آنحضورﷺ کے محترم والدین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ قادر ہے، حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تاکہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں‘‘۔(تریاق القلوب)
ملک عرب میں قبیلہ قریش کا شمار بہت معزز قبائل میں ہوتا تھا اور اس قبیلہ میں خاندان بنوہاشم کو حج کے مہمانوں کی میزبانی کا فریضہ سرانجام دینے کے علاوہ نیکی، صداقت، حلال کی کمائی، حیا، جود و سخا، علم و تدبر کا علمبردار سمجھا جاتا تھا۔ یہ خاندان خوب سیرت ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔
آنحضرتﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کا اصل نام عامر تھا۔ اُن کے چچا مطلب بن مناف ان کے لڑکپن میں ہی مدینہ سے اپنے ہمراہ لے آئے تھے اس لئے انہیں عبدالمطلب کہا جانے لگا۔ انہیں ’’شیبۃالحمد‘‘ (یعنی سفید بالوں والا قابل تعریف) بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا صرف ایک بیٹا حارث تھا جبکہ عرب میں کنبوں کا شرف بیٹوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتا تھا اس لئے لوگ انہیں اولاد کی کمی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دعا کی کہ ’’اے اللہ! اگر تُو مجھے دس بیٹے عطا فرمائے اور وہ عنفوان شباب کو پہنچ جائیں تو اُن میں سے ایک بیٹا تیرے نام پر قربان کردوں گا‘‘۔ اس دعا کے نتیجہ میں انہیں مزید نو لڑکے عطا ہوئے جو جوانی کی عمر کو بھی پہنچ گئے۔ چنانچہ ایک روز انہوں نے اپنے تمام بیٹوں (یعنی حارث، زبیر، ابوطالب، عبداللہ، حمزہ، ابولہب، الغیداق، المقوم، ضرار، عباس) کو اکٹھا کیا اور اپنی نذر کا ذکر کیا۔ سب بیٹوں نے یہی کہا کہ آپ جس طرح چاہیں، ہم حاضر ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ سب ایک ایک تیر لے کر اُس پر اپنا نام لکھیں تاکہ قرعہ ڈالا جاسکے۔ قرعہ ڈالا گیا جو آپ کے فرزند عبداللہ کے نام نکلا۔
حضرت عبدالمطلب نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا اور خانہ کعبہ کے اُس حصہ کی طرف چل پڑے جہاں قربانیاں کی جاتی تھیں۔ سرداران قریش اور عبداللہ کی بہنوں نے مزاحمت اور آہ و فغاں شروع کردی۔ عبداللہ کے ماموں نے کہا کہ عبداللہ کی قربانی کے بدلہ میں آپ فدیہ دیدیں۔ حضرت عبدالمطلب نے اس سے اتفاق کیا اور فدیہ کی رقم دس اونٹ تجویز کرکے قرعہ ڈالا گیا لیکن قرعہ پھر بھی عبداللہ کے نام نکلا۔ پھر دس اونٹ مزید بڑھاکر قرعہ ڈالا گیا اور اس طرح دس دس اونٹ بڑھاتے بڑھاتے جب سو اونٹ ہوگئے تو قرعہ اونٹوں کے نام نکل آیا۔ حضرت عبدالمطلب نے اپنی تسلی کے لئے تین دفعہ قرعہ ڈالا۔ تینوں بار ایک سو اونٹ قرعہ میں نکلے چنانچہ ایک سو اونٹوں کی قربانی دی گئی۔
آنحضرتﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ کی ولادت 545ء میں ہوئی تھی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو بن عائد تھا۔ آپ کے ساتھ ایک بہن امرالحکیم البیضاء جڑواں پیدا ہوئی۔ آپ نہایت حسین و جمیل تھے اور آپ کی خوبصورتی اور خوب سیرتی کا دُور دُور تک چرچا تھا۔ نہایت سیر چشم اور سخی تھے اور اخلاق میں ایک معتبر شہادت رکھتے تھے۔ دین ابراہیمی پر قائم تھے۔ سعادت مند اور فرشتہ صفت انسان تھے۔ مکہ کی کئی عورتیں آپ سے شادی کی خواہشمند تھیں۔ 570ء میں صرف پچیس سال کی عمر میں آپ کی وفات اُس وقت ہوئی جب آپ خشک کھجوروں کی تجارت کی غرض سے یثرب گئے۔ اپنے ننھیال کے ہاں بیمار ہوکر فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ نے پانچ اونٹ، بھیڑ بکریوں کا ایک چھوٹا ریوڑ، ایک مکان، ایک دوکان، کھجوروں اور چمڑے کا ذخیرہ، دو غلام اور ایک لونڈی ام ایمن ترکہ میں چھوڑی۔
حضرت عبداللہ کا تعلق پانچویں پشت سے کلاب سے ملتا تھا۔ جبکہ حضور اکرمﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کا تعلق چوتھی پشت میں کلاب سے مل جاتا تھا۔ آپ قبیلہ بنوزہرہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ وھب بن عبدمناف بن زھرہ بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ 551ء میں پیدا ہوئیں۔ والدہ کا نام برہ بنت عبدالعزیٰ تھا۔ آپ نہایت گندے معاشرے میں پاکدامنی کی ایک مثال تھیں۔
حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کے قبائل شروع ہی سے باہم ہمدردانہ تعلقات رکھتے تھے۔ حضرت عبدالمطلب کی طرف سے جب رشتہ کی پیشکش کی گئی تو بلاتأمل قبول کرلی گئی۔ شادی کے وقت حضرت آمنہ کی عمر بیس سال تھی۔ شادی کے تین دن بعد آپ اپنے سسرال سے اپنے مکان ’’رفق المولد‘‘ میں منتقل ہوگئیں۔ صرف سات ماہ بعد حضرت عبداللہ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد آپ نے کشفاً ایک فرشتہ کو دیکھا جس نے آپ سے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم حاملہ ہو؟ آپ نے جواب دیا مجھے علم نہیں۔ اُس نے بتایا کہ تم ایسے بچے کی حاملہ ہو جو سردار اور نبی ہوگا۔ ولادت کے قریب پھر وہی فرشتہ آیا اور کہا کہ یہ دعا کرتی رہو: ’’مَیں اللہ سے جو واحد اور معبود ہے اس بچے کے لئے پناہ چاہتی ہوں کہ وہ اسے ہر حاسد کے شر سے محفوظ رکھے‘‘۔
جب آپ کو درد زہ ہوا تو اُس وقت آپ نے یوں کشف دیکھا: ’’مَیں اکیلی اپنے مکان میں تھی کہ مَیں نے ایک خوفناک دھماکے کی آواز سنی جبکہ عبدالمطلب کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ آواز ایسی تھی گویا کوئی دیوار گر گئی ہو۔ مَیں ڈر گئی۔ مَیں نے دیکھا کہ سفید رنگ کا ایک پرندہ اترا اور اُس نے اپنے بازو سے میرے دل کی جگہ کو چھوا چنانچہ میرا خوف دُور ہوگیا اور درد زہ بھی جاتا رہا۔ پھر ایک برتن میں سفید رنگ کا مشروب دیکھا۔ مَیں نے اس کو پی لیا۔ پھر مَیں نے ایک نور کو اپنے قریب آتے دیکھا جو بہت اونچا تھا اور مَیں نے اپنے اردگرد درازقد عورتیں دیکھیں اور مَیں حیران ہوں کہ یہ میرے حال سے کیسے واقفیت رکھتی ہیں‘‘۔
ایک اَور کشف آپ یوں بیان فرماتی ہیں کہ جس وقت مجھے حمل ہوا تو آواز آئی کہ تم ایسے وجود کی امانتدار بنی ہو جو قوم کا سردار ہوگا۔ جس کی نشانی یہ ہے کہ اس کی پیدائش کے وقت ایسا نور نکلے گا جس سے بصریٰ کے محل روشن ہوجائیں گے۔ اس بچہ کا نام محمد(ﷺ) رکھنا۔
ان کشوف سے بہت پہلے حضرت عبدالمطلب کو بھی ایک کشف دکھایا گیا تھا جسے وہ حضرت ابوطالب پر چسپاں کرتے رہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک درخت آسمان سے باتیں کررہا ہے اور اُس کی شاخیں مشرق و مغرب کے کناروں تک ہیں، عرب و عجم اُس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ … قریش کا ایک گروہ اُس کی ٹہنیوں سے لٹک رہا ہے مگر دوسرا گروہ اُس کو کاٹنے کے درپے ہے۔ ایک نہایت بارعب اور خوبصورت نوجوان نے اُس گروہ کو پکڑ لیا اور اُن کی پیٹھوں پر ضربیں لگالگا کر اُن کی ہڈیاں توڑیں اور آنکھیں نکالیں۔ اُس نوجوان کے جسم سے عجیب خوشبو نکل رہی ہے۔ مَیں نے اپنا ہاتھ بڑھایا کہ اس درخت سے کچھ حاصل کروں مگر مجھے کچھ نہ ملا۔ میرے استفسار پر بتایا گیا کہ اس میں صرف اُن لوگوں کا حصہ ہے جو اسے پکڑے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تجھ سے پہلے اس درخت کو پکڑ لیا۔
آنحضرتﷺ خود بھی فرمایا کرتے تھے: ’’مَیں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں، عیسیٰ بن مریم کی بشارت ہوں، اپنی ماں کی وہ رؤیا ہوں جو انہوں نے ظاہری آنکھ سے دیکھا کہ اُن کے جسم سے ایک نور نکلا جس میں انہیں شام کے محلات نظر آئے۔ اور انبیاء کی ماؤں کو اسی طرح دکھایا جاتا ہے۔‘‘
عرب کے رواج کے مطابق ایک بوڑھی عورت نے حمل کے دوران حضرت آمنہ کو لوہے کے کڑے پہنادیئے جو آپ نے اپنی سادگی طبع میں پہن لئے۔ چند دن بعد وہ خودبخود ٹوٹ کر گر گئے جس پر آپ سمجھ گئیں کہ یہ فعل میرے خدا کو ناپسند ہے چنانچہ آپ نے بعد ازاں اپنے وجود سے ان کو علیحدہ رکھا۔
عرب دستور کے مطابق جب آنحضورﷺ کو دودھ پلانے کیلئے حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا گیا تو حضرت آمنہ نے یہ دعا کی: ’’مَیں اپنے بچے کو ربّ ذوالجلال کے سپرد کرتی ہوں اس شر سے جو پہاڑوں میں پلتا ہے۔ یہاں تک کہ مَیں اُسے اونٹ پر سوار دیکھوں کہ وہ غلاموں اور بے کس لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے والا ہے۔
حضرت آمنہ ہر سال اپنے شوہر کی قبر پر دعا کی غرض سے جایا کرتی تھیں۔ 576ء میں جب آنحضورﷺ کی عمر چھ سال اور چند ماہ تھی، آپ حضورؐ کو ہمراہ لے کر ایک قافلہ کے ساتھ یثرب کی طرف روانہ ہوئیں۔ خادمہ امّ ایمنؓ بھی ساتھ تھیں۔ یثرب میں ایک ماہ قیام کے بعد جب آپ واپس روانہ ہوئیں تو دورانِ سفر ہی دردسر، کمزوری اور بخار سے اچانک بیمار ہوکر وفات پاگئیں اور ابواء کے مقام پر دفن کی گئیں۔ آپ نہایت قانع اور منکسرالمزاج خاتون تھیں۔ شروع ہی سے توحید سے چمٹی ہوئی تھیں، اپنے شوہر کی فرمانبردار تھیں، زیرک اور موقع شناسی کی صفات سے معمور تھیں۔
مکرم فرید احمد ناصر صاحب کا یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍نومبر 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔