جماعت احمدیہ اور خدمت قرآن
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 و 19مئی 2012ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے قرآن پڑھنے، پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کی سچی لگن کے چند دلکش واقعات شاملِ اشاعت کئے گئے ہیں۔ صادقانہ محبت کے ان عاشقانہ نظاروں میں سے انتخاب پیش ہے:
٭ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب اپنی خودنوشت ’’داستانِ حافظ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ میرے بچپن کا زمانہ تھا۔ قادیان میں اس زمانہ میں کوئی بیس کے قریب مساجد تھیں جہاں رمضان المبارک کے مہینہ میں عشاء کے بعد تراویح کا اہتمام ہوتا اور نہایت باقاعدگی کے ساتھ ان میں قرآن کریم ختم کیا جاتا۔ البتہ مسجد مبارک کو ایک خاص امتیاز حاصل تھا کہ وہاں عشاء کے بعد کی بجائے سحری کے وقت نماز تراویح کا اہتمام ہوتا تھا۔
1946ء میں ہمارا 9 افراد پر مشتمل واقفین مبلغین کا گروپ انگلستان کے لئے بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز روانہ ہوا۔ 3 ہفتے ہمیں اس سفر میں لگ گئے۔ ہمارا اکثر وقت درس و تدریس، باجماعت نمازوں اور نوافل کی ادائیگی میں گزرتا۔ تہجد کے نوافل کا بھی التزام رہا۔ امامت کا کام جہاز میں اس ناچیز کے سپرد تھا۔ چنانچہ موقع اور وقت کی مناسبت سے خاکسار نے یہ التزام کیا کہ فرض نمازوں اور تہجّد میں، جن میں قراء ت بالجہر کی جاتی ہے، سارا قرآن شریف ختم کیا جائے۔ اس کے بعد پھر رمضان المبارک میں لندن کی مسجد فضل میں 1946ء میں اور پھر ہالینڈ کی مسجد میں بھی قرآن ختم کرنے کی توفیق ملتی رہی۔
لندن میں تبلیغ کا ایک ذریعہ ہائیڈ پارک میں تقریر کرنے کا بھی تھا۔ انگریزی میں تقریر کرنے کی قابلیت تو اُس وقت نہ تھی تاہم حاضرین کو اکٹھا کرنے کے لئے تلاوت کئی دفعہ کی اور جب تلاوت کے نتیجہ میں کچھ لوگ جمع ہو جاتے تو ہم میں سے کوئی دوست تقریر شروع کر دیتے اور پھر تبادلہ خیال کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی رہائش ہمارے ہی مکان کے چوبارہ پر تھی۔ غالباً 1924ء کا زمانہ تھا۔ رمضان المبارک میں درس کے لئے تشریف لے جاتے تو گھر میں اپنی اہلیہ محترمہ کو ایک دفعہ پہلے سارا سپارہ سنا کر تشریف لے جاتے۔ آپ کی آواز میں ایک مٹھاس تھی۔ اسی طرح حافظ جمال احمد صاحب کا مسجد اقصیٰ میں قرآن مجید پڑھنا یاد ہے۔ حضرت حافظ سلطان حامد صاحب جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے بھی حافظ کلاس میں استاد رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے امام الصلوٰۃ ہوا کرتے تھے۔ ان کے پڑھنے کا رنگ بھی گو تحت اللّفظ کے طرز کا تھا مگر بہت پُرلطف تھا۔ یہی کیفیت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی کی تھی۔ انہیں قرآن پر بڑا عبور تھا اور قرآن پاک کے لفظ موتیوں کی طرح ان کے منہ سے نکلتے تھے۔ حافظ محمد رمضان صاحب حافظ کلاس میں مجھ سے سینئر تھے۔ ان کی تلاوت بھی بہت عمدہ تھی اور صحیح تھی۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک ضرورت کے پیش نظر صرف تین رات تراویح میں سارا قرآن کریم ختم کیا۔ حافظ مسعود احمد صاحب کی بڑی ہمت ہے کہ باوجود دوسری تعلیمی مصروفیات کے انہوں نے قرآن کریم کا دَور ہمیشہ جاری رکھا اس میں بہت حد تک ان کے والد صاحب حضرت بھائی محمود احمد صاحب کا بھی بڑا دخل ہے۔
بیسیوں خاص مواقع پر تلاوت کرنے کی اس عاجز کو سعادت نصیب ہوئی۔ جن میں پارٹیشن سے پہلے قادیان کا آخری جلسہ سالانہ بھی ہے۔اس وقت بھی جب 1942ء میں لاہور میں حضرت مصلح موعودؓ کا لیکچر ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ ہوا۔ نیز 1946ء میں قائداعظم جناح نے پاکستان کے ضمن میں ایک اہم لیکچر لندن کے Castonhall میں دیا۔ اس وقت بھی تلاوت خاکسار نے کی۔ پھر یورپ میں چار احمدیہ مساجد جو سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، فرینکفرٹ اور ہیمبرگ میں تعمیر ہوئیں، اُن کی افتتاحیہ تقاریب میں تلاوت قرآن کریم کی توفیق ملی۔ لندن میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی موجودگی میں متعدد مرتبہ تلاوت کا موقعہ ملا۔مسجد فضل لندن میں 1979ء سے 1985ء تک تراویح پڑھانے کی سعادت بھی حاصل رہی۔
٭ مکرم محمد شفیق قیصر صاحب اپنے والد محترم چوہدری محمدحسین صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ راجن پور کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئے اور پھر آپ کی تبلیغ سے خاندان کے دیگر افراد احمدیت کی آغوش میں آئے۔ آپ چھوٹی عمر میں قادیان تشریف لے آئے۔ قرآن کریم کے عاشق تھے اور ایک چھوٹے سائز کا قرآن کریم ہر وقت آپ کے پاس رہتا۔ جب بھی موقع ملتا تلاوت کرنے لگتے۔ آپ زمیندار تھے۔ بیلوں کے ذریعہ ہل چلاتے ہوئے جب تھک جاتے تو آرام کرنے کے دوران قرآن کریم پڑھتے۔ آپ کو فارغ بیٹھے ہوئے نہ دیکھا۔ یا تو آپ کسی کام میں مشغول ہیں، سو رہے ہیں یا پھر قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوتے۔ اگر روشنی نہ ہوتی توبعض مسنون قرآنی دعائیں بآواز بلند بڑے سوز سے پڑھتے رہتے۔
٭ مکرم مسعود احمد صاحب خورشید سنوری اپنے ربّ کریم اور اس کے پاک کلام سے شدید محبت رکھتے تھے۔ روزانہ کئی گھنٹے نوافل اور تلاوت میں گزرتے۔ قرآن کریم کا ذاتی نسخہ، جس پر جابجا حاشیوں میں اور مزید کاغذ لگا کر نشان لگائے ہیں کہ کن نکات پر رُک کر غور کرو اور حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کی تفاسیر کے حوالے درج کئے ہیں۔ وفات سے پہلے اپنی ایک عزیزہ سے کہا کہ میرے بعد یہ نسخہ اپنے ساتھ لے جانا اور پڑھنا پڑھانا۔
کراچی میں آپ کا گھر جماعتی تقریبات کا مرکز تھا۔ سالہا سال پورا رمضان روزانہ آپ خود اور دیگر علماء قرآن کا درس دیتے رہے۔ فجر کے بعد بلند آواز میں باقاعدگی سے تلاوت کرتے۔ دفتر جاتے اور واپسی پر سارا وقت تلاوت میں ہی گزارتے۔ آخری وقت میں بچوں کو جو نصائح کیں ان میں سب سے اہم بات یہ تھی نماز اور قرآن پڑھنے کا ہمیشہ خیال رکھنا۔
امریکہ آبسے تو کثرت سے قرآن کریم کے نسخے تحفۃً تقسیم کرتے رہے۔ آخری دو سالوں میں دن کا زیادہ وقت قرآن شریف پڑھتے یا سنتے گزارتے۔ تلاوت ختم کرنے کے بعد ہمیشہ قرآن کریم کو بوسہ دے کر بند کیا کرتے تھے۔ Laptop اسی لئے خریدا کہ تلاوت سن سکیں۔ بتاتے تھے کہ اُن کے والد حضرت مولوی محمد موسیٰ صاحبؓ نے مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ دیکھنا میرے بعد گھر میں ہمیشہ قرآن پاک کھلا رہے، یعنی ہر روز اس کی تلاوت ہوتی رہے۔ آپ کو قرآن شریف کا کافی سارا حصہ زبانی یاد تھا جسے نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔
ایک بار جامعہ احمدیہ ربوہ کے 100 طلباء کو قرآن مجید تحفے کے طور پر بھجوائے۔ آپ کے داماد جب بھی اپنے زیرتبلیغ دوستوں کو ربوہ لے جاتے تو اُن دوستوں کو اپنی طرف سے قرآن پاک تحفے میں دلواتے۔ 2005ء میں آپ نے قرآن کریم کے 200 نسخہ جات ہندوستان کی احمدیہ لائبریریوں میں رکھوانے کے لئے 1100 پاؤنڈ کا چیک لندن مرکز کو دیا۔ الغرض کثرت سے قرآن کریم کے نسخے تقسیم کرتے رہے۔
٭ محترمہ رشیدہ تسنیم خان صاحبہ اپنے والد محترم خیرالدین بٹ صاحب کے ذکر میں لکھتی ہیں: آپ کو صحیح تلفّظ کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کا شوق تھا۔ اکثر مسنون عبادات، دعاؤں اور قرآن حکیم کی تلاوت میں منہمک رہتے۔ آپ کے تقویٰ طہارت کے باعث ملازمت کے دوران جہاں جاتے وہاں امام الصلوٰۃ بنالئے جاتے۔ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اور دیگر دعاؤں کا تکرار کرتے۔ اپنے ماحول میں بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا فریضہ بڑے شوق سے ادا کرتے۔
٭ مکرم محمد شفیع خان صاحب لکھتے ہیں کہ 1965ء میں لاہور کی مسجد میں چارٹرڈاکاؤنٹنٹ مکرم انشاء اللہ خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ (عمر) 50 کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پاس عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت خالی ہے، تم مجھے کچھ ایسے بچے ڈھونڈکر دو جنہیں میں قرآن شریف پڑھا دیا کروں۔ میں نے اُن سے پوچھا کیا آپ کے پاس گاڑی ہے جس پر آپ دوتین میل دُور جاسکیں۔ کہنے لگے گاڑی تو ہے لیکن مَیں پیدل جایا کروں گا تاکہ میری واک بھی ہو جائے۔ کچھ دن بعد پھر انہوں نے اس بارہ میں مجھ سے پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ کوشش کر رہاہوں۔ اس پر وہ ناراض ہوگئے۔ کئی روز بعد ملے تو بہت خوشی سے بتایا کہ مجھے بچے مل گئے ہیں۔ وہ صبح تہجد ادا کرکے گھر سے نکلتے اور پیدل بچوں کے گھر جاکر پہلے نماز فجر ادا کرتے پھر بچوں کو قرآن کریم پڑھا کر پیدل ہی واپس آتے۔ اسی طرح دفتری اوقات کے بعد پیدل نکلتے اور قرآن کریم پڑھا کر مغرب تک واپس آجاتے۔ انہوںنے یسرنا القرآن منگوا کر رکھے تھے جو بلامعاوضہ بچوں کو دیتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ قول بہت عزیز رکھتے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔
٭ حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا کو جاسوسی کے الزام میں روس کی جیلوں میں غیرانسانی اذیّتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ فرماتے ہیں: مَیں دن رات بس اللہ تعالیٰ سے ہی دعائیں مانگتا اور حسب عادت رات کو تہجد کے لئے اٹھتا۔ صبح کے وقت نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کرتا اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو نفل ادا کرتا اور اللہ کریم سے اپنی حفاظت اور بچاؤ کی دعا مانگتا۔
اشک آباد جیل خانہ میں بہت سے ترک قیدی تھے۔ وہ مجھے روزانہ نماز پڑھتے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے دیکھتے تھے اور ان میں سے بہتوں کو مجھ سے شدید محبت ہوگئی۔ تاشقند جیل میں بھی بہت سے مسلمان قیدی تھے انہوں نے مجھے اپنا امام منتخب کرلیا اور سب میری اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔
٭ مکرم چوہدری عبدالرشید صاحب (برادر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نوبل لارئیٹ) اپنے والد محترم چوہدری محمدحسین صاحب کے متعلق لکھتے ہیں: قرآن پاک اور کتب حضرت مسیح موعودؑ ہر وقت پڑھنے کی عادت تھی۔ ہمیشہ قرآن پاک کا درس گھر میں خود دیتے تھے اور ہم سب بچوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن پاک یاد کرنے کی تلقین کرتے تھے۔
٭ حضرت مولوی محمد الیاس صاحب نے جب احمدیت قبول کی تو لوگ اُن کی اہلیہ اشرف بی بی صاحبہ کے پاس اپنی عورتوں کو بھیجتے کہ محمد الیاس قادیانی کافر ہو گیا ہے اور تمہارا نکاح اُس سے ٹوٹ گیا ہے، تم اپنی والدہ کے گھر چلی جاؤ، ہم تمہارا دوسرا نکاح کسی اور شخص سے کرا دیں گے۔ وہ کہتیں: یہ کیسا کافر ہے؟ جو نمازیں پڑھتا ہے، تہجد کی نماز میں روتا ہے اور قرآن پاک ہر وقت پڑھتا رہتا ہے۔ اگر یہ کافر ہے تو میں بھی کافرہ ہوں۔
٭ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے والد محترم حافظ محمد عبداللہ صاحب صبح کی نماز کے بعد بچے اور بچیوں کو تین چار گھنٹے قرآن پڑھاتے اور نماز سادہ اور باترجمہ سکھاتے۔ آپ کی اس محنت شاقہ کا نتیجہ تھا کہ گاؤں کی اکثریت قرآن کریم اور نماز باترجمہ جانتی تھی۔ایک چھوٹے سے کمرہ میں رہائش تھی جس کے سامنے درخت کے سایہ میں چارپائی ڈال کر بیٹھ جاتے اور سارا دن بچوں، بچیوں اور دیگر لوگوں کو دینی علوم سے فیضیاب کرتے۔
٭ محترمہ وحیدہ حنیف صاحبہ اپنے سسر مکرم سید رفیق احمد شاہ صاحب کے متعلق لکھتی ہیں کہ بڑی بچی نے قرآن حفظ کیا تو رمضان میں مسجدمبارک میں تراویح پڑھنے لے جاتے کہ قرآن سن کر دوہرائی ہو جائے گی۔ بچیوں کو کہتے کہ میرے پاس بیٹھ کر تلاوت کرو۔
وفات سے آٹھ دن قبل قومہ میں چلے گئے۔ مَیں روزانہ چار گھنٹے وہاں رُکتی اور اس دوران سورۃ یٰسین اور پھر دعائیہ آیات کی بآواز بلند تلاوت کرتی۔ وفات سے ایک روز قبل مَیں نے تلاوت شروع کی تو آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ۔ میں نے السلام علیکم کہا۔ سر ہلا کر جواب دیا۔ مَیں نے پوچھا پڑھوں ؟ سر کے اشارہ سے جواب دیا کہ ہاں۔ مَیں پڑھتی رہی، میری طرف دیکھتے رہے۔
٭ چنیوٹ کے حاجی تاج محمود صاحب نے 1902ء میں تحریری بیعت کی۔ 1939ء میں رمضان شریف کے مہینہ میں اُن کی اہلیہ کی وفات اُس وقت ہوئی جب حاجی صاحب مع چند اور احمدیوں کے ایک ہمسایہ کے ہاں تراویح کی نمازپڑھ رہے تھے اور اُن کا ایک حافظ قرآن نواسہ قرآن مجید سنا رہا تھا۔ چار تراویح پڑھی جاچکی تھیں۔ اہلیہ کے انتقال کی اطلاع ملی تو حاجی صاحب نے اِنّا لِلّٰہ پڑھا اور اپنے نواسے کو ہدایت کی کہ بقیہ چار تراویح میں حسب معمول قرآن مجید سنائے۔ پھر پوری نماز ختم کرنے کے بعد وہ اور دیگر اقرباء آپ کے گھر پہنچے۔
1941ء میں چنیوٹ میں جب مسجد تعمیر ہوئی تو اس دن سے آخری ایام تک وہ مسجد ان کا ملجا و ماویٰ بنی رہی۔ ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت اور وعظ و نصیحت میں مصروف رہتے تھے۔
٭ محترم عبدالرحمٰن صاحب دہلوی کے متعلق ان کے بیٹے لکھتے ہیں: جب آپ کینیڈا آئے تو چند دن بعد مجھے کہنے لگے کہ پاکستان میں تم نماز اور قرآن روزانہ پڑھنے کی پابندی کرتے تھے لیکن اب دین کا خانہ بالکل خالی ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ تم پاکستان میں رہتے لیکن دین تمہارے پاس رہتا۔ مَیں نے ان سے معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ کبھی انہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ چنانچہ ستائیس سال پہلے کی گئی اس نصیحت کے بعد نہ صرف مَیں نے نماز اور قرآن کی تلاوت میں باقاعدگی اختیار کی بلکہ روزانہ نصف گھنٹہ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب بھی آپ کو سنایا کرتا اور اس طرح کم ازکم تین بار ساری کتب بھی پڑھ ڈالیں۔ آپ کی آنکھوں کے دو آپریشن ہوئے جس کے بعد صحیح طور پر تلاوتِ قرآن یا حضرت مسیح موعودؑ کی کتب نہ پڑھ سکتے تھے جس کا آپ کو بہت صدمہ تھا۔
٭ محترم شیخ محمد یعقوب صاحب چنیوٹی نے قابلِ رشک انداز میں درویشی کا عرصہ اس طرح گزارا کہ آپ کو دیکھ کر ذکر الٰہی کا مفہوم پوری طرح ذہن میں سما جاتا تھا۔ تہجد کے اوّلین لمحات میں مسجد مبارک میں پہنچ جاتے۔ اور صبح کی نماز سے فارغ ہو کر ایک لَے اور ترتیل اور سوز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت اس طرح کرتے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پپوٹوں نے آنسوؤں کا ایک سیلاب روک رکھا ہے۔ معصومیت کا ایک ہالہ سا آپ کے چہرہ کو گھیرے رہتا تھا۔
٭ مکرم چوہدری محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان قرآن کریم کی تلاو ت بڑی خوش الحانی سے کرتے تھے اور تلفظ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ رمضان المبارک میں 3 دن میں دَور مکمل کر لیا کرتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے آپ کے کتبے کی عبارت پر لکھوایا ’’تلاوت قرآن پاک میں خاص شغف رکھتے تھے‘‘۔
٭ محترم مولوی محمد شریف صاحب کو حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے ایک معاندِ احمدیت کی رپورٹ پر اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ حرم میں مقامِ ابراہیم کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ وہ جنوری 1974ء سے مئی 1974ء تک جیل میں رہے۔ انہوں نے جیل کے کمرہ میںداخل ہوتے ہی قرآن کریم طلب کیا اور اکثر وقت اس کی تلاوت میں گزارتے تھے اور نہایت خشوع و خضوع سے نمازیں ادا کرتے۔
٭ 1913 ء میں ایک غیراحمدی صحافی محمد اسلم صاحب چند دن کے لئے قادیان آئے اور واپس جاکر اپنے تأثرات میں لکھا: صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلاتمیز بوڑھے و بچے اور نوجوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا۔ دونوں احمدی مساجد میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا۔
٭ خان بہادر سعداللہ خان صاحب خٹک آف پشاور نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر 1911ء میں بیعت کی اور پھر وہ تبدیلی اختیار کی کہ آپ ولی اللہ بن گئے۔ ایک دفعہ اُن کے ایک پرانے دوست قاضی محمد احمد جان صاحب چند افسران کے ساتھ بطور جرگہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ خان صاحب ہم کو آپ کے احمدی ہونے پر سخت صدمہ ہے۔ کیا اچھا ہو اگر آپ پھر توبہ کرلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ جب مَیں آپ کی طرح مسلمان تھا تو آپ کو معلوم ہے کہ آپ صاحبان کی مہربانی سے نہ نماز پڑھتا نہ تہجد نہ قرآن کریم سے کوئی واقفیت یا تعلق تھا سارا دن تاش اور شطرنج میں گزرتا اور لڑکے آکر ناچتے۔ خدا بھلا کرے ہمارے مولوی مظفر احمد صاحب کا جن کے نیک نصائح اور پاک صحبت نے اس گندی زندگی سے بیزار کرا کر پابند نماز و تہجد کیا اور درس قرآن کا شوق دلایا۔ اگر دین یہ نہیں جو احمدیت کے ذریعہ حاصل ہوا اور دین دراصل وہ تھا جو میں آپ لوگوں کی رفاقت میں اختیار کرچکا تھا تو مجھے یہ کفر اس دین سے پسندیدہ ہے۔
٭ مکرم میاں ثناء اللہ صاحب راجوری مقامی جماعت بڈھانوں کے عرصہ تک صدر رہے۔ جماعت کی تعلیم و تربیت میں بہت کوشاں رہتے۔ مردوں اور عورتوں کو یسرناالقرآن، قرآن کریم ناظرہ اور پھر ترجمہ پڑھانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ بہت سے مرد اور عورتیں جو کہ بڑی عمر تک پہنچ چکے تھے مگر قرآن کریم پڑھنا نہ جانتے تھے۔ آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں قرآن کریم ناظرہ و ترجمہ و دیگر دینی کتب پڑھنے لگے۔
٭ مکرم مجید احمد بشیر صاحب اپنے والدین (محترم چوہدری نذیر احمد صاحب اور مریم صدیقہ صاحبہ) کے متعلق لکھتے ہیں: والد صاحب کو قرآن مجید سے عشق تھا محترمہ والدہ صاحبہ خود بھی تلاوت کی عادی تھیں اور اپنی اولاد کو بھی سختی سے پابند ی کرواتی تھیں۔ محترم والد صاحب ملازمت کے سلسلہ میں مختلف شہروں میں مقیم رہے لیکن ماہ رمضان ربوہ میں ہی گزارتے اور قرآن کریم کے دو تین دَور کرتے اور ہمیں بھی قرآن کریم صحت سے پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے۔ مسجد مبارک میں درس قرآن سے استفادہ کرتے اور ہماری بھی نگرانی کرتے۔ خاکسار کو قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کی نصیحت کرتے اور یہ ہدایت تھی کہ ہر اتوار کو اُن کو خط لکھوں اور جو ترجمہ انگریزی میں پڑھا ہے اُس کا خلاصہ اُردو میں کر کے اس میں درج کروں۔ چنانچہ اس طرح فہمِ قرآن کے علاوہ انگریزی بھی بہتر ہوتی گئی۔ اپنی اولاد دَر اولاد کو بھی قرآن کریم پڑھانے کے لئے خصوصی دعائیں اور کوششیں کیں۔ ایک بچہ کو قاعدہ شروع کروایا تو وہ جزم پر پہنچ کر بالکل اٹک گیا۔ یہ صورتحال آپ نے حضورپُرنُور کی خدمت میں بذریعہ خط عرض کرکے رہنمائی طلب کی تو حضورانور نے فرمایا کہ ’’گھبرائیں نہیں بعض بچے بعض خاص جگہ اٹکتے ہیں صرف سمجھا کر آگے گزر جانا چاہئے۔ عمر کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ خود ہی سمجھ آجائے گی ‘‘۔
٭ مکرم محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کو قرآن کریم سے غیرمعمولی محبت اور عشق تھا۔ یوں تو اس کا اظہار مختلف انداز سے ہوتا رہتا، کبھی آپ قرآن کریم کے نسخے کے اوپر دھری کوئی کتاب حتیٰ کہ کاغذ پنسل بھی دیکھتے تو فوراً اسے ہٹا دیتے کہ قرآن کریم کو ظاہری طور پر بھی سب سے اوپر ہونا چاہئے۔ ایک مرتبہ قرآن کریم طبع ہو کر آیا تو آپ نے پیکٹ میں سے ایک نسخہ نکالا اور اسے بے اختیار ہو کر چومنے لگے۔ آپ کا علم قرآن بھی آپ کے عشق قرآن کا مظہر تھا۔ آپ کو قرآنی مضامین پر ایسا مضبوط عبور حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ معروف حوالے تو مرحوم کی نوک زبان پر ہوتے ہی تھے مگر دیگر مضامین بھی بڑی وضاحت کے ساتھ آپ کو مستحضر رہتے۔ اپنی کتب کی تصنیف کے دوران کتاب کے متن میں قرآنی مضامین کو نگینوں کی طرح جڑتے چلے جاتے تھے۔ عربی نہ جاننے کی وجہ سے آیات کی تلاش کے لئے بعض اوقات خاکسار سے مدد لیتے۔ آپ مطلوبہ مضمون مجھے بتاتے اور اس کا حوالہ پوچھتے۔ بہت مرتبہ ملتے جلتے مضامین والی آیات سامنے آتیں تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک عین وہ آیت نہ مل جاتی جس کا مضمون ان کے ذہن میں ہوتا۔ اس سے ان کی اس باریک نگاہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو قرآنی مضامین پر تھی۔
قرآن کریم کی نمائشوں کے لئے آپ نے اپنی ذاتی لائبریری سے قرآن کریم کے بہت سے نادر نسخے مہیا کئے اور بعض بہت قدیم نسخے خریدنے کے لئے تلاش کرکے دیئے۔ ادرک کا استعمال بھی آپ کو اسی لئے بہت اچھا لگتا تھا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے۔
٭ حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب احمدی ہونے سے قبل آغاخانی خیالات کے زیر اثر سمجھتے تھے کہ قرآن عربوں کے لئے تھا ہمیں اس کی ضرورت نہیں اس لئے قرآن مجید پڑھنا بھی چھوڑ چکے تھے مگر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے پڑھنے سے آپ کے اندر زبردست تبدیلی رونما ہو گئی اور نہایت ولولہ اور شوق سے مطالعہ قرآن میں منہمک ہو گئے اور بالآخر احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔ آپ کے پوتے ڈاکٹر حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’بعد نماز فجر آپ ہم سے ترجمہ قرآن سنتے تھے۔ میں نے جب حفظ قرآن مجید مکمل کرلیا تو جس محبت و شفقت سے آپ نے اس عاجز سے معانقہ کیا اور پیار کیا وہ بیان سے باہر ہے اور اس خوشی میں آپ نے مجھے سو روپیہ بطور تحفہ عطا کیا‘‘۔
٭ محترم صالح محمد الٰہ دین صاحب کے بارہ میں اُن کے بیٹے مکرم سلطان محمد الٰہ دین صاحب لکھتے ہیں:ابو کو قرآن مجید سے بے پناہ عشق و لگاؤ تھا۔ اپنے والد محترم سیٹھ علی محمد الٰہ دین صاحب کی خواہش پر آپ نے قرآن مجید حفظ کیا۔ نیز آپ کے نانا نے بھی آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے حافظ قرآن بننے کی دعا کی تھی۔ چنانچہ آپ اپنے والد صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہر روز اپنے گھر کے تہ خانہ میں جا کر قرآن کریم حفظ کرتے اور دس بارہ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں حافظ قرآن بنا دیا۔ آپ کی تربیت میں گھر والوں کے علاوہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کا بھی اہم کردار تھا جو سکندرآباد میں درس قرآن دیا کرتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مَیں درس صالح محمد کے لئے دیتا ہوں۔ اور فرمایا کہ اُن کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین تیار کرکے دیکھ لیں۔ چنانچہ اُن کی وفات کے بعد آپ نے سکندر آباد میں التزام کے ساتھ درس قرآن کا اہتمام کیا۔ اور آپ کی ہجرت کے بعد خاکسار نے اسے جاری رکھا۔
آپ قرآن مجید کو کثرت سے پڑھتے بہت غوروفکر اور سائنسی ریسرچ کرتے، اس پر عمل کرتے اور ہمیں بھی توجہ دلاتے۔ وہ اکثر کہتے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور سائنس اللہ تعالیٰ کا فعل۔ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا۔ جب بھی کسی قرآنی آیت کے معارف انہیں سمجھ میں آتے وہ خلیفہ وقت کو لکھتے۔
٭ محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب اپنے علاقہ میں قرآن کریم پڑھانے میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ بیسیوں احمدی بچوں اور بچیوں کے علاوہ سینکڑوں غیرازجماعت افراد کو بھی قرآن سکھایا۔ چنانچہ مخالفت کے باوجود نہایت احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں قرآن کریم حفظ کیا اور پھر 50 سال تک خوشاب اور ربوہ میں قرآن کریم تراویح میں سنایا۔
٭ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کے بارہ میں محترمہ امۃ الکافی صاحبہ لکھتی ہیں: علی الصبح اکثر ناشتہ شروع ہی کیا ہوتا کہ لڑکیوں اور خواتین کا ترجمۃالقرآن سیکھنے کے لئے جمع ہونے کا آغاز ہو جاتا۔ دو اڑھائی گھنٹے یہ سلسلہ جاری رہتا اور سب کی باقاعدہ ریکارڈ بُک بناتی تھیں۔ حاضری لگتی۔ حضور خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد سے MTA پر براہ رست ماہ رمضان میں قرآن مجید کا درس آنے تک تقریباً باقاعدگی سے اپنے گھر میں خاندان کی خواتین کو درسِ قرآن دیا کرتی تھیں۔ پہلے سے اس کی باقاعدہ ہر صبح تیاری کرتیں اور بعد نماز عصر یہ درس ہوتا۔
محترم سید میرمحمود احمد صاحب فرماتے ہیں: حضرت مصلح موعودؓکو قرآن مجید سے عشق تھا۔ یہ عشق حضرت چھوٹی آپا کو بھی ملا۔ خود تو قرآن پڑھتی تھیں نوٹس لیتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ترجمہ کلاس اور درس القرآن MTA پر باقاعدہ اور بڑے اہتمام سے سنتیں اور قرآن شریف ہاتھ میں ہوتا۔ قرآن مجید جس کو استعمال کرتی تھیں اس میں سو سو، دودو سو صفحات کے فاصلہ سے آیات پر Cross ریفرنس ہے۔ بتاتی تھیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو پڑھانے کے لئے قرآن شریف کے ایک درس کا سلسلہ شروع فرمایا تھا۔ بعض واقفین نے بھی اس درس میں شامل ہونے کی خواہش کی۔ چنانچہ حضور نے اوپر کمرہ میں یہ درس جاری کر دیا اور واقفین مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھتے اور درس میں شامل ہوتے۔ ربوہ میں چھوٹی آپا صبح بہت سویرے لڑکیوں کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانا شروع کر دیتی تھیں۔ یہ لڑکیاں مختلف محلوں سے آتی تھیں۔ ان کی شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
٭ حضرت مولانا عبدالمالک خانصاحب کی اہلیہ محترمہ سرور جہاں صاحبہ محلہ میں بچوں کو قرآن کریم پڑھنے پڑھانے پر بہت زور دیتیں اور ہر سال ایک تقریب آمین کرواتیں جس میں ان بچوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی جنہوں نے قرآن کریم ختم کیا ہوتا۔ بچوں کی مائیں اور دوسری عورتیں بھی شامل ہوتیں۔
٭ حضرت حافظ فتح محمد صاحبؓ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو اپنی معصوم پوتی بی بی غلام سکینہ کو اپنی گود میں لے لیتے اور وہ اپنے دادا جان کی گود میں آپ کی غیرمعمولی حسن قراء ت کو ہمہ تن گوش ہو کر سنتی رہتیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میری اس پوتی (غلام سکینہ) کو قرآن پاک سے بے انتہا عشق ہوگا۔ آپ کا یہ فرمان بعد میں من و عن پورا ہوا۔ گاؤں بزدار کی آبادی تقریباً 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور جملہ غیرازجماعت خواتین کو غلام سکینہ نے قرآن پڑھانے کی سعادت پائی جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
٭ محترمہ خاتم النساء صاحبہ اہلیہ محترم مولانا محمد شفیع اشرف صاحب کو قرآن کریم سے بڑی محبت تھی۔ کثرتِ تلاوت کی وجہ سے صرف قراء ت سن کر اس میں کوئی غلطی ہو تو اصلاح کر دیتی تھیں۔ درس ہوتا تو بڑے شوق سے اس میں شامل ہوتیں۔ بلکہ ہمیشہ یہ خواہش رکھتی تھیں کہ درس ان کے گھر میں ہو۔ قرآن کریم سے اس محبت کے بعض ظاہری آثار بھی تھے اور قرآن کے خوبصورت جزدان یعنی کپڑے کے غلاف تیار کرنا گویا ان کا مشغلہ تھا۔
٭ محترمہ شبانہ حفیظ اپنی خوش دامن مکرمہ سلمیٰ مطہرہ کے متعلق لکھتی ہیں: فجر کی نماز کے بعد ہر روز تلاوت کرتی تھیں۔ وفات سے کچھ سال پہلے نظر بہت کم ہو گئی تھی لیکن قرآن مجید کی بڑی چھوٹی بہت سورتیں زبانی یاد کی ہوئی تھیں جو پڑھتی تھیں اور بعض دفعہ مجھے فرماتیں کہ تم قرآن مجید کھول کر مجھ سے سنو۔
٭ مکرم پروفیسر محمد شریف خانصاحب اپنی اہلیہ محترمہ رشیدہ تسنیم صاحبہ کے متعلق لکھتے ہیں: لجنہ کے زیرانتظام منعقدہ کلاس برائے درستگی تلفظ قرآن میں شا مل ہو کر صحیح تلاوت سیکھی۔ پھر زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت اور حضرت مسیح موعود کی فرمودہ تفسیر قرآن کے مطالعہ میں صرف ہوتا۔ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے قرآن شریف کے درس بڑے انہماک سے سنتیں اور ساتھ ساتھ نوٹس لیتی جا تیں اور ان کی رو شنی میں گھر میں مختلف دینی مسائل پر گفتگو کرتیں۔ امریکہ شفٹ ہوکر بھی یہاں رشتہ دار بچوں کو قاعدہ اور قرآن کریم پڑھاتیں۔ قریب رہنے والی مستورات کو اُن کی خواہش پر قرآن کریم گھر جا کر بھی پڑھاتیں۔ ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی قرآن کلاس میں باقاعدہ شامل ہوئیں، قرآن کریم ہاتھ میں رکھتیں اور نوٹس لیتیں۔ جب حضورؒ کا ترجمہ قرآن چھپا تو خرید کر کئی عزیزوں کو تحفہ میں دیا۔
٭ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ کا کہنا تھا کہ پہلے بچہ قرآن پاک ختم کرے پھر اس کو سکول میں داخل کرو۔ اگرچہ آپ کا تلفظ قرآن پاک بہت اچھا تھا مگر جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے عربی تلفظ سیکھنے کی تحریک کی تو عمر زیادہ ہونے کے باوجود بہت شوق سے کلاسز میں شامل ہو کر کے عربی تلفظ خود بھی سیکھا اور دوسروں کو بھی تحریک کی۔ چنانچہ آپ کو دیکھتے ہوئے بہت سی بزرگ خواتین نے بھی سیکھا۔ آپ 1977ء میں وصیت کی بابرکت تحریک میں بھی شامل ہوئیں تو پھر ایک جہاد کی شکل میں اَن گنت بچوں اور بچیوں اور بعض عمررسیدہ خواتین کو بھی قرآن پاک سادہ اور ترجمہ سے پڑھایا۔ کہا کرتی تھیں کہ ہر وصیت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ دوسری نیکیوں کے ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھائے۔ بوقت وفات بھی وینکوور میں وقف نو کے بچوں کو قرآن پڑھانے کا کام آپ کے سپرد تھا۔ پنجوقتہ نماز اور قرآن کی تلاوت کا خود بھی التزام کرتیں اور اپنی اولاد کو بھی نصیحت کرتیں کہ ان دونوں چیزوں کو کبھی نہ چھوڑنا۔ اسی میں نجات ہے۔ رمضان المباک میں ہمیشہ دو مرتبہ قرآن پاک کا دور مکمل کرتیں ایک دفعہ سادہ اور ایک دفعہ ترجمہ سے ۔