برکات خلافت (قبولیت دعا)
مکرم عبدالعزیز ڈوگر صاحب مرحوم کو چار خلفاء کی دعاؤں سے مستفید ہونے کی توفیق ملی۔ آپ کے قلم سے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ و اپریل 2012ء میں خلفائے کرام کی قبولیتِ دعا کے چند ذاتی مشاہدات شامل اشاعت ہیں۔
٭ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ کافی بیمار تھے تو سندھ میں جماعت کی زمینوں میں کپاس اور پھل کی فصل کا سودا وہاں کے ایک تاجر سے کیا گیا لیکن وہ ایک بڑی رقم لے کر فرار ہو گیا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل اعلیٰ) نے یہ سارا معاملہ حضورؓ کی خدمت میں عرض کرکے دعا کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا کہ یہ خاکسار راولپنڈی جاکر اس سلسلہ میں کسی سرکاری افسر سے ملے۔ چنانچہ مَیں اُسی روز راولپنڈی پہنچ گیا۔ صدر ایوب خان کا دور ِحکومت تھا اور سیکرٹری داخلہ جناب غیاث الدین تھے جو کہ 1953ء کے احمدیہ مخالف فسادات کے دوران پنجاب کے چیف سیکرٹری رہ چکے تھے۔ اس وجہ سے اندر سے مجھے بہت ڈر تھا لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی تھا کہ خلافت کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ چنانچہ خدا پر توکّل کرتے ہوئے مَیں سیکرٹریٹ میں جا کر اُن سے ملا اور تمام واقعات عرض کئے۔ اُنہوں نے اُسی وقت آئی جی لاہور سے فون پر کہا کہ وہ ہمارا مطلوبہ آدمی ڈھونڈیں۔ چنانچہ اگلے روز ایک وفد کی صورت میں ہم آئی جی لاہور کو ملنے گئے۔ اس وفد میں محترم حافظ عبدالسلام صاحب (وکیل المال)، محترم سید میر داؤد احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ) اور مکرم چوہدری ناصرالدین صاحب (نمائندہ وکالت زراعت) شامل تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دعائیں رنگ لائیں اور آئی جی صاحب کے تعاون سے کچھ ہی عرصہ بعد وہ تاجر گرفتار ہوا اور جماعت کاغبن شدہ روپیہ وصول ہوا۔
٭ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مجھے وقف سے فارغ کرتے ہوئے لاہور جا کر کام کرنے کا ارشاد فرمایا تو مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا کہ وہاں جا کر کیا کروں گا۔ چند بزرگوں نے جن میں مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب شامل تھے، مل کر مسجد مہدی ربوہ میں نماز کے بعد میری روانگی کے سلسلہ میں ایک لمبی دعا کروائی۔ دعا کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آواز آئی ہے کہ ’’چھاؤنی کی طرف خیال رکھو‘‘۔ اُس وقت تو مجھے اس بات کی سمجھ نہ آئی لیکن لاہور جاکر کچھ ہی عرصہ بعد مجھے لاہور چھاؤنی میں پاکستان ایئر فورس MESS میں کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔ مجھے اس کام کا نہ تو کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی میرے پاس ایسے ہنر مند افراد تھے اور نہ ہی مالی وسائل۔ انہی دنوں رمضان کا مہینہ بھی آ گیا اور مَیں واپس ربوہ آ گیا۔ جہاں مَیں نے ایک خواب میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو دیکھا۔ حضورؓ نے میرا بازو پکڑا اور فرمایا: ’’میاں غلام احمد، میاں غلام احمد، میاں غلام احمد! یہ لو‘ ‘۔ اور ایک لفافہ مجھے دیا جس میں کچھ روپے تھے اور مجھے اس میں ایک سو کا نوٹ بھی نظر آیا۔ لفافہ دیتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا: ’’پیسہ کمانا بہت مشکل ہے، آئندہ کمی نہیں آئے گی‘‘۔ اس خواب کے بعد دل کو بے حد تسّلی ہوئی کہ مَیں ’غلامِ احمد‘ ہی تو ہوں۔
عید کا وقت قریب تھا اور اس سال جب پہلی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ نے تمام کارکنان کو عیدی بھجوائی تو اس خاکسار کے لئے بھی ایک لفافہ میں عیدی کی رقم جو کہ 132 روپے تھے گھر پر بھجوائی گئی۔ انہی دنوں مَیں نے حضرت اماں جانؓ کو بھی خواب میں دیکھا۔ انہوں نے بڑی شفقت سے میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور چلی گئیں۔ اس خواب کے بعد میرا یقین اَور بڑھ گیا کہ اب میری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ چنانچہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے بھی عرض کیا کہ اب آپ میرے لئے نہ روئیں، آپ کی دعائیں سنی گئی ہیں۔
اس واقعہ کے چند ہی دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک تین ٹینڈر موصول ہوئے۔ میں نے لاہور میں ایک دوست کی مدد سے یہ تینوں ٹینڈر بھرکر جمع کروا دیئے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ یہ تینوں ٹینڈر ہی مجھے مل گئے اور یہ محض خداتعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکات ہی کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اس کام میں بے حد برکت ڈالی۔
٭ 1974ء میں احمدیوں کے خلاف ہنگاموں کے دوران مغل پورہ لاہور میں ہماری مسجد کو شرپسندوں نے آگ لگا دی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ خاکسار نے مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب امیر جماعت لاہور کو مل کر تمام حالات سے مطلع کیا اور دوبارہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے مسجد پہنچا تو وہاں لوگوں کا ایک جمِ غفیر موجود تھا اور کچھ پولیس کے آدمی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ مسجد پر قابض لوگوں میں سے چند افراد لاؤڈسپیکر کے ذریعہ لوگوں کو مزید مشتعل کررہے تھے۔ اس وقت وہاں پر ہمارے صدر جماعت اور بشیر احمد DSP لاہور کے دوران کچھ بات چیت بھی چل رہی تھی۔ میں بھی جا کر اُن میں شامل ہو گیا اور بات کرنے کی اجازت مانگی۔ ملاقات کے دوران تلخ کلامی کی نوبت آ پہنچی اور بات ہاتھاپائی تک جا پہنچی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے باہر بھی شور اور افراتفری اَور زیادہ بڑھ گئی۔ جس کو دیکھتے ہوئے موقع پر موجود ایک مجسٹریٹ جن کا نام ندیم احمد تھا وہ بھی اندر آ گئے۔ ہم نے مجسٹریٹ صاحب کو حالات بتاتے ہوئے عرض کی کہ یہ DSP صاحب ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ مجسٹریٹ ندیم احمد صاحب نے ہماری بات توجہ سے سُنی اور اُسی وقت حکم دیا کہ مسجد کو فوری طور پر خالی کروایا جائے۔ FSF پولیس نے ہوائی فائرنگ کر کے مشتعل ہجوم کو منتشر کرتے ہوئے ہمیں ہماری مسجد کا قبضہ واپس دلایا۔ 1974ء کے ہنگاموں میں یہ واحد مسجد تھی جو کہ خداتعالیٰ کے خاص فضل سے ہمیں واپس مل گئی۔
اس واقعہ کے بعد DSP نے انتقاماً مجھ پر حملہ بھی کروایا جس میں مَیں شدید زخمی ہوا۔ پھر میرے وارنٹ گرفتاری جاری کروا کر مجھے پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کروا دیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکات سے چند ہفتوں بعد ضمانت پر رہائی ہوئی اور تقریباً ایک سال تک مقدمہ چلنے کے بعد مجھے بری کر دیا گیا۔ بری ہونے کے باوجود بشیر احمد (جو SP بن چکا تھا) کی انتقامی کارروائیاں میرے خلاف جاری رہیں اور مجھے انتہائی خطرناک اور مطلوب افراد کی فہرست میں ایک لمبا عرصہ شامل رکھا گیا۔ آخر کار 1982ء میں ایک CID انسپکٹر افتخار احمد نے میرے حق میں رپورٹ دیتے ہوئے میرا نام اس لِسٹ سے خارج کروادیا۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مسند خلافت پر متمکّن ہونے کے بعد خاکسار کو دوبارہ وقف میں آنے کا ارشاد فرمایا تو اُس وقت خاکسار کا ذاتی کاروبار عروج پر تھا۔ یہاں تک کہ مَیں نے اس سال 46 ہزار روپیہ صرف انکم ٹیکس کی مَد میں دیا تھا۔ مگر حضورؒ کے ارشاد پر خاکسار نے دین کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اپنا تمام کاروبار چھوڑ کر ادارۂ تعمیرات میں جماعت کے لئے کام شروع کردیا۔
1983ء سے 1990ء کے دوران خاکسار نے فضل عمرہسپتال کی توسیع، بیوت الحمد کی تعمیر، ربوہ گیسٹ ہاؤس، سوئمنگ پول، دفاتر انجمن احمدیہ کی توسیع، مسجد مبارک کی توسیع، مسجد اقصیٰ کے مینار کی مرمت اور مسجد کی چاردیواری کی تعمیر کا کام کروانے کی سعادت پائی۔ اس کے بعد حضورؒ کے ارشاد پر گیمبیا اور سیرالیون میں مختلف مساجد اور ہسپتالوں کی تعمیرات کے کام کی ذمہ داری نبھائی۔ سیرالیون میں ملکی حالات کی خرابی کی وجہ سے ہمیں اپنا کام روکنا پڑا۔ مگر گیمبیا میں غیر معمولی خدمت کا موقع ملا جس میں مسجد، مرکزی دفاتر، گیسٹ ہاؤس، افریقہ میں پہلا پریس اور دیگر کئی شہروں میں ہسپتال اور دفاتر کی تعمیر شامل ہے۔ اسی اثناء میں حضورؒ کی طرف سے انجینئر ناصر بھٹی صاحب لندن سے کام کا جائزہ لینے وہاں آئے۔ انہوں نے واپس جا کر حضور کو تعمیراتی کام کی رپورٹ دیتے ہوئے یہ بھی عرض کیا کہ حضور! جیسے حضرت داؤدؑ کو اللہ تعالیٰ نے مدد کے لئے جِن عطا کئے تھے اسی طرح گیمبیا میں عبدالعزیز بھی کسی جِن سے کم نہیں۔ حضورؒ نے میرے نام اپنے ایک خط میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا نے ایک نہیں اس طرح کے کئی ’جِن‘ جماعت کو عطا کئے ہیں۔
گیمبیا سے واپسی پر جرمنی میں ایک سو مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے 7 سال تک خدمت کا موقع دیا۔ جب ناصرباغ کی مسجد زیرتعمیر تھی تو کافی مشکلات درپیش تھیں۔ خاکسار نے بے حد دعا کی تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے کوئی چیز دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو میں نے جنگِ خندق میں استعمال کئے تھے۔ خاکسار نے یہ خواب حضور کو تحریر کی اور حضور نے جواباً ارشاد فرمایا کہ بابرکت خواب ہے۔ خدا تعالیٰ خود تمام رکاوٹیں دُور فرمادے گا اور اس کے ساتھ حضور نے یہ شعر بھی تحریر کیا کہ
خدمتِ دین کو اِک فضلِ الٰہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو
اور پھر واقعی خدا کے فضل اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی برکت سے وہی انجینئر جو پہلے مشکلات پیدا کر رہا تھا اُسی نے مسجد کے گنبد اور محراب کی اجازت دلوادی۔
٭ چند سال پہلے کی بات ہے کہ شوگر کے مرض کی وجہ سے میری نظر بتدریج بہت کمزور ہورہی تھی۔ میں دعا کی درخواست کرنے کی غرض سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ سے ملاقات کرنے لندن گیا اور حضور کو اپنی تکلیف بتائی۔ میری گزارش سننے کے بعد حضور کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر اپنی نشست سے اُٹھے اور میری آنکھوں پر اپنی خلافت کی انگوٹھی کا لمس فرمایا اور دعا کی۔ اس کے بعد معجزانہ طور پر میری نظر بہتر ہو گئی اور مَیں اب تک بغیر عینک کے دیکھ اور پڑھ سکتا ہوں۔
اسی طرح سے ایک وقت ایسا آیا کہ اندرونی بیماریوں کی وجہ سے میری ٹانگوں میں شدید درد شروع ہو گیا اور مجھے چلنے پھرنے میں انتہائی دشواری محسوس ہوتی تھی۔ میں اُن دنوں اپنے بیٹوں کے پاس جرمنی گیا ہوا تھا۔ حضور بھی اُن دنوں جرمنی کے سالانہ جلسہ کے لئے تشریف لائے تو وہاں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ دورانِ ملاقات میں نے ذرا بے تکلفی کے انداز میں عرض کیا کہ حضور! یہ میری وہی ٹانگیں ہیں جن پر اپنے قدمِ مبارک رکھ کر حضرت مصلح مو عودؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا کرتے تھے اور یہی وہ ٹانگیں ہیں جنہیں 1974ء کے ہنگاموں میں غیراحمدیوں نے انتقام کی غرض سے توڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ بس آپ دعا کریں کہ یہ ٹانگیں اس عمر میں میرا ساتھ نہ چھوڑیں۔ اس پر حضورِانور نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمام واقعات اور حالات انہیں لکھ کر بھیجوں۔ چنانچہ خاکسار نے ایسا ہی کیا۔ خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے فالج کے حملہ کے باوجود خاکسار ابھی تک اس قابل ہے کہ چل پھر سکتا ہے اور کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ایمان ہے کہ اپنی ساری زندگی میں مَیں نے جو کچھ بھی پایا وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکات سے پایا۔
(نوٹ: محترم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کی وفات جنوری 2016ء میں ہوئی۔)