اصحاب احمدؑ کے شفاء سے متعلق قبولیت دعا کے واقعات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍فروری 2004ء میں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیتِ دعا کے چند واقعات بیان کئے ہیں جن کا تعلق غیرمعمولی شفاء عطا ہونے سے ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ
مکرم محمدبشیر صاحب 1945ء کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب حضرت مصلح موعودؓ کراچی میں تشریف فرما تھے۔ میرے والدین ڈھاکہ سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میرے والد صاحب کو گلے میں کئی دنوں سے سخت تکلیف تھی وہاں کے احمدی اور غیر احمدی معروف ڈاکٹروں نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ آپریشن کے بغیر کوئی علاج نہیں ہے اور آپریشن بھی کم ہی کامیاب ہوتا ہے۔ اس پر ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ نے فرمایا: اچھا میں دعا کروں گا۔ والدہ صاحبہ نے اسی وقت کہا کہ حضور! ان کو یہاں تکلیف ہے۔ حضورؓ نے نظر اٹھائی اور گلے کو دیکھا تو والدہ صاحبہ کہنے لگیں: حضور! ابھی دعا کردیں۔ حضورؓ مسکرائے اور دعا کی۔ خدا شاہد ہے کہ ابھی والدہ صاحبہ اور والد صاحب حضور کی کوٹھی سے باہر گئے ہی تھے کہ والد صاحب کہنے لگے کہ مجھے آرام محسوس ہوتا ہے اور جب گلے پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو نہ وہاں گلٹی تھی اور نہ ہی درد تھا۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ
حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں لاہور میں پریکٹس کیا کرتا تھا تو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ لاہور تشریف لاکر میرے پاس ٹھہرا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ تشریف لائے تو ہم دونوں ہرن کا شکار کھیلنے شیخوپورہ کی طرف نکل گئے۔ شیخوپورہ کے آس پاس سارا جنگل تھا۔ وہاں ایک کٹیا میں ایک عمر رسیدہ سکھ لیٹا تھا اور شدید سر درد سے کراہ رہا تھا۔ اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ گزشتہ کئی روز سے اس کی یہی حالت ہے اور کسی دوا یا تعویذ سے آرام نہیں آتا۔ میں نے حضرت میاں صاحبؓ سے دعا کے لئے عرض کیا۔ آپؓ نے بعض دعائیں پڑھ کر اس پر دَم کیا تو اسے فوراً آرام آگیا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پھر ہماری غریبانہ طرز پر بہت خاطر مدارات کی۔
حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہؓ
محترم عبد السمیع صاحب نون بیان کرتے ہیں کہ میرے بھانجے محمد زبیر کے والدین فوت ہوچکے تھے۔ اوائل 1980ء میں وہ کینسر سے شدید بیمار ہوا حتیٰ کہ جان کے لالے پڑگئے۔ میں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو تار دیااور یہ الفاظ لکھ کر دعائے خاص کی درخواست کی کہ: “Nothing can be done for Zubair”
پھر ربوہ جا کر حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری پریشان حالی پر آپؓ کو ترس آیا۔ بیماری کی تفصیل سننے کے بعد چند ثانیہ توقف کیا اور پھر اپنے ربّ کریم پر توکل کرتے ہوئے بڑے وثوق کے ساتھ پُرشوکت آواز میں فرمایا کہ تم بے فکر ہو جاؤ اللہ تعالیٰ محمد زبیر کو ضرور شفا دے گا۔ سُچّی بوٹی پلانا شروع کردو۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اُسے شفا عطا فرمادی۔
مکرم سردار عبدا لقادر صاحب سابق صدر جماعت احمدیہ چنیوٹ لکھتے ہیں:۔ فروری 1949ء میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ نے شدید بیماری کے حملہ سے صحت یابی پر حضرت سیدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کے لئے محبت پیار اور شکر گزاری کے جذبات کا اظہار اخبار میں کیا۔ اُن دنوں خاکسار ڈاڈر سینی ٹوریم میں ایک دوست کی عیادت کے لئے ٹھہرا ہوا تھا۔ اکثر فارغ اوقات میں محترم ڈاکٹر ابرار احمد صاحب ہمارے پاس ٹھہرجاتے۔ ایک روز ان کے ہمراہ ایک نوجوان ڈاکٹر تشریف لائے جن کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن سے میرے احمدی ہونے کا ذکر کیا تو بیٹھتے ہی اس نوجوان ڈاکٹر نے مجھ سے حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحبؓ کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ مَیں نے اُن کی صحت یابی کا بیان کیا تو وہ ڈاکٹر صاحب کسی گہری سوچ میں پڑ گئے۔ آخر پوچھنے پر بتایا کہ مَیں حضرت نواب صاحب کی بیماری کے دوران لاہور میں تھا اور مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ اکثر رات کو جب میں اُن کے کمرہ میں جاتا تو اُن کی بیگم کو چارپائی پکڑے صحت یابی کیلئے دعائیں کرتا پاتا۔ میں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران رات کو بھی ان کی بیگم صاحبہ کو نیند یا آرام کی حالت میں نہیں دیکھا، بس دعا کی حالت میں دیکھا۔ اب آپ سے ان کی صحت یابی کا سن کر خدا تعالیٰ کی شان کریمانہ پر گہری سوچ میں پڑ گیا تھا کہ وہ مریض جس کی زندگی کے بظاہر کوئی آثار نہیں تھے اور خیال تھا کہ وہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکے ہوں گے مگر اُن کی صحت کا سن کر اُن کی بیگم صاحبہ کی راتوں کی گریہ وزاری کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور میں یقین کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور قبول فرمایا۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی بیان فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر جب میں موضع سعد اللہ پور گیا تو میں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو (جو ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے) مسجد کی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پچیس سال سے پرانا دمہ ہے جس کی وجہ سے زندگی دوبھر ہو گئی ہے، معالجوں اور طبیبوں نے موروثی اور مزمن ہونے کی وجہ سے اسے لاعلاج قرار دیدیا ہے اس لئے اب میں اس کے علاج سے مایوس ہوچکا ہوں۔ میں نے کہا ’’آنحضرتؐ نے تو کسی بیماری کو لاعلاج قرار نہیں دیا۔ … آپ ناامید نہ ہوںاور ابھی پیالہ میں تھوڑا سا پانی منگائیں، میں آپ کو دَم کر دیتا ہوں‘‘۔ چنانچہ میں نے پانی پر دَم اتنی توجہ سے کیا کہ مجھے خداتعالیٰ کی صفت شافی کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ پانی افضال ایزدی اور حضرت مسیح پاک کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے۔ چنانچہ جب میں نے یہ پانی انہیں پلایا تو آن کی آن میں دمہ کا دورہ رُک گیا اور پھر اس کے بعد کبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہوا۔ اور وہ تقریباً پندرہ سولہ برس مزید زندہ رہے۔ اس قسم کے نشانات کے نتیجہ میں وہ خدا کے فضل سے مخلص احمدی بن گئے۔