افغانستان کا فری میسن بادشاہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍جنوری 2010ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے تاریخی حقائق پر مشتمل ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے جس میں افغانستان میں ہو گزرنے والے ایک فری میسن بادشاہ کے حوالہ سے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
افغانستان کے بادشاہ امیر حبیب اللہ کے حکم پر 1903ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کو ظالمانہ طریق پر سنگسار کر دیا گیا تھا۔ امیر کے اس ظالمانہ فعل پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔ اس واقعہ کے علاوہ بھی امیر حبیب اللہ کی شخصیت کے بارہ میں تاریخ کی کتب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مختلف زاویوں سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 30ستمبر یا یکم اکتوبر 1900ء کو حضرت امّاں جانؓ نے رات کو تقریباً بارہ بجے ایک رؤیا دیکھی اور اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے توجہ کی تو آپؑ کو دو الہام ہوئے۔ ان میں دوسرا الہام تھا کہ ’’فری میسن مسلّط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں‘‘۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے دل میں فری میسن کے بارہ میں گزرا جن کے ارادے مخفی ہوں۔
30؍ستمبر 1900ء کو امیر حبیب اللہ کے والد امیر عبد الرحمن کا انتقال ہوا اور اسی رات امیر حبیب اللہ کو نیا امیر تسلیم کرلیا گیا اور 3؍اکتوبر 1900ء کو باقاعدہ رسمی تاج پوشی بھی ہوگئی۔ اس وقت بظاہر اس الہام اور امیر حبیب اللہ کے تخت نشین ہونے کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا لیکن بعد کے حالات نے بالکل اَور منظر پیش کیا اور حیران کن طور پر امیر حبیب اللہ نے خود درخواست کرکے فری میسن تنظیم کی رکنیت اختیار کی۔
مذکورہ الہام کے تقریباً چار ماہ کے بعد ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا اور شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم تخت نشین ہوئے جن کا فری میسن تنظیم سے گہرا تعلق تھا۔ وہ تقریباً 25 سال سے اس تنظیم کے گرینڈ ماسٹر تھے اور اس کی سرگرمیوں میں ایک طویل عرصہ سے بھرپور انداز میں حصہ لے رہے تھے۔ بلکہ بادشاہ بننے سے پہلے ان کی متنازعہ زندگی میں واحد سنجیدہ اور مستقل چیز ان کی فری میسن تنظیم سے وابستگی نظر آتی ہے۔ عقل اس بات کو محض اتفاق تسلیم نہیں کرسکتی کہ اللہ تعالیٰ کے ایک مامور کو فری میسن تنظیم کے متعلق ایک الہام ہوتا ہے اور اسی رات ایک ایسا بادشاہ تخت نشین ہوتا ہے جو کہ بعد میں فری میسن تنظیم کا رُکن بن جاتا ہے اور احمدیوں پر ظلم کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ اور اس کے چند ماہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے تخت پر وہ شخص تخت نشین ہو جاتا ہے جو کہ ایک طویل عرصہ سے اس تنظیم کا سرگرم رکن بلکہ ایک طرح سے سربراہ کی حیثیت رکھتا تھا اور جس ملک میں اللہ تعالیٰ کا مامور موجود تھا وہ بھی اس وقت اسی سلطنت کے ماتحت تھا۔
اکتوبر 1902ء میں ہندوستان میں ایک اہم فری میسن کچنر (Kitchner) کو ہندوستان میں ایک اہم عہدہ پر یعنی سلطنت برطانیہ کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا گیا۔ کچنر 33 سال کی عمر میں فری میسن تنظیم کے رکن بنے تھے اور انہیںمصر اور سوڈان کا ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ سوڈان میں انہوں نے مہدی سوڈانی کے خلیفہ کی فوجوں کو شکست دے کر مہدی سوڈانی کی بنائی ہوئی حکومت بھی ختم کردی تھی۔ اس مہم میں مہدی سوڈانی کے ہزاروں پیروکار مارے گئے تھے اور فتح کے بعد مہدی سوڈانی کی قبر بھی اکھیڑ دی گئی تھی۔ اس کے بعد کچنر فوجی خدمات سرانجام دینے کے لئے جنوبی افریقہ گئے اور وہاں بھی فری میسن تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور اکتوبر 1902ء میں انہیں ہندوستان میں موجود افواج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا۔یہاں پر بھی وہ فری میسن تنظیم کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے رہے اور صوبہ پنجاب کے ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر بھی بنے۔
جب کچنر ہندوستان میں پہنچے تو اس وقت کرزن (Curzon) ہندوستان میں وائسرائے تھے۔کچھ عرصہ بعد کچنر اور کرزن میں اختلافات شروع ہوئے اور انجام یہ ہوا کہ کرزن کو 1905ء میں مستعفی ہونا پڑا اور حکومت برطانیہ نے ان کی جگہ لارڈ منٹو کو وائسرائے مقرر کر دیا۔ وہ پہلے کینیڈا کے گورنرجنرل کے منصب پر کام کرتے رہے تھے۔ اس طرح ان چند سالوں میں ہندوستان پر حکمران بادشاہ فری میسن بن گیا، ہندوستان کا وائسرائے فری میسن مقرر ہوا اور ہندوستان کی انگریز فوج کا کمانڈر انچیف فری میسن بن گیا۔
افغانستان میں امیر حبیب اللہ کے امیر بننے سے قبل یہاں کے امیر عبدالرحمن کا سلطنت برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ 1893ء میں ہوا تھا جس کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے امیر عبدالرحمن کو ملنے والے 6 لاکھ روپے سالانہ وظیفہ کو بارہ لاکھ روپے کردیا جائے گا اور حکومت ِ برطانیہ انہیں اسلحہ خریدنے میں مدد بھی دے گی۔ جب 1900ء میں امیر حبیب اللہ تخت نشین ہوئے تو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن کا یہ موقف تھا کہ انگریز حکومت اور امیر عبدالرحمن کے مابین ہونے والا معاہدہ امیر کی موت کے ساتھ ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہ معاہدہ امیر عبدالرحمن کی ذات کے ساتھ تھا۔ جبکہ امیر حبیب اللہ کا اصرار تھا کہ یہ معاہدہ قائم ہے اور وہ بھی مذکور مراعات کے حقدار ہیں۔ دراصل اس معاہدہ کے ساتھ انگریز حکومت کی حفاظت کے علاوہ کافی خطیر وظیفہ بھی منسلک تھا اور امیر حبیب اللہ اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے تھے۔ لارڈ کرزن کا اصرار یہ تھا کہ امیر حبیب اللہ ہندوستان آئیں تو ان سے از سر نو معاہدہ کیا جائے۔ وقت کے ساتھ ہندوستان کی انگریز حکومت کو احساس ہوا کہ شاید ان حالات میں امیر حبیب اللہ کے لئے افغانستان سے ہندوستان آنا مشکل ہو، چنانچہ سر لوئیس ڈین (Dane) کو مذاکرات کے لئے نومبر 1904ء میں افغانستان بھجوایا گیا۔ مذاکرات میں امیر نے اعتراف کیا کہ انہیں اندازہ ہے کہ وہ اکیلے روسی عزائم کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور کم از کم روس کے ساتھ افغانستان کی سرحد کی حفاظت سلطنتِ برطانیہ کو کرنی پڑے گی۔ البتہ وہ پشاور سے کابل تک ریلوے لائن بچھوانے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے افغان عوام میں یہ تأثر پڑے گا کہ افغانستان کے دل میں نیزے کا رُخ کیا جارہا ہے۔ البتہ وہ اس کے متبادل راستے تجویز کر رہے تھے۔ امیر حبیب اللہ اور ان کے مشیر روس کے خلاف انگریز حکومت سے وسیع تر عسکری تعاون کے لئے کوشاں تھے لیکن وائسرائے لارڈ کرزن کوئی زیادہ مثبت رویہ نہیں دکھا رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ جب امیر حبیب اللہ ہندوستان آئیں گے تو ان امور پر غور کیا جائے گا۔ بہرحال انگریز حکومت اور امیر حبیب اللہ کے مابین معاہدہ ہوگیا اور انگریز حکومت نے یہ عندیہ بھی دے دیا کہ گزشتہ چند سال سے امیر حبیب اللہ کو جو وظیفہ نہیںملا تھا اس کے بقایا جات انہیں دے دیئے جائیں گے۔
1905ء میں لارڈ کرزن کی جگہ منٹو کو وائسرائے مقرر کیا گیا۔ منٹو بھی کچنر کی طرح فری میسن تھے۔ منٹو کو افغان حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا کہ اگر امیر حبیب اللہ کو ہندوستان کے دورہ کی دعوت دی گئی تو وہ اسے قبول کرلیں گے۔ چنانچہ وائسرائے منٹو کی طرف سے امیر حبیب اللہ کو ہندوستان کے دورہ کی دعوت دی گئی جو کہ انہوں نے قبول کرلی۔ 2؍جنوری 1907ء میں امیر حبیب اللہ لنڈی کوتل کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ان کا استقبال 31 توپوں کی سلامی سے ہنری میکموہن (Henry McMohan) نے کیا ۔ ہنری میکموہن بھی فری میسن تنظیم کے سرگرم رکن تھے اور انہوں نے 1908ء میں کوئٹہ میں فری میسن تنظیم کی لاج (Lodge) بھی قائم کی تھی (Lodgeفری میسن تنظیم کے مقامی مرکز کو کہا جاتا ہے)۔ اور اس سے پہلے میکموہن 1903ء میں افغانستان کا دورہ کر چکے تھے تاکہ افغانستان اور ایران کے درمیان سرحد بندی کے کام میں اہم کردار ادا کریں۔ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ کو امیر حبیب اللہ کے حکم پر سنگسار کیا گیا تو اس وقت میکموہن افغانستان اور ایران کی سرحد پر یہ اہم مشن سرانجام دے رہے تھے اور اس سے پہلے وہ ہندوستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈیورنڈ لائن کی سرحد بندی میں بھی اہم کردار ادا کر چکے تھے اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ نے بھی اس سرحد بندی کے کام میں حصہ لیا تھا۔ ہنری میکموہن نے بعد میں تبت اور ہندوستان کے مابین سرحد بندی کا اہم کام بھی کیا تھا۔ جس وقت امیر حبیب اللہ نے ہندوستان کا دورہ کیا اس وقت ہنری میکموہن بلوچستان کے چیف کمشنر تھے اور امیر حبیب اللہ کے دورۂ ہندوستان کے جملہ انتظامات ان کے سپرد تھے۔
دورہ کے آ غاز میں ہی امیر حبیب اللہ نے میکموہن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فری میسن بننا چاہتے ہیں۔ میکموہن کے بقول اُن کے اس اظہار نے مجھے حیران کر دیا اور مَیں نے اس معاملہ میں امیر کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی لیکن وہ بار بار اپنے اس اصرار کو دہراتے رہے اور بار بار میکموہن سے درخواست کرتے رہے کہ وہ اس معاملہ میں ان کی مدد کریں اور اس کے ساتھ امیر کا یہ اصرار بھی تھا کہ یہ سب کچھ خفیہ ہو اور اس خبر کو منظر ِ عام پر نہ لایا جائے حتیٰ کہ ان کے ہمسفروں کو بھی اس کی کچھ خبر نہیں ہونی چاہئے۔
چونکہ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ امیر حبیب اللہ اپنے ملک سے باہر نکلے تھے اس لئے اُن کی خواہش حیران کُن تھی۔ میکموہن نے امیر سے دریافت کیا کہ انہیں فری میسن بننے کا خیال کیسے آیا۔میکموہن کے مطابق اس کا جواب امیر نے صرف یہ دیا کہ وہ کچھ ایسے لوگوں سے مل چکے ہیں جو کہ اس تنظیم کے رکن تھے اور انہوں نے ان اشخاص کو بہت اچھا انسان پایا اور وہ جانتے ہیں کہ فری میسن ایک اچھی تنظیم ہے۔ وہ عملی فری میسنری (operative freemasonry)کے متعلق کچھ نہ کچھ علم ضرور رکھتے تھے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بآسانی بعض پرانی اور تاریخی عمارات میں ایسی علامات کو پہچان لیتے تھے جنہیں فری میسن اپنی علامات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جب امیر حبیب اللہ کا اصرار بڑھا تو میکموہن نے اس بارے میں کچنر سے رابطہ کیا جو کہ پنجاب میں فری میسن تنظیم کے ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر تھے اور ہندوستان میں انگریز افواج کے کمانڈر انچیف بھی تھے۔کچنر نے اس مسئلہ پر برطانیہ کے بادشاہ جارج ہفتم کے بھائی ڈیوک آف کوناٹ (Duke of Connaught) سے رابطہ کیا جو کہ اپنے بھائی جارج ہفتم کے بادشاہ بننے کے بعد سے انگلستان کی یونائیٹڈ گرینڈ لاج کے گرینڈ ماسٹر تھے۔یہ اس وقت سیلون کا دورہ کر رہے تھے ۔ ڈیوک آف کوناٹ نے اس بات کی اجازت دیدی کہ امیر حبیب اللہ کو فری میسن تنظیم کے رکن کے طور پر قبول کیا جائے اور اس بات کی اجازت بھی دیدی کہ انہیں پہلے تین مدارج ایک ساتھ ہی دیدیئے جائیں۔ واضح رہے کہ اس تنظیم میں 33 مدارج ہیں۔
یہ فیصلہ کیا گیاکہ جب امیر اس دورہ کے دوران کلکتہ جائیں گے تو انہیںفری میسن بنایا جائے گا اور یہ اہتمام بھی کرنا تھا کہ یہ سب کچھ خفیہ ہو اور کسی کو اس کی کانو ں کان خبر نہ ہو۔اس کام کے لئے 2 فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔ جس لاج میں امیر حبیب اللہ کو فری میسن بنائے جانے کی رسومات ادا کی جانی تھیں اس کا نام Lodge Concordia تھا اور اس وقت اس کے تمام ممبران انگریز تھے۔ اس تقریب کے لئے ایک خفیہ دعوت نامہ جاری کیا گیا جو کہ ایک دو ورقہ پر ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اس دعوت نامہ کو جاری کرنے والے اس لاج کے سیکریٹری Arthur Luckman تھے اور اس دعوت نامہ کے اوپر لکھا گیا تھا :
‘Most Strictly Private & Confidential to the Members of the Lodge’
اور نیچے لکھا گیا تھا کہ یہ میٹنگ بروز ہفتہ 2؍فروری1907ء کو رات کو ساڑھے نو بجے فری میسن ہال 54 پارک سٹریٹ میں ہو گی۔ اور دوسرے ورقہ پر لکھا گیا تھا کہ اس میٹنگ کا ایجنڈا یہ ہے کہ امیر حبیب اللہ کو فری میسن بنانے کی رسومات ادا کی جائیں گی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امیر کو فری میسن بنانے کے تجویز کنندہ کے طور پر کچنر کا نام لکھا ہوا تھا۔ (اس دعوت نامے کا عکس انٹرنیٹ پر موجود ہے)۔
اس روز کچنر نے امیر حبیب اللہ کو رات کے کھانے پر مدعو کیا اور امیر اس دعوت پر اکیلے گئے۔ کھانے کے بعد خفیہ طریق پر امیر کو فری میسن ہال لے جایا گیا۔اور وہاں پر رسومات کا آ غاز کیا گیا جو کہ رات بارہ بجے تک جاری رہیں۔میکموہن تحریر کرتے ہیں کہ امیر اس دوران ان تمام رسومات کا مطلب جاننے کے لئے سوالات کرتے رہے اور میکموہن نے ان کے ترجمان کے فرائض ادا کئے۔ رسومات کے اختتام پر کچنر نے فری میسن تنظیم کی افادیت پر لیکچر دیا۔رات گئے امیر حبیب اللہ اپنی قیامگاہ پر پہنچے۔
اُس وقت تو یہ خبر خفیہ ہی رہی لیکن جب امیر حبیب اللہ افغانستان واپس پہنچ گئے تو کسی نا معلوم شخص نے یہ افواہ اڑا دی کہ امیر فری میسن بن گئے ہیں۔ اس پر وہاں کے مولوی حضرات نے امیر کے خلاف شور مچادیا۔ امیر حبیب اللہ نے بڑے بڑے مولوی حضرات کو دربار میں بلایا اور کہا کہ وہ فری میسن ہیں اور انہیں اپنے فری میسن ہونے پر فخر ہے۔ اور اب کسی مولوی نے اس بات پر تنقید کی تو اسے اس کی قیمت اپنے سر کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔ میکموہن کا خیال تھا کہ یہ فری میسن بننے کی وجہ سے تھا کہ امیر حبیب اللہ کی برطانیہ دوستی میں اضافہ ہوا اور جب پہلی جنگ عظیم کے دوران بار بار ترکی اور جرمنی کی طرف سے انہیں پیغام بھجوائے گئے کہ وہ برطانیہ کے خلاف جنگ میں ان کے ساتھی بن کر شامل ہوں تو انہوں نے انکار کر دیا۔
7؍مارچ 1907ء کو امیر حبیب اللہ واپس افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور انہیں لنڈی کوتل میں الوداع کہنے کے لئے میکموہن خود آئے تھے اور جب ان سے رخصت ہونے کے لئے امیر حبیب اللہ ان سے گلے ملے تو شدت جذبات سے امیر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
19؍مارچ1907ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں یہ ذکر آیا کہ افغانستان کے لوگ امیر حبیب اللہ کے فری میسن بن جانے کے سبب ناراض ہیں۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’اس ناراضگی میں وہ حق پر ہیں کیونکہ مؤحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم 187)
گو کہ پرچار یہی کیا جاتا ہے کہ فری میسن ہونے کے لئے صرف خدا کے وجود پر ایمان لانا ضروری ہے اور کسی خاص مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور ہر مذہب سے وابستہ شخص فری میسن بن سکتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ اُس دَور میں فری میسن تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ وہ تھا جب فری میسن تنظیم کے وہ دو حصے جو کہ علیحدہ تھے یکم دسمبر 1813ء کو متحد ہوئے اور اس طرح دوGrand Lodges of England نے مل کرUnited Grand Lodge of England بنائی۔ اس عمل میں برطانیہ کے شاہی خاندان کے کئی افراد اور خود ملکہ وکٹوریہ کے والد نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔جب باقاعدہ طور پر اس اتحاد کی رسومات ادا کی جا رہی تھیں تو اس وقت جو دعا پڑھی گئی اس کے الفاظ یہ تھے:
May the Great Architect of the Universe enable us to uphold the grand edifice of Union, of which the ark of the covenant is the symbol, which shall contain within the instru- ment of our brotherly love, and bear upon it the Holy Bible, square and compass, as the light of our faith and the rule of works. May He dis- pose our hearts to make it perpetual.
یعنی کائنات کا عظیم معمار ہمیں توفیق دے کہ ہم اتحاد کی اس عظیم عمارت کو قائم رکھیں، عہد کا صندوق جس کی علامت ہے جس کے اندر ہماری برادرانہ محبت کی علامات موجود ہیں اور اس پر مقدس بائبل، Square اور قطب نما کا سایہ رکھے۔
اس کے علاوہ فری میسن تنظیم سے تعلق رکھنے والے کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ فری میسنوں کی اہم تقریبات میں بائبل کی دعائیں اور عبارات پڑھنا ضروری ہے۔ فری میسنوں کی نئی lodge کی افتتاحی تقریب کے دوران کی جانے والی دعاؤں میں خدا کو بائبل کی طرز پرLord God of Israel کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح اس تقریب میں زبور کی دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور اس تقریب میں بائبل کی کتاب نحمیاہ کی یہ عبارت پڑھی جاتی ہے: ’’کیونکہ بنی اسرائیل اور بنی لاوی اناج اور میل اور تیل کی اُ ٹھائی ہوئی قربانیاں ان کوٹھڑیوں میں لایا کریں گے جہاں مقدس کے ظروف اور خدمت گزار کاہن اور دربان اور گانے والے ہیں اور ہم اپنے خدا کے گھر کو نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ (نحمیاہ باب 10 آیت 39)
پھر اس موقع پر بائبل کی کتاب خروج کے باب 30 کا وہ حصہ پڑھا جاتا ہے جس میں اس تیل کے تیار کرنے کا نسخہ لکھا ہوا ہے جسے مختلف رسومات کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور بائبل کی کتاب احبار کا یہ جملہ بھی دعاؤں کے دوران پڑھا جاتا ہے:
’’اور تو اپنی نذر کی قربانی کے ہر چڑھاوے کو نمکین بنانا اور اپنی کسی نذر کی قربانی کو اپنے خدا کے عہد کے نمک کے بغیر نہ رہنے دینا۔ اپنے سب چڑھاووں کے ساتھ نمک بھی چڑھانا‘‘۔ (احبار باب 2 آیت 13)
ایک Lodgeکا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے جو رسومات ادا کی جاتی ہیں ان میں یہ مکالمہ بھی شامل ہے: ’’اگر بنیادیں تباہ کردی جائیں تو راستباز کیا کریں؟ اس کی بنیادیں مقدس پہاڑیوں پر ہیں۔ خداوند صیہون کے ابواب کو یعقوب کی تمام رہائشگاہوں سے زیادہ پسند کرتا ہے‘‘۔ اور جب فری میسنوں کی عمارت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے تو اس موقع پر صداقت کی علامت کے طورپر شراب پیش کی جاتی ہے اور اس شراب کو بنیاد کے پتھر پر انڈیلا جاتا ہے اور پھر بائبل کی کتب گنتی اور خروج کی عبارات پڑھی جاتی ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس تنظیم میں کس مذہب کی چھاپ حاوی ہے۔گو اعلان یہی ہے کہ اس تنظیم کے دروازے سب مذاہب کے لوگوں کے لئے کھلے ہیں۔
ان حقائق کو پڑھتے ہوئے یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ امیر حبیب اللہ ہندوستان کے دورہ پر آئے تو یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ اپنے ملک سے باہر نکلے ہوں اور اُس دور میں عموماً افغانستان میں زیادہ غیر ملکیوں کی آمد نہیں رہتی تھی۔ اگر میکموہن کا کہنا درست ہے کہ امیر حبیب اللہ نے بیان کیا تھا کہ وہ پہلے کچھ فری میسنز سے ملے تھے اور ان سے متاثر ہوئے تھے۔ حالانکہ جب انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تو اس وقت تو فری میسن تنظیم کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں تھا۔ تو کیا اس سے پہلے کبھی فری میسن تنظیم کی کوئی Lodge افغانستان میں قائم رہ چکی تھی؟ یہ جاننے کے لئے ہم نےLibrary and Museum of Freemasonry London سے رابطہ کیا۔ ان کے اسسٹنٹ لائبریرین Peter Aitkenhead نے یہ معلومات مہیا کیں کہ تاریخ میں ایک ہی مرتبہ افغانستان میں جون 1880ء میں فری میسن تنظیم کی کوئی Lodge قائم ہوئی تھی۔ کابل کی اس Lodge کے سب ممبران انگریز تھے۔ اس لاج کا نام Seaforth Lodgeتھا۔اس وقت انگریز افواج کابل میں موجود تھیں اور یہ Lodge اکتوبر 1881ء تک وہاں کام کرتی رہی۔ پھر جب انگریز افواج کابل سے رخصت ہوئیں تو اس لاج کو بھی ختم کردیا گیا۔ اس لاج کا نمبر 1866 تھا اور اسے پنجاب کی فری میسن تنظیم کے گرینڈ ماسٹر کی اجازت سے قائم کیا گیا تھا۔اس کے اجلاس کابل کے Sherpore Club میں ہوتے تھے۔اس لاج کے ماسٹرStewart Mackenzie تھے۔
اسسٹنٹ لائبریرین Peter نے ہمیں اس لاج کے رجسٹر کی فوٹو کاپی بھی مہیا کی جس میں لاج کے ممبران کے نام لکھے گئے تھے۔ اس لاج کے بانی اراکین 12 تھے جن میں 9 وہاب لاج (Benevolent Lodge) جس کا نمبر 988 تھا سے افغانستان آئے تھے ۔ اس وقت یہ لاج سیالکوٹ میں قائم تھی اور ایک ایک بانی ممبر Lodge Charity انبالہ، Indus Lodge ڈیرہ اسماعیل خان اور St. John The Evangelist Lodge میاں میر لاہور سے افغانستان منتقل ہوئے تھے۔ سب اراکین انگریز فوجی تھے اور کوئی مقامی اس کا ممبر نہیں تھا۔ رجسٹر میں 74مزید اراکین کے نام بھی درج ہیں۔ اس بات کا امکان کہ امیر حبیب اللہ اس لاج کی سرگرمیوں سے متاثر ہوئے ہوں کم ہے کیونکہ اس وقت ان کی عمر صرف دس سال تھی۔ اس بات کے بھی کوئی شواہد نہیں ملتے کہ خود امیر حبیب اللہ نے افغانستان میں کوئی لاج قائم کرنے کی کوشش کی ہو۔
تاہم امیر حبیب اللہ کی شخصیت کے متعلق یہ اہم بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ خود درخواست کرکے اور اصرار کرکے فری میسن تنظیم کے رکن بنے تھے اور اس تنظیم کی سرگرمیاں زیادہ تر خفیہ ہی رکھی جاتی ہیں لیکن ان پر ہمیشہ سے مسلمانوں کی مخالفت اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کبھی اس الزام کو تسلیم نہیں کیا۔