آنحضرتﷺکا مقام عبودیت
جس وقت آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے ظھر الفساد فی البر والبحر کانظارہ عروج پر تھا اور لوگ مختلف قسم کی بدیوں میں سرشار تھے۔ آپﷺ کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر مختلف نبیوں میں پائے جاتے تھے۔ بعثت سے قبل بھی آپؐ کا کردار یہ تھا کہ کبھی شراب کو منہ نہ لگایا، آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے لئے منائے جانے والے تہواروں میں کبھی شرکت نہ کی۔شروع سے ہی ان باطل معبودوں سے آپؐ کو اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی حتیٰ کہ لات وعزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارہ نہ تھا۔ ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 20؍اپریل 2004ء میں مکرم محمد یوسف انور صاحب نے اپنے مضمون میں آنحضرتﷺ کی عبادت کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔
آپؐ کی عبادت کا پہلا دَور وہ تھا جب آپؐ گوشہ تنہائی میں جاکر عبادات بجالاتے۔ اور بالعموم شہر سے تین میل کے فاصلہ پر حرا نامی پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں بیٹھ کر غور کیا کرتے تھے۔ اور اس جگہ ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے۔ اس عبادت میں آپ کو اس قدر لطف آتاتھا کہ آپ ؐ کئی کئی دن اس غار میں رہتے تھے۔ تاریخ اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ اس غار میں ذکر الٰہی اور تفکر اور دعا اور مراقبہ میں محورہ کر اپنے خالق و مالک کی پرستش کیا کرتے تھے اور تمام دنیا کی ہدایت کے سامان مانگا کرتے تھے۔
آپؐ کے دل میں اپنی قوم کی اصلاح کیلئے ایک تڑپ تھی اور مشرکانہ ماحول میں آپؐ کے قلب اطہر کا خدا کی عبادت کی طرف جھکنا ایک زبردست دلیل یقینا اس بات کی ہے کہ آپ خدا کے فضل سے عبودیت کے اعلیٰ ارفع مقام پر فائز تھے۔
دعویٰ نبوت کے بعد آپؐ کی عبادات کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ ابتدائی تین سال تک آپ نے اپنے دعویٰ نبوت کو اپنے گھر والوں اور قریبی دوستوں تک محدود رکھا۔ ابتداء میں جبرائیل نے آپؐ کو نماز اور وضو کا طریق سکھایا مگر باقاعدہ پانچ وقت کی نماز بعد میں واقعہ معراج واسراء کے بعد شروع ہوئی۔ شروع شروع میں مسلمان اپنے طورپر گھروں میں یا مکہ کے پاس گھاٹیوں میں دودو چار چار مل کر جب موقع ملتا ایک عام عبادت کے رنگ میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کی بھی یہی حالت تھی کہ مکہ کی کسی گھاٹی میں چھپ کر نماز ادا کرتے تھے۔ بیان کیا جاتاہے کہ ایک دفعہ آپؐ اور حضرت علیؓ کسی درّہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اتفاق سے ابو طالب وہاں آنکلے ، اس جدید طریقہ عبادت پر انہیں تعجب ہوا، کھڑے ہوکر بغور دیکھتے رہے، حقیقت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر قائم رہیں۔
جب نبوت کے چوتھے سال آنحضرتﷺ نے کھلی ’’تبلیغ‘‘ کا آغاز فرمایا تو مخالفت کی سخت رَو چلی یہاں تک کہ آپؐ کو خانہ کعبہ میں عبادت کرنے سے بھی زبردستی روکا گیا۔
ایک دفعہ آپؐ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط غصہ میں اٹھا اور آپؐ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اس زور سے کھینچا کہ آپ کا دَم رکنے لگا۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ دوڑے ہوئے آئے اور آپؐ کو اس بدبخت کے شر سے بچایا اور کہا کیا تم اس شخص کوصرف اس لئے قتل کرتے ہوکہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔
ابتداء میں آپؐ اور صحابہ کرام ارقم بن ارقمؓ کے گھر کو عبادت کے لئے استعمال کرتے رہے۔ یہاں آنحضرتﷺ نہایت جوش وخروش سے عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ سورہ مزمل ابتدائی سورتوں میں سے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی عبادت کا نقشہ کھینچا ہے۔
ایک مرتبہ آپؐ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل نے کہا: کاش اس وقت کوئی جاتا اور اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لاتا، جب محمدﷺ سجدہ میں جاتے تو ان کی گردن پر رکھ دیتا۔ عقبہ نے کہا کہ یہ کام میں انجام دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ بدبخت گیا اور اوجھڑی لے آیا اور جب آپؐ سجدہ میں گئے تو آپؐ کی گردن پر رکھ دی۔ قریش مارے خوشی کے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے کہ کسی طرح آپؐ کی چہیتی بیٹی فاطمہؓ کو خبر ہوئی۔ وہ اگرچہ کم عمر تھیں لیکن جوش محبت سے دوڑی آئیں اور کسی طرح اوجھڑی کو ہٹاکر عقبہ کو برا بھلا کہا۔
معراج نبوی کے موقع پر جو احکامات آپؐ کو خدا تعالیٰ کے دربار سے ملے، ان میں سے ایک پنجگانہ نماز بھی ہے جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ خدا کے حضور لوگوں کی ہدایت کے لئے اس گریہ و زاری سے دعا کرتے جس طرح ہانڈی میں ابال آنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر آپ کی عبادت اس قدر لمبی ہوتی کہ عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہوگیا تو اس قدر تکلیف ہوئی کہ قریب تھا کہ میں نماز کو توڑ کر بھاگ جاتا۔ کیونکہ میرے قدم اب زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور میری طاقت سے باہر تھا کہ زیادہ دیر تک کھڑا رہ سکوں‘‘۔ یہ ایسے صحابی کا بیان ہے جو جوان تھے۔
آنحضورﷺ کی عبادت کا تیسرا دور ہجرتِ مدینہ سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں نسبتاً سکون اور آزادی کا ماحول میسر آیا۔ پہلی باقاعدہ مسجد بھی ہجرت کے بعد ہی تعمیر ہوئی۔
جنگ احزاب میں 21؍ دن تک دشمن نے مدینہ کا محاصرہ کئے رکھا۔ اس جنگ کے دوران آنحضرت ﷺ کی بعض نمازیں ضائع ہو گئیں اور وقت پر نہ پڑھی جاسکیں۔ آپؐ کو اس کا بہت رنج پہنچا اور آپؐ نے دشمن کے لئے سخت الفاظ استعمال کئے کہ خدا ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھردے، انہوں نے ہماری نمازیں ضائع کی ہیں۔ پھر آپ نے عصر اور مغرب کی نماز اکٹھی کرکے پڑھائی۔ نماز کے چھوٹ جانے کا یہ واقعہ زندگی میں ایک مرتبہ ہوا۔
آنحضرتﷺ عبادت الٰہی میں اس قدر سرور اور لذت حاصل کرتے تھے کہ بیماری کی حالت میں بھی آپ نے نماز کو ترک نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ بوجہ بیماری وکمزوری آپؐ نے ابو بکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیدیا لیکن جونہی اس دوران آپؐ نے افاقہ محسوس کیا تو دو آدمیوں کا سہارا لے کر نماز کیلئے تشریف لے گئے۔آپؐ اپنی قلبی کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں: قُرَۃُ عَیْنِی فی الصَلوۃِ کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ نیز ہر عبادت کے بعد آپؐ خدا کا شکر بجالاتے کہ اس نے اس عبادت کی توفیق دی۔
اپنے منصب اور رتبوں کے باوجود آنحضورؐ کو اپنی بشریت اور عبودیت کا برابر احساس رہتا تھا۔ خدا کی عظمت اور جلال کے سامنے ہمیشہ خوف دامنگیر رہتا۔ آپؐ اللہ کے چہیتے تھے لیکن کبھی مقام عبودیت میں فرق نہ آنے دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے جو عالم ہوتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔آپؐ صرف عالموں کے سردار ہی نہ تھے بلکہ عرفان کے بھی انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور اس قول کے مصداق تھے: ’’ہرکہ عارف تراست ترساں تر ‘‘ کہ جو جتنا زیادہ عارف باللہ ہوتا ہے اتنا ہی خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے۔
خشیت الٰہی عبودیت کی صفات میں سے ہے اس کا غلبہ آپؐ پر اس قدر تھا کہ آپ نے کبھی بھی اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کیا۔ ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا: نہیں، اگر خدا کا فضل اور رحمت مجھے ڈھانپ لے تو ہی میں جنت میں داخل ہوں گا۔
5ھ میں آپؐ ایک دفعہ گھوڑے سے گر گئے جس کی وجہ سے آپ کی پنڈلی اور ران وغیرہ میں چوٹیں آئیں اور آپؐ پانچ دن بیٹھ کر نماز ادا فرماتے رہے۔
آنحضرتﷺ نے جملہ عبادات میں سب سے زیادہ زور نماز پر دیا۔ آپؐ فرماتے تھے کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کے نتیجہ میں بندہ اپنے ربّ سے ہمکلام ہوتا ہے اور گویا اس کی مجلس میں پہنچ جاتا ہے۔ آپ کو نمازوں سے اس قدر محبت تھی کہ فرض نمازوں کے علاوہ بڑی کثرت سے نوافل پڑھا کرتے تھے اور نماز تہجد بلاناغہ ادا فرماتے۔ آپؐ نے نماز کی یہ شان بتائی ہے کہ بندہ خدا تعالیٰ کو دیکھ لے یا کم سے کم یہ کیفیت ہونی چاہئے کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔
رسول کریمﷺ کثرت سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعائیہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی امت کیلئے کثرت سے دعائیں بھی کیں تا آپؐ کی امت راہ راست پر قائم رہے۔ اور جب کبھی اس میں کوئی خرابی پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے اشخاص کو کھڑا کر دے جو اس خرابی کو دور کریں۔