سیرت حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍مئی 2001ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی سیرت کے بارہ میں ایک مضمون (مرتبہ:مکرم انتصار احمد نذر صاحب) شامل اشاعت ہے۔
مکرم محمود احمد شاہد صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؒ کے ساتھ مَیں حضورؒ کی زمین پر گیا تو آپؒ نے مجھے ایک امرود توڑ کر دیا جو مَیں نے کھالیا۔ پھر آپؒ نے ایک امرود اَور دیا جو مَیں کھانے لگا تو فرمایا:
’’یہ نہ کھاؤ، یہ اپنی بیوی کیلئے رکھو۔ زندگی خوشگوار بنانے کے لئے معمولی معمولی باتیں بہت بڑا نتیجہ پیدا کرتی ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ بننے سے کچھ عرصہ قبل حضورؒ ہر جمعرات کو مسجد مبارک میں درس دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مَیں گولبازار میں کھڑا تھا کہ حضورؓ نے کار روکی، اُتر کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پھر کہا: مسجد چلو۔ مَیں نے کہا کہ ابھی تک تو اردو کی سمجھ ٹھیک نہیں آتی۔ فرمایا: سمجھنے کی بات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، جتنا وقت اللہ کے گھر میں رہوگے، اتنا ثواب ہوگا۔
ایک مربی سلسلہ نے حضورؒ کی خدمت میں لکھا کہ صدر انجمن احمدیہ اُنہیں چند سو روپیہ نہیں دے رہی جو اُن کا حق ہے۔ حضورؒ نے رپورٹ منگوائی تو معلوم ہوا کہ قواعد کے مطابق اُن کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ حضورؒ نے اُن کی مطلوبہ رقم ذاتی طور پر اُن کو عطا فرماتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ اُنہیں سمجھا دیا جائے کہ صدر انجمن اپنے قواعد کے ہاتھوں مجبور ہے۔
محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ مالی لین دین کے ایک جھگڑے میں معمولی رقم ادا نہ کرنے پر نظام جماعت کے تحت ایک شخص کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش حضورؒ کی خدمت میں کی گئی تو حضورؒ نے اپنی جیب سے وہ رقم ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ رقم دوسرے فریق کو ادا کردی جائے اور اتنی معمولی رقم کیلئے مَیں یہ خیال کروں کہ کوئی احمدی نہیں رہا، اس پر انشراح نہیں۔
مکرم ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک پروفیسر صاحب نے میرے بارہ میں کچھ غلط باتیں کیں تو مَیں نے اُنہیں سٹاف روم میں سخت سست کہا۔ وہ حضورؒ (پرنسپل) سے میری شکایت کرنے گئے تو کسی کام سے مَیں بھی وہاں چلا گیا۔ حضورؒ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’یہ ایسے ہی آپ کی شکایت کر رہے ہیں، بھلا آپ ان کو سخت سست کیوں کہیں گے؟‘‘۔ مجھے یاد نہیں کہ حضورؒ نے اپنے زمانہ پرنسپل کے دوران کسی استاد کو کوئی سخت کلمہ کہا ہو یا کسی کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے حضورؒ نے مشفقانہ انداز میں سمجھا نہ دیا ہو۔
حضورؓ کو اگر سرزنش کرنے کی ضرورت بھی ہوتی تو نام لئے بغیر کرتے۔ ایک بار امتحانات کے رجسٹرار نے شکایت کی کہ فلاں استاد اپنے پرچے کا نتیجہ نہیں دے رہے…۔ حضورؒ نے فوری سٹاف میٹنگ بلائی اور فرمایا کہ تمام اساتذہ آج ہی نتائج کی فہرست دے کر جائیں، اس میں کوتاہی نہ ہو۔ یہ کہہ کر حضورؒ تشریف لے گئے اور وہ استاد جنہوں نے کام مکمل نہیں کیا تھا وہ سٹاف روم سے اُس وقت تک نہیں ہلے جب تک کام مکمل نہ ہوگیا۔
مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ لاہور کے کالج کے زمانہ میں دریائے راوی میں ہمارے کالج اور اسلامیہ کالج کا کشتی رانی کا فائنل مقابلہ تھا۔ دونوں کالجوں کے طلبہ جمع تھے، نعرہ بازی بھی ہورہی تھی اور فضا میں کدورت بہت تھی۔اسلامیہ کالج کے پرنسپل صاحب نے مائیک پر آکر اعلان کیا کہ اگر اُن کی ٹیم نے ٹی آئی کالج کی ٹیم کو ہرا دیا تو وہ اپنی ٹیم کو سو روپے انعام دیں گے۔ اس پر حضورؒ نے فوراً مائیک پر آکر اعلان کیا کہ اگر اسلامیہ کالج کی ٹیم نے ٹی آئی کالج کی ٹیم کو ہرادیا تو حضورؒ کی طرف سے بھی سو روپے انعام اسلامیہ کالج کی ٹیم کو دیا جائے گا۔ اس پر اسلامیہ کالج کی طرف سے زوردار نعرہ بلند ہوا: ’’پرنسپل ٹی آئی کالج زندہ باد‘‘ اور اس طرح ساری کدورت دُور ہوگئی۔ حضورؒ کے اعلان سے دوسرا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ہماری ٹیم کو احساس ہوا کہ ہمارے پرنسپل صاحب کو ہماری فتح پر کس قدر یقین ہے۔ چنانچہ جب مقابلہ ہوا تو چیمپئن شِپ ٹی آئی کالج کے حصہ میں آئی۔
مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ کالجوں میں سالِ اوّل کے طلبہ کو بے وقوف بنانے کا رواج ہے لیکن حضورؒ نے پہلے ہی دن ہال میں کالج کے تمام طلبہ کو جمع کرکے ایک پُرمغز تقریر میں فرمایا کہ ایک بات مَیں آپ کو بتادوں کہ ہم اس کالج میں بیوقوفوں کو داخلہ نہیں دیتے لہٰذا کسی کو بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کریں۔
حضورؒ کے ایک بیٹے لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ہوسٹل کے ایک لڑکے کو بدنی سزا دی۔ اُس کے جانے کے بعد اداس ہوگئے اور مجھے اپنے ہمراہ لے کر ہوسٹل پہنچے۔ وہ لڑکا لیٹا ہوا تھا۔ حضورؒ کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ حضورؒ نے اُسے پیار سے گلے لگایا، سمجھایا اور پھر کالج ٹک شاپ پر لے جاکر دودھ پلوایا اور بڑی محبت کا اظہار فرماتے رہے۔
آپ مزید لکھتے ہیں کہ کالج کے برآمدہ میں ہم چند دوست کھڑے تھے۔ ایک لڑکا منہ سے سیٹی بجارہا تھا۔ اچانک ہماری نظر اٹھی تو حضورؒ اپنی کوٹھی سے دفتر کی طرف جارہے تھے۔ ہم اِدھر اُدھر ہوگئے لیکن سیٹی بجانے والے کی پیٹھ چونکہ حضورؒ کی طرف تھی اسلئے وہ سیٹی بجاتا رہا۔ حضورؒ اُس کے قریب آئے، اُس کے کان میں کچھ کہا اور چلے گئے۔ بعد میں اُس نے بتایا کہ حضورؒ نے صرف اتنا کہا تھا: ’’اچھے لڑکے سیٹیاں نہیں بجاتے‘‘۔ اس واقعہ کا اُس پر اتنا اثر تھا کہ پھر مَیں نے کبھی اُسے سیٹی بجاتے نہیں دیکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں