حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ دوران اسیری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اکتوبر 2001ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی سیرت کے بارہ میں ایک مضمون (مرتبہ:مکرم محمود مجیب اصغر صاحب) شامل اشاعت ہے۔
1953ء میں جماعت احمدیہ لاہور کے مرکز کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایک سنہری دستہ والا آرائشی خنجر بھی ملا جو حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو آپؒ کے سسر نے شادی کے موقع پر تحفۃً دیا تھا اور جو شاہی خاندانِ مالیرکوٹلہ کی نادر اشیاء میں سے تھا۔ یہ خنجر حضورؒ کی بیگم صاحبہ مرحومہ کے زیورات کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ قانون کے مطابق ہندوستان کے ہر والئی ریاست اور اُس کے خاندان کے لوگ اسلحہ ایکٹ سے مستثنیٰ ہیں لیکن پولیس نے حضورؒ کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو بھی ایک کرچ رکھنے کے جرم میں قید کرلیا گیا۔ آپؓ کی عمر 62 سال تھی اور یہ کرچ ایک کمپنی نے آپؓ کو دی تھی اور اس کرچ سے متعلق کمپنی کے نام تمام تر خط و کتابت بھی آپؓ کے پاس موجود تھی۔ لیکن ان جرائم کی پاداش میں مارشل لاء کے تحت ان دونوں بزرگوں کو پانچ سال اور ایک سال قید اور پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزائیں سنائی گئیں۔
لیفٹیننٹ کرنل (ر) بشارت احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اُن کے ایک آرمی افسر نے بتایا کہ 1953ء میں اُنہیں حضورؒ کی گرفتاری کے وارنٹ دیئے گئے۔ جب یہ افسر حضورؒ کی قیام گاہ رتن باغ پہنچے تو گھنٹی بجانے پر ملازم نے آکر اطلاع دی کہ حضورؒ نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر حضورؒ بھی تشریف لے آئے اور وارنٹ دیکھ کر فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو مَیں اٹیچی کیس لے لوں۔ پھر گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور ساتھ چل پڑے۔
یہی افسر بیان کرتے ہیں کہ دو روز بعد ایک بڑے عالم دین کی گرفتاری کے وارنٹ بھی انہیں دیئے گئے۔ جب یہ رات گئے اُن کے ہاں پہنچے تو کافی دیر دروازہ کھٹکھٹانے پر بھی کوئی جواب نہ ملا۔ پھر ایک نوکر نے آکر بتایا کہ مولانا سو رہے ہیں۔ تاہم جب وہ باہر آئے تو صورتحال معلوم ہونے پر وہ اسلامی اصطلاحات استعمال کرکے رعب ڈالنے لگے۔ … تب یہ افسر سوچنے لگے کہ ’’کافر‘‘ تو تہجد پڑھ رہا تھا اور دوسری طرف بزعم خود یہ عالم دین توکل اور بردباری سے قطعاً عاری ہے۔
مکرم کرنل صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ 1966ء میں میرے ایک دوست جو 1953ء میں مارشل لاء کے دَور میں ڈیوٹی پر تھے بیان کیا کہ بعض آرمی افسروں کا کام یہ تھا کہ جیل میں جاکر مقدمات کے فیصلے ملزموں کو سنایا کریں۔ اُن کا مشاہدہ تھا کہ جن کو سزا سنائی جاتی تھی وہ غیظ و غضب میں آجاتے، کچھ سکتہ میں آجاتے، بعض شدید مایوس ہوجاتے اور بعض اپنی بے گناہی کے واسطے دینے لگتے۔ ایک بار اس آرمی افسر کو جس ملزم کی طرف سزا سنانے کے لئے بھیجا گیا وہ حضورؒ تھے۔ انہوں نے حضورؒ کے پاس جاکر چارج شیٹ اور سزا انگریزی میں پڑھ کر سنائی۔ جب ساری کارروائی پڑھ کر سنادی گئی تو حضورؒ نے کسی تعجب، حیرانگی یا گھبراہٹ کا اظہار کئے بغیر جانے کی اجازت چاہی۔ کیپٹن صاحب تو کسی ردّعمل کے منتظر تھے، کہنے لگے کہ شاید آپ انگریزی نہ سمجھے ہوں، مَیں اردو میں پڑ ھ کر سناتا ہوں۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں آکسفورڈ کا گریجوایٹ ہوں۔ اس پر کیپٹن صاحب حیرت زدہ رہ گئے کہ صرف ایک خاندانی زیبائشی خنجر رکھنے پر جو سزا اور جرمانہ ہوا تھا ، وہ بہت شدید تھے۔
محترم چودھری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ کی قید کے دوران وہ حضورؒ کے لئے کچھ پان لے گئے اور ملاقات کے دوران پیش کئے تو حضورؒ نے یہ فرماتے ہوئے پان لینے سے انکار کردیا کہ یہ تو خلاف قانون بات ہے۔
مکرم ملک عبدالربّ صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1953ء میں مجھے مچھ جیل (بلوچستان) سے سنٹرل جیل لاہور میں منتقل کردیا گیا جہاں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ قید تھے۔ مَیں روزانہ ان بزرگوں کی ملاقات کے لئے جاتا لیکن کبھی ان کے چہروں پر کسی کرب یا بے چینی کا تأثر نہیں دیکھا۔ کئی مرتبہ جب حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو دبانا چاہا تو آپؓ حضرت میاں صاحبؒ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ میری بجائے میاں صاحب کو دباؤ۔ اس اشارہ کا مطلب مجھے اُس وقت سمجھ آیا جب حضورؒ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ جیل کی رفاقت کی وجہ سے حضورؒ نے مجھے خلافت سے پہلے اور بعد میں اتنا پیار دیا جو شاید میرے والدین نے بھی مجھے نہ دیا ہو۔