صحابہ رسول ﷺ کا انفاق فی سبیل اللہ اور ایثار

فرخ سلطان محمود

(مطبوعہ ’’انصارالدین‘‘ نومبر و دسمبر 2016ء, ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جون 2021ء)

قرآن کریم میں سورۃ حدید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ(الحدید :19)

یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اوروہ لوگ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے مال میں اللہ کو قرضہ حسنہ دیا ان کا مال ان کے لئے بڑھایا جائے گا اور انہیں عزت والا بدلہ دیا جائے گا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِعْلَمُوٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّ زِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْا َمْوَالِ وَالْا َوْلَادِکَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا۔ وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ۔ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْر (الحدید:21)

کہ جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اورنفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنے اور اموال اوراولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا یہ زندگی اُس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے اور پھر تو اُس فصل کو سبز ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے۔ نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی ہے جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکہ کا ایک عارضی سامان ہے۔

پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
سَابِقُوٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنَ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءوَالْارْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔ وَاللّٰہِ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الحدید:22)
کہ اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اسے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔
اس آیت کریمہ کے حوالے سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پس مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کی مغفرت کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اس جنت کو حاصل کرنے والے اور اس کے وارث ٹھہرتے ہیں جو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں نظر آتی ہے اور اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک مومن کے لئے مقدر کی ہے جو خالص ہو کر خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر کام اور فعل کرتا ہے۔ مومن ایک ایسی جنت کا وارث بنتا ہے جو زمینی بھی ہے اور آسمانی بھی۔ اس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی خوش ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍جنوری ۲۰۰۹ء)

قرآن کریم نے انفاق مال کے ساتھ بہترین اور پسندیدہ مال کی شرط بھی لگائی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مال پیش کرنے کا تعلق ایثار سے ہے۔ اپنی ضروریات اور متفرق حوائج کو چھوڑتے ہوئے یعنی اپنی خواہشات کا قلع قمع کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال کو بخوشی پیش کردینا ہی انفاق کی حقیقی روح ہے۔ یعنی مال پیش کرنے کا مقصد محض خداتعالیٰ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آنحضرتﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! اجر کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تُو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو، غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔ صدقہ و خیرات میں ایسی دیر نہ کر یہاں تک جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تُو کہے فلاں کو اتنے دے دو اور فلاں کو اتنا۔ حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا یعنی اب تیرے اختیار سے نکل چکاہے۔

(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر 1330)

انفاق فی سبیل اللہ دو طرح سے ہے یعنی فرض جیسے زکوٰۃ اور نفل مثلاً صدقات۔ آنحضورﷺ کی زیرتربیت صحابہ ہر دو طرح کی مالی قربانیوں میں انتہا درجے پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے متعدد احادیث اور صحابہؓ کے بہت سے خوبصورت واقعات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 1999ء (سیرت صحابہ نمبر) میں درج ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
چنانچہ فرض یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے صحابہؓ کا اسوہ یوں تھا کہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب پھل پک جاتے اور زکوٰۃ کا وقت آتا تو صحابہؓ جوق در جوق اپنے اموال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے یہاں تک کہ ایک ڈھیر لگ جاتا۔
حضرت اُبی بن کعبؓ کو آنحضورﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ایک صحابی کے پاس جب آپؓ پہنچے تو انہوں نے اپنا بہت سا مال پیش کردیا۔ آپؓ نے کہا کہ تم پر صرف اونٹنی کا ایک بچہ فرض ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ بچہ کس کام کا؟ نہ وہ سواری کے قابل ہے، نہ دودھ دیتا ہے، آپ یہ اونٹنی لے جائیں۔ آپؓ نے بتایا کہ آنحضور ﷺ کی اجازت کے بغیر آپؓ اسے قبول نہیں کرسکتے تو وہ صحابیؓ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بات دہرائی۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے اونٹنی قبول کرتے ہوئے فرمایا: فرض تو وہی ہے جو اُبی نے بیان کیا ہے لیکن اگر تم اس سے زیادہ دو تو وہ صدقہ ہوگا اور ہم اس کو قبول کرلیں گے۔
ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ جب ہمیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجتے تو فرماتے کہ دودھ دینے والی اونٹنی وصول نہیں کرنی۔ ایک جگہ کسی نے ایک نہایت خوبصورت، جسیم اونٹنی پیش کی مگر مَیں نے قبول نہ کی۔ اُس نے اصرار کیا کہ اُس کے مال میں سے بہترین اونٹنی لے لوں۔ پھر میرے کہنے پر نسبتاً کم قیمت والی اونٹنی لے آیا تو مَیں نے اسے کہا کہ مَیں اسے قبول تو کر لیتا ہوں مگر اس بات سے ڈرتا ہوں کہ حضورﷺ کہیں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔
ایک صحابیہؓ اپنی لڑکی کے ساتھ آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا اِن کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ خدا قیامت کے دن تمہارے ہاتھ میں آگ کے کنگن پہنائے۔ انہوں نے یہ سنا تو فوراً کنگن آپؐ کے سامنے ڈال دیئے۔
یہ فرض انفاق فی سبیل اللہ کی چند مثالیں تھیں لیکن جب معاملہ زکوٰۃ کی بجائے صدقات کا ہو تو صحابہؓ کی زندگیوں میں نہایت دلکش نظارے نظر آتے ہیں۔ مثلاً
حضرت ابوبکرؓ نے کئی بار اپنا سارا مال خدا اور اُس کے رسولؐ کی خاطر پیش کردیا۔ حتیٰ کہ ہجرت کے وقت اپنا سارا مال پانچ چھ ہزار درہم بھی اپنے ہمراہ لے لیے تاکہ راستے میں راہِ خدا میں پیش کرسکیں۔ آپؓ کی روانگی کے بعد آپؓ کے والد ابوقحافہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، آپؓ کے گھر آئے اور آپؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ سے پوچھا کہ کیا تمہارا باپ کچھ گھر میں بھی چھوڑ گیا ہے یا مصیبت میں مبتلا کرگیا ہے۔ ابوقحافہ کی نظر کمزور تھی۔ حضرت اسماءؓ کی قوت ایمانی ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے کچھ پتھر ایک کپڑے کے نیچے رکھ دیئے اور اپنے دادا کا ہاتھ اُن پر رکھا کہ ابوبکرؓ ہمارے لئے خیر کثیر چھوڑ گئے ہیں۔ اس پر ابوقحافہ نے اطمینان کا اظہار کیا۔
حضرت عمرؓ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنا نصف مال آنحضورﷺ کے قدموں میں رکھ کر سوچا کہ آج مَیں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا سارا مال راہِ خدا میں پیش کردیا اور حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ مَیں ان پر کبھی کسی چیز میں سبقت نہیں لے جاسکتا۔
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے بہترین مال کو خدا کے حضور پیش کرو تو کئی صحابہؓ کرام (مثلاً حضرت طلحہؓ، حضرت ابو الدحداحؓ اور حضرت عبداللہ بن زیدؓ) نے اپنے باغ صدقہ کردیئے، بعض صحابہؓ (مثلاً حضرت عمرؓ) نے باغ کا پھل راہِ خدا میں پیش کیا، کئی صحابہؓ (مثلاً حضرت اسماءؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عمرؓ) نے اپنے کئی غلاموں کو آزاد کیا۔ بعض صحابہؓ (مثلاً حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ابن عمرؓ) نے اپنے بہترین جانور پیش کردیے۔
حضرت ابن عمرؓ کی عادت تھی کہ جب کوئی چیز انہیں اپنے مال میں زیادہ پسند آتی تو اُسے اللہ کی راہ میں دے کر قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کے غلاموں کو آپؓ کی اس عادت کا پتہ چل گیا۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی غلام نماز کے لیے خوب تیار ہوکر مسجد میں جاکر بیٹھ جاتا۔ حضرت ابن عمرؓ اُس کو اس حالت میں دیکھتے تو خوش ہوکر اسے آزاد کردیتے۔ آپؓ کے ساتھی آپؓ سے کہتے کہ ان غلاموں میں عبادت کا شوق نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف آپؓ کو دھوکا دیتے ہیں۔ آپؓ فرماتے: ’’جو ہم کو اللہ کے معاملہ میں دھوکا دے گا، ہم ضرور اُس کے دھوکے میں آئیں گے‘‘۔
حضرت عثمانؓ کی مالی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں۔ آنحضورﷺ نے ایک خطبہ میں جب جیش عسرہ کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلائی تو آپؓ نے ایک سو اونٹ مع کجاوہ و پالان کے دینے کا وعدہ کیا۔ جب آنحضورﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا تو آپؓ نے مزید ایک سو اونٹوں کا وعدہ کیا۔ پھر جب آنحضورؐ نے تیسری بار توجہ دلائی تو آپؓ نے بھی مزید ایک سو اونٹوں کا وعدہ کرلیا۔ تب آنحضورؐ نے آپؓ کے لیے یوں دعا کی: ’’اے میرے اللہ! عثمان کو بھول نہ جانا، عثمان پر کوئی مؤاخذہ نہیں اگر آج کے بعد وہ کوئی عمل نہ کرے‘‘۔
غزوہ تبوک میں حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار سواریاں پیش کیں اور غزوہ کے کُل خرچ کا ایک تہائی پیش کردیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ایک مالدار تاجر تھے۔ آپؓ نے ایک دفعہ سات سو اونٹ مع سامان تجارت کے صدقہ کیے۔ ایک بار چار ہزار درہم، پھر چالیس ہزار درہم، پھر چالیس ہزار دینار، پھر پانچ سو اونٹ، پھر ڈیڑھ ہزار اونٹنیاں صدقہ کیں، کئی سو گھوڑے جہاد کے لئے پیش کئے۔
حضرت ابولبابہؓ اپنی ایک غلطی پر نادم ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول فرمالی۔ پھر وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مکان اور سارا مال صدقہ کردیا۔ آنحضورﷺ نے تہائی مال کا صدقہ قبول فرمالیا۔
اسی طرح حضرت کعبؓ بن مالک کی توبہ جب قبول ہوئی تو انہوں نے بھی اپنا سارا مال بطور شکرانہ کے صدقہ کرنے کے لئے آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کچھ مال اپنے پاس رکھ لو۔
حضرت سلمانؓ فارسی مدائن کے گورنر تھے اور آپؓ کا وظیفہ پانچ ہزار دینار تھا۔ مگر سارا وظیفہ صدقہ کر دیتے اور خود چٹائیاں بُن کر گزارا کرتے۔ آپؓ کے بھانجے نعمان بن حمید کہتے ہیں کہ آپؓ فرماتے تھے: مَیں کھجور کے پتے ایک درہم میں خریدتا ہوں اور محنت کرکے انہیں تین درہم میں بیچتا ہوں۔ ایک درہم تو اسی کام کے لئے رکھ لیتا ہوں، دوسرا درہم اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں اور ایک درہم صدقہ کر دیتا ہوں۔ کوئی بھی مجھے اس کام سے روکے تو مَیں نہیں رکوں گا۔
آنحضورﷺ نے ایک خطبہ عید میں صدقہ و خیرات کی ترغیب دی تو صحابیاتؓ نے اپنے کانوں کی بالیاں، گلے کے ہار اور انگلیوں کے چھلے تک اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈال دیئے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ سے زیادہ کسی کو سخی نہیں دیکھا۔ ان دونوں کے طریقے مختلف تھے۔ حضرت عائشہؓ تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کرتیں اور جب کچھ مال جمع ہوجاتا تو تقسیم کر دیتیں لیکن حضرت اسماءؓ تو کوئی چیز پاس رکھتی ہی نہیں تھیں۔
ایک بار ایک صحابیؓ انڈے کے برابر سونا لے کر آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے یہ سونا ایک کان سے ملا ہے، اسے بطور صدقہ قبول فرمائیے، اس کے علاوہ میرے پاس اَور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آنحضورﷺ نے اعراض فرمایا تو اُس صحابیؓ نے دوبارہ عرض کیا اور پھر سہ بارہ عرض کیا۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنا تمام سرمایہ صدقہ میں دے دیتے ہو اور پھر بھیک مانگنے لگتے ہو۔ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد بھی انسان کے پاس کچھ مال رہ جائے۔
حضرت حکیم بن حزامؓ کے پاس دو اعرابی سائل آئے تو آپؓ انہیں بازار لے گئے۔ دو اونٹنیاں خرید کر اُن کا سامان خریدا اور اُن پر غلہ لاد کر اعرابیوں کے حوالہ کردیا۔
پس تاریخ اسلام کے دورِ اوّلیں میں مالی قربانیوں کے بہت سے واقعات محفوظ ہیں جب کئی صحابہؓ نے سائل کی ضرورت پوری کرنے کے لئے قرض لیا اور بے شمار صحابہؓ نے صدقہ و خیرات کرنے کے لئے مزدوری کی اور اپنی محنت کی کمائی پیش کردی۔ اُمّ المومنین حضرت زینبؓ بن جحش چمڑہ رنگنے اور سینے کے فن سے آشنا تھیں اور اس طرح جو آمد ہوتی اللہ کی راہ میں خرچ کرتیں۔ حضرت زینبؓ سوت کات کر مجاہدین کی مدد کیا کرتی تھیں۔ حضرت سودہؓ کھالیں بناتیں اور اُن سے ہونے والی آمدنی صدقہ کرتیں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جاکر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوتی، ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے، کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضامندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں‘‘۔

(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 79)

روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کو ایک چادر کی شدید ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ نے اپنے ہاتھ سے چادر بن کر آپؐ کی خدمت میں پیش کی۔ آپؐ اسے زیب تن کر کے صحابہ کی مجلس میں آئے تو آپؐ کے جسم مبارک پر وہ بہت جچ رہی تھی۔ مگر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ چادر مجھے دیدیں۔ رسول اللہؐ جب مجلس سے واپس تشریف لے گئے تو چادر ان کو بھجوادی۔ دوسرے صحابہؓ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے بہت ناراض ہوئے کہ انہوں نے چادر کیوں مانگی مگر انہوں نے کہا کہ میں نے تو یہ چادر اس لئے مانگی تھی کہ مجھے بطور کفن پہنائی جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

(صحیح بخاری کتاب البیوع باب النساء حدیث نمبر 1951)

ایک صحابی حضرت ربیعہ الاسلمیؓ غربت کی وجہ سے شادی نہ کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے خود ان کا رشتہ کروایا۔ ولیمہ کا وقت آیا تو حضورؐ نے انہیں فرمایا: عائشہؓ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری لے آؤ۔ وہ فرماتے ہیں میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ٹوکری میں تھوڑا سا آٹا ہے اور اس کے علاوہ کھانے کی کوئی اَور چیز نہیں لیکن چونکہ حضورؐ نے فرمایا ہے اس لئے لے جاؤ چنانچہ اس آٹے سے ولیمے کی روٹیاں پکائی گئیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4حدیث نمبر 15982)

حضرت ابو بصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے قبل آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے مجھے بکری کا دودھ پیش کیا جو آپ کے اہل خانہ کے لئے تھا۔ حضورؐ نے مجھے سیر ہو کر وہ دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کر لیا۔ بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرت ﷺ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے گزاری تھی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد6حدیث نمبر 25968)

ایک بار حضرت علیؓ نے کسی معاملہ میں درخواست کی تو حضور ﷺ نے فرمایا ابھی تو اہل صفہ کا انتظام نہیں ہوا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں تمہیں دیدوں اور اہل صفہ کو اس حال میں چھوڑ دوں کہ بھوک سے ان کے پیٹ دہرے ہوتے رہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد اوّل حدیث نمبر 562)

دراصل یہی سبق تھے جو آنحضرتﷺ کے صحابہؓ نے اپنے آقا و مولیٰ سے سیکھے۔ اور پھر مالی قربانی کے نتیجہ میں جو برکتیں نازل ہوئیں اُن کا بھی مشاہدہ کیا۔
حضرت دکینؓ بن سعید فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم 440آدمی تھے اور ہم نے حضورؐ سے غلہ مانگا۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا اٹھو اور انہیں دو۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میرے پاس تو صرف اتنا ہے جو میرے اور میرے بچوں کے لئے گرمی کے موسم میں کفایت کرے۔ آپؐ نے فرمایا اٹھو اور دو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر گھر آئے۔ کمرہ کھولا تو وہاں کھجوروں کا چھوٹا سا ڈھیر تھا۔ ہم میں سے ہر آدمی نے اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا۔ مگر خدا کی قدرت کے اس ڈھیر میں ذرّہ برابر کمی نہ آئی۔

(حلیۃالاولیاء جلد اوّل صفحہ365)

ایک بار رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کیا آج تم میں سے کسی نے مسکین کو کھلایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ فوراً اٹھے گھر پہنچے ان کے بیٹے عبدالرحمن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اس سے لے لیا۔ وہ لے کر مسجد گئے اور وہاں ایک سائل ملا تو روٹی کا وہ ٹکڑا اسے دے دیا۔

(سنن ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر 1422)

ایک دفعہ حضرت علیؓ کے پاس کسی سائل نے آکر سوال کیا تو آپ نے حضرت حسنؓ یا حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی امّاں سے جا کر کہو میں ان کے پاس چھ درہم چھو ڑ آیا ہوں ان میں سے ایک درہم دے دیں۔ چنانچہ وہ صاحبزادے گئے اور واپس آکر کہا کہ اماں جان کہتی ہیں کہ آپ نے آٹا خریدنے کے لئے وہ چھ درہم چھوڑے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بندے کا ایمان سچا نہیں ہوسکتا جب تک کہ بندہ کو اس چیز پر جو اللہ کے قبضہ میں ہو، زیادہ اعتما نہ ہو بہ نسبت اس چیز کے جو بندے کے قبضہ میں ہو۔ پھر فرمایا کہ جا کر اپنی اماں سے وہ چھ درہم لے آؤ۔ حضرت فاطمہؓ نے وہ رقم بھیج دی اور حضرت علیؓ نے وہ چھ کے چھ درہم اس سائل کو دے دیے۔

(کنزالعمال جلد3 صفحہ310)

اسی طرح ایک مسکین نے حضرت عائشہؓ سے کچھ مانگا۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک چپاتی کے اور کچھ نہ تھا۔ آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا یہ روٹی سائل کو دے دو۔ خادمہ نے کہا کہ پھر آپ کس چیز روزہ افطار کریں گی حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ روٹی ضرور اس سائل کو دے دی جائے۔
ایک دفعہ کسی مسکین نے حضرت عائشہؓ سے کھانا طلب کیا۔ ان کے سامنے انگور کا ایک خوشہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے ایک آدمی سے کہا کہ یہ خوشہ اٹھا کر سائل کو دے دو۔ اس آدمی نے تعجب کیا مگر آپ نے یہ آیت پڑھی:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ

اگر کوئی ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا تو اس کا بدلہ پائے گا۔

ایک مرتبہ حضرت معاویہؓ نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے۔ شام ہونے تک آپؓ نے سب کے سب تقسیم کردئیے۔ اس دن آپ کا روزہ بھی تھا۔ جب افطاری کا وقت آیا تو لونڈی نے آپؓ سے کہا کہ گھر میں آج افطاری کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

(مستدرک حاکم جلد 4صفحہ13)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ایک بار بیمار تھے۔ آپؓ نے فرمایا: میرا دل مچھلی کھانے کو چاہتا ہے۔ لوگوں نے آپ کے لئے مچھلی تلاش کی۔ بڑی تلاش کے بعد صرف ایک مچھلی ملی جسے ان کی بیوی حضرت صفیہ نے کھانے کے لئے تیار کر دیا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے سامنے پیش کیا۔ اتنے میں ایک مسکین آیا اور حضرت ابن عمرؓ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ آپؓ نے مچھلی اٹھا کر اسے دے دی۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ آپ نے تو ہمیں اس مچھلی کی تلاش میں تھکا دیا تھا، ہم مسکین کو درہم دے دیتے ہیں، وہ درہم اس کے لئے مچھلی سے زیادہ مفید ہوگا، آپ مچھلی کھا کر اپنی خواہش پوری کیجئے۔ مگر حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ اس وقت میرے نزدیک یہی مچھلی محبوب ہے اور مَیں اِسے ہی صدقہ کروں گا۔

(حلیۃالاولیاء جلد اوّل صفحہ297)

حضرت سعید بن عامرؓ ایک دفعہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ حضرت عمرؓؓ کا دورِ خلافت تھا جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے ایک ہزار دینار حضرت سعیدؓ کو بھجوادئیے۔ وہ یہ دینار لے کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور واقعہ بتایا۔ بیوی نے کہا آپ اس رقم سے کچھ کھانے پینے کا سامان اور غلہ خرید لیں۔ فرمانے لگے کیا میں تجھے اس سے بہتر بات نہ بتاؤں۔ ہم اپنا مال اس کو دیتے ہیں جو ہمارے لئے تجارت کرے اور ہم اس کی آمدنی سے کھاتے رہیں اور اس مال کی ضمانت بھی وہی دے۔ بیوی نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت سعیدؓ بن عامر نے وہ تمام دینار اللہ کی راہ میں خرچ کر دیے اور تنگی اور ترشی میں گزارہ کرتے رہے۔

(حلیۃالاولیاء جلد اوّل صفحہ244)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں بہت زیادہ مبتلائے مشقّت ہوں۔ آنحضرتﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا آج کی رات اسے کون مہمان کے طور پر ٹھہرائے گا۔ حضرت ابو طلحہؓ انصاری نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ مَیں۔ چنانچہ وہ اسے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کے لئے ہے؟ اس نے کہا سوائے بچوں کے کھانے کے اَور کچھ نہیں۔ انہوں نے بیوی سے کہا: بچوں کو کسی چیز سے بہلا دے اور جب وہ شام کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دے۔ اور جب ہمارا مہمان اندر آئے تو چراغ بجھادینا۔ چنانچہ انہوں نے مہمان کی آمد پر چراغ گُل کر دیا اور بچوں کو سلادیا اور خود دونوں میاں بیوی مہمان کے ساتھ بیٹھ کر اندھیرے میں منہ ہلاتے رہے گویا کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح گھر کے سب لوگ فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس نے رسول اللہﷺ کو وحی کے ذریعہ سے اس واقعہ کی خبر دی۔ حضورؐ نے صبح حضرت ابوطلحہؓ کو بلایااور ہنستے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا۔ اللہ تعالیٰ کو تم دونوں کی یہ بات بہت پسند آئی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الاشربہ حدیث نمبر3839)

حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جمعہ کو ایک بدحال شخص مسجد میں داخل ہوا۔ آنحضرتﷺ نے اس کی خاطر صدقہ کی تحریک فرمائی۔ صحابہؓ نے کچھ کپڑے پیش کئے تو رسول اللہؐ نے وہ کپڑے اسے دے دیے۔ اگلے جمعہ کو وہ پھر آیا اور رسول اللہؐ نے جب صدقہ کی تحریک کی تو اس نے دو کپڑوں میں سے ایک پیش کر دیا۔ مگر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تم اپنا کپڑا اٹھا لو۔

(سنن نسائی کتاب الجمعہ حدیث نمبر1391)

حضرت جریرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک غریب قوم کے لوگ حاضر ہوئے جو ننگے پاؤں اور ننگے بدن تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر رسول اللہﷺ کا چہرہ متغیر تھا اور آپ نے صحابہؓ کو جمع کر کے خطاب کیا اور ان کے لئے صدقہ کی تحریک فرمائی۔ صحابہؓ نے دینار، درہم، کپڑے اور جو اور کھجور صدقہ کیا یہاں تک کہ کپڑوں اور غلے کے دو ڈھیر جمع ہوگئے۔ حضرت جریرؓ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہؐ کا چہرہ یہ منظر دیکھ کر سونے کی ڈلی کی طرح چمک رہا تھا۔

(صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر1691)

اگرچہ صحابہ کرام کی قربانیاں اکثر ایسی پوشیدہ ہوتی تھیں کہ جن کا اظہار ہوجانا کسی طَور وہ پسند نہیں کیا کرتے تھے تاہم یہ چند ایک مثالیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں یہ ہم سب کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ پیش کرتی ہیں۔ خدا کرے کہ ہم بھی اُن راہوں پر چلنے والے ہوں جنہیں آنحضورﷺ اور آپؐ کے اصحاب نے ہمارے لیے بہترین نمونے کے طور پر چھوڑا ہے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں