مظلوم کشمیریوں کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمات

جب انگریزوں نے گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ کشمیری قوم کو 75 لاکھ روپیہ میں بیچ دیا۔ پھر کشمیریوں کو نہ اپنی زمین پر کوئی حق رہا نہ جان پر۔ گلاب سنگھ ڈوگرہ پنجاب کا وزیراعظم تھا۔ اُس نے انگریزوں سے سازباز کرکے پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ کرادیا اور اس غداری کے عوض 75ہزار مربع میل کی ریاست کشمیر اپنے نام لکھوالی۔ وہ چونکہ کشمیری عوام کو زرخرید غلام سمجھتا تھا اس لئے اُس نے انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرکے مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی چھین لی۔ گائے ذبح کرنے پر چودہ سال قید بامشقّت مقرر تھی۔ مسلمانوں کو فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ صرف بیگار لی جاتی تھی۔ کسی ہندو کے اسلام قبول کرنے پر اُسے جائیداد اور بیوی بچوں سے محروم کردیا جاتا۔ یہ ستم کئی نسلوں سے جاری تھا کہ 1909ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے کشمیر کا اپنا پہلا سفر کیا۔ کشمیر کی سیاحت اور جماعتی دوروں کے بعد جب آپؓ کے قافلہ نے واپس آنے کا ارادہ کیا تو سرکاری کارندوں سے مزدور منگوائے گئے۔ ایک خوش پوش مزدور نے سامان اٹھاتے ہوئے اپنی ماں کو ایسے دردبھرے انداز میں یاد کیا کہ حضورؓ نے اُس سے ایسی آہ بھرنے کی وجہ دریافت کی۔ اُس نے بتایا کہ وہ مزدور نہیں ہے۔ آج اُس کی شادی تھی اور وہ بارات کا دولہا تھا کہ سرکاری کارندے اُسے بیگار میں پکڑ کر لے آئے۔ اب جب تک سرکاری آدمی اُسے فارغ نہ کریں، وہ واپس نہیں جاسکتا۔ یہ ظلم سن کر حضورؓ کا دل مظلوم کشمیریوں کے لئے تڑپ اٹھا اور آپؓ نے یہ عہد کیا کہ اس مظلوم قوم کو انسانی حقوق دلانے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے۔
حضورؓ نے دعاؤں کے ساتھ ساتھ متعدد سکیموں پر کام کرنا شروع کیا۔ سوئے ہوؤں کو جگایا، بے زبانوں کو زبان دی اور بے سہاروں کو سہارا دیا۔ کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو برصغیر کے دوسرے مسلمانوں تک پہنچایا بلکہ اپنے مجاہدین کے ذریعہ تمام دنیا میں یہ آواز پہنچائی۔ 1922ء میں آپؓ نے کشمیر کا دوسرا سفر اختیار فرمایا اور اس مظلوم قوم کے تمام مسائل کا بغور جائزہ لیا۔ بدرسوم کی نشاندہی کرکے اُن کو دُور کرنے کے ذرائع بتائے۔ زمینداروں اور دستکاروں کی تنظیمیں بنوائیں۔ درس قرآن کے سلسلے شروع کروائے۔ چنانچہ 1929ء میں جب آپؓ تیسری بار کشمیر تشریف لے گئے تو یہ قوم مذہبی، سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ سرینگر کے نوجوانوں نے ایک ریڈنگ روم قائم کیا جس کے صدر شیخ محمد عبداللہ اور جنرل سیکرٹری خواجہ غلام نبی گلکار احمدی تھے۔ جموں میں لیگ مین مسلم ایسوسی ایشن قائم ہوچکی تھی جس کے فعال ممبروں میں کئی احمدی تھے۔ سرینگر کے ایک ممتاز احمدی مولوی محمد عبداللہ وکیل صاحب نے اپنے مکان میں درس قرآن کا سلسلہ جاری کررکھا تھا۔ آہستہ آہستہ نوجوانوں میں اس درس کے لئے جوش و خروش اس قدر بڑھا کہ حکام نے ٹریفک میں رکاوٹ کا بہانہ بناکر اس درس کو جبراً بند کروا دیا۔
کشمیری نوجوانوں کی بیداری اور اسلام سے عملی لگاؤ دیکھ کر مہاراجہ کشمیر نے شدھی کی تحریک شروع کی تاکہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ کشمیریوں کی نظریں پھر اُسی ہمدرد وجود کی طرف اٹھیں اور حضورؓ نے کشمیریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی عرضداشت کے جواب میں اسلامی تعلیم سے واقف اور سنسکرت جاننے والے فاضل وہاں روانہ فرمائے جن میں ایک نمایاں نام مہاشہ محمد عمر صاحب کا تھا۔ چنانچہ تحریک شدھی بُری طرح ناکامی کا شکار ہوگئی لیکن کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہا اور ایک روز مسلمانوں کے ایک پُرامن جلوس پر فائرنگ کرکے 21 مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ اس پر حضورؓ نے مہذب دنیا کو کشمیریوں کی حالت زار سے آگاہ کرنے کیلئے متعدد اہم اقدامات فرمائے اور اس طرح قریباً بیس سال تک اس تحریک کی تن تنہا آبیاری کرنے کے بعد ہندوستان کے دیگر مسلم زعماء کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی۔
25؍جولائی 1931ء کو شملہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال، خواجہ حسن نظامی، مولانا اسماعیل غزنوی، سید محسن شاہ، خان بہادر رحیم بخش، نواب سر ذوالفقار علی خان اور اخبارات کے نمائندگان جمع ہوئے۔ اس شملہ کانفرس میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ علامہ اقبال نے کہا کہ یہ اتنا عظیم کام ہے جس کے لئے بہترین دماغ، بہترین وسائل اور قربانی کرنے والے کارکن درکار ہیں اور یہ تمام وسائل اور قائدانہ صلاحیتیوں کے مالک حضرت امام جماعت احمدیہ ہیں۔ خواجہ حسن نظامی اور دوسرے اکابرین نے یک زبان ہوکر تائید کی۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ مجھے اس تجویز سے اتفاق نہیں، مَیں اور میری جماعت کمیٹی سے ہر رنگ میں تعاون کریں گے مگر صدارت کے لئے کسی اَور کو لایا جائے۔ اس پر علامہ اقبال نے کہا کہ حضرت صاحب! جب تک آپ اس کام کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے، یہ کام نہیں ہوگا۔ چنانچہ سب کے مجبور کرنے پر حضورؓ نے اس فیصلہ کو قبول فرمالیا۔ جلد ہی برصغیر کے مختلف مکاتب فکر کے مشائخ، علماء، سیاستدان، دانشور، فلسفی، ماہرین تعلیم اور اخبارات کے مدیر اس کمیٹی کے رکن بننا شروع ہوگئے۔
کشمیر کمیٹی کے زیرانتظام 14؍اگست 1931ء کو ’’کشمیر ڈے‘‘ منایا گیا جو اتنا کامیاب تھا کہ مہاراجہ بھی جھکنے پر مجبور ہوگیا۔ نیز احمدی وکلاء نے کشمیر کی جیلوں میں مقید اسیران کی رہائی کے لئے دن رات کام کیا اور سینکڑوں اسیروں کو رہائی دلوائی۔ 10؍اپریل 1932ء کو مہاراجہ نے ایک کمیشن کی سفارشات منظور کرکے آئینی اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجہ میں مذہبی آزادی، مقدس مقامات کی واگزاری، تعلیمی اصلاحات، آبادی کی بنیاد پر ملازمتوں کا حصول، زمین کے مالکانہ حقوق، پریس کی آزادی، آئین ساز اسمبلی کا قیام اور سیاسی پارٹیوں کا قیام منظور ہوا۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی فعال قیادت نے کشمیریوں کو بہت سے حقوق دلوائے لیکن ابھی مسلم اکثریت کی حکومت میں شمولیت باقی تھی کہ مہاراجہ کشمیر، ہندوکانگریس اور انگریز حکومت نے ایک سکیم کے تحت جماعت احمدیہ کو مسلمانوں سے الگ کرنے اور منظر سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ کانگریس کے تربیت یافتہ مولویوں نے احراری لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں جہاد کشمیر کا نعرہ لگایا اور کشمیر کی تحریک آزادی کو عملاً ختم کردیا۔ یہ احراری لیڈر مہاراجہ سے اپنا محنتانہ وصول کرکے کشمیر کمیٹی کی قیادت پر حملہ آور ہوئے اور پھر علامہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا صدر اور ملک برکت علی کانگریسی کو جنرل سیکرٹری بنوایا جنہوں نے منصوبہ کے مطابق اس کمیٹی کو ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ اس طرح کشمیر کے ایک نئے دَور غلامی کا آغاز ہوگیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے البتہ کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور اُن کی بہبود کیلئے ہر قسم کی امداد جاری رکھی۔ 4؍اکتوبر 1947ء کو خواجہ غلام نبی گلکار انور کی قیادت میں مہاراجہ کشمیر کی معزولی اور جمہوریہ کشمیر کی آزادی کا تاریخی اعلان کروایا جو آج بھی قائم ہے۔ کشمیر کی آزادی کیلئے فرقان بٹالین قائم کی اور عملاً یہ اعلان فرمایا کہ جب بھی مظلوم کشمیری اسیروں کی رستگاری کی جدوجہد کرنے والوں کا ذکر ہوگا، حضورؓ کا اسم گرامی ہمیشہ سرفہرست رہیگا۔
یہ مضمون مجلس خدام الاحمدیہ وینکوور (کینیڈا) کے رسالہ ’’مشعل راہ‘‘ جنوری تا مارچ 2002ء میں مکرم عبدالغنی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں