اسلام کی نشأۃ ثانیہ
تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے صدسالہ جشن خلافت سوونیئر میں ایک مضمون حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ (خلیفۃالمسیح الرابع) کا اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے حوالہ سے شائع کیا گیا ہے ۔
اسلام کے تنزل کا آغاز خلافت راشدہ کی ناقدری سے ہوا جس کے نتیجے میں وہ برکتیں اٹھ گئیں جو اس نظام سے وابستہ تھیں، دین اسلام میں تمکنت باقی نہ رہی، خوف نے امن کی جگہ لے لی، توحید خالص ناپید ہونے لگی اور وحدت ملّی پارہ پارہ ہوگئی۔ حضرت حذیفہؓ نے اس بارہ میں آنحضورﷺ کی روایت بھی بیان کی ہے۔ بعد میں ایک مرتبہ اس موضوع پر گفتگو کے دوران انہوں نے حضرت عمرؓ سے بیان کیا کہ آنحضورﷺ نے ان فتنوں کی راہ میں ایک بند دروازہ حائل ہونے کی بھی خبر دی تھی۔ اس پر حضرت عمرؓ اس کا مفہوم پاگئے اور پوچھا کہ فتنوں کی یلغار سے پہلے یہ دروازہ کھولا جائیگا یا توڑا جائیگا؟ حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا: توڑا جائیگا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے بڑی حسرت سے فرمایا کہ اگر توڑا جائیگا تو پھر کبھی بند نہ ہوگا۔
یہ بند دروازہ خلافت راشدہ ہی تھی جو کہ اسلام اور فتنوں کے درمیان بڑی مضبوطی سے حائل تھی۔ افسوس اس دروازہ پر پہلی چوٹ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پڑی اور خود آپؓ ہی کی ذات مبارک پر ایک سفّاک خنجر کا حملہ وہ ضرب کاری ثابت ہوا جس نے اس مقدّس دروازہ میں پہلا شگاف ڈالا۔ ایک ایرانی مجوسی غلام ابولؤلؤ فیروز نے بعض دوسرے غلاموں کے ساتھ مل کر آپؓ کے قتل کی سازش تیار کی اور ناراضگی کا بہانہ وضع کرنے کی خاطر آپؓ سے ایک دن مطالبہ کیا کہ میرے مالک سے کہہ کر میرا مالکانہ بڑھوادیجئے۔ حضرت عمرؓ نے وجہ پوچھی تو جواب تسلّی بخش نہ پایا۔ چنانچہ آپؓ نے انکار فرمادیا۔ بات بہت معمولی سی تھی مگر گفتگو کے دوران اُس نے ایک ایسا فقرہ بولا جس کا مفہوم حضرت عمرؓ یہ سمجھے کہ یہ مجھے دھمکی دیتا ہے۔ چنانچہ آپؓ نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ اگر شبہ کی بنا پر کسی کا قتل جائز ہوتا تو مَیں اِسے اِس الزام میں قتل کروادیتا کہ اس نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے۔ افسوس کہ اس تنبیہ کے باوجود اُس کی نگرانی کا کوئی انتظام نہ کیا گیا اور 4؍نومبر 644ء کو جب حضرت عمرؓ نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے، ابو لؤلؤ مسجد میں داخل ہوا اور پے در پے آپؓ پر خنجر کے چھ وار کئے جن سے زخمی اور نڈھال ہوکر حضورؓ وہیں جائے نماز پر گر گئے اور اپنے ہی خون کے سیلاب میں نہاگئے۔ پیشتر اس کے کہ اس ظالم کے کوئی ہاتھ روکتا، یہ واقعہ گزرچکا تھا تاہم نہتے نمازی خنجر بکف فیروز پر ٹوٹ پڑے اور قاتل کو بھاگ نکلنے کی اجازت نہ دی لیکن اس کشمکش میں سات دیگر صحابہؓ شہید ہوگئے اور چھ شدید زخمی ہوئے لیکن بالآخر اُسے مغلوب کرلیا گیا لیکن اُس نے اپنے سینہ میں خنجر گھونپ کر خودکُشی کرلی۔ تیسرے روز حضرت عمرؓ بھی رحلت فرماگئے اور اس طرح جانثارانِ خلافت محمدیہ کا یہ پہلا قافلہ آٹھ سعید روحوں پر مشتمل ملاء اعلیٰ میں اپنے ربّ اور آقا حضرت محمد مصطفیﷺ کے قدموں میں حاضر ہوگیا۔
4؍نومبر کا یہ دن بلاشبہ اسلام کی تاریخ کا سب سے زیادہ تاریک اور سب سے زیادہ پُردرد اور پُرآلام دن تھا۔ یہی وہ دن تھا جو خلافت راشدہ کے اختتام کا آغاز بنا اور یکے بعد دیگرے اسلام کے تین خلفاء راشد، سیدولد آدمؐ کے دین کی حفاظت اور خدمت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ ملّت واحدہ فرقوں میں بٹنے لگی، بلاؤں اور کربلاؤں کا دَور شروع ہوا۔ تنزل کا وہ سایہ جو خلافت راشدہ کے آخری ایام میں گہرا ہونا شروع ہوا، بالآخر ایک مکمل رات کی تاریکی میں بدل گیا۔ پھر تیرہ سو سال تک مسلمان اِسی احساس تلے جیئے کہ کسی طرح صبح صادق طلوع ہو۔ لیکن تفرقہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ مسلمانوں کا اکٹھے ہوکر ایک خلیفۂ راشد کا انتخاب کرنا ناممکن تھا اور بفرض محال اگر ایسا ہو بھی جاتا تو اس بات کی کیا سند تھی کہ اس انتخاب کے نتیجہ میں خلیفہ بننے والا واقعی رسول اللہ کا حقیقی جانشین بھی ہوگا۔
جب چودھویں صدی شروع ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں آسمان کی طرف اٹھنے لگیں۔ عالم اسلام میں آہ و بکا کا شور بلند ہوا اور مسیح کی آمد کی دعائیں کی جانے لگیں۔ لیکن افسوس کہ اُن کی دانست اور تصور کے مطابق تو کوئی آسمان سے نہ اُترا۔ اُس کی وجہ یہی تھی کہ اُن کا مہدی اور مسیح کا تصور قرآنی تصور سے ہٹ چکا تھا۔ انہیں خونی مہدی کا انتظار تھا جو بزور شمشیر دنیا کی طاقتور قومیں مغلوب کرکے اُن کی دولتیں اِس امّت کے قدموں میں ڈھیرکردے۔ لیکن جب قادیان سے مسیح و مہدی کے دعویٰ کی آواز بلند ہوئی تو اکثر نے منہ موڑ لیا کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فتح کے لئے یہ شرط بیان فرمائی تھی: ’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا، یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے‘‘۔
آپؑ نے مزید فرمایا: ’’میرے بعد قیامت تک کوئی ایسا مہدی نہیں آئے گا جو جنگ اور خونریزی سے دنیا میں ہنگامہ برپا کرے اور خدا کی طرف سے ہو۔ اور نہ کوئی ایسا مسیح آئے گا جو کسی وقت آسمان سے اترے گا۔ ان دونوں سے ہاتھ دھولو، یہ سب حسرتیں ہیں جو اس زمانہ کے تمام لوگ قبر میں لے جائیں گے۔ نہ کوئی مسیح اُترے گا اور نہ کوئی خونی مہدی ظاہر ہوگا۔ جو شخص آنا تھا وہ آچکا، وہ مَیں ہی ہوں جس سے خدا کا وعدہ پورا ہوا۔ جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ خدا سے لڑتا ہے کہ تُو نے ایسا کیوں کیا‘‘۔
پس آج خلافت محمدیہ کی نعمت تمہیں ہجر کی تیرہ طویل اور دردناک صدیوں کی گریہ و زاری کے بعد نصیب ہوئی ہے۔ اب اسے سر آنکھوں پر بٹھانا، سینے سے لگانا اور اپنے ہر پیارے سے ہزار بار بڑھ کر عزیز رکھنا۔ تمہارے احیاء اور بقاء کی تمام کنجیاں خلافت میں رکھ دی گئی ہیں۔ امّت مسلمہ کی تقدیر اس نظام سے وابستہ ہے۔ جان دے کر بھی اس نعمت کی حفاظت کرو اور ایک کے بعد دوسرے آنے والے خلیفۂ راشد سے انصار کی زبان میں بمنّت عرض کرو کہ اے خلیفۃالرسول! ہم تمہارے آگے بھی لڑیں گے اور ہم تمہارے پیچھے بھی لڑیں گے، ہم تمہارے دائیں بھی لڑیں گے اور ہم تمہارے بائیں بھی لڑیں گے اور خدا کی قسم! اب قیامت تک کسی دشمن کی مجال نہ ہوگی کہ محمد عربیﷺ کی خلافت کو بُری نظر سے دیکھ سکے۔