امریکی تہذیب کی اسلامی جڑیں

امریکہ سے 2008ء میں کتاب Al’America شائع ہوئی تھی جسے Jonathan Curiel نے تصنیف کیا تھا۔ مصنف نے امریکہ کے مختلف شہروں کے حوالہ سے بتایا ہے کہ امریکی تہذیب کی جڑیں اسلامی ثقافت و روایت سے کس حد تک جڑی ہوئی ہیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جون 2011ء میں اس کا اردو خلاصہ (از مکرم زکریا ورک صاحب) شائع ہوا ہے۔

جناب زکریا ورک صاحب

کولمبس جانتا تھا کہ عربوں کے دیئے ہوئے بحری علم کے بغیر اس کی امریکہ کی دریافت اس طرح نہیں ہونی تھی جس طرح یہ ہوئی تھی۔ سپین کی ملکہ ازابیلا نے کولمبس کو Almirante del Mar Oceano یعنی ’’سمندر کا کمانڈر‘‘ خطاب دیا تھا۔ المرانٹے عربی سے ماخوذ ہسپانوی لفظ ہے۔ کولمبس کو امریکہ کی دریافت کی ترغیب کی ایک وجہ نویں صدی کا مسلمان ہیئت دان الفرغانی تھا جس کی زمین کے قطر کے بارہ میں تھیوریز کولمبس کے سفر کے وقت یورپ میں مشہورعام تھیں۔ فرغانی کے علاوہ کولمبس اور دیگر یورپین جہازرانوں نے مسلمان جیو گرافر محمدالادریسی کی کتابوں اور نقشوں کا بھی مطالعہ کیا تھا جس کے نقشے عہد وسطیٰ کے دور میں درستی کے لحاظ سے سٹینڈرڈ مانے جاتے تھے۔ الادریسی کو سسلی کے بادشاہ راجر دوم نے بے شمار دولت اس لئے دی تھی تاکہ وہ دنیا کے تمام جزائر اور پانی کے راستوں کے تفصیلی نقشے بنا سکے۔ الادریسی نے اپنی کتاب ’’نزہت المشتاق‘‘ میں افریقہ، ایشیا، یورپ اور زمین کے دیگر حصوں کی گہری تفصیل پیش کی نیز شہروں کے درمیان فاصلے اور ان کی آب و ہوا کابھی ذکر کیا تھا۔ کولمبس نے اپنے بحری سفروں کے دوران عرب جہازرانوں کاصدیوں سے استعمال کردہ قطب نما، عربوں کے تیار کردہ بحری جہازوں اورکشتیوں کو بھی استعمال کیا تھا۔ کولمبس کے جہاز Nina اور Pinta اسی طریق سے بنائے گئے تھے۔
بدقسمتی سے کولمبس نے فرغانی کی کیلکولیشنز کوغلط رنگ میں سمجھا اور اس خیال کے مطابق ان کو تبدیل کردیا کہ سپین اور ہندوستان کے درمیان فاصلہ قدرے کم ہے جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس نے سمجھا کہ وہ کچھ ہی ہفتوں میں ہندوستان پہنچ جائے گا۔ لیکن امریکہ کے جنوبی ساحل تک پہنچنے میں اس کو دو مہینے لگ گئے۔ امریکہ میں اسلامی سپین کا سب سے زیادہ اثر نیواورلینز اور سان انٹونیو میں نظر آتا ہے۔
ریاست نیواورلینز میں 343 Royal street اس کی ایک مثال ہے جس کی بالکونیاں لوہے کی بنی ہوئی ہیں۔ آلامو، ٹیکساس میں مشن سان ہوزے کی بلڈنگ کے سرخ اور سفیدچھتے دار راستے قرطبہ کی مسجد کی ہوبہو نقل ہیں۔ پھر سان انٹونیو شہر میں مشن سان فرانسسکو کے چرچ کا دروازہ ہارس شو ڈیزائن کا ہے جو ساراگوسا (سپین) کے جعفریہ محل کی نقل ہے۔ آلامو میں مشن نوسٹرا سینورہ کا ڈوم انسان کو عہد وسطیٰ کے سپین کی کسی مسجد کی یاد دلاتا ہے۔ امریکہ کے پہلے سفر کے دوران کولمبس نے کیوبا کے ساحل کی پہاڑی پر عمارت دیکھی جو دورسے اس کو خوبصورت مسجد لگی تھی۔ اسلامی ڈیزائن ٹیکساس، ایری زونا، نیومیکسیکو اور میکسیکو کے چرچوں کی عمارتوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیلیفورنیا کے شہر کارمل میں مشن سان کارلوس کی عمارت کے اسلامی فیچرز میں بیل ٹاور بھی شامل ہے۔
مسلمانوں کی جنت میں انار کو اہم مقام حاصل ہے۔ غرناطہ کا نام انار کے نام پر رکھا گیا تھا۔ بادشاہ فرڈی نینڈ اور کوئین ازابیلا نے حکم دیا تھا کہ انار کو سپین کے پرچم میں شامل کیا جائے۔ سپین کے حملہ آور امریکہ آتے ہوئے اپنے ساتھ انار کے بیج بھی لائے تھے۔
نیواورلینز کے فرنچ کوارٹر میں گھروں کے صحن بنائے گئے ہیں جیسے سپین میں بسنے والے مسلمان بناتے تھے۔ یہاں 710 Toulouse Street کی باہر کی دیوار کے سامنے دو شیر رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے غرناطہ کے محل الحمراء میں کورٹ آف لائنز میں ہے۔ کریول گھروں میں بھی صحن ہیں۔ پرانے سان انٹو نیو کی بنک کی عمارت پر ایک مینار ہے ، نیز اس میں ہارس شو چھتے دار راستے بھی ہیں۔ نیواورلینز میں 801 Canal Streetکی عمارت میں ہارس شو چھتے دار راستے، دوگنبد والے مینار اور عمارت کے اندر قرطبہ کی مسجد کی طرح کے چھتے دار راستے ہیں۔
اگرچہ سپین سے مسلمانوں کا 1609ء میں جبری انخلاء ہوگیا تھا اور ان کو نئی دنیا کی طرف سفر کرنا ممنوع تھا ، جو ایساکرتا ہوا پکڑاجاتا، اس کی سزا موت ہوتی تھی، مگر اس کے باوجود اسلامی ثقافت بحرالکاہل کے اس پار پہنچ گئی اور مضبوط جڑیں قائم کرگئی۔
امریکہ کا معروف شاعر Ralph Waldo Emerson یونی ٹیرین پادری تھا جس نے اپنی زندگی بائبل کے لئے وقف کردی تھی۔1832ء میں بوسٹن کے سیکنڈ چرچ سے مستعفی ہونے کے بعد وہ طویل و کٹھن روحانی سفر پر روانہ ہوا ۔ اس نے اسلام کی ادبی اور مذہبی روایت کو گلے لگانے کے ساتھ ایران کی صوفی شاعری کو بھی زندگی کا جزو بنا لیا۔ ایمرسن کی کتابوں، نظموں اور نوٹ بکس میں ایرانی کلچر کے متعدد ریفرنس پائے جاتے ہیں۔ حافظ اور سعدی شیرازی اس کے روحانی جڑواں بھائی تھے۔ زندگی کے آخری سانس تک وہ بشمول اسلام کے مختلف مذاہب کی یو نیورسلزم کی حمایت کرتا رہا۔ گلستان سعدی کے امریکی ایڈیشن کے پیش لفظ میں اس نے اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ امریکن قوم کے لوگ ایرانی، عرب اور مشرقی شاعروں سے نا واقف تھے۔ 1842ء میں اس نے ایک نظم شائع کی جس کا نام سعدی تھا۔ ایمرسن قرآن پاک سے بھی مرعوب تھا جس کا مطالعہ اس نے 1840ء میں کیا تھا۔ تاریخ عالم کی مشہور شخصیات کے متعلق اس کی نظم Representative Men میں قرآن اور فارسی شاعری کا آمیزہ پایا جاتا ہے۔ اس نے لکھا: ’’قرآن نے ایسے ممتاز لوگوں کے طبقہ کا ذکر کیا ہے جو بلحاظ فطرت نیک ہیں، جن کی اچھائی دوسروں کو متاثر کرتی، اور اس طبقہ کو تخلیق کی وجہ قرار دیتا ہے‘‘۔ اخلاق جلالیؔ کے انگلش ترجمہ کا مطالعہ اس نے 1845ء میں کیا۔ اپنی روزانہ کی ڈائری میں اس نے اس کتاب کے پچاس حوالے نوٹ کئے۔ ’’پریکٹیکل فلاسفی آف محمڈن پیپل‘‘ میںسے اقتباسات اس کی 1860ء کی تصنیف “The Conduct of Life” میں شائع ہوئے۔ کتاب کے ایک حصہ میں اس نے ’گلستان‘ کے بھی حوالے دئیے۔ 1854ء میں کتاب کی اشاعت سے دوسال قبل اس نے اپنی روزانہ کی ڈائری میں سعدی کو اپنا روحانی بھائی (Soul Mate) قرار دیا۔
ایمرسن کی وجہ سے تھورو نے بھی ایرانی شاعر حافظ میں دلچسپی لینا شروع کی جس کی وجہ سے اس نے بھی اپنی کتاب میں ایرانی شاعر کے حوالے دئے تھے۔
الجیریا کی بحریہ نے1785ء سے 1796ء کے عرصہ میں امریکہ کے دس جہازوں اور 100 ملاحوںکو حراست میں لے لیا تھا۔ باربری ریاستوں کے ساتھ امریکی تنازعہ دو جنگوں پر منتج ہوا تھا۔ پہلی جنگ میں امریکہ کے ایک ملٹری یونٹ نے لیبیا کے ڈیرنا قلعہ پر حملہ کیا، جس نے ٹریپولی کے عمائدین کو مجبور کردیا کہ وہ جنگ کو ختم کر نے کے لئے بات چیت کریں۔ بادشاہ کے جانشین حامد کرمان علی نے ایک مملوک تلوار امریکیوں کو دی جو امریکی بحریہ (میرین) کے لئے ماڈل بن گئی اور ابھی تک زیر استعمال ہے اور میرین کے جنگی گانے میں Shores of Tripoli ابھی تک شامل ہے۔
1858ء میں ایمرسن نے فارسی شاعری کو اٹلانٹک رسالہ میں مضمون لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ جرمن زبان سے اس نے انگلش میں 60فارسی غزلوں کا ترجمہ کیا۔ 1873ء میں اس نے اپنی بیٹی کے ہمراہ مصر کی سیاحت کی تھی۔ اُس دَور میں اسلام کے خلاف بغض اور تعصب امریکن کلچر کا کھلے عام حصہ تھے۔
امریکہ کy مشہور بزنس مین، شومین اور ایٹنز پی ٹی بارنم (P. T. Barnum) (متوفی 1891ء( نے سرکس کابز نس شروع کیا۔ اس کا محل نما گھر برج پورٹ (ریاست Connecticut) میں واقع تھا جس کا نام ایرانستان تھا۔ اس گھر میں چھت کے اوپر مینارے بنائے گئے تھے، جن کے ساتھ مسجد نما گنبد تھے۔ گھر میں داخل ہونے والے دروازے پر ہارس شو بنے ہوئے تھے جو لگتا تھا سیدھے سپین سے لائے گئے تھے۔ ایرانستان کی تعمیر کا کام 1848ء میں مکمل ہوا تھا اور اسے انتہائی تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔ ایسا گھر بنانے کا خیال اس کو برائیٹن (برطانیہ) کے رائیل پاویلین کو دیکھ کر آیا تھا، جو آرکیٹیکچر میں مغلیہ آرکیٹیکچر کی نقل تھا۔ تاج محل ان مغل یادگاروں کی سنہری مثال تھا۔ برٹش آرکیٹیکٹ جن دوسری یادگاروں سے متاثر ہوئے تھے ان میںسلطان حیدر علی خان، سلطان پرویز اور نو رالدین جہانگیر کے مزار تھے۔
اس شاندار عمارت کی تکمیل کے نو سال بعد یہ گھر چھت پر آگ لگنے سے مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ گھر کا ماڈل ’’برج پورٹ بارنم میوزیم‘‘میںرکھا ہوا ہے۔ میوزیم میں ایرانستان نام کے لائبریری روم کو دوبارہ بحال کیا گیا ہے جس کی دیواروں پر شاہ جہاں اور جہانگیر کے دور حکومت کی ہندوستان کی پینٹنگز تھیں۔ ان تصویروں میں پگڑی پہنے ہوئے انسان مسجد نما عمارتوں میں چلتے پھرتے جس سے تاج محل کا سماں بندھ جاتا ۔میوزیم کے ایک الگ حصہ میں حقّہ رکھا ہوا ہے جس کے اوپر لفظ ’اللہ‘ کندہ کیا ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا کہ بارنم کو ساری زندگی اسلامی دنیا میں دلچسپی رہی۔ نیویارک کے میوزیم کے لئے اس نے ایک سات فٹ گیارہ انچ شخص کو بھرتی کیا جس کو وہ پیار سے ’’عربی دیو‘‘ کہتا تھا۔ میوزیم میں آنے والوں کو بونے، افغانی، شامی قبائلی لوگ، دیوقامت انسان، عورتیں، سپرسائز بچے، لمبی لمبی داڑھیوں والے انسان بھی دیکھنے کو ملتے تھے۔ ایک موقعہ ایسا بھی آیا کہ ہاتھی پر سوار پگڑی والا شخص اس کے گھر کے سامنے گھاس کاٹا کرتا تھا، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یہ کرتب میوزیم کے لئے فائدہ مند اشتہار ہوگا۔ ایرانستان کے پرانے مقام سے کچھ فاصلہ پر اب ’’العزیز اسلامک سینٹر‘‘ تعمیر ہوچکا ہے جس کے بڑے دروازے کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم کند ہ ہے۔
دنیاکی وہ زبانیںجن سے انگلش میں الفاظ داخل ہوئے ہیں، عربی زبان ان میں سے چھٹے نمبر پر ہے۔ ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یو نیورسٹی کے پروفیسر Canon نے 2338؍ الفاظ گنے ہیں جو عربی سے مشتق ہیں۔ بعض الفاظ تو روزمرہ زندگی میں اس قدر مستعمل ہیں کہ ہم سوچتے بھی نہیں کہ وہ عربی ہیں جیسے ایڈمرل، بازار، صفر، جاسمین، کباب، امام، مون سون، ریکٹ، ٹیرف، وزیر، وادی وغیرہ۔ قیاس کیاجاتاہے کہ تین ہزار عرب الفاظ ہسپانوی میں داخل ہیں۔ مثلاً سان فرانسسکو کے قریب بدنام زمانہ جیل کا نام alcatraz ہے جو ’الغطا‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سفید دم والا سمندری عقاب ہیں۔ عربی میں ال کے معنی انگلش میں theکے ہیں۔ اس لئے انگلش کے جس لفظ کے سامنے alلگا ہو اس سے یہ شناخت کرنا سہل ہوجاتا کہ یہ عربی کا لفظ ہے جیسے alcove، alchemy، almanac، aljebra (الجبرا)۔
مالٹے سے ملتا جلتا پھل ٹینجرین مراکش کے شہر ٹینجئر (طنجہ) کی پیداوار ہے۔ موکا (کافی) یمن کے شہر موخاؔ کے نام کی وجہ سے مشہور ہے، اور انگریزی میں مکّہ کسی خاص اہم مقام یا مرکز کو کہتے ہیں۔ کافی (coffee) کا لفظ عربی کے لفظ قہوہ سے ماخوذ ہے، جہاں سے کافی ہاؤس یا کیفے cafe بن گیا۔
انگلش زبان میں قریب پانچ سو الفاظ ایسے ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں مستعمل ہیں: فتویٰ، جہاد، شریعہ، انتفادہ، اللہ اکبر۔ اکبر کے معنی بڑے کے ہیں جو جارج لوکاس کی سٹار وار فلم میں ایڈمرل اکبرAckbar میں نظر آتا ہے۔ ہالی ووڈ کی سائنس فکشن فلم Return of the Jedi کے جملہ کرداروں میں سے ایک اہم کردار اکبر ہے۔ سکائی واکر کا وطنی سیارہ Tatooine ، تیونس کے شہر Tataouineکے نام پر ہے۔ ڈارتھ ویڈر کے وطنی سیارے کا نام مستافر ہے جو مصطفی سے مشتق ہے جس کے معنی منتخب شدہ کے ہیں۔ جارج لوکاس نے سٹار وارز کی فلم بندی تیونس میں کی تھی، جہاں اس نے اس ملک کے کئی مقامات کو فلموں میں دکھایا جو کسی دوسرے سیارے کے نظر آتے تھے۔ سٹیفن سپیل برگ کی فلم Raiders of the Lost Arkبھی تیونس میں بنائی گئی تھی۔
ابن خلدون نے اسٹرانومی اور ستاروں کی پوزیشن پر بھی کتابیں لکھیں۔ پانچ سو سے زیادہ ستاروں کے نام عربی سے ماخوذ ہیں۔ جیسے albali, algebar, algol, Algorab, al-Nair, Arrakis, Deneb, Eltanin, Keid, Phact, Rasalgethi (ras aljedi), Sirrah, Zubenshemali
امریکہ میں کئی چھوٹے چھوٹے دور افتادہ علاقوں کے شہروں کے نام عربی میں ہیں۔ نبراسکا ریاست میں عربیہ اور ابدال واقع ہیں۔ نیل (مصر) کے کنارے واقع شہر ٹینے سی سے امریکی ریاست Tennessee کانام ماخوذ ہے۔ ریاست Illinois میں ایک شہر قاہرہ بھی آباد ہے اور ایک شہر ماہومت کا نام حضرت محمدؐ پر ہے کیونکہ اٹھارویں صدی کے امریکہ میں پیغمبر اسلام کا نام Mahomet ہی لکھا جاتا تھا۔ ریاست انڈیانا میں مکہ شہر اور ریاست اوہایو میں شہر مدینہ ہے۔ دیگر ریاستوں میں بعض شہروں کے نام یوں ہیں: بغداد اور مکّہ (کیلیفورنیا)، قرآن (Louisiana)، فلسطین (ٹیکساس)، الہ دین (Wyoming)، سلطان (واشنگٹن)۔
ہسپانوی ناول نگار Montalvo نے اپنے ناول Las sergas de Eaplandian میں جزیرے کالافیا کا حال لکھا ہے۔ دراصل کالافیا اور لفظ کیلیفورنیا کی جڑ عربی لفظ خلیفہ (Caliph) ہے۔
سینٹ لوئس( امریکہ)کے 1904ء کے ورلڈ فیئر میں درجنوں تفریح مہیا کرنے والے عرب اور چھابڑی لگانے والے دکاندار عرب لباس میں ملبوس تھے۔ درجنوں اونٹ یہاں لائے گئے تھے اور مسجد اقصیٰ کا ماڈل بھی نمائش کے عین مرکز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی نمائش میں ’’آئس کریم کون‘‘ نے جنم لیا تھا۔
بحیرہ احمر کے ارد گرد کے علاقوں میں کافی کی کاشت بہت ہوتی تھی اس لئے صوفی لوگوں نے کافی پینا شروع کردی تاکہ رات جاگ کر ذکر اذکار کرسکیں۔ پھر صوفیوں کے مجلسی گھروں سے کافی ہاؤسز نے جنم لیا۔ مکّہ میں کافی ہاؤسز 1500ء کے لگ بھگ شروع ہوئے تھے مگر 1511ء میں ان پر پا بندی لگادی گئی تھی۔ کافی اِس وقت امریکن کلچر کا اٹوٹ حصہ ہے۔
امریکی تنظیم شرائنرز (Shriners) کا آغاز 1870ء کی شروع دہائی میں ہوا تھا۔ روز اوّل سے ان کی کوشش تھی کہ وہ عہد وسطیٰ کے مسلمانوں کی طرح لباس زیب کریں۔ خود کو ایک خفیہ سوسائٹی کا حصہ سمجھتے تھے جس کی ابتداء مکہ میں خلیفہ علی سے ہوئی تھی۔ شرائنرز اپنی دستاویزات عربی میں چھاپتے اور اونٹوں پر سوار ہو کر گلیوں میں گشت کرتے تھے۔ آجکل شرائنرز کی پہچان اُن کی رومی ٹوپی اور وہ ہسپتال ہیں جہاں عوام کو مفت ہیلتھ کئیر مہیا کی جاتی ہے۔ شرائنرز اپنی عبادتگاہوں کو مسجد کہتے اور ان کو مکہ، مدینہ، القرآن، الملائکہ جیسے نام دیتے ہیں۔ عام کارکن رومی ٹوپی جبکہ آفیسرز عہد وسطیٰ کے لمبے چوغے اور پگڑیاں پہنتے۔ ایک شرائنر جب دوسرے سے ملتا ہے تو السلام علیکم کہتا ہے۔ ہر شرائنر کا میسن Mason ہونا ضروری ہے۔ امریکہ کا صدر ولیم میکن لی (McKinley d.1901) ان کا پُرجوش مؤید تھا۔ مئی 1900ء میں جب شرائنرز اپنے امپیرئیل سیشن کے لئے واشنگٹن ڈی سی آئے تو انہوں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے پریڈ کی اور امریکہ کے صدر نے ان کی سلامی لی تھی۔ 23 مئی کی اس پریڈ میں ریاست کنساس کے جان ایٹ ووڈ نے صدر کو السلام علیکم کہا تھا۔
شرائنرز کی اس پریڈ کو دیکھنے کے لئے تمام شہر امڈ آیا تھا، بعض تاجروں نے اپنی دکانوں کے سامنے ، اور کھڑکیوں میںچھوٹی چھوٹی مسجدیں تعمیر کی ہوئی تھیں۔ میرین فوجیوں نے عربی لباس زیب تن کیا ہوا تھا تا کہ شرائنرز کا دارلخلافہ میں استقبال کرسکیں۔ ایٹ ووڈ نے اپنے استقبالیہ میں کہا:
We the representatives of all these many tribes, have come as Moslems to their Mecca, and as citizens and guests to the city that capitals the mightiest empire seen by the sun”.
اس کے 21 سال بعد9 مئی 1921ء کو شرائنرز نے امریکی صدر وارن جی ہارڈنگ کے سامنے پریڈ کی جو بذات خود شرائنرز تھا۔ امریکی صدر نے شرائنر کو السلام علیکم کہہ کر جواب دیا۔ دوسال بعد5جون 1923ء کو صدر ہارڈنگ نے واشنگٹن آنے والے 25 ہزار شرائنرز کا استقبال چمکدارسرخ رنگ کی فیز پہن کر کیا۔ اس وقت شرائنر زکی مقبولیت اوج کمال پر تھی۔ ان کی ممبر شپ 5لاکھ تھی جن میں صدر کے علاوہ فوجی جنرل جان پرشنگ بھی شامل تھا۔ 1910ء میں شرائنرز نے عربوں اور مسلمانوں کو رکنیت دینی شروع کی تھی۔ سب سے پہلا عرب شرائنر ٹیکساس کے شہر ایل پاسو کا سائمن مائیکل تھا۔ 1910ء میں اس نے شرائنرز کے سالانہ اجلاس میں سفید لباس پہن کر شرکت کی تھی جو مکہ میںحج کے موقعہ پر پہنا جاتا ہے۔ آجکل شرائنرز کی عبادتگاہوں کو ٹمپل کہا جاتا ہے اور اپنے اجلاسوں میں وہ عرب لباس زیب تن کر کے شرکت نہیں کرتے۔ البتہ تمام اجلاسوں میں سلام کہا جاتا ہے اور رومی ٹوپی بھی پہنتے ہیں۔
امریکہ کے شہر پٹس برگ میں شرائنرز کی عبادتگاہ کے اوپر شامی مسجد(Syria Mosque) لکھا ہوا ہے۔ اس کی چھت کے چاروں طرف ’’لٓا غَالِبَ اِلَّااللّٰہ‘‘ خوبصورت الفاظ میں کندہ ہے۔ مسجد قرطبہ کی طرح کی نعل نما محرابیں بنی ہیں۔ امریکی صدر ہیری ٹرومن جو راسخ العقیدہ شرائنر تھا اس نے اس ٹمپل کو 1952ء میں وزٹ کیا تھا۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 1960ء میں یہاں تقریر کی تھی۔ لیکن شرائنرز کی وہ بلڈنگ جس کو میڈیا میں اہم مقام حاصل رہا ہے وہ کیلیفورنیا میں واقع الملائکہ ہے جہاں اکیڈیمی ایوارڈز 10 مرتبہ منعقد ہوچکے ہیں۔ یہاں کے آڈیٹوریم میں 6ہزار 300 ناظرین بیٹھ سکتے ہیں۔ یہاں ہر قسم کے شو، اجلاس، کنونشن، آسکرز، ایمی ایز اور گریمی ایوارڈز منعقد ہوچکے ہیں۔ مزید معلومات درج ذیل ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:
www.almalaikah.com
شکاگو کے نواح میں سب سے بڑے سپورٹس کمپلیکس کا نام مدینہ ہے جس کا انتظام وانصرام شرائنرز کرتے ہیں۔ باہر جانے والے دروازہ کے اوپر الفاظ ’’فی امان اللہ‘‘ درج ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ کے نام پر یہاں ایک جھیل بھی ہے۔ یہاں کے کلب ہاؤس کی عمارت میں گنبد، محرابیں اور پگڑیاں پہنے لائف سائز مجسمے ہیں۔
1920ء کی دہائی میں لینڈ ڈویلپر گلین کرٹس نے میامی شہر کے شمال میں ایک نیا شہر بسایا جس کاسارا منصوبہ اورمنظر الف لیلیٰ سے تھا۔ فلوریڈا کے شہر Opa-locka میں قریباً ہر عمارت میں گنبد اور مینارے تعمیر شدہ ہیں۔ امریکہ کے اس شہر میں سب سے زیادہ اسلامی آرکیٹیکچر کے نوادر پائے جاتے ہیں۔ شہر کی بیس عمارتیں نیشنل رجسٹر آف ہسٹارک بلڈنگز کی فہرست میں شامل ہیں۔ سڑکوں کے نام کچھ اس طرح ہیں: علی بابا ایونیو، شہرزاد سٹریٹ۔
خلیل جبران کی کتاب”The Prophet” میں عشق، ملازمت اور24 دیگر موضوعات پر صوفیانہ نصائح دی گئی ہیں۔ اصل کتاب1924ء میں شا ئع ہوئی تھی جس میں ایک نبی کا نام مصطفی ہے۔ معروف میوزیشن اور آرٹسٹ Elvis Presley جب کبھی غمگین ہوتا یا کام کی زیادتی سے تشنج محسوس کرتا تو اس کتاب کا مطا لعہ کیا کرتا تھا اور اپنے دوستوں کو تحفہ میں یہ کتاب دیا کرتا تھا۔ اس کا ارادہ فلم بنانے کا بھی تھا۔ صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ وہ بچپن میں اپنی والدہ کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ خلیل جبران نے اسلام اور عیسائیت کی ا چھی اچھی تعلیمات کو کتاب میں سمو دیا تھا۔ اس کے لکھنے کا مقصد دونوں مذاہب کو قریب تر لا نا تھا۔
جبران کی طرح ایلوس آج بھی اتنا ہی مقبول عام ہے جیسا وہ اپنی زندگی میں تھا۔ ’’دی پرافٹ‘‘ کئی امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی اور متعدد سکول جبران کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ 2004ء میں بوسٹن شہر کے میئر نے خلیل جبران ڈے منانے کا آغاز کیا تھا۔ صدر جارج ہربرٹ بش نے 1991ء میں میسا چو سٹس ایونیو پر واشنگٹن میں خلیل جبران میموریل گارڈن کا افتتاح کیا تھا۔ جبران کے الفاظ پورے گارڈن میں جگہ جگہ پتھروں پر کندہ کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً: ’’اے میرے بھائی میں تم سے محبت کرتا ہوں، چاہے تم کوئی بھی ہو، اپنے کلیسا میں عبادت کرتے ہو، اپنے عبادت خانے میں جھکتے ہو یا اپنی مسجد میں عبادت کرتے ہو، میں اور تم ایک ہی مذہب کی اولاد ہیں‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں