حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ
حضرت حافظ نور محمد صاحب ولد میاں مراد علی صاحب سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور اُن خوش نصیب اصحاب میں سے تھے جنہیں دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بار بار حاضر ہونے کی توفیق ملی۔ آپؓ کو حضورؑ کا امام الصلوٰۃ بننے، تہجد کیلئے حضورؑ ہی کے کمرہ میں سونے اور حضورؑ کے ہمراہ سیر کو جانے کے مواقع بکثرت میسر آئے۔ بعض مواقع پر حضورؑ نے آپؓ کو دعا کی بھی تحریک کی اور جن چند اصحاب کو حضورؑ کی تصدیق میں اپنے رؤیا و کشوف شائع کرنے کا حضورؑ نے ارشاد فرمایا، اُن میں بھی آپؓ شامل تھے۔ پھر خلافت ثانیہ کے قیام پر بھی اس کی تصدیق و تائید میں آپؓ کے رویاء و کشوف شائع ہوئے۔ آپؓ کو اپنے گاؤں میں دوسرے نمبر پر 21؍ستمبر 1889ء کو بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ آپؓ کا تفصیلی ذکر مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مئی 2001ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضورؑ نے حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ کا نام اپنے 313؍اصحاب میں دو بار شامل فرمایا۔’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں 172ویں اور ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں 58ویں نمبر پر۔
آپؓ نے اپنی زندگی قرآن کریم پڑھانے کے لئے وقف رکھی۔ نماز فجر سے نماز عشاء کے بعد تک اسی خدمت میں مصروف رہتے۔ جو لوگ خود نہ آسکتے، آپؓ اُن کے گھر جاکر بلامعاوضہ پڑھاتے۔ سینکڑوں افراد کو آپؓ نے قرآن پڑھایا اور بعض نے حفظ بھی کیا۔ آپؓ کو دینی علوم سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ گھر کی دیگر ذمہ داریاں آپؓ کے والد صاحب ادا کرتے تھے۔ ایک بار وہ بصارت سے محروم ہوگئے تو کاموں کا بوجھ آپؓ پر آپڑا جس پر آپؓ نے رقّت سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے والد ماجد کو خواب میں بتایا کہ آنکھوں میں کھمب ڈالیں۔ چنانچہ اس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بصارت عود کرآئی جو تاوفات قائم رہی۔ اُن کا انتقال حضرت اقدسؑ کے دعویٰ سے قبل ہوگیا تھا۔
آپؓ تہجد پر بہت زور دیتے تھے۔ نمازوں کے لئے سب سے پہلے مسجد میں آتے اور سب سے آخر میں وہاں سے نکلتے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ اسی وجہ سے آپؓ کے ایک کزن نے آپؓ کے سر پر لوہے کا گز مار کر خون آلود کردیا۔ اگرچہ کچھ عرصہ بعد خود مسیح محمدی کی غلامی میں داخل ہوکر انہوں نے بھی کئی جگہ سے مار کھائی۔
حضرت حافظ صاحبؓ بیان کرتے ہیں دعویٰ سے قبل جب ہم حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس شوق میں حضورؑ کے کمرہ میں سوتے کہ تہجد میں حضورؑ کے ساتھ شریک ہوجائیں گے مگر حضورؑ چپ چپاتے اٹھتے اور تہجد کی نماز پڑھ لیتے۔
آپؓ حضورؑ کے اُن بے تکلّف دوستوں میں سے تھے جن سے حضورؑ اظہار مودّت کے لئے معمولی اشیاء منگوالیتے تھے۔ چنانچہ آپؑ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حضورؑ کو ملنے آتے تو اپنے ساتھ کبھی گنے، کبھی گڑ، کبھی رس کی کھیر تحفۃً لاتے۔ ایک دفعہ حضورؑ نے فرمایا: ہمارے لئے سرسوں کا ساگ بھیجنا، وہ گوشت میں ڈال کر عمدہ پکتا ہے۔
ایک بار آپؓ کا ایک لڑکا بیمار ہوگیا جس کا علاج حضورؑ سے کرواتے رہے۔ چونکہ قادیان آکر دوا لے جانا مشکل امر تھا اس لئے حضورؑ کے ارشاد پر آپؓ اپنے لڑکے کو قادیان لے آئے۔ چند روز میں خدا تعالیٰ نے اُسے صحت عطا فرمادی۔
حضرت حافظ صاحب 27؍دسمبر 1946ء کو قریباً سو سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اُس وقت بھی اچھی صحت تھی۔ جس شام مرض الموت میں مبتلا ہوئے، وہ سارا دن قرآن کریم پڑھنے میں گزارا۔