تعارف کتاب: ’’مضامین شاکر‘‘ (جلد دوم)

تعارف کتاب (تبصرہ: عبادہ عبداللطیف)

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری فروری 2015ء)

آپ کی نظر سے بھی یقینا بعض ایسی کتب گزری ہوں گی جن کی ورق گردانی شروع کی جائے تو دلچسپ مضامین اپنی گرفت سے نکلنے ہی نہیں دیتے اور ایسے میں وقت کے گزرنے کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی تکان کا بوجھ یا نیند کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ جب تک کتاب پوری ختم نہ ہوجائے تب تک ایک ایسی تشنگی کا احساس قائم رہتا ہے جس کے نتیجہ میں قاری دیگر کاموں سے فراغت حاصل کرکے کتاب کے بقیہ صفحات سے لطف اندوز ہونے کی خواہش ہمہ وقت اپنے اندر موجزن پاتا ہے۔ قریباً تین سال قبل ایک ایسی ہی خوبصورت کتاب ہم تک پہنچی تھی جس کے بارہ میں اپنے دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے چند سطور رسالہ ’’انصارالدین‘‘ کے ایک سابقہ شمارہ کی زینت بنائی گئی تھیں۔ گزشتہ دنوں اس کتاب یعنی ’’مضامین شاکر‘‘ کا دوسرا حصہ ہم تک پہنچا ہے اور آج ہمارے پیش نظر یہی معلوماتی مجموعہ ہے۔ پہلے حصہ کی طرح یہ بھی دلچسپ معلوماتی مضامین اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
’’مضامین شاکرؔ‘‘ (حصہ دوم) ساڑھے تین صد صفحات پر مشتمل ایک ضخیم مجلّد کتاب ہے۔ کتاب کا سرورق دیدہ زیب مگر سادہ ہے اور برطانیہ کی نہایت نابغۂ روزگار ہستی یعنی ملکہ وکٹوریہ کی تصویر سے مزیّن ہے۔ دراصل اس کتاب میں ملکہ موصوف کے حوالہ سے شاندار تحقیقی معلوماتی مضامین شامل اشاعت ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ محترم شاکر صاحب موصوف کی تحقیق کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام (کتاب کی صورت میں) ملکہ عالیہ تک پہنچا تھا اور ملکہ کی طرف سے اس پر عقیدت کا اظہار بھی کیا گیا تھا تاہم ملکہ کے قبولِ اسلام کے خوف کے پیش نظر اُن کے قریبی عزیزوں اور خدام کی طرف سے ایسا طریق کار اپنایا گیا کہ ملکہ عالیہ کی خواہشات کے برعکس حضرت اقدس علیہ السلام سے مزید رابطہ جاری نہ رکھا جاسکا۔ اس عالمانہ تحقیق کے نتیجہ میں محترم شاکر صاحب نے جو اہم نتائج حاصل کئے ہیں وہ بلاشبہ مسیح پاک علیہ السلام کا ایک غلامِ صادق ہی حاصل کرسکتا تھا۔
محترم عبدالرحمن شاکر صاحب مرحوم (ابن حضرت نعمت اللہ گوہر صاحبؓ) ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ نے ایسے اچھوتے علمی رنگ میں مؤثر تربیتی اور منفرد قسم کے معلوماتی مضامین تحریر کئے جو مختلف جرائد و اخبارات کی زینت بنتے تو قارئین کی روح تک کو سیراب کرجاتے۔ مرحوم کی پچاس سالہ ادبی و علمی کاوشوں میں سے خوبصورت انتخاب مرتب اور مدوّن کرکے شائع کرنے کی سعادت اُن کے بیٹے مکرم کلیم احمد کِم صاحب کو حاصل ہورہی ہے۔ اس مجموعہ کو انہوں نے اپنی والدہ محترمہ فضل بیگم صاحبہ کے نام معنون کیا ہے۔ اپنے مرحوم بزرگوں کی شاندار ادبی کاوشوں کو محفوظ کرنا ایک صدقہ جاریہ ہے اور یقینا ایک قابل ستائش عمل بھی۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء۔
پیش نظر کتاب ’’مضامین شاکر‘‘ حصہ دوم میں کُل 60 مضامین شامل ہیں جن میں سے5 انگریزی زبان میں اور باقی اردو زبان میں تحریر کئے گئے ہیں۔ تمام مضامین عمدہ تحریری کمالات سے مالامال ہیں۔ تحقیقی عرقریزی کے نتیجہ میں حاصل شدہ معلومات سے بھرپور ہیں۔ نیز منفرد علمی زاویہ نگاہ سے تحریر کئے جانے کے باعث نہایت دلچسپ اور سبق آموز گہرائی کے بھی حامل ہیں۔ اس کتاب کی تعریف میں یہ کہنا یقینا بجا ہے کہ اسے پڑھنا آپ کی زندگی میں پیش آنے والے کئی روزمرّہ مسائل میں راہنمائی فراہم کرسکتا ہے۔
اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اگر پروف ریڈر کی کارکردگی سے (یعنی ایسی اغلاط جن سے بچا جاسکتا تھا) کسی حد تک صَرف نظر کرلیا جائے تو پھر یقینا دلچسپ مضامین، برجستہ اشعار مستند حوالوں، جاندار تجزیوں اور اہم نتائج تک پہنچنے کے لحاظ سے، نیز منفرد انداز بیان اور کسی بھی موضوع کی گہرائی میں جاکر اس کا ہر نقطۂ نظر سے احاطہ کرنا … عمدہ کتب کی شیلف میں اس کتاب کو نمایاں مقام پر فائز کرتا ہے۔
اس حصۂ کتاب میں متعدد اہم اور تاریخی شخصیات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ مثلاً مہدی سوڈانی، لارڈ کچنر، ملاوامل، میر امان اللہ آف افغانستان اور ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی اپنے ہندوستانی استاد منشی عبدالکریم صاحب کے ہمراہ نایاب تصویر۔ یہ تصاویر اس کتاب کو زیادہ مستند، دلچسپ اور معلوماتی بناکر پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملکہ معظّمہ وکٹوریہ کی قلمی تحریر (رسم الخط) کی نقل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کتاب میں محترم شاکر صاحب کا اپنے خاندان کے تعارف پر مشتمل ایک مضمون بھی شائع ہوا ہے۔ محترم عبدالرحمن شاکر صاحب کا اسم گرامی جماعت احمدیہ کے علمی طبقہ اور جرائد و اخبارات کے قارئین میں بہت معروف ہے کیونکہ آپ کے تحریر کردہ مضامین نصف صدی سے زائد عرصہ تک مختلف جماعتی جرائد کی زینت بنتے چلے آتے رہے ہیں۔ اُس دَور میں تحریر کئے جانے والے آپ کے مضامین آج بھی آپ کے منفرد اسلوب اور نہایت گہری تحقیق پر مبنی علمی کاوشوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
اگرچہ ’’مضامین شاکر‘‘ (حصہ اوّل و دوم) کے منتخب مضامین معمولی تبدیلی کے ساتھ ’’انصارالدین‘‘ اور بعض دیگر جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ تاہم اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ محترم شاکر صاحب مرحوم کی علمی و ادبی کاوشوں کا اصل لطف ان کتب کے مطالعہ سے ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان کتب کو پڑھنے کے بعد قاری یقینا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ محترم شاکر صاحب نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا ہے، اُس موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے اور بے شک وہ اُس موضوع کی جزئیات تک کا احاطہ کرتے ہوئے قاری کی تشنگی کے احساس کو سیرابی اور شادابی میں بدل دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان دو بھرپور جلدوں کی اشاعت کے بعد بھی ہمیں امید ہے کہ محترم شاکر صاحب کے باقی مضامین کو بھی یکجا کرکے پیش کرنے کا حسین عمل جاری رہے گا۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ اس کام کی توفیق پانے والوں کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں