اصحاب احمدؑ کا تعلق باللہ
(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی و اگست 2021ء)
(نوٹ: یہ مضمون مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ مقابلہ مضمون نویسی 2020ء میں سوم قرار پایا)
(نذر محمد کھوکھر صاحب)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں آنحضرت ﷺ کے آنے کا مقصد اس طرح بیان فرمایا:
ھوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الۡأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنۡہُمۡ یَتۡلُوا عَلَیۡہِمۡ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتَابَ وَالۡحِکۡمَۃَ (الجمعۃ 3)
ترجمہ: وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسۡتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیکُمۡ (الأَنۡفال 25)۔ ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں بلائے تاکہ وہ تمہیں زندہ کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی آنحضرت ﷺ کے ظلّ کامل اور بروز کامل تھے۔ آپ علیہ السلام نے روحانی طور پر مردہ لوگوں کو زندہ انسان، پھر بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنایا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصحاب فانی فی اللہ تھے۔ خدا کی رضا کی خاطر دنیا و مافیہا کو قربان کردینے والے تھے۔ عبادات اور تعلق باللہ کی عظیم الشان مثال تھے اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ان سے تعلق بھی ایسا تھا جو خدا کے ہی شایان شان تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام، امام الزمان کے مبعوث ہونے پر ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزارہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں اور آسمان میں ایک صورت انبساطی پیدا ہو جاتی ہے اور انتشار روحانیت اور نورانیت ہوکر نیک استعدادیں جاگ اٹھتی ہیں۔ پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے اس کے تدبّر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے۔ اور جو شخص غیرقوموں کے ساتھ مباحثات کرتا ہے اس کو استدلال اور اتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے۔ اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو امام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اور ہر ایک مستعد کے دل پر نازل ہوتی ہے۔ اور یہ ایک عام قانون اور سنت الٰہی ہے جو ہمیں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی سے معلوم ہوا اور ذاتی تجارب نے اس کا مشاہدہ کرایا ہے مگر مسیح موعود کے زمانہ کو اس سے بھی بڑھ کر ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغؔ بچے نبوت کریں گے۔ اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے۔ اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پرتو ہوگا۔ جیسا کہ دیوار پر آفتاب کا سایہ پڑتاہے تو دیوار منور ہو جاتی ہے۔ اور اگر چونہ اور قلعی سے سفید کی گئی ہو تو پھر تو اور بھی زیادہ چمکتی ہے۔ اور اگر اس میں آئینے نصب کئے گئے ہوں تو ان کی روشنی اس قدر بڑھتی ہے کہ آنکھ کو تاب نہیں رہتی۔ مگر دیوار دعویٰ نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ ذاتی طور پر مجھ میں ہے۔ کیونکہ سورج کے غروب کے بعد پھر اس روشنی کا نام و نشان نہیں رہتا۔ پس ایسا ہی تمام الہامی انوار امام الزمان کے انوار کا انعکاس ہوتا ہے۔
(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ475)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی عبادات ان کی محبت الٰہی اور توکل علی اللہ کی فعلی گواہی دیتی ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک اور واقعہ جس کا آج تک میرے دل و دماغ پر گہرا اثر ہے اور مجھے اس طرح لگتا ہے جس طرح کل کا واقعہ ہو کہ میں رات کو اپنے قادیان والے گھر کے باہر والے مردانہ حصہ کے صحن میں سویا ہوا تھا، گرمیوں کا موسم تھا کہ میری آنکھ دردناک دل ہلادینے والی کرب میں ڈوبی ہوئی آواز سے کھل گئی اور مجھے خوف محسوس ہوا۔ جب میں نیند سے پوری طرح بیدار ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ حضرت مصلح موعود تہجد کی نماز جو آپ حضرت ام ناصر والے مکان کے اوپر والے صحن میں ادا فرمارہے تھے جس کی دیوار ہمارے گھر سے ملحقہ تھی، کی دردناک دعاؤں کی آواز تھی۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو آپ بار بار ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کو اتنے گداز سے پڑھ رہے تھے کہ یوں معلوم دیتا تھا کہ ہانڈی ابل رہی ہو اور مجھے یوں لگا کہ آپ نے اس دعا کو اتنی مرتبہ پڑھا جیسے کبھی ختم نہ ہوگی۔ اس رات کی یاد مجھے جب تک زندہ ہوں کبھی نہ بھولے گی۔‘‘ (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ، مصلح موعود نمبر۔ مئی جون جولائی 2009، صفحہ:754)
حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب فرماتے ہیں: ’’میرے ساتھ ہمیشہ عادت اللہ یہی کام کرتی رہی کہ تاوقتیکہ میں اپنی ضروریات سائلانہ طور پر اول سے عرض نہ کرلوں میری مشکل آسان اور کامیاب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ایک شیر خوار جب تک دودھ کے لیے اپنی تڑپ اپنے چہرے وحرکات سے اپنی والدہ پر ظاہر نہ کرے تب تک اس کی توجہ کامل طور پر مبذول نہیں ہوتی۔ یہی حال رب اور فیاض مطلق کا ہے اور کثرت سے میری دعائیں قبول ہوتی رہی ہیں۔‘‘
(وصیت حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب صفحہ20-21)
حضرت ڈاکٹر سید محمود اللہ شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نماز تہجد ہم باقاعدہ ادا کیا کرتے تھے اور ہم بچپن میں سمجھا کرتے تھے کہ پانچوں نمازوں کی طرح تہجد بھی فرض ہے اس لیے ہمارے گھر میں تہجد کی نماز باقاعدہ ادا کی جاتی تھی۔ چھوٹے بڑے بھی تہجد پڑھا کرتے تھے۔ (روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ23 جنوری1953۔ صفحہ:3)
حضرت امام الزمان، سیدنا احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عبادات اور خدا کے حضور ذوق و شوق سے نمازوں اور دعاؤں کی قبولیت کے چند واقعات پیش ہیں:
حضرت حکیم محمد صدیق صاحب کی روایت ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ تین ساتھیوں کے ساتھ ہم راستہ بھول گئے اور کہیں دور نکل گئے کوئی بستی نظر نہیں آتی تھی۔ میرے ساتھیوں کو جب بھوک اور پیاس نے سخت ستایا تو ان میں سے ایک نے کہانورالدین جو کہتاہے کہ میرا خدا مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح کھلاتا پلاتا ہے؟ فرمایا کرتے تھے میں دعا کرنے لگا۔ چنانچہ جب ہم آگے گئے تو پیچھے سے زور کی آواز آئی۔ ٹھہرو! ٹھہرو! جب دیکھا تو دو شترسوار تیزی کے ساتھ آرہے تھے۔ جب پاس آئے توانہوں نے کہا ہم شکاری ہیں۔ ہرن کا شکار کیا تھا اورخوب پکایا گھر سے پراٹھے لائے تھے۔ ہم سیر ہوچکے ہیں اور کھانا ابھی بہت ہے آپ کھالیں۔ چنانچہ ہم سب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔ ساتھیوں کو یقین ہوگیا کہ نورالدین سچ کہتا تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا نورالدین کے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تیری ہر ضرورت کو پورا کروں گا۔ کیا کوئی بادشاہ بھی یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ (حیات نور صفحہ167)
مکرم فتح محمد صاحب حضرت اماں جانؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ 1917ء کا واقعہ ہے مجھے ککروں کی تکلیف تھی۔ ایک رات مجھے سخت تکلیف ہوئی اور میں ساری رات نہ سوسکا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کوبلایا۔ حضرت میر صاحب تشریف لائے اوراپنے ہاتھوں سے دوائی لگا کر چلے گئے اورشدتِ بیماری کا مجھ سے یا میری بیوی سے ذکر نہ کیا۔ البتہ گھر جاکر حضرت امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت اماں جان ؓ سے ذکر کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ توقریبًا ضائع ہوچکی ہے اور آنکھوں کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے اور آنکھ کے اندر سفیدی نظر آتی ہے۔ اس پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت اماں جانؓ کے دلوں میں درد اور ترحم پیدا ہوا اور اسی وقت میرے لیے دعا کی اور رات حضرت امیرالمومنین ؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ میں حضور کے سامنے بیٹھا ہوں اور میری دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہیں۔ یہ رؤیا حضور نے صبح ہی حضرت اماں جانؓ کو سنایا توحضرت اماں جانؓ اسی وقت خوش خوش ہشاش بشاش ہمارے گھر تشریف لائیں اور میرے گھر آکر مبارک باد دی کہ اللہ تعالیٰ جلد صحت دے گا اورحضرت میر صاحب کی رپورٹ اور حضرت امیرالمومنین کے رؤیا کا ذکر کیا اورفرمایا اب اللہ تعالیٰ کاخاص فضل ہوگااور صحت ہوجائے گی۔ بعد میں حضرت میر صاحبؓ خود تشریف لائے اور آنکھ کا معائنہ کرنے کے بعد سخت حیرت ہوئی کہ ایک رات میں زخم کا 7/8 حصہ مندمل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد بیماری گھٹنی شروع ہوئی اور میری دونوں آنکھیں درست ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمباعرصہ خدمتِ سلسلہ کا موقع دیا۔ باوجود ہندوستان کے بعض ایسے علاقوں میں کام کرنے کے جہاں لو اور دھوپ سے آنکھوں کے خراب ہونے کا خدشہ تھا میری آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔ (نصرت الحق صفحہ40)
حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب تحریرفرماتے ہیں:
جن دنوں میں لاہورمیں پریکٹس کیا کرتا تھا حضرت مرزاشریف احمد صاحبؓ لاہورمیں تشریف لاکر میرے پاس ٹھہراکرتے تھے۔ جب میں نے بی۔اے پاس کیا توکچھ عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھاتا رہا۔ ان ایام میں حضرت میاں صاحب ؓمیرے شاگرد رہ چکے تھے۔ اس لیے آپ مجھ سے خاص محبت کا سلوک رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت میاں صاحبؓ جب مجھ سے ملنے کے لیے لاہور تشریف لائے تو ہم دونوں ہرن کا شکار کھیلنے شیخوپورہ کی طرف نکل گئے۔ شیخوپورہ کا سب علاقہ آس پاس کا جنگل ہی جنگل تھا۔ وہاں ایک کٹیا میں ایک عمررسیدہ سکھ لیٹا ہوا تھا اور شدیدسر درد سے کراہ رہا تھا۔ اس نے علاج کی غرض سے بہت سے تعویذ وغیرہ بھی باندھ رکھے تھے اس کے باوجود اس کے درد میں کوئی کمی نہ ہوتی تھی اور وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ گذشتہ کئی روز سے اس کی یہی حالت ہے۔ میں نے حضرت میاں صاحبؓ سے دعا کے لیے عرض کیا۔ آپ نے بعض دعائیں پڑھ کر اس پر دم کیا تو اسے فورًا آرام آگیا اور وہ اسی وقت اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس نے ہماری غریبانہ طرز پر بہت خاطر مدارات کی۔ وہ ازحد ممنون تھا۔ (سیرت حضرت مرزاشریف احمد صاحب ؓ صفحہ159)
جب حضرت مرزاشریف احمد صاحبؓ انگلستان تشریف لے گئے تو آپؓ کے انگریز سیکرٹری نے بتلایا کہ سفر خرچ فنڈ ختم ہورہا ہے اب توسفر جاری رکھنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا فکر نہ کرو ان شاء اللہ انتظام ہوجائے گا۔ سیکرٹری اس بات سے بہت حیران ہواکہ اس ملک میں آپ اجنبی ہیں پھر یہاں رقم کا کیسے انتظام ہو سکے گا؟ حضرت میاں صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خدا سے دعا کی کہ خدا تو ہی اس پردیس میں ہماری مدد فرما۔ فرماتے ہیں اگلے ہی روز ہم بازار سے جارہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو روک لیا اور سینٹ سینٹ (Saint) پکارنے لگا جس کے معنی ہیں ولی، خدارسیدہ اور ایک بڑی رقم کا چیک آپ کی خدمت میں پیش کرکے آپ سے دعا کی درخواست کی۔ آپ کے سیکرٹری اس واقعہ سے بہت حیران ہوا اور کہنے لگا: واقعی آپ کا خدا نرالا ہے۔
مکرم نیک محمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ فرمایا کرتے تھے ہم نے زندہ خدا کو دیکھا ہے اور فرمایا کرتے تھے رونا خدا کی جناب میں ضائع نہیں ہوتا اور حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
بنالم برد رش زاساں کہ نالا
بوقت وضع حملے بار دارے
جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں خدا کے در پر اس طرح روتا ہوں کہ جیسے وضع کے وقت حاملہ عورت۔ (سیرت حضرت مرزاشریف احمد صاحبؓ صفحہ85)
حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ کے خسرحضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری لمبے عرصہ تک غیر مبائعین کے ساتھ منسلک رہے مگر آخر آپ کی دعاؤں کی برکت سے انہوں نے صدقِ دل سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی بیعت کرلی۔آپؓ تحریرفرماتے ہیں: ’’جب میں نے کتاب’’سلسلہ احمدیہ‘‘ لکھی تواس تصنیف کے دوران جب میں سلسلہ کی تاریخ کے اس حصہ میں پہنچا جو غیرمبائعین کے فتنہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس وقت یہ حقیقت اپنی انتہائی تلخی کے ساتھ میرے سامنے آئی کہ میرا ایک نہایت ہی قریبی بزرگ ابھی تک خلافت حقہ کے دامن سے جدا ہے اور میں نے اس رسالہ کے لکھتے لکھتے یہ دعا کی کہ خدایا!تُوہرچیز پر قادر ہے۔ اگر تیری تقدیرمانع نہیں توانہیں حق کی شناخت عطا کراور ہماری اس جدائی کو دور فرمادے۔ میں اپنے خدا کا کس منہ سے شکر ادا کروں کہ ابھی رسالہ کی اشاعت پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ہمارے خدا کی مخفی تاریں حضرت مولوی صاحب کو کھینچ کر قادیان لے آئیں اوروہ چھبیس سال کی لمبی جدائی کے بعد بیعت خلافت سے مشرف ہوئے۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک وَلَاحَوْلَ ولا قُوّۃَ الّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم۔‘‘ (حیات بشیر صفحہ265)
ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے معجزات کا ذکر ہورہا تھا توحضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ مجھے حضرت اقدسؑ نے ایک کام کے لیے غیرملک میں بھیجا۔ ایک مقررہ جہاز پر روانہ ہواجب جہاز نصف سفر طے کر چکا تو سمندر میں طوفان کے آثار دکھائی دیے۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ جہاز غرق ہونے لگا ہے۔ لوگ چلانے لگے اور جہاز میں شورِ قیامت برپا ہوگیا۔ لوگ روتے اور آہ و بکا کرتے تھے۔ میں نے بڑے دعویٰ سے کہا کہ میں پنجاب سے آیا ہوں اور میں ایسے شخص کے کام کو جارہا ہوں جسے خدا نے اس زمانہ کا مامور بناکر بھیجاہے اس لیے جب تک میں اس جہاز میں سوا رہوں خداتعالیٰ اس جہاز کو غرق نہیں کرے گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اس حالت کو بدل دیا اور جہاز طوفانی حالت سے نکل کر خیریت سے کنارے جا لگا اور میں اپنی جگہ پر اتر گیا اور جہاز آگے روانہ ہوگیا۔ مگر تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ غرق ہو گیا۔ میری توادھر یہ حالت ہوئی ادھر ہندوستان میں جب اس جہاز کے غرق ہونے کی اطلاع آئی تومیرے عزیز روتے ہوئے حضر ت کے پاس گئے اور کہا کہ جس جہاز پر حامدعلی سوار تھا وہ غرق ہوگیا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا ہاں سنا تو ہے کہ جس جہاز میں حامدعلی سوارتھا فلاں تاریخ کو غرق ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر حضور خاموش ہوگئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد فرمایا مگر حامدعلی اپنا کام کررہا ہے۔ وہ غرق نہیں ہوا۔ بعد کے واقعات نے اس ارشاد کی تائید کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو کشفی طورپر سارا واقعہ دکھا دیا گیا۔ (الحکم 21 جنوری 1935ء صفحہ5)
حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکی ؓ رقم طراز ہیں: 1943ء کا واقعہ ہے کہ میں تپِ محرقہ میں سخت بیمار ہوگیا اور علاج کے باوجود بخار میں دن بدن زیادتی ہوتی گئی۔ ایک ماہ گذرنے کے باوجود میرابخار نہ اترا۔بخار کے ساتھ ہی اسہال بھی شروع ہوگئے اور ضعف اور کمزوری کی وجہ سے میں اکثر بے ہوش رہتا۔ یہاں تک کہ ایک دن غلطی سے میری موت کی افواہ بھی شہر میں پھیل گئی۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے جب میری حالت نازک دیکھی تو آپ ؓ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے حضور ڈلہوزی پہنچے اور اس حقیر خادم کے لیے درخواستِ دعا کی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لیے دعائیں کررہے ہیں۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور آپ کے اہلِ بیت کی دردمندانہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کو کھینچنے کاباعث بنیں اور میں رُوبصحت ہونے لگا۔
(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ27)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اپنے شفا سے متعلق قبولیتِ دعا کے واقعات تحریر فرماتے ہیں: اپنے فن یعنی شفائے امراض کی لائن میں تومیں نے اس قدر عجائبات خدا کے فضلوں اور دعا کی قبولیت کے دیکھے ہیں کہ کوئی شمار وحساب نہیں۔ مثلاً ڈاکٹروں کی دلچسپی کے لیے لکھتا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم کی آنکھیں میں نے بنائیں اور دونوں ایک ہی دفعہ۔ چوتھے دن پٹی کھولنے پر دیکھا تو دونوں آنکھوں میں سخت plastic iritis یعنی اندرونی پردوں میں سوزش اور ورم تھا بلکہ دونوں ant chambers اس طرح بھرے ہوئے تھے جیسے پیپ سے بھرے ہوئے ہیں۔مجھے مرحوم کے ساتھ بہت اُنس تھا اس لیے بہت بے قرار ہوا۔ حضرت صاحب کے گوش گزار کرکے دعا کے لیے عرض کیا اور حضرت اماں جان سے بھی۔ نیز خود بھی بہت دعا کی۔ چنانچہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہی بلکہ ایک ہفتہ کے اندر دونوں آنکھیں بالکل صاف ہوگئیں اور جیسا کہ عمومًا قاعدہ ہے پیچھے بھی اس مرض کے کوئی نشان یا آثار باقی نہ رہے اوروہ دونوں آنکھوں سے بالکل چنگے بھلے ہوگئے۔ ورنہ اس طرح سخت قسم کے double plastic iritisکا جو اتنی جلدی آپریشن کے بعد پیدا ہواہو۔ اس طرح کامل طورپر صاف ہوجاناکہ گویاکہ کوئی بیماری ہی نہیں ہوئی اوردونوں آنکھوں کا اس طرح بچ جانا میرے علم میں کبھی نہیں آیا۔ بلکہ لوگوں کو اندھا ہوتے ہی دیکھا ہے۔غرض ناامید بیماروں کی شفا کے نمونے بیان کرنے لگوں تو یہ مضمون الف لیلہ ہی بن جائے۔ (روزنامہ الفضل23اکتوبر2001ء)
حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکیؓ اپنے ایمان افروز واقعات کے سلسلۂ جاودانی کا تذکرہ کرتے ہوئے شفا کے متعلق چند واقعات کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ فیضان ایزدی نے سیدنا حضر ت مسیح موعودؑ کی بیعت راشدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندرایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کردی تھی کہ بعض اوقات جوکلمہ میں منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجتمندوں کے لیے دعا کرتا تھا مولیٰ کریم اسی وقت میرے معروضات کو شرفِ قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا۔ ایک موقع پر جب میں موضع سعداللہ پور گیا تومیں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو جوچوہدری عبداللہ خاں نمبردار کے برادرزادہ تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ بری طرح دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہورہے تھے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے پچیس سال سے پرانا دمہ ہے جس کی وجہ سے زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔ دوردور کے معالجوں اور طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بیماری کوموروثی اور مزمن ہونے کی وجہ سے لاعلاج قرار دے دیا ہے۔ اس لیے میں اب اس کے علاج سے مایوس ہوچکا ہوں۔ میں نے کہا آنحضرت ﷺ نے تو کسی بیماری کو ’’لکل داء دواء‘‘ کے تابع لاعلاج قرارنہیں دیا۔ آپ اسے لاعلاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں۔ کہنے لگے اب مایوسی کے سوا کیا چارہ ہے۔ میں نے کہا ہماراخدا تو فعّال لمایرید ہے اور اس نے فرمایاہے لاتَیْئسوامن روح اللّہ ومن یَسْئَس من روح اللّہ الا القوم الکافرون یعنی یاس اورکفر اکٹھے ہوسکتے ہیں لیکن ایمان اور یاس اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اس لیے آپ ناامید نہ ہوں اور ابھی پیالے میں تھوڑا سا پانی منگائیں میں آپ کو دم کردیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے پانی پر دم کیا اتنی توجہ سے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی صفت شافی کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہ پانی افضالِ ایزدی اور حضرت مسیح پاکؑ کی برکت سے مجسم شفا بن چکاہے۔ چنانچہ جب میں نے یہ پانی چوہدری اللہ داد کو پلایا تو آن کی آن میں دمہ کا دورہ رک گیا اور پھر اس کے بعد کبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہوا۔ حالانکہ اس واقعہ کے بعد چوہدری اللہ داد صاحب تقریباً پندرہ سولہ سال زندہ رہے۔ اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت بھی نصیب فرمائی اور آپ خدا کے فضل سے مخلص اور مبلغ احمدی بن گئے۔ الحمد للہ علی ذٰلک (حیات قدسی حصہ اول صفحہ49تا51)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دور خلافت میں حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکی ؓ، مولوی محمد سلیم صاحب، فاضل مہاشہ محمد عمر صاحب اور گیانی عباداللہ صاحب پر مشتمل ایک وفد کلکتہ، کیرنگ سے ہوتا ہوا بھدرک پہنچا۔ بھدرک میں ایک جلسہ منعقد ہواجس کی روئیداد بیان کرتے ہوئے حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکیؓ تحریر فرماتے ہیں:جب ہماری تقریریں شروع ہوئیں تواوپر سے ابر سیاہ برسنا شروع ہوگیا۔ تمام چٹائیاں اورفرش بارش سے بھیگنے لگا۔ اس وقت احمدیوں کے دلوں میں لیکچروں میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ میرے دل میں بھی سخت اضطراب پیداہوا اور میرے قلب میں دعاکے لیے جوش بھرگیا۔ مَیں نے دعا کی کہ اے ہمارے مولیٰ! ہم اس معبدِ اصنام میں تیری توحید اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور تیرے پاک خلیفہ اور مصلح موعود کے بھیجے ہوئے آئے ہیں لیکن آسمانی نظام اور ابر و سحاب کے منتظم ملائکہ بارش برسا کر ہمارے اس مقصد میں روک بننے لگے ہیں۔ میں یہ دعا کرہی رہاتھا کہ قطرات بارش جو ابھی گرنے شروع ہی ہوئے تھے طرفۃ العین میں بند ہو گئے اور جولوگ بارش کے خیال سے جلسہ گاہ سے اٹھ کرجانے لگے تھے میں نے ان کو آوازدے کر روک لیا اور کہا کہ اب بارش نہیں برسے گی، لوگ اطمینان سے بیٹھ کر تقریریں سنیں۔ چنانچہ خداتعالیٰ کے فضل سے سب مبلغین کے لیکچر ہوئے اور بارش بند رہی اور تھوڑے وقت میں مطلع بالکل صاف ہوگیا۔ فالحمد للہ علی ذٰلک۔ (حیا ت قدسی جلد سوم صفحہ24،25)
حضرت مولاناراجیکی صاحبؓ بات جاری رکھتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: اسی طرح ہمارایہ وفد بھاگلپور میں پہنچا تومقامی جماعت کی طرف سے ایک جلسہ منعقد کرکے ہمارے لیکچروں کا انتظام کیا گیا۔ جلسہ کا پنڈال ایک سرسبز وشاداب اور وسیع میدان میں بنایا گیا۔ حضرت مولوی عبدالماجد صاحبؓ وہاں کے امیر جماعت تھے۔ آپ کے انتظام کے ماتحت کرسیاں، میز اور دریاں قرینہ سے لگائی گئیں۔ حاضرین کی تعدادبھی کافی ہوگئی۔ ابھی جلسہ کا افتتاح ہی ہوا تھا کہ ایک کالی گھٹا جو برسنے والی تھی مقابل سمت سے نمودار ہوئی اور کچھ موٹے موٹے قطراتِ بارش گرنے بھی شروع ہوگئے۔ میں اس وقت اسٹیج کے پاس حضرت مولوی ابوالفتح پروفیسر عبدالقادر صاحب کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے قلب میں اس وقت بارش کے خطرہ اور تبلیغی نقصان کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی طر ف سے ایک جوش بھر گیا اور میں نے اس جوش میں الحاح اور تضرع کے ساتھ دعاکی کہ اے خدا!یہ ابر سیاہ تیرے سلسلہ حقہ کے پیغام پہنچانے میں روک بننے لگا ہے اور تبلیغ کے اس زریں موقع کو ضائع کرنے لگا ہے۔ تُواپنے کرم اور فضل سے اس امڈتے ہوئے بادل کو برسنے سے روک دے اور اس کو دُور ہٹادے۔ چنانچہ جب لوگ موٹے موٹے قطرات کے گرنے سے ادھر ادھر ہلنے لگے اور بعض لوگوں نے فرش کو جونیچے بچھایا ہوا تھا لپیٹنے کی تیاری کرلی تومیں نے اس سے منع کردیا اورلوگوں کوتسلی دلائی کہ اطمینان سے بیٹھے رہیں بادل ابھی چھٹ جائے گا۔یہ خداتعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ وہ بادل جو تیزی سے امنڈا چلا آتا تھا قدرت مطلقہ سے پیچھے ہٹ گیا اور بارش کے قطرات بھی بند ہو گئے اور ہمارا جلسہ خداتعالیٰ کے خاص فضل کے ماتحت کامیابی کے ساتھ سرانجام ہوا۔ فالحمد للہ علی ذٰلک۔ (حیات قدسی حصہ سوم صفحہ25)
حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکیؓ تحریر فرماتے ہیں: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا۔ اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لیے کوئی رقم نہ تھی اور میری بیوی کہہ رہی تھی کہ گھر کی ضروریات کے لیے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں۔ بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہوسکی۔ سکول والے تقاضا کررہے ہیں۔ بہت پریشانی ہے۔ ابھی وہ یہ بات کہہ رہی تھی کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اور کرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے۔ آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوکر ابھی دفتر میں آجائیں۔ جب میں دفتر جانے لگا تومیری اہلیہ نے پھر کہا کہ آپ لمبے سفر پر جارہے ہیں اورگھر میں بچوں کے گزارے اور اخراجات کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ میں ان چھوٹے بچوں کے لیے کیا انتظام کروں؟ میں نے کہا کہ میں سلسلہ کاحکم ٹال نہیں سکتا اورجانے سے رُک نہیں سکتا، کیونکہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ صحابہ کرامؓ جب اپنے اہل وعیال کو گھروں میں بےسروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جہاد کے لیے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کو یہ بھی خطرہ ہوتا تھا کہ نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یا شہادت کا مرتبہ پاکر ہمیشہ کے لیے ہم سے جد ا ہوتے ہیں اور بچے یتیم، بیویاں بیوہ ہوتی ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ میں ہم سے اور ہمارے اہل وعیال سے نرم سلوک کیا گیا ہے اور ہمیں قتال اور حرب درپیش نہیں بلکہ زندہ سلامت آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ پس آپ کو نرم سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہیے۔ اس پر میری بیوی خاموش ہوگئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لیے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا۔ اس حالت میں میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ ’’اے میرے محسن خدا!تیرا یہ عاجز بندہ تیرے کام کے لیے روانہ ہو رہا ہے اور گھر کی حالت تجھ پر مخفی نہیں۔ توخود ہی ان کا کفیل ہو اور ان کی حاجت روائی فرما۔ تیرا یہ عبد ان افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لیے راحت و مسرت کا کوئی سامان نہیں کرسکتا۔‘‘ میں دعا کرتا ہوا ابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی۔ جب میں نے آگے بڑھ کر دروزاہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا فلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلاکر مبلغ یک صد روپیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیا جائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ میں نے وہ روپیہ لے کر انہیں صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ میں تو اب گھر سے تبلیغی سفر کے لیے نکل پڑا ہوں۔ بازار سے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لیے دے دیا اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لیے ان کے ہاتھ گھر بھجوادی۔ فالحمد للہ علی ذٰلک (حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ5,4)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسیہ سے صحابیات رضوان اللہ عَلَیْھِنّ سے بھی قبولیت دعا کے معجزات واقع ہورہے تھے۔ حضرت ابوالمبارک محمد عبداللہ صاحبؓ اپنی خودنوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں: مارچ 1974ء میں میرے لڑکے رشید مبارک کے گردے کا آپریشن ہوا لیکن زخم خراب ہوگیا اور اس میں سخت پیپ پڑگئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور اخبار الفضل کے علاوہ میں نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے نہ صرف دعا فرمائی بلکہ جواب بھی دیا اس طرح اللہ تعالی کی مہربانی اور افراد خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کے طفیل میرے لڑکے کو اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ (حیات ابوالمبارک صفحہ32)
’’سیر ت اُمّ ناصر‘‘ میں مکرم مرزارفیق احمدصاحب تحریر کرتے ہیں:حضرت سیدہ اُمّ ناصر صاحبہؓ کی دعاؤں میں بھی میں نے غیرمعمولی اثر دیکھا ہے۔ بسااوقات حیرت ہوتی تھی۔ میں نے اتناجلد دعاؤں میں اثر بہت کم دیکھا ہے۔ ایک دفعہ آپؓ کی ایک داڑھ میں شدید درد تھا۔آرام نہیں آرہا تھا۔ آپؓ نے دوائی چھوڑ کر اپنا ہاتھ داڑھ پر رکھا اور الحمدللہ پڑھ کر دم کرنا شروع کردیا۔ چند منٹ میں سب درد اور بے چینی جاتی رہی۔ (سیرت ام ناصر صفحہ38)
مکرم مرزارفیق احمد صاحب سیرت اُمّ ناصر میں تحریر کرتے ہیں:میری پھوپھی جان (بیگم نواب محمد عبداللہ صاحبؓ) ایک دفعہ آنکھوں کے دکھنے کی وجہ سے بیمار پڑگئیں۔ آپؓ نے سیدہ اُمّ ناصرؓ کودعا کے لیے لکھا اور دم کے لیے کہا۔ آپؓ نے دم کیا خدا کے فضل سے بالکل آرام ہوگیا۔ (سیرت اُمّ ناصرصفحہ39)
اصحاب احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق باللہ کے قولی، فعلی اور عملی نمونے اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اس زمانہ کے امام و نجات دہندہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اور صرف آپؑ کی جماعت عافیت کا حصار ہے۔
صدق سے میری طرف آؤ، اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف، مَیں عافیت کا ہوں حصار