آنحضرتﷺ اور مدینہ کے یہود
آنحضرتﷺ کے مدینہ کے یہود سے تعلقات سے متعلق مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا ایک تحقیقی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ میں پانچ اقساط میں شائع ہوا۔ اس مضمون کی آخری قسط (مطبوعہ الفضل 12فروری2005ء) میں مستشرقین کی حقیقت سے دُور آراء اور اخذ کردہ غلط نتائج سے متعلق مضمون نگار نے نہایت عمدگی سے روشنی ڈالی ہے۔
یہودی قبیلہ بنوقریظہ جب بدعہدی اور غداری کے نتیجہ میں قلعہ بند ہوگیا اور پھر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا تو اُن کو حضرت سعدؓ نے اُن کی شریعت کی رُو سے ہی سزا سنائی۔ اس سزا کے حوالہ سے ولیم میور نے اپنی تاریخی کتاب میں یہ تو تسلیم کرلیا کہ بنو قریظہ نے غداری کی تھی لیکن دوسری طرف وہ سخت الفاظ میں حضرت سعد بن معاذ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کو monstrous cruelty یعنی بہیمانہ ظلم اور دامن پر ایسا بد نما داغ قرار دیتے ہیں جسے دھویا نہیں جاسکتا۔
ولیم میور کی زندگی کا بیشتر حصہ عیسائیت اور بائبل کی تبلیغ میں گزرا تھا۔ ہندوستان میں اپنے چالیس سالہ قیام کے دوران وہ اس مقصد کے لئے کتب اور ٹریکٹ لکھتے رہے۔ بائبل میں استثناء باب 20 میں درج ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ افواج کسی قلعے کا محاصرہ کریں تو اس کے سب مردوں کو موت کے گھاٹ اتا دو۔ اور اگر یہ جنگ ارضِ مقدس میں ہو رہی ہو تو مردوں کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنے کی بہت تاکید ہے۔ چنانچہ ان احکامات کی موجودگی میں حضرت سعدؓ کے فیصلے پر اعتراض بے معنی ہے۔ اور میثاقِ مدینہ کی رو سے یہود کو مذہبی آزادی حاصل تھی اور یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب آنحضرتﷺ کے پاس یہود کا کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو توراۃ کی شریعت کی رو سے ان کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اعتراض کرنے والے عیسائی اور یہودی مصنفین کو اگر اعتراض کرنا چاہئے تو اپنی مقدس کتاب کی تعلیم پر کرنا چاہئے نہ کہ حضرت سعدؓ پر۔
ولیم میور 18برس کی عمر میں 1837ء میں ہندوستان آئے۔ اور چالیس برس تک یہاں پر پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برٹش راج کی ملازمت کی اور گورنر کے عہدہ تک پہنچے۔ 1857ء کی جنگ اسی دوران کا واقعہ ہے۔ اُن کی یہ کتاب 1861ء میں شائع ہوئی تھی اور کافی سالوں میں لکھی گئی تھی یعنی اسے تقریباً اس جنگ کے زمانے میں ہی لکھا گیا تھا۔ انگریزوں کے نزدیک اس جنگ میں ان کے خلاف کھڑے ہونے والے غداری (treason)کے مرتکب ہوئے تھے چنانچہ ولیم میور کی قوم نے اُن بے چاروں کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ بہت سے لوگوں کو سرِعام توپوں کے دھانوں سے باندھ کر توپوں کو چلا دیا گیا اور ان بدنصیبوں کے جسموں کے چیتھڑے ہوا میں اڑجاتے تھے۔ دہلی میں جب فاتح افواج داخل ہوئیں اور ان کے سامنے وہ فوجی پیش کئے گئے جو زخمی ہونے کے باعث فرار نہیں ہو سکے تھے تو فوری طور پر ان کا علاج گولیوں سے کیا گیا ۔ فاتح افواج کو جو نظر آتا تھا اسے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا تھا خواہ وہ کوئی فوجی ہو یا معصوم شہری۔ تین ماہ تک چاندنی چوک میں پھانسی نصب رہی اور روزانہ گاڑیاں پھانسی پانے والوں کی لاشوں سے بھر کر جاتی تھیں۔ ہزاروں ایسے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جنہوں نے جنگ میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی شرکت کی تھی۔ ہڈسن نے راستے میں بغیر کسی تحقیق اور مقدمے کے بہادر شاہ ظفر کے تین بیٹوں کو ننگا کر کے گولی مار دی اور لاشوں کو عبرت کے لئے لٹکا دیا گیا۔ مغلیہ خاندان کے فاتر العقل شخص مرزا قیصر کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ ایک شہزادہ کو جو گنٹھیا کی وجہ سے بیمار تھا اور ہل بھی نہیں سکتا تھا پھانسی دیدی گئی، اس کی لاش اپنی معذوری کے سبب ٹیڑھی ہو کر لٹکی رہی۔ انگریز مرد اور عورتیں چاندنی چوک میں کرسیوں پر براجمان ہوکر پھانسیوں کے منظر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جب یہ مہذب افواج دہلی میں داخل ہوئیں تو وہ وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ بہت سی عورتوں نے کنوؤں میں کود کر خود کشی کر لی۔ خود انگریزوں کا بیان ہے کہ یہ کنویں ان کی لاشوں سے اَٹ گئے تھے۔ نواب جھجھر کو اس لئے پھانسی دی گئی کہ انہوں نے سر مٹکاف کو پناہ نہیں دی تھی۔ والیِٔ فرخ نگر کے خاندان کے 72افراد کو پھانسی دی گئی۔ بہت سے مسلمانوں کو سوروں کی کھالوں میں سیا گیا، پھانسی سے پہلے ان پر سور کی چربی ملی گئی۔ کئی لوگوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ دہلی میں لوگوں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ دہلی میں لوگوں کے گھروں سے لوٹا گیا سامان ایک ادارہ پرائز ایجنسی بنا کر اس کے ذریعہ فروخت کیا گیا۔ غازی آباد میں بہت سے لوگوں کے گلوں میں مرے ہوئے کتے باندھ کر انہیں پھانسی دی گئی۔ مخالفوں کے گھر مسمار کئے گئے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں اور خود انگریز مصنفین بھی اس سے انکار نہیں کرتے کہ اس طرح کی زیادتیاں بغیر کسی تفتیش کے کی گئی تھیں۔ تو یہ تھا وہ رحمدلانہ سلوک جو اس حکومت نے کیا تھا، جس کے ساتھ میور صاحب منسلک تھے۔
اس بہیمانہ سلوک کے بعد حضرت سعد بن معاذ ؓ کے فیصلے کو ظلم قرار دینا تو منافقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور یہ امر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت انگریزوں کی حیثیت ایک غیر ملکی حکمران کی تھی جو سات سمندر پار سے پہلے تاجر بن کے آئے اور پھر ملک پر قبضہ کر لیا۔ جس حکومت اور نظام کا میورؔ حصہ تھے اس کی قوتِ برداشت کا تو یہ عالم تھا کہ جب سر سید نے اسبابِ بغاوتِ ہند تحریر کی تو حکومت نے اس مضمون کو باغیانہ قرار دیدیا اور سر سید کو سخت سزا دینے کی حمایت کی۔ حالانکہ مضمون میں صرف تاریخی تجزیہ پیش کیا گیا تھا۔
1857ء کی جنگ کا آغاز ہوا تو ولیم میور آگرہ میں کمپنی حکومت کے سیکرٹری تھے اور جنگ کے آغاز کے بعد انہوں نے وہاں پر جاسوسی کے ادارہ کے انچارج کے فرائض سنبھالے تھے۔ان کی کارکردگی اتنی غیرمعیاری تھی کہ Mark Thornwellنے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سے انگریز اس محکمے کی کارکردگی پر ہنسا کرتے تھے۔ میورؔ کا سب سے معتبر جاسوس ایک نابینا تھا، چنانچہ میورؔ نے غلط معلومات کی بنیاد پر ایک مرتبہ اپنی فوج کی غلط رہنمائی بھی کردی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فطرت میں اس بات کی صلاحیت کم رکھی گئی تھی کہ غلط اور صحیح روایت میں فرق کر سکیں یا درست نتیجہ اخذ کر سکیں۔ بہر حال اس جنگ کے دوران انہیں شمال مغربی صوبے کا گورنر بھی لگایا گیا تھا۔ اس دوران انہوں نے 31؍اکتوبر 1857ء کو اپنے ایک ساتھی انگریز افسر کو لکھا کہ ہر وہ سپاہی جس نے ان کے مطابق غداری کی تھی، اسے بغیر کسی رحم کے موت کے گھاٹ اتار دینا چاہئے تھا۔ میور صاحب نے اپنے لئے تو یہ معیار رکھا ہوا تھا کہ جوان کے خلاف سر اٹھائے اس کا سر قلم کر دینا چاہئے لیکن صدیوں پہلے بنو قریظہ کے مجرموں کی ہمدردی میں صفحات سیاہ کئے جارہے تھے۔ پھر اس میں خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کے افسران نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا حتیٰ کہ اتنی لوٹ مار کے بعد ان کوزندگی بھر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دراصل میور نے یہ کتاب مسلمانوں سے مذہبی تعصب اور انتقام کے ایام میں تحریر کی تھی، اسی رو سے مغلوب ہو کر میور نے آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر گھٹیا حملے کئے لیکن اُن کی تحریر میں تحقیق اور توازن کہیں نظر نہیں آتا۔
مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے متعلق حضرت میر ناصر نواب صاحب جو اس وقت 12برس کے تھے اور دہلی میں مقیم تھے تحریر فرماتے ہیں: دلی والوں کی شامت آئی۔ فتح مندوں نے شہر کو برباد کر دیا۔ اور فتح کے شکریہ میں صدہا آدمیوں کو پھانسی پر چڑھادیا۔ مجرم اور غیر مجرم میں تمیز نہیں تھی۔ سوائے چوہڑے چماروں سقوں وغیرہ کے یا ہندوؤں کے خاص محلوں کے کوئی لوٹ مار سے نہیں بچا۔ شہر کے لوگ ڈر کے مارے شہر سے نکل گئے۔ اور جو نہ نکلے وہ جبراً نکالے گئے۔ اور قتل کئے گئے۔ یہ عاجز بھی ہمراہ اپنے کنبہ کے دلی کے دروازہ کی راہ سے باہر گیا۔ چلتے وقت لوگوں نے اپنی عزیز چیزیں جن کو اٹھا سکے لے لیں۔ میری والدہ صاحبہ نے میرے والد کا قرآن شریف جو اب تک میرے پاس ان کی نشانی موجود ہے، اٹھا لیا۔ شہر سے نکل کر ہمارا قافلہ سر بصحرا چل نکلا۔ اور رفتہ رفتہ قطب صاحب تک جو دلی سے 11میل پر ایک مشہور خانقاہ ہے، جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ایک دو روز ایک حویلی میں آرام سے بیٹھے رہتے تھے کہ یکایک ہارس صاحب افسر رسالہ معہ مختصر اردل کے قضاء کی طرح ہمارے سر پر آپہنچے۔ اور دروازہ کھلواکر ہمارے مردوں پر بندوقوں کی ایک باڑ ماری۔ اور جس کو گولی نہ لگی اس کو تلوار سے قتل کیا۔ یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو۔ ہماری طرف کے ہو یا دشمنوں کے طرفدار ہو۔ اسی یک طرفہ لڑائی میں میرے چند عزیز راہی ملک عدم ہوگئے۔ پھر حکم ملا کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ ہم سب زن ومرد وبچہ اپنے مُردوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں حیران وپریشان وہاں سے روانہ ہوئے۔ لیکن بہ سبب اندھیرے کے رات بھر قطب صاحب کی لاٹ کے گرد طواف کرتے رہے۔
یہ تھا میور صاحب کے ہم قوم اور ہم مذہبوں کا فیصلہ جس کا عملی اظہار سارے مفتوحہ علاقوں میں کیا گیا۔