اس کو کیا علم کیا شے ہے عیشِ بقا ، جس کو تُو نہ ملا – نظم

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جولائی 2008ء میں شامل اشاعت مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک نظم سے انتخاب پیش ہے:

اس کو کیا علم کیا شے ہے عیشِ بقا ، جس کو تُو نہ ملا، جس کو تُو نہ ملا
زندگی ایسے انسان کی بے ذائقہ ، جس کو تُو نہ ملا ، جس کو تُو نہ ملا
جس کے پیشِ نظر دُنیوی لذتیں، جس کا مقصود ہے صرف جاہ و حشم
دُور تک ایسے انساں کے اندر خلا ، جس کو تُو نہ ملا ، جس کو تُو نہ ملا
دُنیاداری کی لذّت میں جو مست ہے جس کی نظروں میں ذکرِ خدا پست ہے
ایسے بیمار کا ہے مرض لا دوا ، جس کو تُو نہ ملا ، جس کو تُو نہ ملا
یہ گزرتا ہوا وقت بیکار ہے ایک سر درد ہے ایک آزار ہے
روز و شب کا سفر اس کا بے فائدہ جس کو تُو نہ ملا ، جس کو تُو نہ ملا
عیشِ دُنیا سے عرشیؔ جو مانوس ہے کاش سمجھے یہ کاغذ کا ملبوس ہے
اُس کی عریانیوں کی نہیں انتہا جس کو تُو نہ ملا ، جس کو تُو نہ ملا

اپنا تبصرہ بھیجیں