارے اساتذہ بڑے راسخ العقیدہ اہل سنّت تھے اور انہی سے آپ کا میل جول رہتا تھا۔ پھر یہ کہ حاکم نے اپنی تاریخ میں اہل سنّت بزرگوں کی کماحقہٗ تعظیم کی ہے، نیز یہ کہ حاکم مذہب کلام کے اعتبار سے اشعری تھے۔ نیز مذکورہ حدیث سنن ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی درج ہے اور امام نسائی کی ایک کتاب میں یہ حدیث آٹھ مختلف سندوں سے لکھی ہے۔ پھر یہ کہ اس سے ملتی جلتی ایک حدیث امام مسلمؒ نے بھی لکھی ہے۔ یہی قصہ حدیث طیر کا ہے۔ امام حاکم کی طرح اسے بھی اما م ترمذی نے نقل کیا ہے۔ بلکہ حدیث طیر کو امام حاکم نے ضعیف بھی قرار دیا ہے۔ الغرض امام حاکم ایک راسخ العقیدہ اہل سنّت بزرگ تھے جس کا ثبوت خود ان کی کتابوں سے بھی ملتا ہے۔ مثلاً اپنی کتاب ’’الأربعین‘‘ میں آپ نے خلفائے ثلاثہ کی فضیلت کا باب باندھا ہے اسی طرح ’مستدرک‘ میں بھی خلفائے راشدین کے فضائل کا ذکر صحیح ترتیب سے کیا ہے۔ اور ترتیب میں فضائل کو مدّ نظر رکھا ہے حالانکہ موقع تھا کہ حضرت علیؓ کو حضرت عمر ؓ اور عثمان ؓ پر قبول اسلام کے زمانہ کے لحاظ سے فضیلت دیتے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں مستدرک امام حاکم کا دس مرتبہ ذکر فرمایا ہے اورپانچ احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ مثلاً لَامَھْدِیُّ اِلَّاعِیْسیٰ۔ اس حدیث کو چار مقامات پر مستدرک حاکم کے حوالہ سے پیش فرمایا ہے۔ پھر اِنَّ عِیْسیٰ ابْنُ مَرْیَم عَاشَ عِشْرِیْنَ وَ مِئَۃَ سَنَۃُ۔ کو دو مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ اور باقی تین درج ذیل احادیث کا ذکر مستدرک کے حوالہ سے ایک ایک مرتبہ کیا ہے: ’’اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد پیدا ہوگا‘‘۔ ’’مہدی موعود عدل اور انصاف سے زمین کو پُر کرے گا‘‘۔ اور ’’مسیح موعود کے وقت میں لوگ حج سے روکے جائیں گے‘‘۔
پس امام حاکمؒ کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اس زمانہ کے حکم و عدل نے ا ن کی کتاب سے احادیث نقل کی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں