حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ عنہ کے ذکر خیر پر مشتمل ایک مضمون، بقلم حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ، روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جولائی 1998ء میں شامل اشاعت ہے- حضرت شیخ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحب شاہجہانپور کے ایک مشہور عالی خاندان کے فرد اور حضرت حافظ سید علی میاں صاحبؓ کے فرزند تھے- فن شعر میں کامل اور زبان کے بادشاہ تھے- فن شعر میں امیر مینائی لکھنوی کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کا نام ہمیشہ نہایت ادب سے لیتے ہوئے ’’جناب امیر‘‘ کہتے تھے- اپنے استاد کی طرح فن لغت پر بڑی دستگاہ رکھتے تھے-
حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ جب کسی کے ذریعے حضرت سید علی میاں صاحبؓ تک پہنچی تو وہ حد درجہ متاثر ہوئے اور قریباً 1892ء میں انہوں نے اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحبؓ نے بیعت کی سعادت پالی- قبول احمدیت کے بعد انہیں بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے مباحثے اور مناظرے کئے – رفتہ رفتہ شاہجہانپور میں ایک فدائی جماعت قائم ہوگئی-اسی طرح یوپی میں قائم ہونے والی جماعتیں بھی حضرت حافظ صاحبؓ کی تربیت یافتہ تھیں جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ حافظ صاحب یوپی کی جماعتوں کیلئے ایک ستون ہیں-
حضرت حافظ صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا- آپؓ سلسلہ کی تاریخ اور روایات کے علاوہ مخالفین کے لٹریچر پر بھی نظر رکھتے تھے اس لئے ہماری جماعت کے اکثر مضمون نویس حضرت حافظ صاحب سے استفادہ کرتے تھے اور کئی تصانیف آپؓ کی نظر ثانی کی رہین منت ہیں- آپؓ کی نظر سے گزری ہوئی تحریر ٹکسالی ہو جاتی تھی- اُن کی چارپائی کے ارد گرد کتابیں، رسالے، اخبار پڑے ہوتے- آپؓ نے ہزاروں نظمیں لکھیں- بعض طبع ہوئیں لیکن انہیں کبھی خواہش نہیں ہوئی کہ اُن کا دیوان شائع ہو- اُن کی طبیعت نام و نمود سے نہ صرف بے نیاز بلکہ نفور تھی-
حضرت شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1946ء میں خاکسار کا میلان تحقیق ام الالسنہ کی طرف ہوا تو مجھے سنسکرت کی ایک خاص لغت کی ضرورت پڑی- 9؍مارچ 1954ء کو جب میں ایک مقدمہ سے فارغ ہوکر حضرت حافظ صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے فرمایا کہ ابھی ابھی ایک لڑکا ایک کتاب لایا تھا اور چھ روپے میں فروخت کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اُس نے خود پانچ روپے میں خریدی تھی- میں حیران رہ گیا کہ یہ وہی مستند تصنیف تھی جس کی مجھے تلاش تھی-
سلسلہ کے کارکنان اور حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے ہر فرد کے لئے آپؓ کے دل میں فداکاری کا جذبہ کارفرما تھا- جب احرار کی شورش کے زمانہ میں ایک شریر نے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ پر حملہ کیا تو اس واقعہ پر حضرت حافظ صاحبؓ بہت بے چین ہوئے اور اپنے جذبات کو یوں ادا کیا
اے خون بہت کَھول چکا بس اب اُبل جا
اے جاں تو کس دن کے لئے ہے یہ بتا دے
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک شعر میں ’’کہ تا‘‘ کے الفاظ پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے- اس کے جواب میں حضرت حافظ صاحبؓ نے فردوسی اور غالب سمیت بہت سے شعراء کے بیسیوں اشعار نکالے اور اس مواد کو شائع کروادیا-
حضرت حافظ صاحبؓ کا خط نہایت پاکیزہ اور خوشخط تھا- کارڈ کو ہتھیلی پر رکھ کر لکھنا شروع کرتے اور ایک کارڈ پر پچیس تیس سطریں لکھ لیتے- کسی سطر میں کوئی جھول یا جھکاؤ نہ ہوتا- آپ ؓ نے سو سال سے زیادہ عمر پاکر 1969ء میں وفات پائی-