حضرت حاجی غلام احمد صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ آف کریام ضلع جالندھر 76-1875ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے نماز کے عادی اور تہجد گزار تھے۔ حضرت میاں کریم بخش صاحبؓ نے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چند کتب پڑھنے کے لئے دیں جن کے مطالعہ کے بعد آپؓ نے استخارہ کیا اور تصدیق میں خواب دیکھنے کے بعد فروری 1903ء میں قادیان جاکر بیعت کر لی۔ ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں ایک نشان کے گواہ کے طور پر حضور علیہ السلام نے آپؓ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔ آپؓ کی روایت ہے کہ آپؓ کے موضع کریام کاایک شخص حضورؑ کو جذامی کہا کرتا تھا۔ آخر وہ خود جذامی ہو کر مرا۔ آپؓ نے حضورؑ سے واقعہ کا ذکر کیا تو فرمایا ’’مخالفین کے اندر جذام تو ہوتا ہی ہے مگر اللہ تعالیٰ بعض کے جسم پر بھی ظاہر کر دیتا ہے۔ ‘‘
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کو آپؓ سے بہت محبت تھی۔ ایک بار آپؓ کے ایک قریبی گاؤں سے کچھ لوگ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے انہیں قادیان بار بار آنے کی نصیحت فرمائی۔ انہوں نے اپنی کوئی مجبوری پیش کی تو فرمایا: ’’اچھا قادیان نہ آسکو تو چوہدری غلام احمد کے پاس کریام ہو آیا کرو‘‘۔
آپؓ کو تبلیغ کا جنون تھا۔ 1923ء میں ملکانہ تحریک اور 36-1935ء میں علاقہ میکریاں کی تبلیغی مہم میں شرکت کی۔
آپؓ کے مکان کا ایک کمرہ بطور مسجد ، مقامی جماعت کے زیر استعمال رہتا تھا۔ 1915ء میں جب وہاں ایک عمدہ مسجد تعمیر کروائی گئی تو اُس کی تعمیر کے بیشتر اخراجات آپؓ نے خود برداشت کئے۔ اسی طرح 1916ء میں احمدیہ پرائمری سکول اپنے خرچ پر جاری کیا۔ دیانت اور سچائی ایسی مسلم تھی کہ عدالتیں آپؓ کو ثالث مقرر کرتیں اور مجسٹریٹ صرف آپؓ کی گواہی پر ہی اپنے فیصلے دیا کرتے تھے۔
حضرت میاں امام الدین صاحبؓ (والد محترم مولانا ابو العطاء صاحب) کر یہہ کے اکیلے احمدی تھے۔ اُن کا دیوار بنانے پر کسی سے تنازعہ ہوا تو حضرت چوہدری غلام احمد صاحبؓ علم ہوتے ہی چند دوستوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ اگرچہ معاملہ ختم ہو گیا مگر عام لوگوں نے محسوس کر لیا کہ میاں صاحب اگرچہ اکیلے احمدی ہیں مگر باہمی اخوت کے باعث ان کی برادری بہت وسیع ہے۔
آپؓ بہت غریب پرور تھے۔ 3؍ جولائی 1943ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپ کا مختصر ذکر خیر آپؓ کے بیٹے محترم احمد دین صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مئی 1996ء کی زینت ہے۔