حضرت رابعہ بصریؒ

حضرت رابعہ بصریؒ کے بارہ میں ایک مضمون ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ستمبر 1999ء میں مکرمہ قرۃالعین صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت رابعہ بصریؒ 713ء سے 718ء کے درمیان پیدا ہوئیں۔ آپؒ علم و عرفان، مقام و مرتبے اور ریاضت و معرفت کے حوالہ سے ’’مریم ثانی‘‘ کہلائیں۔ جب پیدا ہوئیں تو والدین کی غربت کا عجب عالم تھا۔ گھر میں اتنا کپڑا بھی نہ تھا کہ آپؒ کو لپیٹا جا سکتا۔ نہ چراغ تھا نہ تیل۔ چونکہ تین بہنوں کے بعد تولد ہوئیں اس لئے رابعہ کہلائیں۔ اپنی ابتدائی عمر نہایت تنگ دستی میں بسر کی لیکن ہمیشہ خدا تعالیٰ کا شکر کیا اور خدا تعالیٰ سے بے غرضانہ محبت کی۔ روایت میں آپؒ کی ایک دعا ایسے منقول ہے: ’’اے میرے مالک! ستارے چمک رہے ہیں اور آدمیوں کی آنکھیں نیند میں بند ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی خلوت میں ہے اور مَیں ہوں کہ یہاں اکیلی ہوں تیرے ساتھ۔ اے مالک! اگر مَیں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو تُو مجھے دوزخ میں جھونک دے۔ اور اگر مَیں جنت کی توقع میں تیری عبادت کرتی ہوں تو تُو مجھے جنت سے محروم کردے۔ لیکن اگر مَیں محض تیری ہی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو تُو مجھ سے اپنے لازوال حسن کو پوشیدہ نہ رکھیو۔‘‘
ایک دفعہ موسم بہار میں آپؒ نے فرمایا: ’’… صانع کے تصور نے مجھے اُس کی مصنوعات سے بے نیاز کردیا ہے‘‘۔
بعض لوگوں نے جب آپؒ سے آپ کی گریہ و زاری کے حوالہ سے پوچھا تو فرمایا ’’میرے سینے میں ایک مرض نہاں ہے کہ جس کا علاج نہ تو کسی طبیب کے بس میں ہے اور نہ وہ مرض تمہیں دکھائی دے سکتا ہے اور اس کا واحد علاج صرف وصال خداوندی ہے۔ اسی لئے مَیں مریضوں جیسی صورت بنائے ہوئے گریہ و زاری کرتی رہتی ہوں کہ شاید اسی سبب سے قیامت میں تکمیل تمنا ہو جائے‘‘۔
حضرت مالک سے روایت ہے کہ ’’ایک مرتبہ مَیں رابعہ کے یہاں پہنچا تو دیکھا ایک ٹوٹا ہوا مٹی کا لوٹا ہے جس سے آپؒ وضو کرتی ہیں، ایک بوسیدہ چٹائی ہے جس پر اینٹ کا تکیہ بناکر استراحت فرماتی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو مَیں مالدار دوستوں سے آپ کے لئے طلب کروں۔ فرمایا: کیا اللہ مفلسوں کو اُن کے افلاس کی وجہ سے بھلا دے گا یا پھر امیروں کو اُن کی دولت کی وجہ سے یاد رکھے گا؟ …جو کچھ اُس کی مشیت ہے وہی ہماری بھی مرضی ہے‘‘۔
ایک دفعہ ایسی بات کہنے والے کسی دوسرے سے فرمایا: ’’مجھے طلب غیر سے اس لئے حیا آتی ہے کہ مالکِ دنیا تو خدا ہے اور دنیا کو ہر شے عاریتاً دی گئی ہے اور جس کے پاس ہر شے خود عاریتاً ہو اس سے کچھ طلب کرنا باعث ندامت ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں