حضرت حکیم مولانا عبیداللہ بسملؔ صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اپریل 2002ء میں حضرت حکیم مولانا عبیداللہ بسملؔ صاحبؓ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت حکیم عبیداللہ بسمل صاحب 1852ء میں پیدا ہوئے اور 29؍ستمبر 1938ء کو آپؓ نے وفات پائی۔ آپؓ بیسویں صدی کی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے۔ آپؓ کو بلند پایہ فارسی کلام کے زاویہ نگاہ سے ’’فردوسیٔ ہند‘‘ قرار دیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ آپؓ کی کئی تصانیف ہیں جن میں سے پانچ کا ذکر ’’تذکرہ شعرائے پنجاب‘‘ میں درج ہے۔ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ ایران کے ملک الشعراء سنجرؔ نے آپؓ سے ملاقات کرنے اور آپؓ کے اشعار کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا: خدا کی قسم! مَیں اس سے بہتر نہیں کہہ سکتا۔
برصغیر میں آپؓ کی جلیل القدر علمی خدمات سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپ نے کئی مشہور لائبریریوں تک رسائی حاصل کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی اور سات سال کی محنت صرف کرکے ایک کتاب ’’ارجح المطالب‘‘ مرتب کی۔ اصطلاحات و محاورات جدیدہ اخذ کرکے ایک کتاب ’’ترجمان فارسی‘‘ بھی مرتب کی جو پنجاب کے مدارس کے تعلیمی نصاب میں بھی شامل رہی نیز اس پر ایسے علم دوست احباب نے ریویو لکھے کہ اسے بک کمیٹی کی طرف سے تین سو روپیہ انعام بھی دیا گیا۔ اسی طرح ’’مسدس مدوجذر اسلام‘‘ بھی تحریر کی جس نے بہت شہرت حاصل کی۔ ایک کتاب ’’فارسی بول چال‘‘ بلوچستان کے سرکاری سکولوں کے نصاب میں شامل رہی۔
جب پادری لیفرائے نے ’’زندہ نبی‘‘ کے عنوان سے اشتہار نکالا اور تمام اسلامی فرقوں کو جواب کی دعوت دی تو صرف حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اُس کو جواب دیا اور قرآن و حدیث و انجیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کردی۔ اس پر حضرت بسملؔ احمدیت کی طرف مائل ہوئے اور کئی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد 14؍جولائی 1903ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت سے مشرف ہونے کے لئے قادیان پہنچے۔ حسن اتفاق سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید بھی اُسی روز قادیان تشریف لائے تھے۔ حضرت بسملؓ چند روز قادیان ٹھہرے اور پھر رخصت طلب کی تو حضورؑ نے فرمایا کہ غزل گوئی اور قصیدہ گوئی چھوڑ دو، کوئی مثنوی لکھو، تمہارا یہی جہاد ہوگا۔ نبی کریمﷺ کے عہد میں شعراء کا جہاد یہی ہوتا تھا۔ چنانچہ آپؓ نے اُس روز سے غزلیں چھوڑ دیں اور صرف دینی نظموں تک خود کو محدود کرلیا۔
قادیان میں آپؓ نے تعلیم الاسلام کالج میں فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمت سرانجام دی، کتاب ’’تذکرۃالشہادتین‘‘ کا فارسی ترجمہ کیا۔ پھر کچھ عرصہ رامپور میں رہے اور کتاب ’’حق الیقین‘‘ رقم کی۔ لیکن وہاں حالات اس قدر تنگ ہوگئے کہ زبانی ایذا دہی کے علاوہ سنگ باری بھی ہونے لگی۔ دھمکیاں دی جانے لگیں۔ آخر آپؓ واپس قادیان آگئے۔ پھر بھوپال کا سفر بھی کیا اور وہاں دو کتب مزید لکھیں۔
حضرت مولانا عبیداللہ بسمل صاحبؓ بہت خوش اخلاق اور وسعت قلب کے مالک تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کے کلام کے بارہ میں فرمایا: ’’ان کا کلام تو فردوسیؔ کے کلام کا نمونہ ہے۔‘‘