جدید عراق کے حکمران
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جون 2004ء میں جدید عراق کے حکمرانوں کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔
شاہ فیصل اول (1933ء-1885ء)
حجاز کے حکمراں وشریف مکہ حسین بن علی کے صاحبزادے فیصل اول کو اپنے والد کی طرف سے 1919ء میں برطانوی حکومت سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسی دوران انہوں نے عرب دنیا میں خلافت عثمانیہ کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے فوجوں کی کمان بھی سنبھالی۔ چنانچہ انہوں نے عرب نیشنل ازم کی معاونت سے نہ صرف شام کے علاقوں میں فتح پائی بلکہ ستمبر 1918ء میں شاہِ شام کے طور پر اپنی حکمرانی کا اعلان بھی کردیا تاہم بعد میں مذاکرات میں ناکامی کے بعد فرانس نے انہیں تخت سے معزول کر دیا اور انہوں نے برطانیہ میں جلاوطنی اختیار کر لی۔
اس دوران عراق میں برطانیہ کے زیر قبضہ علاقوں میں جب عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تو برطانیہ نے عراقیوں ہی میں سے شخصی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ فیصل کو 23؍اگست 1921ء کو فیصل اوّل کے نام سے عراقی حکومت کا سربراہ بنادیا گیا۔ ان کی حکومت نے سرکار برطانیہ سے متعدد معاہدے کیے اور 1932ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرلی۔ 8؍دسمبر 1933ء کو فیصل اوّل کا عارضہ قلب کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کے ہسپتال میں انتقال ہوا۔
شاہ غازی اول (1939ء-1912ء)
یہ شاہ فیصل اول کے چوتھے صاحبزادے تھے اور اپنے چچا کی زیر نگرانی پرورش پارہے تھے اس لئے حکومتی امور اور سیاست سے قدرے نابلد تھے۔ انہیں 1933ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد تخت نشین کیا گیا۔ وہ کویت کو عراق کا حصہ سمجھتے ہوئے اسے عراق میں شامل کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ اس منصوبے کی اشاعت کے لئے انہوں نے اپنے محل میں ایک ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کیا تھا۔ ان ہی کے دور میں 1936ء میں پہلی مرتبہ عراق میں فوجی انقلاب کے ذریعہ وزیراعظم حکمت سلیمان کی حکومت جنرل باقرصدیقی نے برطرف کردی۔ بعدازاں اپریل 1939ء میں وہ کار کے ایک پُراسرار حادثہ میں ہلاک ہوگئے۔
شاہ فیصل دوئم (1958ء-1935ء)
یہ شاہ غازی اول کے اکلوتے صاحبزادے تھے جنہیں چار برس کی عمر میں عراق کا حکمران بنایا گیا البتہ ان کی رہنمائی کے لئے ان کے چچا عبد اللہ کو ولیعہد مقرر کیا گیا۔ یہ بہت شرمیلے اور عوامی اجتماعات سے دور رہنے والے حکمران ثابت ہوئے۔ ان کے دور حکومت میں عراق نے 1948ء میں فلسطین کی جنگ میں حصہ لیا اور ان کے ہی عہد میں ہاشمی یونین اور اردن کا اعلان ہوا۔ یہ پورے شاہی خاندان کے ساتھ 14؍جولائی 1958ء کو ہلاک ہوگئے۔
عبد الکریم قاسم (1963ء- 1914ء)
جدید عراقی ریاست میں عبد الکریم قاسم کو خاصی شہرت ملی۔ وہ ایک عوامی حکمران کے طور پر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے عراقی فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد بڑی تیزی سے رینک تبدیل کئے یہاں تک کہ 1955ء میں وہ اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ دوسرے عراقیوں کی طرح وہ بھی بادشاہت کی مغرب نواز پالیسیوں کو غیر مناسب خیال کرتے تھے۔ 1957ء تک عراقی فوج میں ان کے حامیوں کا ایک مضبوط گروپ وجود میں آگیا تھا۔ چنانچہ 14؍جولائی 1958ء کو انہوں نے بغداد سے بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے فوج کے ذریعہ کنٹرول سنبھال کر وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس تبدیلی کوخاصی عوامی حمایت بھی حاصل تھی۔
انہوں نے اس اہم دور میں عراق کی حکومت کو چلایا جب خطے میں عرب نیشنل ازم عروج پر تھا۔ قاسم نے کسی عرب فیڈریشن میں عراق کو شامل کرنے کی بجائے عراق کے الگ تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی تعمیر نو پر توجہ دی۔ اس پالیسی نے عرب نیشنل ازم کے اتحادیوں سمیت جمال عبدالناصر سے بھی تعلقات کشیدہ بنادئیے۔ تاہم انہوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی۔ 8؍ فروری 1963ء کو انہیں ایک خونی بغاوت کے ذریعہ قتل کر دیا گیا۔
عبد السلام عارف
عبد السلام عارف عراقی فوج کے ان افسران میں شامل تھے جنہوں نے بادشاہت کا خاتمہ کیا تھا۔ وہ عرب نیشنل ازم اور مصری لیڈر جمال عبد الناصر کے وفادار پیروکاروں میں سے تھے اسی لئے قاسم کے عرب نیشنل ازم مخالف نظریات کے خلاف تھے۔ اگرچہ انہیں قاسم کے دور حکومت میں قید کردیا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں قاسم نے خصوصی معافی دیدی تھی۔ انہوں نے عراق کی سرکاری پارٹی بعث کی مدد سے فوجی انقلاب کے ذریعہ قاسم کو ٹھکانے لگا کر براہ راست صدر کا عہدہ سنبھالا۔ اسی دَور میں نیشنل گارڈز کے ذریعہ لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا پہلا نشانہ خود قاسم تھے جبکہ بعد میں ان کی کابینہ کے ممبران کو بھی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 14؍جولائی 1966ء کو ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں وہ ہلاک ہوگئے۔
عبدالرحمن عارف
یہ 1958ء اور 1963ء کے انقلابات میں اہم کردار ادا کرنے والے فوجی تھے جنہیں اپنے بھائی عبد السلام عارف کی ہلاکت کے بعد سربراہ مقرر کیا گیا لیکن صرف دو برس بعد جولائی 1968ء میں بعث پارٹی کی بغاوت کے ذریعہ معزول کردیئے گئے اور انہوں نے استنبول میں جلاوطنی اختیار کر لی۔ 1980ء کے عشرے میں صدام حسین نے انہیں واپس وطن بلا لیا۔
احمد حسن البکر (1982ء 1914-ء)
احمد حسن البکر 1938ء میں ملٹری اکیڈمی میں سکول ٹیچر ہوئے۔ بعد میں وہ بعث پارٹی میں شامل ہوئے اور 1959ء میں فوج سے الگ ہوگئے۔ 1963ء میں دس ماہ تک وہ عراق کے وزیر اعظم رہے۔ پھر 17؍جولائی 1968ء کے انقلاب کے بعد صدر بنائے گئے۔ ان کے دَور حکومت میں قوت فیصلہ کا اصل مرکز صدام حسین تھے جو البکر کو (خرابی صحت کی بناء پر) سبکدوش کرکے 16؍جولائی 1979ء کو خود صدر بن گئے۔ احمد حسن البکر 4؍اکتوبر 1982ء کو انتقال کرگئے۔
صدام حسین (پیدائش 1937ء)
صدام حسین عراقی شہر تکریت کے قریب آوجا کے رہنے والے تھے۔ بعد میں اپنے چچا کے ہاں بغداد میں آئے جہاں عرب نیشنل ازم کی حامی بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بڑی تیزی سے اس تنظیم کی سیڑھیاں طے کیں۔ صدام پارٹی کے اس گروہ میں شامل تھے جس نے 1959ء میں قاسم کے خلاف ناکام بغاوت کی تھی۔ اس کے بعد وہ شام اور مصر فرار ہوگئے۔ پھر 1963ء کے انقلاب میں حصہ لیا اور عراق واپس آگئے۔ لیکن عبد السلام عارف کے دَور میں بھی بغاوت کے جرم میں جیل گئے۔ جہاں سے بعد میں وہ نکل گئے۔ عارف کو 1968ء میں معزول کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایااور تیل کی بے بہا آمدنی کو حکومتی ڈھانچے کی مضبوطی پر صرف کیا۔ 16؍جولائی 1979ء کو عراق کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ صدام نے اسرائیل، ایران اور کویت سے جنگیں لڑیں اور خطے میں اپنی فوجی قوت کا احساس دلایا جسے کچلنے کے لئے امریکی قیادت میں اتحادی افواج عراق پر حملہ آور ہوئیں اور اپریل 2003ء میں صدام کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔