جاپان کا ایک دلچسپ سفر
مجلس انصاراللہ کینیڈا کے جریدہ ’’نحن انصاراللہ‘‘ جولائی تا ستمبر 2006ء میں مکرم کرنل (ر) دلدار احمد صاحب کے قلم سے جاپان کا ایک دلچسپ سفرنامہ شامل ہے۔
1904ء تک جاپان کی بطورِ ایک عالمی طاقت کوئی اہمیت نہ تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو29 اپریل 1904ء کو الہام ہوا: ’’کوریا خطرناک حالت میں ہے ۔ مشرقی طاقت ‘‘۔ کوریاکا ملک جاپان کے عین سامنے ایک جزیرہ نما ہے۔ 1904ء تک یہ چین کے ماتحت تھا اور بے حد غیرمعروف ملک تھا۔ ایسے میں الہام کی بنیاد پر یہ دعویٰ کہ مشرق میں ایک طاقت پیدا ہوگی جس کی وجہ سے کوریا کی حالت نازک ہو جائے گی سخت تعجب انگیز بات ہے۔ پھر حالات یوں ہوئے کہ روس نے کوریا پر قبضہ کرنا چاہا مگر جاپان نے روسی قبضہ اپنی موت سے تعبیر کیا۔ آخر 1905ء میں دونوں میں خون ریز جنگ ہوگئی جس میں روس کوباوجود اپنی بہت بڑی جنگی قوت کے جاپان کے مقابلہ میں حیرت انگیز شکست ہوئی۔ اُس کا مایہ ناز جنگی بیڑہ جاپان کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ اور کوریا پر جاپان کا قبضہ تسلیم ہوگیا۔
1989ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جاپان کا دورہ فرمایا اور جاپانی قوم کی، ان کی اعلیٰ تہذیب اور انکساری کی بہت تعریف فرمائی ۔ نیز فرمایا کہ عجز، انکساری، رحم اور ہمدردی کی صفات کے لحاظ سے جاپانی آدھے مسلمان ہیں ۔
مضمون نگار کو 2005ء میں جلسہ سالانہ جاپان میں شمولیت کی توفیق ملی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ نگویا میں جلسہ سالانہ کے لئے ایک یوتھ سینٹر حاصل کیا گیا تھا جس میں رہائش، ضیافت اور جلسہ گاہ کا احسن رنگ میں انتظام تھا۔ جاپانی کھانا تھا جو جاپانی باورچیوں کا تیار کردہ تھا۔ یہ کھانے حفظانِ صحت کے بہترین اصولوں کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں اور اس میں طبّی ضروریات کا بطور احسن خیال رکھا جاتا ہے حتّٰی کہ کھانے میں کیلوریز کا حساب بھی رکھا جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم نے جاپان میں شاذ و نادر ہی کوئی آدمی موٹا دیکھا ہو۔ جلسہ گاہ کی سجاوٹ نہایت شاندار تھی۔تمام لکھائی اور ڈرائنگ جس میں قرآنی آیات، منارۃ المسیح و اشعار شامل تھے، ایک غیر از جماعت جاپانی نے (جو کسی دوسری زبان سے واقف نہ تھا) اصل سے نقل کرکے ہال کو زینت کے اعلیٰ معیار تک پہنچادیا تھا۔ وہ خود بھی تمام وقت جلسہ گاہ میں موجود رہا اور احمدیت کی تعلیم سے بہت متأثر ہوا۔ تقریباً ایک سو سے زائد غیر از جماعت جاپانیوں نے بھی جلسہ سالانہ میںشمولیت کی۔
جاپان میں ٹریفک کے مسئلہ میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر اہم سڑکیں اور ریلوے دو منزلہ ہیں۔ بُلٹ (Bullet)ٹرین جو کہ 200کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جاپان کے بڑے بڑے شہروں کو آپس میں ملاتی ہے تقریباً ساری کی ساری زمین سے خاصی بلند سطح پر جاری و ساری ہے۔
ٹوکیو شہر نگویا سے تقریباً 400کلو میٹر فاصلہ پر واقع ہے اور راستہ نہایت خوبصورت پہاڑیوں اور وادیوں سے گزرتا ہؤا بہت ہی دلفریب مناظر سے آراستہ ہے۔ راستہ میں آنے والی بے انداز پہاڑیوں میں سُرنگ کھودی گئی ہے۔ چنانچہ ٹوکیو جانے کے لئے متعدد Tunnelآتے ہیں ۔ اسی طرح کئی ایک جگہ سڑک سمندر کی سطح کے نیچے سے Tunnelکھود کر گزاری گئی ہے۔ نگویا اور اوساگا کی ائیرپورٹس تو سمندر کے مقام کو خشکی میں تبدیل کرکے بنائی گئی ہیں ۔ یہ ایئرپورٹس سمندر کے بیچ میں تعمیر کرکے انہیں سمندر پر تعمیر کردہ پُلوں کے ذریعہ شہروں سے ملایا گیا ہے تا بندر گاہوں کی کار کردگی متاثر نہ ہو۔ ہوائی جہاز کے مسافروں کو اترتے وقت اس حیرت سے دو چار ہونا پڑتا ہے کہ جہاز کسی ایمرجنسی کے تحت سمندر میں اترنے لگا ہے۔ نگویا سے ٹوکیو کے سفر کے راستہ میں سب سے زیادہ دلفریب منظر فیوجی ماؤنٹین کا ہے جو اپنی مخروطی شکل جو نیچے کا نصف حصہ سبز اور اوپر کا نصف حصہ برف کی وجہ سے سفید ہونے کی صورت میں دیکھنے والوں کی توجہ اپنے اوپر مرکوز کر لیتا ہے۔ ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلند یہ پہاڑ بظاہر آپ کے سامنے اہرام مصر کی طرح کھڑا نظر آتا ہے گو حجم میں ان سے ہزاروں گنا بڑا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پیالہ نما ہے جہاں سے آخری دفعہ1707ء میں آتش فشاں لاوا نمودار ہؤا تھا۔ جاپانی مذہب شنٹوازم کے پیرو جو قدرتی مناظر کی پرستش کرتے ہیں اس پہاڑ کو متبرک گردانتے ہیں۔ جاپان میں دو مشہور مذہب پائے جاتے ہیں یعنی شنٹوازم اور بدھ ازم۔ لیکن جاپانیوں کی اکثریت مذہب کو خیر باد کہہ چکی ہے۔ وہ اپنے مُردوں کو جلاتے ہیں اور اُن کی راکھ بڑے بڑے برتنوں میں محفوظ کر دیتے ہیں۔ اُن کے قبرستان اِسی راکھ کے برتنوں پر مشتمل ہیں۔
جاپان کا دوسرا بڑا شہر اوساکا ہے۔ یہاں اس قدر انڈسٹری ہے کہ کہا جاتا ہے کہ دن کے وقت شہر کی آبادی ایک کروڑ ہوتی ہے جبکہ رات کو 33لاکھ رہ جاتی ہے۔ جاپان کے قدیم شہروں میں کیوٹو Kyotoمشہور شہر ہے جو جاپان کا پہلا دارالخلافہ تھا۔ یہاں پر جاپان کی قدیم تہذیب اور پرانی روایات پائی جاتی ہیں اور شنٹوازم اور بدھ ازم کے سینکڑوں ٹیمپل پائے جاتے ہیں۔ نیز شہنشاہ کا پرانا محل اور باغات قابلِ دید ہیں۔
مجھے اکثر حیرت ہوتی ہے کہ جاپان کو ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کی صورت میں اتنی بڑی سزا کیوں ملی۔ مجھے گمان پڑتا ہے کہ اتنی بڑی مصیبت اور ابتلاء کے پیچھے قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ دونوں شہروں کی تباہی کے بعد جاپان کا شہنشاہ ہیرو ہیٹو جسے جاپانی قوم خدا تصور کرتی تھی، اپنے محل سے پہلی دفعہ عوام کے سامنے نمودار ہوا اور اُس نے اعلان کیا کہ میں خدا نہیں ہوں بلکہ تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں اور میں جاپان کے جنگ میں ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے اس اعلان پر جاپانی قوم کے یقین کو اس قدر دھچکا پہنچا کہ سینکڑوں جاپانیوں نے اُسی وقت بادشاہ کے محل کے سامنے خودکشی کرلی۔