حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍نومبر 2006ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی یادیں متفرق احباب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
٭ مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کسی قانونی مسئلہ پر غور ہورہا تھا۔ حضورؒ اسلام آباد میں تھے۔ مجھے طلب فرمایا اور رات گئے تک مختلف حوالہ جات ملاحظہ فرماکر بعض باتیں مسودہ کے رنگ میں لکھواتے گئے۔ اگلے روز مزید وکلاء کی آمد ہوئی تو حضورؒ نے عصر کے بعد ملاقات کے لئے طلب فرمایا۔ حاضری کا وقت قریب آیا تو مجھے خیال آیا کہ حضورؒ کے نوٹس تو مَیں کہیں رکھ کر بھول چکا ہوں۔ سخت پریشانی میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ حضورؒ کے کاغذات طلب فرمانے پر صورتحال عرض کی۔ سب سہمے ہوئے تھے اور میرا تو یہ عالم کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ مگر حضورؒ نے صرف اس قدر فرمایا: لاحول ولاقوّۃ، تین گھنٹے کی محنت ضائع کردی۔ پھر اسی بشاشت اور خندہ پیشانی سے دوبارہ لکھوانا شروع کردیا اور کسی غصہ اور رنج کا اظہار نہیں فرمایا۔ اُس روز مَیں نے حضورؒ کے اخلاق عالیہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق عالیہ کا نقشہ دیکھا۔
٭ مکرم محمود احمد بشیر صاحب سابق امیر جماعت جھنگ کا بیان ہے کہ 1965ء میں خاکسار اس قدر بیمار ہوا کہ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی ختم ہوا چاہتی ہے۔ میرے دوست مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب نے حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ ربوہ آجائیں، دعا بھی ہوگی اور دوا بھی۔ مجھے پیغام ملا تو مَیں نے عرض کیا کہ مَیں تو چلنے پھرنے سے بھی عاری ہوں۔ اس پر حضورؒ نے مجھے دوا بھی بذریعہ ڈاک بھجوائی اور دعا بھی کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں معجزانہ طور پر صحت یاب ہوگیا۔
٭ مکرم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب کا بیان ہے کہ 1955ء میں کسی دوست نے اپنا بھائی ایک خط کے ہمراہ بھیجا۔ خط میں لکھا کہ کالج میں داخلہ بند ہوجانا کوئی عذر قابل سماعت نہیں، ہر صورت میں داخل کرانا ہے ورنہ…۔ مَیں اُس بچہ کو لے کر کالج چلاگیا اور حضورؒ (پرنسپل) سے کچھ کہے بغیر وہ خط سامنے رکھ دیا۔ حضورؒ نے خط پڑھ کر بچہ سے فرمایا: خط سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آپ کے بھائی ہمارے باجوہ صاحب کے قریبی دوست ہیں۔ گو داخلہ کا وقت گزرچکا ہے، مَیں اس دوستی میں پھیک نہیں پڑنے دوں گا۔ ایک اَور رعایت بھی دیتا ہوں کہ داخلہ کے وقت والد یا سرپرست کا ساتھ لانا ضروری ہوتا ہے، آپ کی اس سے بھی چھٹی۔
اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مَیں کسی امیدوار کو لے کر گیا تو مسکراکر دریافت فرمایا کہ اگر داخلہ نہ ہو تو کوئی دوستی تو خطرہ میں نہیں ہوگی؟
٭ مکرم چودھری محمد سلمان اختر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے نویں بیٹے کی پیدائش پر میرے والد صاحب نے حضورؒ کی خدمت میں نام رکھنے کی درخواست کی۔ جب بہت دیر تک جواب نہ آیا تو مَیں نے بھی ایک خط ڈال دیا۔ چند دن بعد پہلی چٹھی کا جواب ’شفقت احمد‘ اور دوسری کا ’محمد ہارون‘ موصول ہوا۔ ہم نے پہلا نام رکھ لیا۔ کچھ عرصہ بعد میرا ایک اَور بیٹا پیدا ہوا تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا عہد تھا۔ حسب معمول میرے والد نے حضورؒ سے نام رکھنے کی درخواست کی تو یہ بھی لکھا کہ میرے تمام پوتوں کے نام احمد کے وزن پر ہیں اس لئے اسی وزن پر نام تجویز فرمادیں۔ لیکن جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا جواب موصول ہوا تو نام تھا: ’’محمد ہارون‘‘۔ گویا ایک بچہ کا نام دو خلفاء نے رکھا۔