اصحاب رسول اللہﷺ کا عشق الٰہی
(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی واگست2022ء)
(وحید احمد)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسی عظیم اور مقدس شخصیات تھیں جنہوں نے سرور کائنات، رحمۃٌللعالٰمین کی براہِ راست رفاقت اور مصاحبت پائی اور اطاعتِ رسول ﷺ میں ایسی شاندار قربانیوں کی توفیق پائی کہ اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
رضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم (سورہ توبہ:100)
ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں۔ یہ بہت عظیم کامیابی ہے۔
ان بابرکت وجودوں کو یہ مقا م کیسے اورکیوں کر ملا؟
اس کا جواب تو یہی ہے کہ انہوں نے سیّدنا حضرت محمد ﷺ کی کامل اتباع کی اور اس اتباع کے نتیجہ میں اپنے پروردگار سے سچی محبت انہیں اس بلند مقام تک لے گئی۔ان پاک ہستیوں کو براہِ راست آنحضور ﷺ سے استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا جس کے نتیجہ میں قرآن پاک سے محبت اور احکام الٰہی پر لبیک کہنے اور ان پر عمل پیراہوکر رَضِیَ اللّٰہُ کا مرتبہ پانے کی سعادت ملی۔انہی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ (30:35) کہ انہوں نے کتاب اللہ کی تلاوت ،اس پر غور اور تفکر سے،اللہ کی تخلیق اور اس کے وجود کی حقیقت سمجھتے ہوئے اس کے حضور شکر کے جذبات پیش کیے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اَور جگہ اُن کا ذکر یو ں فرمایا ہے کہ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ (3:23) یعنی جب خشیت الٰہی کا عرفان حاصل ہو ا تو کائنا ت کی مادی اور روحانی تخلیق پر غور کے نتیجے میں ان کے قدم آگے بڑھتے چلے گئے۔
الغرض خالق کائنا ت نے خود اپنی کتاب رحمن میں ان کو بشارت دی کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
وَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ شَمْسٌ مُّنِیْرَۃٌ
وَبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ بَدْرٌ وَّ کَوْکَبٗ
(ترجمہ) یقینا رسول اللہ ﷺ روشن سورج ہیں اور آپؐ کے بعد باقی سب چاند ستارے ہیں۔ (کرامات الصادقین،روحانی خزائن جلد 7صفحہ 103)
صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اپنی محبت کا اظہار آپؐ کی ہر رنگ میں اتباع کرکے کیا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا گُر یوں بیان فرمایا تھا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آلِ عمران:33)
ترجمہ: تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
سرورکائنات ﷺ کی اسی بے مثال اطاعت و اتباع نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے دلوں میں اللہ عزّوجلّ سے عشق کی ایسی لَو جلائی جس نے خداتعالیٰ کی محبت سے وہ روشنی پیدا فرمادی کہ آپؐ نے اپنے صحابہ کو یہ مرتبہ عطا فرمایا کہ : أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم۔
قیام الصلوٰۃ
صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی کا اگر مطالعہ کیاجائے تو اس کا ماحاصل یہی ہوگااور ہر مرتبہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ آغوشِ اسلام میں آنے کے بعد ان کا صرف ایک ہی مطمحِ نظر تھا کہ کسی طور انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت میسر آجائے ۔
اللہ تعالیٰ سے محبت اور عشق کے اظہار کا سب سے بہترین طریق جو انہوں نے اپنے دل و جان سے پیارے محبوب سے سیکھا تھا وہ نماز کی ادائیگی ہی تھا۔
چنانچہ صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی پر غور کیاجائے تو خدا تعالیٰ سے راز و نیاز کرنا اُن کی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا۔ گویا اُن کی زندگی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ کی تعمیل کے لئے وقف ہوچکی تھی۔احادیث میں آتاہے کہ صحابہ کرامؓ قرآن کریم کے حکم الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ (23:3) کے تحت مصروف رہتے۔
صحابہؓ کو نماز خصوصاً نماز باجماعت کے اہتمام کا اس قدر احساس تھا کہ جب جماعت ہونے لگتی تو سخت سے سخت مصروفیت میں بھی تمام کاروبار چھوڑ کر سیدھے مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ حضرت سفیان ثوریؓ، صحابہؓ کے متعلق فرماتے تھے کہ ’’صحابہ ؓ کاروبار اورمحنت مزدوری کرتے تھے لیکن نماز مفروضہ کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔‘‘
حضرت عمر ؓ کے بارہ میں آتاہے کہ جس دن حضرت عمرؓ کو زخم لگا جس سے آپ کی شہادت ہوئی اس سے ایک رات قبل لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ کو صبح کی نماز کے لیے جگائیں؟ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ ہاں ضرور جگائیں کیونکہ جو شخص نماز چھوڑ دے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ چنانچہ اسی حالت میں کہ زخم سے مسلسل خون جاری تھا نماز فرض ادا کی۔ (مؤطا)
قرآن کریم نے انہی صحابہؓ کے بارہ میں فرمایا تھا کہ
وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ(35:70)
اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر محافظ رہتے ہیں۔
کئی کمزور اور معذور صحابہؓ دوسروں کا سہارا لے کر مسجد پہنچتے۔ اگرچہ بارش میں آنحضورﷺ نے اجازت دی ہوئی تھی کہ نماز گھر پر پڑھ لی جائے لیکن صحابہؓ پھر بھی مسجد پہنچ جاتے۔ کئی بار بہت دیر تک مسجد آکر آنحضورﷺ کا انتظار کرتے تاکہ آپؐ کی اقتدا میں نماز ادا کرسکیں۔ محبوب سے محبوب چیز بھی اگر نماز میں خلل انداز ہوتی تو اُن کی نظر میں مکروہ ہوجاتی۔ حضرت ابو طلحہؓ ایک روز اپنے بہت خوبصورت گھنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک چڑیا شاخوں میں پھنس گئی جس سے آپؓ کی نماز سے توجہ ہٹ گئی اور یاد نہ رہا کہ کتنی رکعات پڑھ لی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد باغ کو صدقہ میں دے دیا۔ اسی طرح ایک اَور صحابی کی توجہ اپنے باغ میں نماز پڑھتے ہوئے پھل سے لدے ہوئے درختوں کی طرف منتقل ہوگئی تو نماز سے فارغ ہوکر سیدھے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر باغ کو صدقہ میں پیش کردیا جو پچاس ہزار پر فروخت ہوا۔
حضرت ابی ابن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری مسلمان کا گھر میرے علم کے مطابق مسجد سے سب سے زیادہ دُور تھا لیکن جماعت کے ساتھ اس کی ایک نماز بھی چھٹتی نہ تھی۔ کسی نے اس سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ تم ایک گدھا خرید لو اور دوپہر کی گرمی اوررات کے اندھیرے میں اس پرسوار ہو کر مسجد آیا کرو۔اس نے جواب میں کہا کہ میں تو یہ بھی پسند نہ کروں گاکہ مجھے مسجد کے پہلو میں رہائش کے لئے مکان مل جائے کیونکہ میرا دل چاہتاہے کہ میرے مسجد کوچل کر آنے اور گھر واپس جانے کاثواب میرے اعما ل نامہ میں لکھا جائے۔ آنحضرت ﷺنے اس کا جواب سن کر فرمایا ’’قَدْ جَمَعَ اللّٰہُ لَکَ ذٰلِک‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ سب ثواب اکٹھا کر کے تمہارے لئے رکھا ہے۔
نماز سے محبت اورلگاؤ دراصل صحابہ کرامؓ کی اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت اور قرآن پاک کی اس تعلیم کا عکاس ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:163)
ترجمہ: تُو کہہ دے کہ یقیناً میر ی نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔
ذکرِ الٰہی اور نوافل
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دل اور روح صبح وشام، رات اور دن، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ذکرِ الٰہی سے معطر رہتی۔ اسی عمل کانتیجہ تھاکہ ہمارے سید و مولیٰ ﷺ فداہ نفسی نے فرمایا اللّٰہ اللّٰہ فِی اَصْحَابِی کہ میرے صحابہ میں خدا ہی خدا ہے۔
صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کاذکر ان کی روح کی غذا اور ان کے دل کی لذت بن گیا تھا اور ان کی زبانوں پر سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، اَللّٰہُ اَکْبَر، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ کا ورد جاری رہتا۔ ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پرایمان ورثہ میں نہیں ملا تھا بلکہ انہوں نے جان اور مال اور عزت اور جذبات اوروقت کی قربانی کرکے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کو پیدا کیا تھا اور جب مکہ کی پتھریلی زمین پر تپتی دوپہر میں ننگے بدن ان کو لٹاکر گھسیٹا جاتا تھا تب بھی ان کی زبان سے خدائے واحد کا ذکر بلند ہوتاتھا۔ سیّدنا بلال ؓ کے واقعہ کو کیونکر فراموش کیاجاسکتاہے جب آپ کو تپتی ریت پرلٹادیاجاتا اوراس ظلم و بربریت کی وجہ سے آپؓ بے ہوش ہوجاتے لیکن جونہی ہوش آتا تو آپؓ کی زبا ن مبارک پر خدا تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان ہوتا۔ فرماتے: اَحَد، اَحَد کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ایک ہے۔
صحابہ کرامؓ کے دن رات ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنے کی کیفیت کا اندازہ اس روایت سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار آنحضرتﷺ نے حضرت حارثؓ سے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ بولے یارسول اللہ خدا پرصدقِ دل سے ایمان رکھتاہوں۔ آ پؐ نے فرمایا ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ تمہارے ایمان کی حقیقت کیاہے؟ عرض کیا: دنیا سے میرا دل بھر گیا ہے اس لئے را ت کو جاگتاہوں، دن کو بھوکا پیاسا رہتاہوں۔ گویامجھ کو خدا کا عرش علانیہ نظر آتاہے اور اہل جنت کو باہم ملتے جلتے دیکھ رہاہوں اور گویا اہلِ دوزخ مجھے چیختے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے حقیقت کو پا لیا اب اس پر قائم رہو۔ (اسدالغابہ)
نوافل ذکر الٰہی کاخصوصی ذریعہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور کان بن جاتاہے۔ صحابہ کرامؓ کو نوافل سے جو رغبت اور الفت تھی اس کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتب میں کثرت سے ملتاہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ مغرب کی نماز سے قبل اذان ہوتے ہی صحابہؓ مسجد کے ستونوں کے قریب تیزی سے جاتے اورامامت کے لئے حضور ﷺکے تشریف لانے تک نوافل میں مصروف رہتے۔(بخاری)
صحابہ میں ذکرِالٰہی کا ذوق و شوق بلا تفریق تھا۔ امیر وغریب صحابہ سب کے سب اس میں برابر کے شریک تھے۔ حدیث میں آتاہے کہ ایک دفعہ غریب مہاجرین آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور اہل ثروت بڑے درجا ت پا گئے ہیں کیونکہ وہ ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری طرح ہی روزے رکھتے ہیں مگر ان کے پاس زائدمال ہے جس کے ذریعہ وہ حج اورعمرہ اور جہاد اور صدقہ میں شریک ہوتے ہیں (مگرہم ایسا نہیں کر سکتے)۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیامیں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جس کے ذریعہ تم اپنے سے پہلوں سے بھی اور بعد میں آنے والوں سے بھی آگے بڑھ جاؤگے اور کوئی شخص تم سے فضیلت نہ لے جا سکے گا مگر بایں شرط کہ وہ بھی وہی کرنے لگے جو تم کرتے ہو۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ضر ور بتائیے۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ تم نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار تسبیح، تحمید اور تکبیر کیاکرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ غریب مہاجرین پھر حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور یہ ذکرِالٰہی انہوں نے بھی شروع کردیا ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ کہ پھر یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
حضرت معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک بار آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف لائے اور کچھ صحابہؓ کوحلقہ باندھے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ آ پؐ نے فرمایا کہ تم کس مقصد سے یہاں بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں اس لئے بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور اس نے جو احسانات ہم پر کیے ہیں اور دین کی طرف جو ہدایت ہمیں دی ہے اس پراس کی حمد کریں۔ آ پؐ نے فرمایا: کیاخدا کی قسم کھا کرکہتے ہو کہ تمہارا مقصد صرف یہی ہے؟ صحابہؓ نے جوا ب دیا ہاں خدا کی قسم ہمارا مقصد صرف یہی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا میں نے یہ قسم تمہیں اس لئے نہیں دلوائی کہ مجھے تم پر کوئی شک تھا۔ بات صرف یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتاہے۔(مسلم)
غسق اللیل و صلوٰۃ تہجد
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی نمازتہجد کاذکر خود خداتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓکے متعلق ان کے صاحبزادے سالم روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: عبداللہ کتناہی اچھا آدمی ہے اگر وہ را ت کونفل پڑھا کرے۔
سالم کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کے بعد ابن عمر رات کو تھوڑاہی سوتے تھے اور زیادہ وقت نماز تہجد میں گزارتے۔
حضرت ابوہریرہؓ کا گھر رات بھر ذکرِالٰہی سے اس طرح معمور رہتا تھا کہ انہوں نے اور ان کی بیوی اور خادم نے رات کے تین حصے کر لیے تھے۔ ان میں سے ایک جب تہجد سے فا رغ ہو چکتا تھا تو دوسرے کو نماز کے لئے جگا دیتا تھا۔
بعض صحابہ کو نماز تہجد میں اتنا غلو ہو جاتا تھا کہ حضور ﷺ ان کو اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتے اور اپنے نفس کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرماتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ وبن عاص کی روایت ہے کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اپنی تمام زندگی دن کوروزہ رکھوں گا اور تمام رات نفل پڑھوں گا۔حضورﷺ کو میرے اس ارادہ کی خبر ہوئی تو آپ ؐنے پوچھا کیایہ بات صحیح ہے؟ میں نے جواب دیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ ؐپر قربان ہوں یہ بات صحیح ہے۔ آپؐ نے فرمایا ایسانہ کرو۔ روزہ بھی رکھو اور افطاربھی کرو۔ نماز کے لئے بھی اٹھو اور کچھ دیر رات کو سو کر گزارو اور ہر ماہ تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتا ہے۔ میں نے کہا حضور مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے۔فرمایا دو دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دو۔ میں نے کہامجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ فرمایا تو پھر حضرت داؤد علیہ السلام کی سنت کے مطابق ایک دن روزہ رکھو، ایک دن چھوڑ دو۔ اس سے زیادہ روزہ رکھنا فضیلت کی بات نہیں۔
امّ المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ برابر نماز میں مصروف رہتیں اور جب تھک جاتیں تو دو ستونوں میں ایک رسی باندھ رکھی تھی اس سے سہارا لے لیتی تھیں تاکہ نیند نہ آنے پائے۔ آنحضرت ﷺنے رسی کو دیکھا تو فرمایا کہ ان کو صرف اسی قدر نماز پڑھنی چاہیے جو ان کی طاقت میں ہو اور اگر تھک جائیں تو بیٹھ جانا چاہیے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے وہ رسی کھلوا کر پھینکوا دی۔(بخاری)
تلاوت قرآن پاک اورحظِ دعا
صحابہؓ کا تلاوت قرآن اورحفظ قرآن اور تدبّر قرآن کا ذوق و شوق معروف ہے۔ صحابہ ؓ قرآن کریم کے اس ارشاد اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا (17:79) پر عمل پیرا ہونے کی ہرممکن کوشش کرتے۔
حضرت عَبّاد بن بشرؓ ایک انصاری صحابی تھے۔ آپ کی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرت ﷺ تہجد کے وقت جاگے تو مسجد سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے بہت جلدی جاگا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ آواز عَباد کی ہے؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں مَیں نے عرض کی کہ انہی کی آواز لگتی ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کو دعا دی کہ اے اللہ عَبّاد پر رحم کر۔ (صحیح البخاری حدیث 2655)
عرب معاشرے میں شعرو شاعری کو بڑی عظمت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے عرب کے ایک چوٹی کے شاعرکو، جو مسلمان ہو گئے تھے، فرمایا کہ اپنے کچھ اشعار سناؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اسلام لانے کے بعد میں شاعری ترک کرچکا ہوں کیونکہ قرآن شریف کی سورتوں کی تلاوت نے اب مجھے شاعری سے مستغنی کردیا ہے۔
صحابہؓ کے شوق تلاوت قرآن کا یہ عالم تھا کہ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن عمرؓکی کثرت تلاوت دیکھ کر فرمایا کہ پورے ایک مہینے میں ایک بار قرآن ختم کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیس دن میں۔ گزارش کی کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: پندرہ دن میں۔ بولے کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ ارشاد ہوا کہ دس دن میں۔ عرض کی مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اچھا سات دن میں ہی قرآن مجید ایک بار پڑھ لیاکرو اوراب اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ (ابوداؤد)
’’اَلدُّعَاء مُخُّ الْعِبَادَۃِ‘‘عبادت کا مغز دعا ہے۔ دعا پر کامل یقین خداتعالیٰ کی ہستی پر پختہ یقین اور اس سے محبت کا پیمانہ ہے۔ ایک بار حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہٗ گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا۔ پشت پر پہنچے تو الحمدللہ کہا۔ پھر خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کی پھر اور دعا کی ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا…الخ‘‘ پھر تین بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور تین بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہا۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی ’’سُبْحَانَکَ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ‘‘۔ پھر حضرت علیؓ ہنس پڑے۔ لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو بولے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح سوار ہوئے اور اسی طرح حضورﷺ نے دعائیں اور اذکار پڑھے اور پھر ہنس پڑے۔ ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو خدااس سے خوش ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)
تبتّل الی اللہ
صحابہؓ کا ہرلمحہ اپنے خالق حقیقی کی رضاجوئی میں صرف ہوتااور ہمیشہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہتے تھے۔اس لاثانی محبت اور پیار کی وجہ سے ان کے قلوب بہت نرم اور گداز تھے۔قرآن مجید اور آنحضرت ﷺکے مواعظات سننے اور ذکر الٰہی اور دعا کے ساتھ ان میں رقت پیدا ہوتی تھی۔ روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ جب قرآن مجید کی آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا…‘‘ پڑھتے تو بے اختیار رو پڑتے تھے اور دیر تک روتے تھے۔ ایک بار انہوں نے حضرت عمرؓ کو یہ آیت پڑھتے سنا ’’فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْد‘‘ تواس قدر روئے کہ داڑھی اور گریبان دونوں ترہو گئے۔
حضرت ابوبکرؓ بہت نرم خُو اور جلد رقّت میں آجانے والے تھے۔ جب قرآن پڑھتے تو آنسو ؤں کوروک نہیں سکتے تھے۔ کفار مکّہ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو گھبراگئے اور ان کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں اُن کی عورتیں اور بچے اسلام کی طرف راغب نہ ہوجائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کی عظیم قربانیوں کا تذکرہ اپنی تحریر و تقریر میں جابجا فرمایا ہے۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند ارشادات جو سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بیان فرمائے ہیں پیش کرتا ہوں:
’’ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کہا کہ میں وضو کرتا ہوں۔ آخر لکھا ہے کہ سر کاٹو تو‘‘ (پھر کہا کہ) ’’سجدہ کرتا ہے۔ کہتا ہوا مر گیا۔ اس وقت اس نے دعا کی کہ یا اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ(میں) تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے جا کر السلام علیکم کہا۔ آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی۔ غرض اس لذت کے بعد جو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے‘‘ (جس طرح ان صحابی نے کہا تھا میں نے ربِّ کعبہ کو پا لیا۔ جو انتہا تھی عشق کی وہاں میں پہنچ گیا۔) فرماتے ہیں کہ ’’اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں۔ سچ پوچھو تو مومن کی نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جاوے کہ یا نصرانی ہو جا یا قتل کر دیا جائے گا۔ اس وقت دیکھنا چاہیے کہ اس کے نفس سے کیا آواز آتی ہے؟ آیا وہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر (وہ) مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ مومن حقیقی ہے ورنہ کافر ہے۔ غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذت ہوتی ہے۔ بھلا سوچو تو سہی کہ اگر یہ مصائب پُرلذّت نہ ہوتے تو انبیاء علیہم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزارتے۔‘‘ (ماخوذاز ملفوظات جلد 2 صفحہ 308-309)
حضرت مسیح موعودؑ ایک موقع پر صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک برتن قلعی کروا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورتِ نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے۔ گویا قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا کے سچے مصداق تھے۔‘‘
پھر (حضرت مسیح موعودؑ نے) فرمایا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جسم کی طرح ہیں اور (آپؐ کے) صحابہ کرامؓ آپ کے اعضاء ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں صحابہ کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نمونوں پر چلتے ہوئے اپنے اخلاص و وفا کو بھی بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (آمین) (خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 9 مارچ 2018ء)