حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ جون 2010ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی یاد میں مختلف احباب کی متفرق یادوں سے ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

= محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ غالباً 1953ء کا ذکر ہے جب مَیں مسجد فضل لندن کا امام تھا۔ مجھے (پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ) حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی طرف سے ایک خط ملا جس میں بعض اشیاء بھجوانے کے لئے کہا گیا تھا جن کی قیمت میرے ایک سال کے الاؤنس سے بھی زیادہ تھی۔ مَیں نے جواباً لکھا کہ اگر مَیں ایک سال محض ہوا پر گزارہ کروں تو بھی تعمیلِ ارشاد نہیں کرسکتا۔ میرے ایک ساتھی نے ایسا خط لکھنے سے منع کیا۔ تاہم مَیں نے خط لکھ کر بیم و رجا کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ ردّعمل کا انتظار کیا۔ جواب حوصلہ افزا تھا۔ لکھا تھا کہ دفتری کلرک کی غلطی نے یہ تأثر پیدا کیا ہے کہ شاید مَیں نے بِل ادا کرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ ایک فرم کو کالج کی طرف سے ان اشیاء کی فراہمی کا لکھا گیا تھا، کلرک کو کہا گیا تھا کہ آپ کو لکھ دے کہ فرم سے کہہ کر جلدی سامان بھجوادیں، ادائیگی پہلے بھی بنک کے ذریعہ ہوتی ہے اب بھی ہوگی۔ پھر لکھا تھا: آپ کی صاف گوئی سے خوشی ہوئی، مَیں بھی واقف زندگی ہوں، اپنے پر قیاس کرسکتا ہوں۔

چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب

1966ء میں بطور پرائیویٹ سیکرٹری میری تقررّی ہوگئی۔ احساس ذمہ داری سے دھڑکتے دل کے ساتھ دفتر میں حاضری دی مگر حضورؒ کے تلطّف سے یہ کیفیت دُور ہوگئے۔ دفتری اوقات دوپہر تک ہوتے تھے۔ جب گھر پہنچا تو فون کی گھنٹی ہوئی۔ دوسری طرف حضورؒ تھے۔ فرمایا: جلدی چلے گئے؟ مَیں واپس دفتر آگیا۔ کھانا میری میز پر پڑا تھا۔ دوسرے دن بھی دفتر سے اُٹھ کر چلاگیا۔ پیچھے پیچھے ایک آدمی کھانا لے کر گھر آگیا۔ تیسرے دن دفتر بند ہونے سے قبل پیغام آیا کہ دفتر بند ہونے پر نہ اُٹھوں۔ پھر کھانا آگیا اور یہ نوازش 1973ء کے آخر تک (کہ مَیں اس دفتر میں رہا) جاری رہی۔ کھانا وافر ہوتا تھا۔ اکثر تین چار احباب ساتھ شامل ہوتے تھے۔ کئی دفعہ حضورؒ نے دریافت فرمالیا کہ کون کون پاس بیٹھا ہے اور پھر مزید کھانا بھجوادیا۔
= محترم کرنل داؤد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ بچپن سے ہی باوقار تھے۔ طبیعت میں نفاست تھی۔ امارت اور غربت کا اثر لینے والے نہ تھے۔ بڑے چھوٹے کے حقوق ادا کرنے والے اور ہر ایک کا مرتبہ پہچاننے والے تھے۔گورنمنٹ کالج میں رؤسائے پنجاب کے لڑکے بڑے طنطنے سے آتے مگر اُن کی امارت آپ کو مرعوب نہ کرسکی۔ آپ کے ایک استاد مولوی کریم بخش صاحب اپنی تنگ نظری کے باوجود ہمیشہ تعریف کرتے ہوئے کہا کرتے کہ ناصر بڑا شریف انسان ہے۔
1} تقسیم ملک کے بعد جس دن مَیں قادیان پہنچا تو سخت خطرہ کا دن تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے۔ حضرت امّاں جانؓ کے صحن میں لکڑی کے چوکوں پر آپؒ بیٹھے تھے۔ مَیں نے کہا: بھائی ناصر! قرآن سنائیں۔ آپؒ نے سورۃ احزاب پڑھنی شروع کی۔ مجھے احساس ہوا گویا یہ سورۃ پہلی بار اُتر رہی ہے۔ ایک عجیب ملکوتی کیفیت تھی۔
2} حضورؒ اپنی ایک بیٹی کی شادی کی تیاری کے لئے لاہور تشریف لے گئے۔ اخراجات بہت کم تھے۔ یہ حضورؒ پر نہایت تنگی کا زمانہ تھا۔ کچھ زیور لینا تھا، کچھ کا اُلٹ پلٹ کرنا تھا۔ آپؒ ایک غیراحمدی بڑے جیولر کی دکان پر گئے جو دلّی کا نہایت ناک چڑھا تھا اور بڑوں بڑوں کے لئے کبھی اُٹھ کر کھڑا نہیں ہوا کرتا تھا۔ جونہی آپؒ سادی اچکن (جس کے کالر کے بھی دھاگے نکلے ہوئے تھے) پہنے دکان میں داخل ہوئے، جیولر نے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور کہا کہ حضور حکم کریں۔ اور بعد میں کسی کو کہا کہ یہ تو اللہ والوں کا چہرہ تھا۔
3} حضورؒ کو اچھے پھل کا شوق تھا اور لاہور میں قیام کے دوران ایک غیراحمدی پھل والے کی دکان پر خود جاکر پھل خریدا کرتے تھے۔جب آپؒ خلیفہ ہوگئے تو اُس کی دکان پر نہیں گئے لیکن وہ کسی احمدی کے ہاتھ حضورؒ کو پھل بھیجتا مگر قیمت کا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ حضورؒ جب بھی لاہور تشریف لے جاتے تو کبھی چھ سو اور کبھی سات سو روپے کی رقم اُسے بھجوادیتے جو اُس کے پھل کی قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی۔
= محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ

حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب

حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے تحت حضرت بھائی جانؒ نے لندن سے واپس آنے کے بعد عربی بولنے کی مشق کرنے کے لئے مصر میں بھی چند ماہ قیام فرمایا۔ قادیان واپس پہنچنے کے بعد مَیں اُن کے دو ایسے واقعات کا عینی شاہد ہوں جن سے حضورؒ کے خصوصی اوصاف (محنت، ہمّت، شجاعت، دلیری، سادگی، پلاننگ اور حکمت عملی) پوری شان سے جلوہ گر ہوئے۔ پہلا واقعہ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کا اسمبلی کے الیکشن میں کھڑا ہونا تھا جب اُن کا مقابلہ بٹالہ کے ایک بااثر گدّی نشین سے تھا۔ اور دوسرا واقعہ تقسیم ملک کے بعد ایک ایک وقت میں ستّر ستّر ہزار لوگوں کے لئے قادیان میں کھانے کا انتظام کرنا اور پھر انہیں پاکستان بحفاظت پہنچانے کا کام تھا۔
= محترم چودھری محمد علی صاحب رقمطراز ہیں کہ

چودھری محمد علی صاحب

حضورؒ کو بحیثیت پرنسپل کالج، اگر کسی طالب علم کو سخت سزا دینی ہی پڑتی تو شدّت غم سے کتنا کتنا عرصہ گھر سے باہر تشریف نہ لاتے۔ اور جس خوش قسمت سے بظاہر یہ ناخوشگوار تعلق قائم ہو جاتا اُس کا نصیبہ جاگ اٹھتا۔ سزا کے بعد عنایات کی بارش شروع ہوجاتی۔ لاہور میں ایک نہایت مخلص، ذہین اور محنتی طالب علم تھے۔ کلاس میں امتیازی پوزیشن لیتے۔ کشتی رانی اور کبڈی کے اعلیٰ درجہ کے کھلاڑی تھے۔ اُس سے بیٹوں کی طرح پیار تھا۔ ایک مرتبہ ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ سزا کا دیا جانا ناگزیر ہوگیا۔ عاجز نے حضورؒ کو بہت ہی کم موقعوں پر سب کے سامنے روتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن اُس دن جب حضورؒ اُس عزیز کے اخراج از کالج کے فارم پر دستخط فرما رہے تھے تو حضورؒ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ پھر کبھی کبھی اُس کی خیریت پوچھتے۔ پھر پتہ چلا کہ وہ ایک معزز عہدہ پر فائز ہوگئے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ پھر اُن کا بیٹا ہمارے کالج میں داخل ہوا تو عاجز کو ارشادفرمایا کہ یہ فلاں کا لڑکا ہے، اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں