ایک بابرکت سفر کی روداد حج بیت اللہ کی سعادت
(مطبوعہ انصارالدین یوکے مارچ و اپریل 2022ء)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’جب انسان حج کے لیے جاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے لیے قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی عزت دیتا ہے اور حج کرنے والے کے دل میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی اور اس کی ذات پر یقین ترقی کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ کو اس گھر میں دیکھ کر جو ابتدائے دنیا سے خدا تعالیٰ کی یاد کے لئے بنایا گیا ہے، ایک عجیب روحانی تعلق ان لوگوں سے محسوس کرتا ہے جو ہزاروں سال پہلے سے اس روحانی سلک میں پروئے چلے آتے ہیں جس میں یہ شخص پرویا ہوا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت کا رشتہ جو سب کو باندھے ہوئے ہے خواہ وہ پرانے ہوں یا نئے۔ اسی طرح بیت اللہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر چاروں طرف سے لوگوں کو اس گھر کے گرد جمع کردیا ہے۔ جب انسان بیت اللہ کو دیکھتاہے اور اس پر اس کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل پر ایک خاص اثر پڑتاہے اور وہ قبولیت دعاکا ایک عجیب وقت ہوتا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت جو دُعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ فرمانے لگے۔ اُس وقت میرے دل میں کئی دعائوں کی خواہش ہوئی۔ لیکن میرے دل میں فورًا خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعا ئیں مانگیں اور قبول ہوگئیں اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہوگا۔ پھر تو نہ حج ہوگا نہ یہ خانہ کعبہ نظرآئے گا۔ کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ حل نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ یا اللہ! میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہو ا کرے تاکہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے۔
میں نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی ہوئی تھی۔ جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آگئی۔ جوں ہی خانہ کعبہ نظر آیا … (تو میں نے یہ دُعا کی) کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقع پر دیکھ کر جو شخص دُعا کرے گا وہ قبول ہوگی۔ میری تجھ سے یہی دعا ہے کہ ساری عمر میری دعائیں قبول ہوتی رہیں۔ چنانچہ اس کے فضل اور احسان سے میں برابر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ میری ہر دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ شاید کسی اعلیٰ درجہ کے شکاری کا نشانہ بھی اِس طرح نہیں لگتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 450-451)
خاکسار نے انگلستان آنے کے بعد سے حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لیے اخراجات پس انداز کرنے شروع کردیے تھے۔پاکستان سے تو احمدیوں کو حج کے لیے جانے نہیں دیتے لیکن یہاں کوئی ایسی روک نہ تھی اور میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ بھی کیا تھا۔ نیز حج اسلام کا پانچواں رکن بھی ہے جو مسلمان پر فرض ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز سے درخواست کی اور حج پر جانے کے لیے اجازت چاہی جو آپ نے ازراہ شفقت عطا فرمادی۔
خاکسار نے اپنے بلیو پاسپورٹ پر مکرم چوہدری انوارالحق صاحب آف مانچسٹر کے ذریعہ ویزا لگوایا اور مکرم سید شکیل احمد صاحب آف سکائی لنک کے ذریعہ سے ٹکٹ خریدی جو چند گھنٹوں کے نوٹس پر مجھے ملی۔ میں نے نہ کوئی پیکج خریدا اور نہ کوئی ہوٹل بک کروایا۔ صرف اللہ کا نام لے کر چل پڑا۔ 22؍دسمبر2006ء کوجمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک چھوٹا سا بیگ لیا اور ہیتھرو کے فضائی مستقر پر پہنچ گیا جہاں مجھے ٹوکن دے کر ٹکٹ ملناتھا۔ سو وہ مل گیا اور رات کو پونے نو بجے میر ی روانگی جدہ کے لیے کنفرم ہوگئی۔
میری برسوں کی خواہش دیارِ حبیب کی زیارت کی پوری ہونے جارہی تھی اور میری روح وجدکناں تھی، آنکھیں اشکبار تھیں اور دل کی حالت جو تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ چھ گھنٹے کی پرواز تھی اور دونوں ممالک کے اوقات کے درمیان تین گھنٹے کا وقت کا فرق تھا۔
23؍دسمبربمطابق 3؍ذوالحجہ 1427 ہجری کو جدہ پہنچا۔ میں نے حج قیران کی نیت کی تھی جس کا ثواب زیادہ بتایا جاتا ہے۔ تمام رات بس چلتی رہی اور فجر کے قریب مکہ معظمہ پہنچی۔ تمام رات تلبیہ بلند آواز سے پڑھتے رہے اور دعائیں کرتے رہے۔ مَیں نے جدہ پہنچ کر سعودی حکومت کے بنک میں جاکرحج پیکیج کی رقم بھی جمع کروادی اور گورنمنٹ کی وزارت حج میں جاکر ویزا دکھاکر رجسٹریشن بھی کروائی تھی جو دفتر 47میں ہوئی جو یوکے کے حاجیوں کی نگرانی کررہا تھا۔
جب خانہ کعبہ کی دہلیز پر پہنچے توہمیں ناشتہ کروایا گیا اور خانہ کعبہ کی عمارت میں داخل ہوئے بغیر ہمیں شہر مکہ میں پھر کر اپنے اپنے دفاترمیں تقسیم کردیا گیا۔ وہاں مجھ سے پوچھا گیا کہ میں نے کون سی قیام گاہ میں جانا ہے؟ میں نے انہیں کہا کہ مجھے کسی کے ہاں Paying guest کے طور پر بھجوا دیا جائے۔ وہیں پر ایک نوجوان جو گوجرانوالہ کے تھے اور ڈیوٹی کر رہے تھے، میرے قریب آئے اپنے گھر لے جانے کی پیشکش کی جو میں نے قبول کی۔ اُن کا گھر خانہ کعبہ کے قریب ہی تھا۔ بس یہی کوئی پندرہ منٹ کی Walkپر اور غارثور کے قریب۔بڑے اچھے لو گ تھے میرا انہوں نے بہت خیال رکھا۔ اللہ انہیں جزائے خیرعطا فرمائے۔ آمین۔
ہر درمیان کی رکاوٹ خود بخود حل ہوتی جاتی تھی۔ ویزا لگنے سے لے کرمکہ معظمہ میں رہائش تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اذن الٰہی ہے جو پورا ہوتا چلا جارہا ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ جدہ جاکر میں محترم شکیل صاحب کے ایک عزیز سے رابطہ کرلوں تو سب کام ہو جائیں گے۔ مگر وہ رابطہ ہوا جیسا نہ ہوا۔انہوں نے انٹرنیشنل مستقر پر ایک صاحب کو میری خاطر بھجوایا۔مگر میں حجّاج کے فضائی مستقر پر تھا اور درمیان میں تیس پینتیس کلومیٹر کا فاصلہ حائل تھا۔نہ وہ صاحب اِدھر آسکتے تھے کیونکہ حاجی نہیں تھے اورنہ مَیں اُدھر جاسکتا تھا کیونکہ میں حاجی تھا۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی پوشیدہ حکمت تھی جس کا علم بعد میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر میری مدد فرمائی۔ عام حالات میں تن تنہا یہ سب کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ پر توکل اور بھروسے سے سب مشکلیں آسان ہوتی چلی گئیں۔
عمرہ خانہ کعبہ
24؍دسمبر کو بمطابق 4؍ذوالحجہ بروز اتوار خاکسار گھر سے علی الصبح عمرہ کی غرض سے نکلا اور تلبیہ کے الفاظ کہتا ہوا خانہ کعبہ کی طرف بڑھا:
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک
اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکََ لَاشَرِیْکَ لَکَ
ترجمہ: مَیں حاضر ہوں اے اللہ! میں تیری جناب میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیری (ذات و صفات) میں کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ یقینا ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیرے لیے ہے اور حکومت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔
تلبیہ کے یہ الفاظ دوہراتا ہوا اشکبار احرام کی دو چادروں میں چند لمحوں میں ہی دربارِ ایزدی میں حاضر ہونے کو تھا۔ وہ مقام جہاں ابراہیم علیہ السلام نے عبادت کی وہ خدا کا گھر جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام نے تعمیر کیا۔ جہاں نونہال اسماعیل علیہ السلام پیاس سے ایڑیاں رگڑتا رہا، جہاں ایک ماں حضرت ہاجرہ علیہا السلام صفا اور مروہ پر دوڑ دوڑکر چڑھتی اُترتی رہی اور پانی کی تلاش کرتی رہی او رعرش معلی سے فرشتہ نازل ہوا اور زمزم کا چشمہ رواں کردیا گیا، جہاں ہمارے آقائے دوجہاںﷺ خدائے قدوس کے سامنے سجدہ ریز ہواکرتے تھے، جہاں آپؑ پر اور صحابہ کرام ؓ پر ہر قسم کے ظلم روا رکھے جاتے تھے۔وہ گلیاں جہاں آپ کے قدم پڑتے تھے۔ وہ پہاڑ جہاں آپ کی نظریںپڑتی تھیں۔ وہ غار حرا جو سامنے نظر آرہی تھی۔ جہاں اتنی بلندی پر آپؐ پندرہ سال تک عظیم مجاہدہ روحانی کرتے رہے۔ وہ جگہ جہاں قرآن عظیم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔
میرے ارد گرد اور میرے گردوپیش میں تاریخ کی سینکڑوں یادیں بکھری ہوئی تھیں جو میری سسکیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ اب وہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے جس کے گرد لوگ چادروں میں ملبوس پروانوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ میں نے ہاتھ اٹھائے اور وہی دعا کی جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ نے کی تھی،جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے کی تھی۔ پھر مَیں آگے بڑھا دیوانہ وار آگے بڑھا، اور پروانہ وار طواف شروع کیا۔ حجر اسود کے دائیں جانب جدھر دروازہ ہے ادھر کو چلتے ہوئے قریب ہوا، اَور قریب ہوا، تلبیہ کہتے ہوئے آگے بڑھا۔ عجیب عاشقانہ جذبات تھے جو مجھے لیے چلے جارہے تھے۔ یہ طواف قدوم کہلاتا ہے۔ حجر اسود کے سامنے پہنچتا تو استلام کرتا۔ پہلے تین چکروں میں رمل کیا۔باقی میں معمول کے مطابق قدم اُٹھائے۔ رکن یمانی سے لگ کر دعائیں کیں۔حجر اسود کے بالکل قریب سے گزرا حاجیوں کا ریلا اتنا زوردار تھا کہ اَور قریب ہونا ممکن نہ تھا۔پھر طواف سے فارغ ہوکر مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کیے۔ شکرانے کے دو نفل اور سنت ابراہیمی علیہ السلام پوری ہوئی۔ پھر خوب سیر ہوکر زم زم کا پانی پیا اور صفا اور مروہ کی طرف چل پڑا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہ (البقرۃ)
یہ وہ دو پہاڑیاں ہیں جن کو دیکھ کرخدا یاد آتا ہے۔ یہاں پر سعی کی گئی۔یہ صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر ہیں اور درمیان میں کچھ حصہ بھاگ کر گزارا جاتا ہے۔ یہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی سعی کی یاد میں ہے۔ آپؑ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خانہ کعبہ کے پاس،جہاں زمزم اور مقام ابراہیم ہے، لٹاکر آئی تھیں۔ چونکہ جب آپ دونوں پہاڑیوں کے درمیان میں آتیں تو وہ آپ کو نظر نہیں آتے تھے اس لیے آپ دوڑ کر گزرتی تھیں۔ نظر آپؑ کی اُدھر خانہ کعبہ کی طرف ہی ہوتی تھی۔ چنانچہ ایک حاجی بھی اُدھر ہی دیکھتا ہے کیونکہ ساری امیدیں اس کی اسی گھر کے مالک سے وابستہ ہوتی ہیں۔ لیجیے میرا عمرہ مکمل ہوگیا۔ چونکہ میں نے نیت حج قیران کی کی ہوئی تھی اس لیے میں نے احرام نہیں کھولا بلکہ اسی احرام میں حج جب شروع ہوا تو وہ بھی کیا۔ اس دن گرمی بہت تھی مگر کہیں سے بادل آگیا اور بارش ہوگئی جس سے موسم خوشگوار ہو گیا۔ یہ بارانِ رحمت ظاہری تھا اور جو باطنی تھا وہ اس کے سوا تھا۔
25 تا 27دسمبر یعنی 5 تا 7؍ذوالحجہ کے دن مجھے مکہ میں مزید مل گئے تھے۔ میں رات دن کعبہ میں ہی رہ کرعبادات اور دعائوں میں مصروف رہا۔وہاں تلاوت کرتا رہا، طواف کرتا رہا اور ذکر الٰہی کرتارہا۔ جب بھوک لگتی باہر آکر تھوڑا سا کچھ کھالیتا اور پھر بیت اللہ میں چلا جاتا۔
حج بیت اللہ
25؍دسمبر یعنی 5؍ذو الحجہ کو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ مکہ میں بم کا دھماکا ہوا ہے اوربرازیل میں دی ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بندوق میرے پاس میرے ہاتھ میں ہے۔ میں نے اس سے یہ اندازہ لگایا کہ کسی غیر معمولی خطرے کا احتمال تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرمائے گا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سعودی حکومت کے کارندوں نے ایک جگہ پر احمدیوں کو نماز ادا کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا، جنہیں بعد میں Deportکردیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
8ذوالحجہ کو خاکسار منیٰ گیا اور دفتر نمبر 47کے تحت بڑے خیمہ میں پہنچا۔ یہاں پر بریڈ فورڈ کے حاجی تھے۔ معلم صاحب سے ہمارا تعارف کرایا گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایم اے اسلامیات ہوں اس لیے اُنہیں مجھے زیادہ راہنمائی کی تکلیف نہیں کرنی پڑے گی۔
یہاں مسجد الخیف اور مسجد النمرہ تھیں۔ یہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور 9؍ذوالحجہ کی فجر ادا کرنی ہوتی ہے۔ قریبی مسجد میں جاکر نمازیں ادا کرتا رہا۔ ایک حاجی کو 9؍ذوالحجہ کو جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے، وقوف عرفہ کے لیے منیٰ سے نہیں جانا ہوتا۔ چنانچہ 9؍ذوالحجہ کو ظہر سے سورج غروب ہونے تک وقوفِ عرفہ کرنا لازمی ہوتا ہے اور کھڑے ہوکر ہاتھ پھیلا کردعائیں کرنی ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِذَآ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفَاتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ص وَاذۡکُرُوۡہُ کَمَا ھَدٰکُمۡ ج وَاِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَo (البقرہ:199)
ترجمہ: تم پر کوئی گناہ تو نہیں کہ تم اپنے ربّ سے فضل چاہو۔ پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مَشعرِحرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔ اور اس کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔ اور اس سے پہلے تم یقینا گمراہوں میں سے تھے۔
حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ کہہ رہے ہوتے تھے اور کچھ اللہ کی حمد و ثنا اور عظمت بیان کر رہے ہوتے تھے اور کچھ دعائیں دوہرا رہے ہوتے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک وہاں پر آزادانہ طور پر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
(البقرہ: 200)
ترجمہ: پھر تم (بھی) وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لَوٹتے ہیں۔ اور اللہ سے بخشش مانگو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔
عرفات میں ہمہ وقت کھڑے ہوکر دعائیں کی جاتی ہیں۔ یہاں جبل رحمت ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃالوداع ارشاد فرمایا تھا۔ اس روز جمعہ بھی تھا اور وقوف عرفہ کا دن بھی تھا۔ اس سال بھی حج اکبر تھا۔ یہاں سے ہم نے سورج کے غروب ہوتے ہی مزدلفہ کا رخ کیا۔ اس کے بعد شام کی دونوں نمازیں مغرب و عشاء مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہیں۔رات یہاں قیام کیا جاتا ہے اور کنکریاں چنی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے یہ رات بہت سخت تھی۔ کوئی خیمے یہاں نہیں ہوتے۔ سخت سردی تھی۔ بس ایک مصلّٰی بچھا کر تمام رات نماز پڑھتا رہا۔ صبح کے وقت فجر کے بعد مشعرالحرام پر دعا کی اور ذکر الٰہی کرتا رہا اور روشنی ہونے پر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانگی کی۔ اور منیٰ سے جاکر جمرۂ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں۔
جب میں مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جارہا تھا اور پیدل ہی چل پڑا تھا تو میں نے ایک زور دار غیبی آواز سنی: ’’السلا م علیکم‘‘ اور روشنی دیکھی۔میرا حج قبول ہوگیاتھا۔ الحمد للہ علی ذلک۔ ثم الحمد للہ
جمرۃ العقبہ پرکنکریاں مارنے کے ساتھ ہی حاجی کے لیے وہ سب باتیں جو منع ہوتی ہیں، کرنی جائز ہو جاتی ہیں اور تلبیہ کہنا بھی ختم ہوجاتا ہے۔ قربانی کی جاتی ہے اور بال کٹائے جاتے ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ کیا۔ الحمد للہ
پھر مکہ میں آکر خانہ کعبہ کا طواف افاضہ کیا گیا۔ ابھی تو سعودی حکومت نے پہاڑوں میں ٹنل بنادی ہیں جس سے فاصلے کم ہو گئے ہیں۔ جمار سے مکہ یعنی خانہ کعبہ کوئی پندرہ سولہ کلومیٹر رہ گیا ہے۔ چنانچہ طواف افاضہ کرنے کے بعد پھر منیٰ میں آئے اور آنا جانا تیس پینتیس کلومیٹر بن گیا۔ وہاں پر حج کے دوران بند جوتے نہیں پہنے جاتے بلکہ چپل کھلی ربڑ کی ہی پہنی جاتی ہیں اور جراب بھی نہیں پہنی جاتی۔ چنانچہ پیروں میں چھالے پڑ جانا عام بات ہے۔
طواف افاضہ حج کا لازمی رکن ہے۔ طواف افاضہ کے بعد پھر منیٰ میں قیام کے لیے گیا اور دونوں روز جمار پر جاکر کنکریاں مارتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلآَ اِثْمَ عَلَیْہِج وَمَنْ تَاخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰیط وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَo (البقرہ:204)
ترجمہ: اور اللہ کو (بہت) یاد کرو اِن گنتی کے چند دنوں میں۔ پس جو بھی دو دنوں میں جلد فارغ ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے تو اس پر (بھی) کوئی گناہ نہیں (یعنی) اس کے لئے جو تقویٰ اختیار کرے ۔ اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔
پہلے روز ایک جمرۂِ عقبہ کو سات کنکریاں ماری تھیں۔ پھر جمرہ اولیٰ اور دو جمار کو سات سات کنکریاں مار ی گئیں۔ تیسرے دن تینوں جمار کو سات سات کنکریاں پھر ماری گئیں۔ کُل 24کنکریاں ماری جاتی ہیں اور یہ ذوالحجہ کی 11؍تاریخ تھی اور دسمبرکی 31؍تاریخ تھی۔ اس روز خانہ کعبہ میں آکر طواف کیاجاتا ہے جو طواف الوداع کہلاتا ہے۔ اس کے بعد مجھے مزید پانچ دن خانہ کعبہ میں عبادت کے لیے مل گئے۔ الحمد للہ
6؍جنوری یعنی 7؍ذوالحجہ کے روز بعد فجر رؤیا میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو دیکھا کہ خضاب لگایا ہوا ہے اور خوب جوان ہیں اور نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ نیز مکرم نورمحمد صاحب نسیم سیفی مرحوم مبلغ سلسلہ کو بھی دیکھا کہ تشریف لائے ہیں اور بہت خوش ہیں اور عاجز سے معانقہ کر رہے ہیں۔
یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس لکھتا ہوں جس میں آپ نے حج بیت اللہ کی تشریح فرمائی ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ سالک کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ وہ انقطاعِ نفس کرکے تعشق باللہ اور محبت الٰہی میں غرق ہو جاوے۔ عاشق اورمُحِبّ جو سچا ہوتا ہے وہ اپنی جان اور دل قربان کردیتا ہے اور بیت اللہ کا طواف اس قربانی کے واسطے ایک ظاہری نشان ہے جیسا کہ ایک بیت اللہ نیچے زمین پر ہے ایسا ہی ایک آسمان پر بھی ہے۔ جب تک آدمی اس کا طواف نہ کرے اس کا طواف بھی نہیں ہوتا۔ اس کا طواف کرنے والا تو تمام کپڑے اتار کر ایک کپڑا بدن پر رکھ لیتا ہے لیکن اس کا طواف کرنے والا بالکل نزع ثیاب کرکے خدا کے واسطے ننگا ہوجاتا ہے۔ طواف عشاقِ الٰہی کی ایک ظاہری نشانی ہے۔ عاشق اس کے گرد گھومتے ہیں گویا ان کی اپنی مرضی باقی نہیں رہی۔ وہ اس کے گردا گرد قربان ہو رہے ہیں۔‘‘
(تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۰۔۲۱)
زیارتِ مدینہ منورّہ
17؍ذوالحجہ 6؍جنوری کو مکہ معظمہ سے رخصت ہوکر مدینہ منورّہ کے لیے روانہ ہوا۔ تمام رات سفر کرتا رہا۔وہاں جاکر ایک کمرہ ایک سرائے میں کرایہ پر لیا جو مسجد نبوی کے قریب تھا۔ یہ اس لیے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت آقائے دو جہاںﷺ کے دوارے گنبد خضرا کے سائے تلے گزار سکوں۔
مکہ اور مدینہ میں ظاہری طور پر یہ فرق محسوس ہوا کہ مکہ چٹیل ہے اور مدینہ سرسبز اور یہاں ہر طرف کھجوروں کے جھنڈکے جھنڈ دیکھنے کو ملتے ہیں۔مکہ سے نکلتے وقت وہ جگہ بھی دیکھی جہاں اصحاب ِ فیل کا واقعہ ہوا تھا۔ مدینہ پہنچا تو قرب آقائے دوجہاںﷺ کا بہت احساس تھا ۔اور یہ کیوں نہ ہوتا!
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
8؍جنوری 2006ء کی صبح کو فجر کے لیے مسجد نبویؐ میں پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی پرانی مسجد میں عبادت کاموقع پایا جسے قطعۃ من الجنۃ فرمایا گیا ہے۔جب زیارت آرام گاہ نبویؐ کے کھلنے کا وقت ہوا تووہاں جاکر اپنی باری کا بڑی ہی بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ باب سلام سے داخل ہوکر اندر آیا مگر منتظمین زیادہ دیر ٹھہرنے نہ دیتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ پیچھے لوگوں میں کھڑے ہوکر سلام عرض کیا اور دعائیں کیں اور ایک جگہ تلاش کی جہاں صرف درمیان میں ایک دیوار حائل تھی۔ چنانچہ تصوّر کیا کہ جیسے کہ وہ درمیان میں نہیں ہے اور لمبی دعائیں کیں، درود سلام بھیجتا رہااور یہ کہتا رہا کہ
انتَ خیرکل مُقَرَّبٍ متقدمٍ والفضل بالخیراتِ لا بزمانٖ
اور پھر قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھتا رہا جس کے چند اشعار کا ترجمہ یوں ہے:
’’اے اللہ کے فیضان اور عرفان کے چشمے، اے خدائے منعم و منان کے فضل کے سمندر۔
اے حسن وا حسان کی مملکت کے سورج
اے کہ تو اپنے نور میں آفتاب و ماہتاب کی مانند ہے۔
اے کہ جس نے شب و روز روشن کردیے ہیں
اے ہمارے کامل چاند! اے خدائے رحمن کے نشان
اے ہادیوں میں سب سے بڑے ہادی
بہادروں میں سب سے بڑے بہادر
کیا جوان ہے، کیا حسن ہے، کیا جمال ہے
تیر ے چہرے میں خدا کا چہرا نظر آتا ہے
اس کے تمام احوال حسن رُخ یار کے آئینہ دار ہیں
خوش خلق، کریم النفس، متقیوں کا دوست فیاض سخاوت شعار
جو اپنے اخلاقِ حمیدہ میں سب جوانوں سے بڑھ کر ہے
مجھے آپ نے ہی زندگی بخشی ہے اور یہ کتنا عمدہ اعجاز ہے
اے میرے ربّ! اپنے نبی پر دائمی برکات نازل فرما
اس دنیا میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی
اے میرے آقا میں تو تیرے در پر ایک فریادی بن کر آیا ہوں
مجھ پر رحم اور شفقت کی نظر فرما
اے میرے آقا! میں تیرا ایک حقیرغلام ہوں
اے میرے پیارے! تیری محبت میری روح میں داخل ہوگئی ہے
وہ میری جان اور میرے دل میں رچ بس گئی ہے
اے میری خوشیوں کے بستان سرا
میں تو کسی لحظہ اور کسی لمحہ بھی تیری یاد سے غافل نہیں ہوں
میری روح تو تیرے آستانہ پر ہے اور میرا جسم وفورِ محبت میں تیری ہی طرف مائلِ پرواز رہتا ہے۔ کاش مجھ میں اس قدر قوتِ پرواز ہوتی۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم، خلفائے رسول بھی مدفون ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کی۔ اسی روز دعا کی غرض سے جنۃالبقیع گیا۔ یہ وہ قبرستان ہے جس میں دس ہزار سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مدفون ہیں۔ یہ سب وہ بزرگ ہیں جنہوں نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی پائی اور اس طرح سے ایک اَور نظارہ دنیا نے نسلِ ابراہیمی میں احیائے موتیٰ کا دیکھا۔ یہاں پر ناموں کے کتبے نہیں ہیں صرف پتھر سرہانے کی طرف رکھا ہوا ہے اور دُور تک پتھروں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ چاروں طرف دیوار بنی ہوئی ہے اور بالائی حصہ میں سلاخیں لگی ہیں اور باہر سے کسی طرف سے بھی کھڑے ہوکر دعا کی جاسکتی ہے۔ شام کو ساڑھے چار بجے دروازے کھولے جاتے ہیں اور نگران بعض مقابر کا تعارف کراتے ہیں۔چنانچہ حضرت فاطمہؓ جگر گوشۂ رسول ؐ،حضرت عثمان غنی ؓخلیفۃ الرسولؐ اور حضرت امام حسن ؓ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم او ر صحابہ عشرہ مبشرہ کے مقابر شروع میں ہیں جہاں کثرت سے حاجی دعائیں کررہے ہوتے ہیں۔وہاں پر پھر کر مختلف علاقوں میں کھڑے ہوکر سب کے لیے دعائیں بلندی ٔ درجات کے لیے کیں اور انہیں سلام مسنون کرنے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ علی ذلک
فجر کے بعد جب مسجد نبوی سے باہر آئیں تو باہر ویگنوں کی قطاریں بنی ہوتی ہیں اور وہ پھر کر تمام مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کروا دیتے ہیں۔9؍جنوری کو میں پہلے جنگِ اُحد کے مقام پر گیا۔ اُحد کا پہاڑ بہت بڑا پہاڑ ہے۔ وہ درّہ دیکھا جہاں صحابہؓ کو متعین کیا گیا تھا۔ تمام جنگ کا میدان دیکھا۔ وہاں شروع میں ایک مسجد ابوبکر بنی ہوئی ہے۔ وہاں نوافل ادا کیے۔ ایک جگہ جہاں شہدائے احد کو اکٹھے دفن کیا گیا تھا اس کے ارد گرد چار دیواری بنادی گئی ہے اور اوپر کا حصہ لوہے کی سلاخوں سے بند کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہاں جونگران تھے انہوں نے بتایا کہ سامنے جو مقابر ہیں جن پر پتھر لگے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ اور حضرت مصعب بن عمیر ؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے اور حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے مقابر ہیں۔ وہاں پر کھڑے ہوکر لمبی دعا کرنے کا موقع ملا۔
اس کے بعد مسجد قبلتین دیکھنے گئے۔ یہ وہ مسجد ہے جس جگہ پر وحی قبلہ تبدیل کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی اور آپ نے نماز کے دوران ہی قبلہ تبدیل کرلیا تھا۔ یہاں پر بھی نوافل ادا کیے اور دعائیں کیں۔ پھر مسجد قبا دیکھنے گئے جہاں کے دو نوافل کا بے شمار ثواب بتایا جاتا ہے۔ یہ پہلی مسجد تھی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّل اوّل نمازیں ادا فرمائی تھیں۔ یہاں بھی نوافل ادا کیے۔ اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اور جنگ خندق کے مقام پر پہنچے جہاں سبع مساجد بنی ہوئی ہیں یعنی مسجد فتح،مسجد سلمان فارسی ؓ، مسجد ابوبکرؓ، مسجد عمرؓ، مسجد علیؓ اور مسجد فاطمہ ؓ۔ یہ چھوٹی چھوٹی مساجد ہیں۔ جنگ خندق کے وقت جہاں جہاں صحابہ آن ڈیوٹی ہوتے تھے اور وہاں نمازیں ادا کرتے تھے،ان کی یاد میں یہ مساجد بنی ہوئی ہیں۔
10؍جنوری کا تمام دن سفر کی تیاری میں گزرا۔ انتظامات کے ساتھ حج کے دوران میری چند حاجیوں سے کافی واقفیت ہوگئی تھی۔ ایک چکوال کے تھے، ایک راولپنڈی کے تھے اور یہ مدینہ میں رہتے تھے۔ ان سے ملاقات کی اور رات کو جدّہ کے لیے بذریعہ بس روانہ ہوئے اوروہاں سے 11؍جنوری کو صبح آٹھ بجے بذریعہ ہوائی جہاز لنڈن کے لیے مائل پرواز ہوا۔
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته جزاك الله خيرا مضمون اپ ,نے بہت عمدہ شاءیع فرماا ھے,اللہ اپکو حنات دارین عطا فرماے,امین.