حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اپریل1995ء میں حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ حضرت حافظ صاحبؓ ان خوش نصیب افراد میں سے تھے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے طویل عرصہ قبل ہی حضور علیہ السلام کی خدمت میں بے تکلفی سے حاضر ہوتے اور صحبت سے فیضیاب ہوتے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رات کو مَیں بیت الفکر میں بچھے ہوئے تخت پوش پر سو جاتا۔ تخت پوش کی پائنتی کی طرف ایک چارپائی ہوتی جس پر حضرت صاحب رات کو اور صبح کی نماز کے بعد استراحت فرماتے۔ جب کبھی میری آنکھ کھلتی تو میں حضرت صاحب کو اسی تخت پوش کے ایک طرف نماز میں ہی مشغول پاتا۔‘‘
حضرت حافظ صاحبؓ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ابتدائی عمر میں ہی شناخت کرلیا تھا اور دعویٰ سے قبل ہی آپؓ حضرت حافظ نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ کے پاس جایا کرتے تھے جو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ حضرت حافظ نبی بخش صاحب ؓ اکثر حضورؑ کی شفقت کا ذکر کرتے تو چشم پُرآب ہو جاتے۔ آپؓ حضورعلیہ السلام کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہے، اکٹھے کھانا کھاتے رہے اور حضورؑ نے اکثر ماں کی طرح محبت اور اصرار کے ساتھ بوٹیاں آپ کو کھلائیں۔ آپؓ کا ذکرِ خیر آپؓ کے بیٹے حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ 22؍اپریل 42ء سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ 30 ستمبر 1995ء میں منقول ہے۔ حضرت حکیم صاحبؓ کو اپنے والدمحترم کی وفات کی اطلاع 1942ء میں اس وقت ملی جب وہ نائیجیریا میں بطور مبلغ سلسلہ متعین تھے۔ قبل ازیں 1925ء میں جب وہ غانا میں تھے تو ان کی والدہ محترمہ اہلیہ حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ وفات پا گئی تھیں۔
حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ بہت منکسرالمزاج اور مہمان نواز تھے۔ دعاؤں کی بہت عادت تھی اور اکثر دعا کے نتیجہ میں قبل از وقت ان کوآئندہ حالات کی اطلاع مل جاتی تھی۔ آپؓ حافظِ قرآن تھے اور طبابت بھی جانتے تھے لیکن سرکاری ملازمت میں ہونے کے باعث اسے بطور پیشہ نہ اپنایا۔ مارچ 1942ء میں حضرت حافظ صاحبؓ کی وفات ہوئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔