حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ نہ صرف قرآن و حدیث اور اسلامی اصولوں میں تبحر علمی رکھتے تھے بلکہ یہودیت، عیسائیت اور دیگر مذاہب پر بھی آپؓ کو کمال دسترس حاصل تھی۔ آپؓ مجلس انصاراللہ کے ابتدائی نو (9) اراکین میں شامل تھے اور مجلس کے پہلے منتخب جنرل سیکرٹری بھی۔
حضرت حافظ صاحبؓ کے بارے میں محترم مجیب احمد طاہر صاحب اپنے مضمون مطبوعہ ماہنامہ ’’خالد‘‘ اپریل 1995ء میں لکھتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحبؓ نے 1914ء میں درس قرآن دینا شروع کیا جو 1927ء تک جاری رہا اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بعض اوقات آپؓ کو اپنی جگہ درس القرآن کے لئے مقرر فرمایا۔ 1919ء میں آپ کو قاضی القضاۃ کے فرائض تفویض ہوئے اور 1920ء میں مبلغین کی کلاس کا باقاعدہ اجراء ہوا تواسکی نگرانی حضرت حافظ صاحبؓ کے سپرد ہوئی۔ آپؓ نے مناظروں میں بھی علمی اپنی قابلیت کا سکّہ منوایا۔ 1924ء میں آپؓ نے بلادِ عربیہ ، شرق اوسط اور یورپ کا تبلیغی دورہ فرمایا۔ جون 1929ء میں آپؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ’’(وہ) اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت عزت و توقیر سے دیکھے‘‘۔
حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب کا مختصر مضمون ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 ؍دسمبر 1995ء کی زینت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحبؓ کی وفات کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے آپؓ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور تمام احمدیہ جماعتوں کو غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی نیز آپؓ کے بارہ میں فرمایا کہ آپ حضرت مولانا عبدالکریم ؓ ثانی تھے۔ 1924ء میں آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ دورہ یورپ میں شامل تھے اور ایک موقعہ پر حضورؓ نے فرمایا کہ حافظ صاحبؓ پوری لائبریری ہیں۔ یہ بات حقیقت تھی کیونکہ آپؓ قرآن مجید کا ترجمہ بھی ایسی ہی روانی سے پڑھا کرتے تھے گویا حفظ ہے۔