نظام وصیت کی اہمیت

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مارچ و اپریل 2022ء)

(فضل الرحمٰن ناصر قائد تربیت مجلس انصاراللہ برطانیہ)

ایک زمانہ تھا جب کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کواپنی ایک کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تکمیل کے لیے باربار لوگوں کو تحریک کرناپڑتی۔پھربھی مسلمانوں میں سے بہت کم ایسے تھے جنہوں نے بہت معمولی رقوم تائیداسلام میں لکھی جانے والی اس کتاب کے لیے پیش کیں مگرآپ سے اللہ تعالیٰ نے مدد اور نصرت کے جووعدے کررکھے تھے ان کی وجہ سے آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ
’’ہم کو اپنے خدائے قادر ومطلق اور اپنے مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ بھروسا ہے کہ جو مُمسک اورخسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسا ہوتاہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے۔ سو وہی قادرتوانا اپنے دین اوراپنی وحدانیت اور اپنے بندہ کی حمایت کے لیے آپ مدد کرے گا۔‘‘
(اشتہار ’’عرض ضروری بحالت مجبوری‘‘ مشمولہ براہین احمدیہ حصہ دوم)
اورپھراللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی نیک اورصالح اورجانی ومالی قربانیاں کرنے والی جماعت عطافرمائی کہ آپ نے فرمایا:
’’مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیرالدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سوروپیہ دے گیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا۔ مگر للّٰہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11۔ صفحہ 313اور314 حاشیہ)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے صدق اوراخلاص سے پُر ہزاروں لاکھوں مخلصین آپ کی زندگی میں عطافرمائے جن کے سامنے آپ نے اپنی وفات کے قریب اللہ تعالیٰ سے خبرپاکر الوصیت کے نام سے ایک ایسی عظیم الشان تحریک جاری کی جو قیامت تک کے لیے جماعت احمدیہ کی روحانی اصلاح کے سامان بھی مہیا کرتی چلی جارہی ہے اور اس کے ذریعے تمام دنیا میں تبلیغ اسلام کی ضروریات بھی پوری ہورہی ہیں اور بے شمار غریبوں اورمحتاجوں اور بےسہارا لوگوں کی ضروریات بھی پوری ہوتی چلی جارہی ہیں۔
الوصیت کے نام سے شائع ہونے والی اس کتاب میں آپ نے افراد جماعت کو اپنی وفات کے قریب ہونے کے بارہ میں ہونے والے الہامات سے آگاہ کرتے ہوئے تسلی دی کہ اس خبر سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس نے آپؑ کو جماعت کے لیے عظیم الشان بشارتیں عطا فرمائی ہیں۔
ان میں ایک خدائی بشارت جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کی شکل میں جاری وساری فیضان کاوہ چشمہ ہے جو تمام بنی نوع انسانی کے لیے رحمت وبرکت کے سامان مہیاکررہاہے۔ اور دوسری بشارت نظام وصیت کی شکل میں خداکے قرب کی جنتوں کے حصول کاذریعہ بن رہی ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے الوصیت میں تحریرفرمایاکہ
’’ایک جگہ مجھے دکھائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا۔‘‘
نیز فرمایاکہ ’’ظا ہر کیا گیا ہے کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں۔‘‘
اورپھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین بار بڑے درد کے ساتھ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والوں کے لیے دعا کی ۔پہلی بار دعا کے الفاظ یہ ہیں:
’’میں دعا کرتاہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے۔اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پرمقدم کرلیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لیے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘
پھر آپ نے دوسری بار یوں دعاکی کہ
’’میں پھر دعا کرتاہوں کہ اے میرے قادر خدا! اس زمین کومیری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لیے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘
اور پھر تیسری بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں دعا کی کہ
’’پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور ورحیم! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں۔ اور تیرے لیے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کرچکے ہیں۔ جن سے تُو راضی ہے اور جن کو تُو جانتا ہے کہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ آمین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘
تینوں بار دعا کے آخر پر ’’ آمین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘ کے الفاظ بڑے اہتمام سے درج ہیں۔ کیاہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی مسیح ومہدی علیہ السلام کی نہ صرف یہ دعائیں کی ہیں بلکہ ان دعاؤں کی قبولیت کے لیے آمین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن کے الفاظ بھی آپ کے دل سے نکلے اور آپ نے اپنی ان دعاؤں کے ساتھ از خود تحریرفرمائے۔
پھر آپ نے بہشتی مقبرہ کے بارہ میں فرمایا:
’’اس قبرستان کے لیے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدانے یہ فرمایا ہے کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں۔‘‘
اس مقدس قبرستان ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں تدفین کے لیے تین بنیادی شرائط مقرر فرمائیں:
1۔ شرط اوّل کے طور پر کچھ مالی ادائیگی جو گویا اس قربانی کا پہلا زینہ ہے۔
2۔ ترکہ کے دسویں حصہ کی ادائیگی کی وصیت جو اس قربانی کا ایک امتیازی زینہ ہے۔
3۔ تیسری شرط یہ بیان فرمائی کہ دفن ہونے والا متقی ہواور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتاہو۔ سچا اور صاف مسلمان ہو۔یہ شرط سب سے اہم اور موصی کی ساری زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔
نظام وصیت کے بارہ میں فرمایا:
’’یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دُور از قیاس باتیں ہیں۔ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔‘‘
’’اس وصیت کے لکھنے میں جس کا ما ل دائمی مدد دینے والا ہوگا اس کا دائمی ثواب ہوگا اورخیرات جاریہ کے حکم میں ہوگا۔‘‘
نظام وصیت کے نتیجہ میں قائم ہونے والے بہشتی مقبرہ کے بارہ میں فرمایا:
’’خداتعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں۔تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں۔اور تا اُن کے کارنامے یعنی جو خدا کے لیے انہوں نے دینی کام کیے ہمیشہ کے لیے قوم پر ظاہر ہوں۔‘‘
ایک بارپھر آپ نے خداکے حضوریوں دعاکی کہ
’’بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس کام میں ہر ایک مخلص کومدد دے اور ایمانی جوش ان میں پیدا کرے اور ان کا خاتمہ بالخیرکرے۔ آمین۔‘‘
نیز فرمایا کہ
’’کوئی نادان اس قبرستان اور اس کے انتظام کو بدعت میں داخل نہ سمجھے کیونکہ یہ انتظام حسبِ وحیٔ الٰہی ہے اور انسان کا اس میں دخل نہیں۔‘‘
فرمایا:
’’کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کردے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا۔‘‘
شرائط تدفین کے بارہ میں فرمایا:
’’ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کے لیے ممکن ہے پابندِ احکامِ اسلام ہو۔ اور تقویٰ اور طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو۔ اور مسلمان، خدا کو ایک جاننے والا اور اس کے رسول پر سچّا ایمان لانے والا ہو۔ اورنیز حقوقِ عباد غصب کرنے والا نہ ہو۔‘‘
نظام وصیت کے ذریعہ جمع ہونے والے اموال کے مصرف کے بارے فرمایا:
’’انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہوگا اس کو اختیار نہیں ہوگا کہ بجز اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اَور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے۔ اور ان اغراض میں سے سب سے مقدّم اشاعتِ اسلام ہوگی۔‘‘
اس سارے نظام وصیت سے خداتعالیٰ کیا چاہتا ہے؟ فرمایا :
’’اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الٰہی انتظام پر اطلاع پاکر بلاتوقّف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصّہ کُل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں۔‘‘
فرمایا:
’’وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتاہے کہ خبیث اور طیّب میں فرق کرکے دکھلاوے اس لیے اب بھی اس نے ایسا ہی کیا۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بابرکت نظام وصیت میں احباب جماعت کو شامل ہونے کی تاکید کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :
’’ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ اِس وقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدّم کیا ہے، دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے اور ثابت ہو جائے گا کہ بیعت کا اقرار انہوں نے پورا کرکے دکھلادیا اور اپنا صدق ظاہر کر دیا۔ بے شک یہ انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اِس سے اُن کی پردہ دَری ہوگی۔‘‘
اور وہ مخلص جو امام الزمان کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نظام وصیت میں شامل ہوجائیں گے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوانعامات ملیں گے ان کاذکرکرتے ہوئے فرمایا:
’’اس کام میں سبقت دکھلانے والے راستبازوں میں شمار کیے جائیں گے اور ابد تک خداتعالیٰ کی ان پر رحمتیں ہوں گی۔‘‘
فرمایا کہ ایسے لوگ حقیقی طورپر تارک الدنیا ہوں گے جو
’’یہ ثابت کردیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی۔ خدا کے نزدیک مومن وہی ہیں اور اس کے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے۔‘‘
اس نظام میں شمولیت کی برکات کا بہت ہی مختصر الفاظ میں ذکرکرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نظام کاحصہ بنوگے تو ’’بہشتی زندگی پاؤ گے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر ممکن طورپر نظام وصیت کی برکت اور اہمیت واضح کرنے کے ساتھ اس میں شمولیت کی تاکید فرمائی اور کتا ب کا آخری فقرہ یوں تحریرفرمایا:
’’بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کر کے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کیے جائیں گے۔ تب آخری وقت میں کہیں گے ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ (یٰٓسین:53) وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔‘‘
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو متعدد بار نظام وصیت میں شامل ہونے کی تحریک فرمائی۔ اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تولاکھوں احمدی اس بابرکت نظام میں شامل ہوچکے ہیں۔ لیکن جوابھی تک شامل نہیں ہوسکے ان کے بارے میں فرمایا:
’’بہت سارے لوگ لکھتے ہیں کہ ہم اس فکر میں تو ہیں کہ وصیت کرلیں لیکن اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے۔ یاد رکھیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود ؑکی جو دعائیں پڑھی ہیں یہ اس لیے پڑھ کر سنائی ہیں کہ جب نیک نیتی کے ساتھ اس نظام میں وابستہ ہوں گے تو حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی دعاؤں کے طفیل آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ ہوگی۔ پس آگے بڑھیں اور اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔ خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہیں اور ان حقوق کی ادائیگی کے معیار حاصل کرتے جائیں جن کی طرف تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑنے توجہ دلائی ہے۔‘‘
(فرمودہ 26؍دسمبر 2005ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
موصیان کو چندہ کا حساب رکھنے اور بروقت ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004ء میں حضور نے فرمایا:
’’خاص طور پر موصی صاحبان کے لیے میں یہاں کہتا ہوں ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہیے۔ اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کروائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے۔ کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ چندے کی ادائیگی میںمشکل پیش آتی ہے۔ پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کرسکیں۔ اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہوسکتیں۔ اس طرح خاص طور پرموصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تو اس لیے پہلے ہی چاہیے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور جب بھی آمد ہو اس آمد میں جو حصہ بھی ہے نکالیں، موصی صاحبان بھی اور دوسرے کمانے والے بھی جنہوں نے چندہ عام دینا ہے، … اپنا چندہ اپنی آمد میں سے ساتھ کے ساتھ اداکرتے رہا کریں۔‘‘
(روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اگست 2004ء)
ایک موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں اپنے انصار بھائیوں اور خاص طور پر صف دوم کے انصار کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص توجہ دیں۔ وہ انصار جو اپنے دلوں میں ایمان اور اخلاص تو رکھتے ہیں مگر وصیت کے بارہ میں سستی دکھلا رہے ہیں میری ان کو یہ نصیحت ہے کہ وہ اشاعت اسلام کی خاطر اور اپنے نفوس میں نیک اور پاک تبدیلیوں کے لیے وصیت کی طرف جلدی بڑھیں۔ زندگی بہت مختصر ہے اور نہیں معلوم کہ کس وقت خداتعالیٰ کی طرف سے بلاوا آجائے۔ بعض بڑے مخلصین بغیر وصیت کے نظام میں شامل ہوئے۔ وفات پاجاتے ہیں اور پھر حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ مقبرہ موصیان میں دفن کیے جاتے۔ ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے قربانی کرنے والے ہیں کہ وہ اپنے اموال کے دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں اورمالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر وصیت کرنے میں سستی کرتے ہیں ایسے دوستوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ سستیاں ترک کریں اور اس نظام میں شامل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔…
انصار کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں کو بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لیے تیار کریں۔ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی دینی ماحول میں تربیت کریں۔ نمازوں کی عادت ڈالیں۔ مالی قربانی کاجذبہ ان کے دلوں میں پیدا کریں۔ آنحضرت ﷺ، حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اور نظام خلافت سے محبت اور اطاعت کا جذبہ ان میں اجاگر کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خداتعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے۔ اپنی نسلوں کو دنیا کے عذاب سے بچانے والے ہوں گے۔‘‘
رسالہ الوصیت میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کیے جاؤ۔ تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کررہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کی توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔‘‘ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309-308)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق اور سعادت عطافرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں