مطالعہ کتب کی اہمیت

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مارچ و اپریل 2022ء)

راجہ برہان احمد صاحب

بانی مجلس انصار اللہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے، جوانی عمل کا زمانہ ہوتا ہے اور بڑھاپا عقل کا زمانہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوں کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ اس کا بڑھاپا اسے قوت عمل، اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا۔ اس کی جوانی اس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کر دیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرا بھی بولنے کے قابل ہوتا ہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کر دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لیے ہے اور اس میں علم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجودہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میں لگا رہتا ہے۔ اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کو علم کی تحصیل سے مستغنی نہیں سمجھتا۔ اس کی موٹی مثال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں ملتی ہے، آپ کو پچپن، چھپّن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہاماً فرماتا ہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ ہوتاہے۔ اس لیے بڑی عمر میں جہاں دوسرے لوگ بیکار ہو جاتے ہیں اور زائد علوم اور معارف حاصل کرنے کی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے، تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ ہمیشہ خداتعالیٰ سے دعا کرتا رہ کہ خدا یا! میرا علم اور بڑھا، میرا علم اور بڑھا۔ پس مومن اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہیں ہوتا، بلکہ اس میں وہ ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہے۔ اس کے مقابل میں جب انسان پر ایسادور آ جاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے میں نے جوکچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے۔ اگر میں کسی امر کے متعلق سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے، اسے ابھی تک فلاں بات کا بھی پتہ نہیں تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی عمر کے آدمی تھے مگرپھر بھی کہتے ہیں رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَو تٰی۔ … جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم! توُ تو پچاس ساٹھ سال کا ہو چکا ہے اور اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے، بلکہ اس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں۔ پس ہر عمر میں علم سیکھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ الٰہی! میرا علم بڑھا۔ کیونکہ جب تک انسانی قلب میں علوم حاصل کرنے کی ہر وقت پیاس نہ ہو اس وقت تک وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد نمبر ۵ صفحہ۴۶۹، ۴۷۰)
قرآنی وحی کا آغاز جن الفاظ سے ہوا وہ پڑھنے کی اہمیت کو ہمیشہ کے لیے واضح اور اہم قرار دیتے ہیں۔فرمایا: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (العلق:2)پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اِقْرَاْ کے معنی عربی زبان میں دو ہیں۔ایک لکھی ہوئی تحریر کا پڑھنا۔… اِقْرَاْ کے تفسیر ی معنی ہیں کتاب پڑھ کے علم کو حاصل کرو اور سب سے بہتر کتاب اور سب سے مفید کتاب، سب سے زیادہ ترقیات کی طرف لے جانے والی کتاب قرآن کریم ہے۔‘‘ (تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ صفحہ 642)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اُطْلبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ یعنی چھوٹی عمر سے لے کے، بچپنے سے لے کے آخری عمر تک جب تک قبر میں پہنچ جائے انسان علم حاصل کرتا رہے۔ تو یہ اہمیت ہے اسلام میں علم کی۔ پھر اس کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم یا دعا پر سب سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔… یہ دعا سکھائی کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ بہرحال ہر انسان کی استعداد کے مطابق علم سیکھنے کا دائرہ ہے اور اس دعا کی قبولیت کا دائرہ ہے۔ (خطبہ جمعہ 18؍ جون 2004ء)
میڈیکل سائنس کی رو سے فوائد
• مطالعہ کرنے کی عادت سے آپ کی یادداشت اورفوکس یعنی ایک جگہ زیادہ توجہ کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔
• مطالعہ کرنے کی عادت آپ کے خیالات اور تخیل کو بہتر بناتی ہے۔
• کتاب کا مطالعہ آ پ کے علم اور دانائی میں نمایاں اضافہ کرتا ہے۔
• آج کل کی عام بیماری یا پریشانی Stress پر قابو پانے کا ایک آزمودہ نسخہ عمدہ کتب کا مطالعہ کرنا ہے۔
• مطالعہ آ پ کے دماغ کو توانا رکھتا ہے گویا یہ دماغ کی ورزش ہے جو اس کی صحت کے لیے بہت کار آمد ہے۔
• عمدہ مطالعہ کی عادت انسان کو زیادہ ہمدرد اور اخلاقی طور پر بہتر انسان بناتی ہے۔
• مطالعہ کرنے سے آپ کے ذخیرۂ الفاظ یعنی Vocabulary میں اضافہ ہوتا ہے۔
• مطالعہ میں اپنے آپ کو باقاعدہ مصروف رکھنے والے خاص طور پر بڑی عمر کے افراد اپنے علمی کام زیادہ عرصہ تک کرتے رہتے ہیں اور مختلف ذہنی بیماریوں سے قدرتی طورپر محفوظ رہتے ہیں۔
• مختلف طبی ماہرین کے مطابق سونے سے پہلے باقاعدہ چھپی کتاب کا مطالعہ پر سکون نیند میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔
• ایک تحقیق کے مطابق مطالعہ کرنے والے افراد لمبی عمر پاتے ہیں۔
مطالعہ کے بے شمار فوائد میڈیکل سائنس کے نزدیک بھی مسلمہ ہیں لیکن یہاں ایک اہم امر کا ذکر کرنا از حد ضروری ہے کہ کن کتب کا مطالعہ کرناچاہیے ؟
یہاں پر مجھے ایک انگریز فلاسفر کا مطالعہ کتب کے بارے میں مشہور فقرہ یاد آتا ہے جس میں Sir Francis Bacon کہتے ہیں
”Some books are to be tasted, others to be swallowed, and some few to be chewed and digested,”
یعنی کچھ کتابیں صرف چکھنے کے لیے ہوتی ہیں،دیگرنگلنے کے لیے ہوتی ہیں اور چند کتب ایسی ہوتی ہیں جو اچھی طرح چبا کر ہضم کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
موصوف کے اس فقرہ پر بے شمار مضامین لکھے گئے ہیں اور ہر کوئی اپنے ذوق و شوق کے مطابق اس کی تشریحات کرتا ہے مگر ان وضاحتوں سے ہٹ کر ہمیں یہ معلوم ہو تا ہے کہ واقعی ہمارے سامنے ایسی کتب موجود ہیں جن میں سے ایک تو باقاعدہ زبانی حفظ کرنے کے لیے ہے یعنی قرآن کریم۔ دوسری بار بار غور سے مطالعہ کرنے والی اور ان کے بھی فقرات در فقرات یاد رکھنے کے لائق ہیں جن میں کتبِ احادیث اورکتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ جبکہ خلفاء کرام کی کتب دراصل قرآن و حدیث اور کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی مزین نظر آتی ہیں۔اس کے علاوہ دیگر علوم کی کتب بھی بلا شبہ پڑھنے کے لیے ضروری ہیں اور ان میں جہاں کہیں حکمت کی باتیں ملیں مومن کی گمشدہ میراث کی طرح ضرور اخذ کرنی چاہئیں۔

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مَیں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔ بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے۔ قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا۔ طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ438)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ ’’ایک دوست جو غالباً یونان کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک احمدی دوست نے انہیں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھنے کو دی جس کو پڑھنے کے بعد اسلام کی مکمل تصویر اور تعلیم جو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے تھی وہ میرے سامنے آگئی۔ اور بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ آج آپ سے ملاقات کے بعدمیں نے احمدی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ بیعت فارم ابھی بھرنا ہے یا بعد میں؟ تو انہوں نے فورًا جواب دیا کہ ابھی اور اسی وقت میری بیعت لیں۔‘‘ (خطباتِ مسرور جلد ششم صفحہ 350)
فلسطین کی ہماری ایک خاتون ہیں وہ کہتی ہیں ’’جماعت سے میرا تعارف میرے دیور کے ذریعہ ہوا جو نہ صرف جماعت کے بارے میں میرے ساتھ اکثر بات چیت کرتے تھے بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب اور لٹریچر بھی بھیجتے رہتے تھے۔ اُن کتب میں مجھے بے مثل اور انمول موتی ملے۔ایسے معارف کا مطالعہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ایسی بلاغت اور اعجاز سے بھر پور عربی کلام جس میں علم و معرفت کے ہیرے رکھ دیے گئے ہوں میرے لیے بالکل نیا تھا۔ ایسے جواہر پاروں کے مطالعہ سے ہی قاری کا خدا سے تعلق قائم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور مکمل اطمینا ن ہونے کے بعد میں نے بیعت کرلی۔
(خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 94-95)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:
’’اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18ص403)
الجزائر سے حجاز صاحب کہتے ہیں ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ راہ ِ راست کی طرف رہنمائی فرمائے۔جیسے جیسے پڑھتا گیا سینہ کھلتا گیا اور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی اور یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ الٰہی وحی ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد 12صفحہ 95)
عباس صاحب اٹلی سے کہتے ہیں ’’ایک دن میں الحوار دیکھ رہا تھا کہ اس میں وقفے کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عربی قصیدہ آگیا۔

عِلمی من الرحمٰن ذی الآلاء
باللّٰہ حُزْتُ الفضلَ لا بِدَہَاء

میں یہ قصیدہ سننے کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو بھی دیکھتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک بے اختیاری کے عالم میں میرے منہ سے بلند آواز میں یہ کلمات نکلے کہ خدا کی قسم! یہ بات کوئی جھوٹا ہر گز نہیں کہہ سکتا۔ یہ شخص لازمی خدا کا فرستادہ ہے۔ ایسا کلام خداتعالیٰ اور اُس کے رسول کی بے حرمتی کرنے والا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 12صفحہ 94-96)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اس سے ان کو پاک صاف کروں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 60)
مراکش کے خالد صاحب کہتے ہیں ’’سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘کا عربی ترجمہ تھا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا۔۔۔اس کے بعد ’’التبلیغ‘‘ پڑھی اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا۔ …اکثر میری زبان پر یہ فقرہ آتا تھا کہ مجھے خزانہ مل گیا ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 12صفحہ 96)
’’قرغیزستان سے سلامت صاحب ہیں انہیں اسلام احمدیت کا تعارف کروایا گیا اور کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ دی گئی تو کہنے لگے کہ مذہب کے بارے میں میرے جتنے بھی سوالات تھے مجھے ان کے جوابات مل گئے اور مجھے تسلی ہوگئی کہ واقعی اسلام حقیقی اور سچا مذہب ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 12صفحہ 553-554)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ361)
اگر ہم آج تبلیغ کے میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دعا کے بعد سب سے اہم ہتھیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں، جن کو پڑھ کر انسان تمام حقائق و معارف کو پالیتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں کی خریداری کم ہوگئی ہے۔ ان میں جو درد ہے وہ اَوروں میں ملنا مشکل ہے۔‘‘
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کیونکہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور پڑھ……
جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتاہے۔‘‘ (ملائکۃ اللہ صفحہ108)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
’’بوبوجلاسو بورکینا فاسو کے ایک شخص نے بتایا کہ 1961ء سے میرے پاس لٹریچر تھا۔اس رمضان میں ریڈیو اسلامک احمدیہ پر قرآنِ کریم کی تفسیر سنی تو میرے دل نے کہا کہ اس جماعت میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ چنانچہ سالوں کے رکھے لٹریچر کو کھولا اور پڑھنا شروع کیا اور جماعت کی صداقت مجھ پر واضح ہوگئی۔اب مجھے خداتعالیٰ نے پچاس سال بعد توفیق دی کہ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہوا ہوں اور یہ ان کتابوں کو گھر میں رکھنے کی برکت تھی کہ خدا نے مجھے جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی۔ ‘‘
(جلسہ سالانہ یوکے 2012ء کے دوسرے دن کا خطاب۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16اگست 2013ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’ہر گھرانہ میں کتب حضرت مسیح موعود موجود ہوں اور زیر مطالعہ ہوں اور انہیں بچوں کو پڑھانے کا انتظام ہو۔‘‘ (الفضل 29؍اکتوبر1977ء)
اسی سلسلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم میں غوطہ خوری کے بعد علوم و معرفت کے بے بہاموتیوں کو نکالا اور ہمارے سامنے پیش کیا۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ، 6مارچ 1999ء)
الغرض

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر ملے کوئی امیدوار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہ کتب ضرور پڑھنی چاہئیں۔ اور انہی کتب سے آپ کو دلائل میسر آجاتے ہیں لوگوں کے اعتراضوں کے جواب دینے کے اور یہی آج کل طریقہ ہے آپ کی مجلسوں سے فیضیاب ہونے کا، آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا۔ پہلے بھی میں کہتا رہا ہوں کہ آپؑ کی کتب پڑھنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ اور اس سے ہمیں مخالفین کے اعتراضوں کے جواب بھی ملیں گے اور قرآن کریم کے علوم کی بھی معرفت ہمیں حاصل ہوگی۔ … آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔… او ر دعا کہ اے میرے اللہ! اے میرے رب! میرے علم کو بڑھا، بہت ضروری ہے۔ …
سب سے پہلے تو قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لیے، دینی علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بے بہا خزانے مہیا فرمائے ہیں ان کو دیکھنا ہو گا۔… جماعت کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا شوق نوجوانوں میں بھی اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔ بلکہ جو تحقیق کرنے والے ہیں، بہت سارے طالب علم مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے دنیاوی علم کو اس دینی علم اور قرآن کریم کے علم کے ساتھ ملائیں گے تو نئے راستے بھی متعین ہوں گے… حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھیں۔ اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائیں کہ اب ہمیں کس طرح علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اب ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ … عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہو گی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچاسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کا علم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ 18؍ جون 2004ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں