جناب الطاف حسین حالیؔ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍جولائی 1999ء میں اردو کے نامور شاعر جناب الطاف حسین حالیؔ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرمہ طلعت بشریٰ صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ حالیؔ 1835ء میں پانی پت میں خواجہ ایزد بخش انصاری کے ہاں پیدا ہوئے۔ بادشاہ غیاث الدین بلبن کے عہد میں آپ کے ایک بزرگ ملک علی ہرات سے ہندوستان آئے اور پانی پت میں آباد ہوئے۔ نو برس کی عمر میں حالیؔ کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا۔ ماں پہلے ہی وفات پاچکی تھی۔ چنانچہ پرورش بڑے بھائی امداد حسین نے نہایت شفقت سے کی۔ حالیؔ نے پہلے قرآن کریم حفظ کیا ، پھر فارسی کتب پڑھیں اور پھر عربی صرف و نحو پڑھی۔ سترہ برس کی عمر میں آپ کی شادی آپ کی مرضی کے خلاف کردی گئی چنانچہ آپ بغیر کسی کو بتائے دہلی چلے گئے اور تقریباً ڈیڑھ سال عربی، صرف و نحو اور منطق کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔
دہلی میں حالیؔ کو مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کی صحبت بھی میسر آئی۔ مرزا غالبؔ نے آپ کی چند غزلوں کو دیکھ کر کہا کہ ’’اگرچہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تم اگر شعر نہ کہوگے تو اپنی طبیعت پر ظلم کروگے‘‘۔
1855ء میں حالیؔ عزیزوں کے اصرار پر واپس پانی پت چلے گئے اور کچھ دیر بعد ضلع حصار کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔ 1857ء کا غدر مچا تو پانی پت آگئے اور چار برس گھر میں مقیم رہ کر لکھنے پڑھنے کا شغل جاری رکھا۔ پھر غالبؔ کے شاگرد نواب مصطفی خان شیفتہؔ رئیس جہانگیر آباد کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ حالیؔ کے کلام میں سادگی، صفائی اور اصلیت کا رنگ شیفتہؔ کا ہی مرہون منت ہے۔ آپ خود کہتے ہیں ؎
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہوں
غالبؔ کا معتقد ہوں مقلد ہوں میرؔ کا
حالیؔ سات برس تک نواب شیفتہ کے ساتھ مقیم رہے اور پھر اُن کے انتقال پر لاہور آگئے اور پنجاب بک ڈپو میں ملازم ہوگئے۔ یہاں انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتب کی اصلاحِ زبان پر مامور ہوئے جس سے آپ کو انگریزی طرز تحریر سمجھنے کا موقع ملا۔ 1874ء میں محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر کرنل ہالرایڈ کی فرمائش پر مولانا محمد حسین آزادؔ کے ساتھ مل کر نئی طرز کے مشاعروں کی بنیاد رکھی جس میں مصرعہ طرح کی بجائے نظم کا عنوان دیا جاتا تھا۔ حالیؔ نے بھی چار نظمیں لکھیں۔
لاہور میں چار سال قیام کے بعد آپ پھر دلّی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے۔ یہیں آپ کی ملاقات سرسید سے ہوئی اور سرسید کی خواہش پر آپ نے 1889ء میں مسدس مدوجزر اسلام لکھی جو مسدس حالیؔ کہلائی اور آپ کی شہرت کا باعث بنی۔ بعد ازاں آپ ملازمت چھوڑ کر تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے اور بہت سی کتب لکھیں۔ 1904ء میں آپ کو شمس العلماء کا خطاب ملا۔ 31؍دسمبر 1914ء میں آپ کی وفات ہوئی۔
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے جب شعر کہنے شروع کئے تو آپؓ نے حالیؔ کو خط لکھا اور شاعری میں حالیؔ کا شاگرد بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس خط کا جواب حالیؔ نے یوں دیا کہ میاں صاحبزادے! اپنی قیمتی عمر کو اس فضول مشغلے میں ضائع نہ کرو۔ یہ عمر تحصیل علم کی ہے۔ پس دل لگاکر علم حاصل کرو۔ جب بڑے ہوگے اور تحصیل علم کرچکوگے اور فراغت بھی میسر ہوگی ، اُس وقت شاعری بھی کرلینا۔
حالیؔ نے اپنی شاعری کا آغاز اگرچہ حسن و عشق اور ہجر و وصال کے قصوں سے ہی کیا تھا لیکن غالب و شیفتہ کی صحبت نے آپ کو عامیانہ اور رکیک خیالات سے پاک رکھا۔ چنانچہ اردو شاعری کو نئے مضامین سے مالامال کرنے کی وجہ سے آپ کو جدید اردو شاعری کا بانی کہا جاتا ہے۔ اردو تنقید کی پہلی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ بھی حالیؔ نے ہی رقم کی۔
حالیؔ کی شاعری میں سماجی مسائل کے بارہ میں اصلاحی نکتہ نظر پر مشتمل مضامین ملتے ہیں۔ ہندوستان میں عورت کی مظلومیت اور انصاف کے لئے سب سے پہلے آپ ہی نے آواز بلند کی۔ آپ کی شاعری میں اظہار کی سادگی، تشبیہات اور استعاروں میں حقیقت و اصلیت کا عنصر نمایاں ہے۔ تکلّف کی بجائے سلاست و روانی کا فطری انداز موجود ہے۔ آپ نے ایک سچے ادیب کی طرح مذہبی اور قومی قدروں سے اپنے ادب میں جان پیدا کردی اور ایک ایسی روایت قائم کی جس کی تقلید آنے والے شعراء نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اردو شاعری کا تصور بدل دیا۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اَور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تُو مگر کہاں
یاران تیزگام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
یا ربّ اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اُس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کرلو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
جو دل پہ گزرتی ہے کیا تجھ کو خبر ناصح
کچھ ہم سے سنا ہوتا پھر تُو نے کہا ہوتا
دنیائے دنی کو نقش فانی سمجھو
روداد جہاں کو اِک کہانی سمجھو
پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو