تزلزل در ایوان کسریٰ فتاد یعنی کسریٰ کے محل میں زلزلہ آگیا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’ضرورۃ الامام‘‘ (روحانی خزائن جلد 13، صفحہ 483) میں فرماتے ہیں:-
’’امام الزماں اکثر بذریعہ الہامات کے خدا تعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے۔ اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ کیفیت اور کمیت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں …… امام الزمان کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتے ہیں یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بطور نشان ایسی بہت سی پیشگوئیاں عطا فرمائیں جن کا تعلق مستقبل میں رونما ہونے والی بڑی بڑی عالمی تبدیلیوں سے تھا۔ چنانچہ ایران کی بادشاہت کے بارہ میں بھی 15؍جنوری 1906ء کو ایک الہام ہوا کہ ’’تزلزل درایوان کسریٰ فتاد‘‘ یعنی کسریٰ کے محل میں زلزلہ آگیا۔
اس الہام کے وقت ایک صدی سے زائد عرصہ سے قاچار خاندان ایران کا حاکم تھا اور مظفرالدین شاہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت سے تخت نشین تھے۔ کسی آئین یا پارلیمینٹ کا وجود نہیں تھا۔ اگرچہ لوگ وزیراعظم کی برطرفی کا مطالبہ تو کرتے رہتے تھے لیکن بادشاہ کی برطرفی یا اختیارات میں کمی کا کوئی مطالبہ نہیں ہوتا تھا۔ تاہم وزیراعظم نے اپنی مخالفت مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے اپنے چند سیاسی مخالفین کی گرفتاری اور شہر بدری کے احکامات جاری کردیئے۔ اُن میں سے ایک کو جب گرفتار کیا گیا تو اُس جگہ کئی لوگ جمع ہوگئے اور احتجاج کیا۔ ایک نوجوان نے فوجی چوکی کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی جس پر فوج کے افسر نے فوجیوں کو اس نوجوان پر گولی چلانے کا حکم دیدیا لیکن فوجیوں نے تعمیل نہ کی تو افسر نے خود گولی چلاکر اُس نوجوان کو ہلاک کردیا۔ یہ غیرضروری قتل دیکھ کر تہران کے لوگ بھڑک اٹھے اور پھر ہزاروں افراد مقتول نوجوان کا جنازہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ نتیجۃً ایک بار پھر گولی چلی اور پندرہ مزید افراد ہلاک ہوگئے۔ لیکن اس پر احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیا اور لوگ خوفزدہ ہوکر تہران چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ کئی کاروباری لوگ برطانوی سفارتخانہ میں پناہ گزین ہوگئے۔ رہی سہی کسر وزیراعظم کے اس اعلان نے پوری کردی کہ جو دوکاندار اپنی دوکان نہ کھولے، اُس کی دوکان لُوٹ لی جائے۔ ان حالات میں بدامنی کا ایک نیا دَور شروع ہوگیا۔
1906ء کے وسط تک عوام کی طرف سے وزیراعظم کی برطرفی کے ساتھ ساتھ آئین کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا۔ جب بادشاہ نے یہ حالات دیکھے تو عوام کے سارے مطالبات تسلیم کرلئے اور وزیراعظم کو برطرف کردیا گیا۔
اکتوبر 1906ء میں انتخابات کا مرحلہ شروع ہوا۔ ابھی صرف تہران میں ممبران ہی منتخب ہوئے تھے کہ مجلس (پارلیمینٹ) نے نامکمل حالت میں ہی اپنے اجلاسات شروع کردیئے اور اب سیاسی فیصلے شاہی محل سے زیادہ اس مجلس میں ہونے لگے۔ ایک اہم مسئلہ روس سے ایک قرضہ کی منظوری بھی تھی۔ لیکن بادشاہ کی خواہش کے برعکس مجلس نے قرضہ کی منظوری نہ دی ۔ اور پھر جلد ہی آئین کا خاکہ منظوری کے لئے بادشاہ کو بھیج دیا گیا جسے کچھ پس و پیش کے بعد یکم جنوری 1907ء کو بادشاہ اور ولی عہد نے منظور کرلیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ کم از کم دو سال تک مجلس کو برطرف نہیں کیا جائے گا۔
مذکورہ اعلان کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی یعنی 8؍جنوری 1907ء کو بادشاہ انتقال کرگئے۔ اور جب ولی عہد محمد علی مرزا تخت نشین ہوئے تو انہیں احساس تھا کہ مجلس نے اُن کے اختیارات محدود کردیئے ہوئے ہیں۔ چونکہ اُن کا مزاج آمرانہ تھا اسلئے انہوں نے اپنی رسم تاجپوشی میں مجلس کے اراکین کو مدعو نہیں کیا۔ پھر اگرچہ انہوں نے ایسے وزراء مقرر تو کردیئے جو آئین کے مطابق مجلس کے سامنے جوابدہ تھے لیکن یہ وزراء مجلس کے اجلاسات میں شرکت ہی نہیں کرتے تھے اس لئے عملی طور پر مجلس ایک عضو معطل ہوکر رہ گئی۔ تاہم مجلس نے ایک بار پھر روس اور برطانیہ سے قرضہ لینے کی منظوری دینے سے انکار کردیا اور یہ فیصلہ کیا آئندہ بادشاہ کے اخراجات مجلس کے منظور شدہ بجٹ کے اندر رہیں گے۔ اس سے پہلے قرضہ بادشاہ کے ذاتی اخراجات اور یورپ کے دورہ جات پر خرچ کردیا جاتا تھا۔
مجلس اور بادشاہ کی طرف سے تصادم کے ارادے دیکھ کر جلد ہی وزیراعظم مشیرالدولہ نے استعفیٰ دیدیا۔ بادشاہ کو ایران میں شاید نیا وزیراعظم ملنا مشکل تھا اس لئے یورپ میں مقیم امین السلطان کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ جب وہ ایران پہنچے تو لوگوں کا ایک ہجوم اُن کے گرد اکٹھا ہوگیا اور اُن سے یہ حلف اٹھوایا کہ وہ آئین کے وفادار رہیں گے۔
26؍مئی کو بادشاہ کی سالگرہ تھی۔ بادشاہ کے وفادار یہ تقریب ہمیشہ کی طرح شاہانہ انداز میں منانا چاہتے تھے لیکن عوام الناس نے اس کی اجازت نہ دی اور نہ صرف پورے شہر سے سجاوٹ کا سامان اتار دیا بلکہ بادشاہ کے محل سے بھی سامانِ آرائش اتار دیا گیا۔ لیکن ایک ماہ بعد مجلس (پارلیمینٹ) کی سالگرہ عوام نے بڑے تزک و احتشام سے منائی۔
ایران کا قومی خزانہ خالی ہوچکا تھا۔ مجلس نے قرضہ کی منظوری نہیں دی تھی لیکن کوئی متبادل انتظام بھی نہیں کیا تھا۔ ملک میں رائج ٹیکس جمع کرنے کا نظام فرسودہ تھا اور کوئی ٹیکس دینے کو تیار بھی نہیں تھا۔ وزیراعظم نے قرضے کے حصول کے لئے اراکین مجلس کو قائل کرنا شروع کیا اور جب کامیابی بہت قریب تھی تو 31؍اگست کو کسی نے وزیراعظم کو گولی مار کر ہلاک کردیا اور قاتل نے خود بھی زہر کھاکر خودکشی کرلی۔
جب قتل کو چالیس روز گزرے تو مقتول وزیراعظم کی قبر پر تو صرف چند لوگ جمع ہوئے لیکن قاتل کی قبر پر لاکھ سے زیادہ افراد کا ہجوم تھا۔ قبرستان میں خیمے لگائے گئے اور عوام کی مشروبات سے تواضع کی گئی۔ شعراء نے قاتل کی تعریف میں اشعار پڑھے۔ یہ صورتحال اندرونی حالات کو کھول کر بیان کررہی تھی۔ بادشاہ عوام کے خوف سے اُن لوگوں کی حمایت بھی نہیں کر رہا تھا جو پرانے نظام کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ چنانچہ نومبر میں بادشاہ نے مجلس میں قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ آئین کی پاسداری کی جائے گی۔
سولہویں صدی کے ایک اطالوی فلاسفر میکاولی نے اپنی کتاب ’’دی پرنس‘‘ میں دنیا کے آمروں کو عوام پر حکومت کرنے کے کئی گُر سکھائے ہیں اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کی تلقین کی ہے۔ اُس نے عہد شکنی کو جائز قرار دیا ہے لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ خود کو اپنے لوگوں کی نظر میں قابل نفرت نہ بناؤ کیونکہ اگر تمہارے لوگ ہی تم سے نفرت کرنے لگیں توتمہیں کون بچائے گا۔ بعض نے میکاولی کو علم سیاسیات کا شیطان قرار دیا ہے۔ چنانچہ اُس کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے بادشاہ محمد علی مرزا نے بار بار آئین کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑا۔ لیکن اس طرح عوام نے اُن پر اپنا اعتماد کھودیا۔
بادشاہ اب ظلم اور ہیبت سے حکومت کرنا چاہتے تھے۔ جب دونوں گروہوں میں مفاہمت کی امید ختم ہوتی نظر آئی تو فوجیوں نے پہلے تہران میں لُوٹ مار شروع کی اور پھر اسی بھگدڑ میں 3؍جون 1908ء کو بادشاہ کو تہران سے باہر نکال لیا گیا اور وہ قریب ہی ایک مقام ’’باغ شاہ‘‘ میں پناہ گزین ہوگئے۔ پھر بادشاہ کے وفادار فوجیوں نے اہم جگہوں پر قبضہ کرنا شروع کیااور جلد ہی شہر کا نظم ونسق سنبھال لیا اور روسی فوجی کرنل لیخوف کو شہر کا اقتدار سونپ دیا گیا۔ ان حالات میں دس ہزار افراد شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوگئے لیکن اراکین مجلس نے اُنہیں سمجھابجھاکر گھروں کو بھجوادیا جبکہ بادشاہ نے کئی نمایاں مخالفین کو باغ شاہ میں قید کروادیا اور اُن میں سے دو کو گلا گھونٹ کر ہلاک بھی کردیا گیا۔
23؍جون 1908ء کو ایک ہزار فوجیوں نے کرایہ کے روسی افسروں کی قیادت میں مجلس کی عمارت کا محاصرہ کرلیا۔ دفاع کرنے والوں کے پاس صرف پچاس بندوقیں تھیں۔ اسی دوران بادشاہ نے نہ صرف مجلس برطرف کرنے کا اعلان کردیا بلکہ اس کی عمارت بھی تباہ کروادی۔
یہ حالات دیکھ کر تبریز کے عوام نے بغاوت کردی۔ محمد علی مرزا بادشاہ بننے سے پہلے تبریز کے حکمران رہ چکے تھے اور انہوں نے وہاں صرف تلخ یادیں ہی چھوڑی تھیں۔ تبریز میں بغاوت کا آغاز ہوا تو فوج نے تبریز کا محاصرہ کرکے رسد بند کردی اور شہر میں قحط پھیلنے لگا اور باغیوں نے مجبوراً ہتھیار ڈال دیئے۔ اسی دوران روس نے غیرملکیوں کو ایران سے باہر نکالنے کے بہانے اپنی فوجیں شمالی ایران میں داخل کردیں۔
اگرچہ تہران میں مخالفین کو کچل دیا گیا تھا لیکن اب بغاوت ملک بھر میںپھیل چکی تھی۔ چنانچہ پہلے شمال میں گیلان سے باغی فوج نے تہران کی طرف پیش قدمی شروع کی اور کچھ عرصہ بعد جنوب سے بختیاری قبائل کے جنگجو بھی تہران کی طرف بڑھنا شروع ہوگئے۔ باغیوں نے تمام غیرملکی سفارت خانوں کو پیغام بھیجا کہ چونکہ ہم بادشاہ کو اپنے مطالبات پیش کرنا چاہتے ہیں اس لئے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ تاہم باغیوں کو روسی فوج نے پیش قدمی روکنے کا حکم دیا لیکن کسی نے اطاعت نہیں کی۔ اگرچہ بادشاہ نے ایک بار پھر قسم کھاکر یہ اعلان کیا کہ وہ آئین کو بحال کردیں گے لیکن اب کسی نے بھی اُن پر اعتبار نہیں کیا۔ بادشاہ نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے جب روس سے قرضہ مانگا تو روس نے بھی حالات دیکھ کر انکار کردیا۔
جون میں باغیوں نے قُم پر قبضہ کرلیا اور تہران سے اسّی میل دور منظم ہوکر تہران پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر روس اور برطانیہ نے پہلے باغیوں کو دھمکیاں دیں اور روس نے شاہی فوج کی سرپرستی کیلئے اپنے دستے تہران کے قریب مقرر کردیئے لیکن باغیوں نے اپنا ارادہ تبدیل نہ کیا۔
جولائی میں تہران کے مغرب میں شاہی فوج اور باغیوں میں ایک تصادم ہوا۔ لیکن یہ تصادم دراصل باغیوں کی طرف سے ایک دھوکہ کے طور پر تھا کیونکہ تہران کے شمال سے باغی فوج 12؍جولائی 1908ء کو شہر میں اتنی خاموشی سے داخل ہوگئی کہ شہر کی حفاظت پر متعین فوجیوں کو بھی اس کی خبر نہ ہوئی۔ کرنل لیخوف کو اُس وقت علم ہوا جب اُس کی بیرکوں کا محاصرہ کرلیا گیا۔ اس کے بعد چار روز تک شہر کی سڑکوں پر جھڑپیں جاری رہیں اور 16؍جولائی کو بادشاہ روسی سفارت خانہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا اور عملاً اُس کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ کرنل لیخوف نے صورتحال دیکھ کر اپنی اور اپنے ماتحت فوجیوں کی خدمات نئی حکومت کو پیش کردیں اور اس طرح وہ نئے نظام کا حصہ بن گئے۔
تہران پر قبضہ کے بعد بااثر شخصیات کا اجلاس بلایا گیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ محمد علی مرزا کے بارہ سالہ بیٹے سلطان احمد مرزا کو ملک کا آئینی سربراہ بنادیا جائے اور مجلس کا انتخاب کرواکر اراکینِ مجلس کے ذریعہ امور مملکت چلائے جائیں۔
محمد علی مرزا نے حالات دیکھ کر بھاؤ تاؤ شروع کردیا کہ اُنہیں دستبردار ہونے کے کتنے پیسے دیئے جائیں گے۔ آخر برطانیہ اور روس کے تعاون سے وہ اسّی ہزار پاؤنڈ کی پنشن لے کر ایران سے چلے جانے پر رضامند ہوگئے۔ نئے بادشاہ سلطان احمد مرزا تو ایک بے اختیار بادشاہ تھے۔ حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں، خزانہ سے صرف خرچ ہورہا تھا، آمد نہیں ہورہی تھی۔ جنگ عظیم اؤّل میں اگرچہ ایران نے غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا لیکن ایران کے عوام کی ہمدردیاں ترکی کے ساتھ تھیں جبکہ ایران کی حکومت عملاً روس اور برطانیہ کے چنگل میں تھی۔ جنگ ختم ہوئی تو ایران پہلے سے زیادہ کمزور ہوچکا تھا۔ بالآخر 1921ء میں کرنل رضا خان نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور 1926ء میں وہ اپنے خاندان کے پہلے بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہوگئے۔ لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہام کے بعد ایران کے جس بادشاہ کی بھی تاجپوشی ہوئی اُسے تاج و تخت سے محروم ہوکر جلاوطن ہونا پڑا۔ چنانچہ پہلے محمد علی مرزا اور سلطان احمد مرزا معزول ہوکر جلاوطن ہوئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد رضا شاہ کو بادشاہت چھوڑنی پڑی اور اُن کا انتقال جنوبی افریقہ میں ہوا۔ پھر محمد رضا شاہ بادشاہ بنے اور 1979ء میں تخت سے محروم کرکے جلاوطن کئے گئے۔ اُن کا انتقال مصر میں ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایران میں بادشاہت کا دَور بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں