جرمن شاعر گوئٹے اور توحید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اپریل 2010ء میں شامل اشاعت مکرمہ م۔م۔ رامہ صاحبہ کے قلم سے ایک معلوماتی مضمون میں بتایا گیا ہے کہ جرمن شاعر گوئٹے بھی توحید سے متأثر تھا۔
بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں چرچ کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ عیسائیت کی طرف عوام کی عدم دلچسپی کے نتیجہ میں کہیں اسلام کا نفوذ یورپ میں نہ ہوجائے تو کلیسا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارہ میں جھوٹے قصّوں کی باقاعدہ تشہیر شروع کردی۔ چنانچہ جہاں کلیسا کی بات کو من و عن تسلیم کرلینے والے لوگ اُس زمانہ میں موجود تھے وہاں ایسے دانشور بھی موجود تھے جنہوں نے حقائق کا کھوج لگایا اور پھر سچائی کا اظہار بھی کیا۔ انہی میں ایک مشہور انقلابی شاعر Lessing بھی تھا جس نے ایک کتاب Rettung یعنی دفاع بھی لکھی جس میں اسلام کا دفاع کرنا چاہا۔ ایک جرمن Orientalist جس کا نام Ruckert تھا وہ قرآنی زبان سے اس قدر متأثر تھا کہ اُس نے جرمن زبان میں اسی ردھم سے قرآن کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ پھر Herder جو گوئٹے کا دوست بھی تھا، قرآن کو بائبل کی طرح ایک نازل شدہ کتاب سمجھتا تھا۔
جرمن شاعر گوئٹے(Johann Wolfgang von Goethe) متعدد علوم کا ماہر تھا۔ وکالت کے بعد کئی سیاسی عہدوں پر فائز رہا۔ بیالوجی، جیالوجی، باٹنی اور اناٹومی پر دسترس رکھتا تھا۔ کوئی پندرہ بیس سال پہلے گوئٹے کے بارہ میں مسلمانوں کی ایک تنظیم نے اعلان کیا کہ وہ مسلمان تھا۔ پھر 2001ء میں کیتھرینا فون مومسین کی کتاب ’’گوئٹے اور اسلام‘‘ شائع ہوئی۔ اس سے قبل کسی کتاب میں گوئٹے کے اسلام سے متأثر ہونے کے بارہ میں واضح ذکر نہیں ملتا۔ کیتھرینا نے اپنی کتاب میں بیان کیا کہ گوئٹے کو اسلام میں گہری دلچسپی تھی لیکن وہ اسلام قبول کرنے سے ابھی بہت دُور تھا۔ لیکن دراصل تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ گوئٹے اسلام قبول کرچکا تھا اور ایک جگہ وہ خود بھی اس خیال کو ردّ نہیں کرتا کہ وہ مسلمان ہے۔ 1771ء میں جب گوئٹے کی عمر 23 سال تھی تو اُس کے پاس قرآن مجید کا ترجمہ موجود تھا۔ اُس نے اپنے دوست Herder کو ایک خط میں لکھا ’’میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں دعا کروں جیسے قرآن میں حضرت موسیٰ نے دعا کی تھی: خدایا! میرے تنگ سینہ میں جگہ بنادے‘‘۔ خیال ہے کہ یہ خط 1772ء میں لکھا گیا۔ اسی سال گوئٹے نے ایک نعت “Mahomets Gessang” بھی لکھی۔ اس نعت میں وہ ایک دریا کے بہاؤ کو بیان کرتا ہے جو اپنے راستہ میں پہاڑوں سے سمندر تک جاتا ہے۔ اس کا ہر قطعہ ایک باب یا موضوع بیان کرتا ہے۔ اشعار استعارے کی صورت میں ہیں جو ایک چشمہ سے شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ بڑھتا جاتا ہے اور اس کی شدّت میں روحانی طاقت پیدا ہوتی جاتی ہے تاکہ وہ بلند شان سے اس سمندر میں داخل ہوسکے۔
Schiller اور اُس کی بیوی گواہی دیتے ہیں کہ گوئٹے نے قرآن کریم کی بعض آیات کا ترجمہ کرکے ایک محفل میں پڑھا تھا بلکہ اُس نے قرآنی دعاؤں کو خود نقل کرکے بھی لکھا ہوا تھا۔
گوئٹے مشرقی شاعروں سے بہت متأثر تھا اور حافظؔ اُس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ گوئٹے کے دیوان کا نام “West-Oestlisches Diwan” ہے یعنی مغربی اور مشرقی دیوان۔ اس کا عربی نام گوئٹے نے خود تجویز کیا ہے کہ ’’الدیوان الشرقی للمؤلف المغربی‘‘۔ گوئٹے اپنے دیوان میں ’’حافظ نامے‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ’’تسلیم کرلو! مشرقی شاعر ہم مغربی شاعروں سے بڑھ کر ہیں‘‘۔
گوئٹے اپنے دوستوں کے ساتھ بھی اسلام کی تعلیمات کے بارہ میں گفتگو کیا کرتا تھا۔ مضمون میں چند گوئٹے کی چند تحریرات بھی پیش کی گئی ہیں مثلاً 1820ء میں اُس نے اپنے دوست Willemer کو لکھا ’’یقینا معقول مذہبی نظریوں میں اسلام ہی ہے جسے اب یا بعد میں ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا‘‘۔ بعض جگہ گوئٹے نے اسلام کا مطلب ’’خدا کے آگے جھکنا‘‘ بیان کیا ہے۔
گوئٹے اپنے شعروں میں صلیب کو نشان کے طور پر لٹکانا اور اس کی عبادت کرنا شدید ناپسند کرتا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا معتقد تھا لیکن اُن کا عیسائیت میں جو تصور ہے اُس کا انکار کرتا تھا۔
گوئٹے کو اسلام میں سب سے پسندیدہ بات توحید لگتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔قرآن کے بارہ میں اُس کی شاعری بہت پُرمعرفت ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن کا عاشق تھا۔ وہ لکھتا ہے:
’’کیا قرآن ہمیشہ سے ہے، مَیں یہ نہیں پوچھتا۔
کیا قرآن تخلیق کیا گیا ہے یہ مَیں نہیں جانتا۔
یہ کتاب، امّ الکتاب ہے اور میرا مسلمان ہونے کے ناطے اسے ماننا فرض ہے۔‘‘
پھر مزید لکھتا ہے:
’’یہ ابدی (نشے والی) شراب ہے اس میں مجھے کوئی شک نہیں۔
یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرشتوں سے بھی پہلے تخلیق کی گئی ہو۔
اسے پینے والا چاہے وہ کیسا بھی ہو اُسے خدا کا عرفان حاصل ہوگا۔‘‘
گوئٹے نے قرآنی تعلیمات سے متأثر ہوکر کئی منظوم نصائح لکھی ہیں۔ عورت کے متعلق لکھا:
’’عورت سے نرمی کا سلوک کرو، اسے ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
خدا نے اسے سیدھا نہیں بنایا، اسے سیدھا کروگے تو ٹوٹ جائے گی۔
اور اگر اسے لاتعلق چھوڑوگے تو یہ اَور ٹیڑھی ہوجائے گی۔
اے بنی آدم! زیادہ بُرا کیا ہے؟ (بہتر ہے کہ) عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو۔
یہ اچھا نہیں ہے کہ تمہاری ایک پسلی ٹوٹ جائے۔‘‘
گوئٹے کا ایک شعر حافظؔ کے ایک شعر کے حوالہ سے لکھا گیا ہے جس میں کہتا ہے:
’’مَیں جو کچھ بھی کرسکا ہوں یہ صرف قرآن (کی برکت) سے ہے‘‘۔
گوئٹے کے پاس میگرلین کا کیا ہوا جرمن ترجمہ قرآن موجود تھا لیکن وہ اس ترجمہ کو بہتر بناتا رہتا تھا۔ جو آیات زیادہ پسند آتیں یا جن کا مضمون وہ اپنی شاعری میں ڈھالنا چاہتا، اُن آیات کو اپنے پاس لکھ لیا کرتا اور 70 سال کی عمر میں وہ اس خواہش کا اظہار کرتا تھا کہ وہ اس رات کو جشن منائے جس میں مکمل قرآن کریم نازل ہوچکا تھا۔
گوئٹے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں ایک کتاب لکھنے کا بھی ارادہ کیا (لیکن کبھی اسے مکمل نہ کرسکا)۔ تاہم زندگی بھر قرآن کریم اور آنحضورؐ سے اُس کی محبت بڑھتی ہی رہی۔ اور آخرت لمحات میں جب اُس کی بولنے کی طاقت ختم ہوچکی تھی تو ہوا میں انگلی کے اشارے سے وہ لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا رخصت ہوا۔ اگرچہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے نام کا پہلا لفظ W لکھ رہا تھا۔